دستِ مفلس میں قمر رضا شہزاد صاحب کی کتاب “شش جہات

تحریر: سید علی شان

آج دستِ مفلس میں قمر رضا شہزاد صاحب کی کتاب “شش جہات” آئی ہے جس کا اہتمام ہمارے دیرینہ دوست  جناب انجم رضا صاحب نے کیا ہے۔سادات کی نشانیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ کبھی اپنے اجداد کو نہیں بھولتےـ بھولیں بھی کیسے؟ یہ شجرہ تو امام علی علیہ السلام اور انبیاء سے ہوتا حضرت آدم تک جا پہنچتا ہے جس کی خلقت کے خدائی گواہ محمد ﷺہیں اور وہ ہیں جنھیں نور سے اول خلق کیا اور آخر میں آئے جن کے بعد کوئی نہیں آئیگا ماسوا اُنکا آخری وارث امامِ وقت حضرت مہدی زماں عجل اللہ تعالیٰ فرجہ۔اس لئے سادات جب اپنی کاوش کو انتساب کرتے ہیں تو انھیں سب سے بہتر شخصیت اپنے آباء ہی جان پڑتے ہیں لہذا قمر رضا شہزاد نے بھی اپنی کتاب کو اپنے دادا سید رضا حسین اور نانا سید کاظم حسین کے نام کر کے قاری کو بتایا ہے کہ وہ نجیب الطرفین سید ہیں جن کی دورِ جدید میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ دنیاوی تعلیم، مادیت پرستی، ناجائز اختیارات اور بے راہ روی نے شجرہ کی اہمیت و پاکیزگی کو تہذیبِ نَو کی کثافت سے اِس حد تک پراگندہ کر دیا ہے کہ سادات بلاتکلف غیر سادات میں دھنسے جا رہے ہیں اور غیر سادات تیزی سے سادات بننے میں چابکدستیاں دکھا رہے ہیں۔

قمر رضا شہزاد کی کتاب کا سرنامہ”شش جہات”ہے شَشْ جِہَت یا جہات اسم مونث ہے۔اس کے معانی ہر چھ سمت، چار جانب اور اوپر نیچے کی سمتیں ہیں۔صنف غزل میں کتاب کے عنوان کے لئے یہ ایک متوجہ کرنیوالا سرنامہ ہے گو کہ یہ لفظ اقبال سمیت تمام بڑے چھوٹے شعراء کے اشعار میں ملتا ہے مگر اس کتاب میں اسکی توضیح کرتے ہوئے قمر رضا شہزاد خود فرماتے ہیں

؎کمال یہ ہے کہ اس بار اپنے کاسے میں

        فقیر اٹھا کے تیرے شش جہات لایا ہے۔

ابھی ہم سرِ ورق سے گذر کر انتساب تک پہنچے ہیں جس کے راستے میں قمر شہزاد نے فکر کی سمت متعین کرنیکے لئے اپنا یہ شعر قرطاس ابیض پر تحریر کیا ہے آگے چل کر دیکھیں گے کہ کیا واقعی کتاب اس شعر کی انعکاس ہے؟

کتاب کی فہرست میں پچھتر عناوین غزل ہیں جو ایک سو انسٹھ صفحات پر محیط ہیں۔ آغازِ کتاب جس نتیجہءُ فکر سے کیا گیا ہے اُسکا اولین شعر

؎ یہ سانپ اور خزانہ تمام آپ کا ہے

                           انھیں سنبھالنا صاحب مقام آپ کا ہے

شہزاد نے بڑے علیحدہ انداز میں حمد خدا پیش کی ہے جس کا اختتام اس شعر پر ہے

؎ یہ حسن و عشق دعا بد دعا طلوع و غروب

    جہاں بھی غور سے دیکھوں نظام آپ کا ہے۔

ابتائی حمدیہ کلام پڑھ کر ناچیز یہ سمجھ پایا کہ کائنات کی خلقت سے لیکر انسان میں خدائی صفات کے موجزن ہونے تک کے ہر وصف کو شہزاد نے وصفِ خدا قرار دیا ہے اور اپنے عبدِ بے وقعت اور “فقیر” ہونے کا اظہار کیا ہےـ وہی فقیر جس کا ابتداء میں “شش جہات” لانے کا ذکر ہے۔ شہزاد مزید آگے بڑھتے ہوئے ایک بار پھر اپنی کم مائیگی کے باوجود نیکی کی اقسام کی جانب اشارہ کرتے ہوئے  راستوں سے پتھر اٹھانیکی بات کرتے  ہیں۔احترامِ کلام اور ودیعت شدہ حسِ نزاکت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے شہزاد “بات بنتی نہیں تو بات بنا لیتا ہوں”پر خیال کا اختتام کر کے ایکبار پھر انسان میں عقل و دانش کے اُس خزانے کی نشاندہی کرتے ہیں جس کو اگر انسان پالے یا سمجھ جائے تو فاتح کائنات بن سکتا ہے۔چند مزید صفحات پلٹتے تطبیق، تحریک اورتحقیق کے مزے لیتے نظر اِس مقام پر آ ٹھہری ہے دیکھیئے شہزاد کتنے سادہ الفاظ میں کیا کہہ رہے ہیں

؎ ہمارا گھر تھا کہیں روشنی کے خطے میں

                                                              ہم   نجانے خاک میں کس سلسلے میں آئے

شش جہات کی تفسیر اِس سے عمدہ کیا ہو گی کہ انسان کے آسمان سے نکل کر زمین پر آنے کو چند لفظوں میں مقید کر دیا جائے جو دراصل ابتداء بنتی ہے  اوپر تا نیچے، شرق تا غرب اور شمال تا جنوب شش جہات کی۔ ذرا اور آگے بڑھیں تو نگاہیں اعلیٰ اشعار کا حسُن سمیٹتے اور روح الفاظ کی گہرائیوں کا مزا لوٹتے ایکبار پھر تھم سی جاتی ہیں۔ ملاحظہ کیجیئےـ

؎ وہی ہے ایک زمانہ کئی زمانوں سے

یہ صرف ہم ہیں جو اپنا بدن بدلتے ہیں

بڑے ہی شست انداز میں نظریہ “آواگون” کو چھیڑتے ہوئے شہزاد خدا کی الوہیت کو آشکارا کرتے ہیں یعنی نظام قدرت کبھی نہیں بدلتا وقت پر شمس و قمر کا نکلنا، موسم بدلنا اور زندگی موت کے سفر میں کبھی تبدیلی رونما نہیں ہوتی مگر ہم ہی وہ مخلوق ہیں جو چہرے تو بدلتے ہیں مگر محبت نفرت درد جیسے انھی جذبات میں اُتر کر زندگیاں گذارتے ہیں جو ورثے میں  تہذیب و تمدن کی شکل میں ملتی ہیں۔ایک اور لازوال شعر ملاحظہ کیجیئے جس کی جتنی چاہیں تشریحات کر لیں مگر پھر بھی پیاس باقی رہے گی۔

؎مرے لہو میں بھی اترے گی روشنی آخر

ترے چراغ کے لب پہ نشاں کسی کا بھی ہو

بعض اشعار داد و تحسین سے بالاتر ہوتے ہیں اور اپنی تکوین کے ہالہ سے بھی اُنکا مرکب بالا ہوتا ہے۔ یہ شعر بھی اِسی زُمرے میں آتا ہے

؎ مشکیزہ لئے  پھرتے ہیں ہم لوگ شب و روز

       اک دشت میں پیاسا ہے علمدار ہمارا

انسان، انسانیت، خدا، پھول، صحرا، حقانیت، حساسیت، طمانیت، خشیت، اور حیثیتِ ذات کے دائروں سے گذرتے نگاہ ایک بار پھر اس مقام پر آ ٹکی۔

 ؎ شعر گوئی تھی میاں کوئی تجارت تو نہ تھی

      اِس سے بازار میں کیا دام بنا لیتا میں

قمر شہزاد نے آج دنیا میں ادیب و ادب کی جو حالت کارزار ہے وہ اس ایک شعر میں سمو دی ہے۔غنایت کے شیدائی طرز اور لحن پر مرتے ہیں، لُٹ جاتے ہیں۔خوش گلو کروڑوں میں کھیلتے ہیں جبکہ خوبصورت اشعار کے خالق کسپرسی و افلاس میں اپنا ظاہری بھرم رکھتے کھوکھلی زندگی کے پنجرے میں مقید بالآخر منوں مٹی تلے دب جاتے ہیں شش جہات میں یہ دو زاوئے ایکدوسرے کی ضد مگر اٹل حقیقت کے عکاس بیان کئے گئے ہیں۔ مال بنانے والے چُوکتے نہیں اور قلم چلانے والے بِکتے  نہیں۔ تازہ ترین مثال ندیم سرور اور ریحان اعظمی کی ہے۔ ریحان کے قلم نے ندیم کے لحن کو آسمان پر پہنچا دیا۔ندیم مایا میں بہہ گئے اور ریحان مفلسی میں ڈوب گیا کیونکہ وہ اپنے اشعار کی قیمت نہ مانگ سکا جبکہ ندیم سرور اپنے لحن کی معقول رقم لئے بغیر آگے نہ بڑھا۔

تذکرہ مذہبی شاعری کا ہوا ہے تو قمر شہزاد نے ایکبار پھر اپنے یہاں نوحہ و مرثیہ خوانی کے استعارے کا خوب استعمال کیا لکھتے ہیں

؎ کوئی پلٹ کے تو دریا سے آئے پیاس کے ساتھ

     کسی کے ہاتھ میں عباس کا علم بھی تو ہو

غزل کے اس شعر میں شہزاد نے وفا، ایثار اور محبت و اطاعت کی لازوال داستان پیش کر دی ہے اور انسان کی فطرت بھی۔ ہوس کا دریا ہو اور وہ وفا کے شہنشاہ کی طرح پیاسا پلٹے اور پھر وفا کے حزن و احترام میں حسین سا امام اُس علم کو اٹھائے بھی۔الغرض شہزاد کی شاعری میں غوطہ زن ہونے کے لئے تاریخی واقعات پر عبور ایک لازمی جزو ہے۔الوہی شاعری کے درمیان اچانک  شہزاد قاری کو اپنے ایک نئے زاویے سے ہکا بکا کر دیتا ہے ابھی پیاس عباس اور علم کا ذکر تھا کہ روانی میں پڑھتے ایک رومانوی غزل سامنے آ گئی ہر شعر آگہی شعور اور آمد سے بھرپور۔ سب نہیں ایک شعر سے پوری غزل کا احاطہ کیجیئے

 ؎ میں چوم لوں تو میرے جسم و جاں مہکتے ہیں

      نجانے ہونٹ وہ کس خاک سے بناتا ہے

لیجیئے آپ اس شعر کا مزہ لیں اور میں شش جہات کو اور آگے ٹٹولتا ہوں۔کچھ ہی آگے بڑھا ہوں اور نگاہیں الفاظ کی کہکشاں میں ایک اور دمکتے ستارے پر ساقط ہو گئی ہیں

؎ مرا تو کام ہے اتنا کہ سانس لیتا ہوں

   چلا رہا ہے کوئی اور کارخانہ میرا   

اب اس ایک شعر کی تفسیر پر ہزار صفحوں کی کتاب لکھ دیں پھر ایک ہزار کی اور پھر ہزار کی اور۔۔۔۔مگر تتشریح پھر بھی ادھوری رہے گی ایسے شعر آمد میں بھی “عطا” ہوتے ہیں شاعر کی شاعری میں گھسنے کے لئے دماغ کے ساتھ دل کی لجامیں بھی ڈھیلی رکھنا پڑتی ہیں ورنہ عمدہ شعر ضائع ہو جاتے ہیں۔ آئیے ذرا اِس شعر کا مزہ لیں۔

؎ ناخنوں سے کھرچتا ہوں میں خاک کو

    جانے کیا میرا زیر زمیں رہ گیا

اب یہ ہر کسی کی جگ بیتی ہے کہ ہر کوئی اپنی قیمتی شئے کبھی نہ کبھی خاکِ زمیں میں کریدتا ہے۔ بقول شاعر سلیم بیتاب کی غزل کے ایک مصرعے کے ؎ میں نے تو یونہی خاک پہ پھیری تھیں انگلیاں۔۔۔جی ہاں قارئین سب نے شعر مکمل کر دیا ۔۔۔۔؎ دیکھا جو غور سے تیری تصویر بن گئی۔قمر شہزاد بھی درد کے اس پیرائے کو نہایت خوبصورتی سے اجاگر کرتے دکھائی دیتے ہیں۔شہزاد آگے چلتے ہوئے ایک اور جہت کی جانب پلٹا کھاتے ہوئے اپنے اشعار میں حالات حاضرہ کو بھی مشق قلم بناتے ہیں۔ وہ وطنیت کے درد کا یوں اظہار کرتے ہیں

؎ اُلٹ گئے میرے منتر میں کیا کروں شہزادـ

 بلا بنادی ہے ردِ بلا بناتے ہوئے  اور؎ اس گنگ جہاں میں ہے یہ اعزاز مرے پاس۔  میں بولتا ہوں اب بھی ہے آواز مرے پاس۔

ان دو نظموں میں وطن عزیز کی تمام صورتحال سمٹتی دکھائی دیتی ہے۔مجھ سے زیادہ آج کا قاری ان اشعار کی فعالعیت کا ادراک رکھتا ہے۔

جوں جوں کتاب کی انتہا تک آ رہا ہوں نئے نئے رنگ سامنے آ رہے ہیں۔ابھی تک تو شہزاد زمانے زمان اور انسان پر محوِ گفتگو تھے مگر اِس کلام میں اپنے شجرہ اور زمانے کی بے ثباتی کی جانب نہایت لطیف استعارہ بناتے نظر آتے ہیں

؎ اِسی لئے تو یہ دریا ادہر نہیں آتا

اِسے پتا ہے میں پیاسوں کے خاندان سے ہوں

اپنی ذات کے حوالے سے شعر میں اس سے بہتر عکاسی ناممکن ہے جس پر شہزاد نہایت تحسین کے مستحق ہیں۔

قارئین کتاب اپنے آخری مراحل میں داخل ہو ریی ہے اور اندر کا شہزاد کھل کر باہر آ رہا ہے مختلف کلام سے چند شعر ملاحظہ کیجیئے؎

تمام نیکیاں لوگوں میں بانٹ دی شہزاد

 میں اپنے صفحے کو خود ہی سیاہ کر آیا  ۔

     میں اپنے ساتھ بھی اب گفتگو نہیں کرتا

     کئی دنوں سے مری خود سے بھی لڑائی ہے

کر تو لئے ہیں جمع یہاں ڈھیر سارے خواب

 اب اس سے بڑھ کے کتنا خزانہ بناتا میں   ـ

جب کچھ نہ ہو سکا تو دعا کی طرف گیا

تھک ہار کے میں خدا کی طرف گیا

میں اس لئے بھی تمھیں چومنے سے ڈرتا ہوں

 مرے لبوں کو یہی ذائقہ نہ لگ جائے       

یوں تو ہر شخص سمجھتا ہے اپنا غلام

ایک ماں ہےجسے شہزادہ ذرا لگتا ہوں

ماں کے ذکر کے بعد کوئی ذکر باقی قابل ذکر نہیں بچتا لہذا اس کلام کے بعد قمر رضا شہزاد اپنا آخری کلام پیش کرتے ہوئے اپنی چھٹی کتاب “شش جہات” کا اختتام اِس شعر پر کرتے ہیں

؎ لے جا رہا ہوں ساتھ میں اپنی گذارشات

ممکن ہے راستے میں کوئی کوہِ طور ہو

کتاب ختم ہوئی مگر کتاب کی چاشنی مجھے مسلسل اپبے بدن کی رگوں میں اس طرح سرسراتی محسوس ہو رہی ہے جیسے شدید گرمی میں پیاس بجھانے کے لئے کہیں سے ٹھنڈا مٹھا پانی مل جائے تو حلق سے اترتے ہی اُس کی ٹھنڈک تمام رگوں میں گردش کرتے محسوس ہوتی ہے۔

شہزاد کی دیگر کتابیں بھی میرے پاس موجود ہیں جو اُنکے بھائی جناب انجم رضا نے مجھے شہزاد کی جانب سے نجف اشرف کی سر زمیں پر تحفتاً دی ہیں۔کل چہلم حسین کے بعد آج شب حسینیہ آلِ نقی میں فجر تک جاگنے کیلئے سائیڈ ٹیبل پر پڑی جو پہلی کتاب اٹھائی وہ شہزاد کی آخری کتاب “شش جہات” نکلی۔فجر ہونے تک میں کتاب پڑھتا گیا ساتھ ساتھ اپنے احساسات بھی قلمبند کرتا گیا۔میں ادب کا ادنیٰ سا طالب علم ہوں۔تقریظ لکھنا مجھے نہیں آتی۔بس کتاب جو تاثر مجھ پہ چھوڑتی ہے اُسی طرح اُسے قرطاس کے حوالے کر دیتا ہوں۔کتاب کی چیدہ چیدہ باتیں آپ کے سامنے رکھدی ہیں جو قاری کی اشتہاء کو ضرور بڑھائیں گی اور اِس کا واحد حل یہی ہے کہ آپ شہزاد کی کتاب کو مکمل پڑہیں تاکہ جن جن کلام کے اشعار میں نے چُن چُن کر حاصلِ تحریر کئے ہیں وہ اور دیگر کلام آپ تمام سیاق و سباق کیساتھ  پڑھ کر آج کے قحط زدہ دور میں بھی روایتی غزل اور نظم سے بھر پور لطف اٹھائیں۔جوں جوں وقت ملے گا باقی کتابوں پر بھی اپنی رائے پیش کرتا رہوں گا۔نجف میں فجر کی اذان سے پہلے تلاوت کا آغاز ہو چکا ہے۔لہذا قمر رضا شہزاد کو اپنی فکر کو خوبصورت انداز میں پیش کرنے پر مبارک باد۔ امید ہے وہ مزید کلام لکھتے رہیں گے اور اپنے بیش بہا قیمتی اشعار سے اردو ادب کو نوازتے رہیں گے۔

سید علی شاؔن

نجف اشرف     26.08.24

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں