شہدائے راہِ حق شہید ذوالفقار حسین نقوی و شہید عمار حیدر

شہید سیّد ذوالفقار حسین نقوی نے 4 دسمبر 1945ء لاہور کے مضافات میں واقع موضع چندرائے کے نقوی و بخاری سادات کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ آپ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھے۔ آپ کے والد سیّد علی حسین شاہ ایک صاحب تقویٰ اور علم دوست انسان تھے۔ آپ کی والدہ محترمہ ذاکرہ مخدرات عصمت و اہلبیت تھیں ۔یوں علم و عمل کے ساتھ ساتھ عزاداری اور ذکر اہلبیت سے والہانہ لگاؤ آپ کو وراثت اور آغوش مادر سے منتقل ہوا۔آپ کا شجرۂ نسب مخدوم جلال الدین سرخپوش بخاری اوچ شریف سے ہوتا ہوا پینتیس واسطوں سے امام علی نقی علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔

شہید ذوالفقار حُسین نقوی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان تھے۔ محکمہ آثار قدیمہ میں سپرینٹنڈنٹ کے عہدے پر فائز تھے جب آپ 1990ء میں تنظیمی مصروفیات کی بناء پر استعفی دیکر اپنے پیشے سے منسلک ہو گئے اور اپنی زندگی ملت تشیع کی خدمت کیلئے مکمل طور پر وقف کر دی۔

آپ کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جو انقلاب اسلامی ایران اور امام خمینی رضوان اللہ تعالٰی کی شخصیت سے بیحد متاثر تھے۔ انقلاب اسلامی اور امام خمینی رضوان اللہ علیہ کی شخصیت کا سحر تھا جس کی بدولت 1980ء میں آپ نے قائد ملت جعفریہ مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ کی آواز پر لبیک کہا اور ان کی عظیم الشان قیادت میں اس الہی کارواں میں شامل ہو گئے جو ملت جعفریہ پاکستان کے حقوق کی خاطر میدان عمل میں اترا۔ آپ نے اپنی تنظیمی سرگرمیوں کا آغاز ایک عام کارکن کی حیثیت سے کیا۔ اپنی خداداد تنظیمی صلاحیتوں کی بدولت درجہ بدرجہ ضلعی، ڈویژنل، صوبائی اور مرکزی سطح پر ایسی مثالی خدمات پیش کیں جو ملت جعفریہ پاکستان کی تاریخ میں سنہری حروف میں درج رہیں گی۔

تنظیمی سفر کے دوران آپ کو قائد مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ، شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی علیہ الرحمہ، قائدِ ملت سید ساجد علی نقوی،محسن ملت مولانا صفدر حسین نجفی اعلی اللہ مقامہ اور مولانا سید کرامت علی نجفی اعلی اللہ مقامہ اورمولانا سید افتخار حسین نقوی جیسی شخصیات کی معیت اور رفاقت کا شرف حاصل رہا۔ آپ آخری دم تک موجودہ قائد سید ساجد علی نقوی اور تحریک جعفریہ پاکستان کے ساتھ وابستہ رہے ۔

لاہور کی دو عظیم علمی و تدریسی درسگاہوں جامعہ المصطفی اور جامعہ بقیہ اللہ کی بنیاد اور قیام میں آپ نے کلیدی کردار ادا کیا۔

اتحاد بین المسلمین کے سلسلے میں آپ کی خدمات کو کبھی فراموش نہ کیا جائے گا۔ تحریک جعفریہ پاکستان اور ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی عوامی تحریک کے درمیان اعلامیہ وحدت پر دستخط ہوں یا ملی یکجہتی کونسل کا قیام، ایسے سنگ ہائے میل کا ذکر شہید ذوالفقار حسین نقوی کے ذکر کے بغیر نا مکمل رہے گا۔

آپ ایک مدبر رہنما ہونے کے ساتھ ساتھ ایک دلیر اور نڈر شخصیت کے مالک تھے۔ لاہور کی ضلعی حکومت نے 90 کی دہائی میں پاسبان اسلام کے کچھ کارکنان کو اٹھا لیا تو شہید ذوالفقار حُسین نقوی اپنی حکمت عملی اور دلیری کا بیمثال مظاہرہ کرتے ہوئے پاسبان اسلام کے کارکنان کو پنجاب پولیس کے چنگل سےاس طرح بحفاظت نکال لائے کہ لاہور کی انتظامیہ ایک دوسرے کا منہ تکتی رہ گئی۔

1994ء میں پنجاب یونیورسٹی میں آئی ایس او پاکستان کے نوجوانوں پر یزیدی لشکر کی یلغار کے بعد حالات انتہائی کشیدہ ہوگئے تو شہید ذوالفقار حُسین اپنے رفقاء کے ہمراہ موقع پر پہنچے اور آئی ایس او کے نوجوانوں کو اپنی سرپرستی میں اس کشیدگی سے بھرپور ماحول اور یزیدی حصار سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا۔ بعد ازاں یونیورسٹی کیس کو اس پیشہ وارانہ انداز میں منطقی انجام تک پہنچایا جو اپنی مثال آپ ہے۔

آپ نوجوانان ملت کے ساتھ ہمیشہ پدرانہ شفقت کا اظہار فرماتے اور ان کی مشکلات دور کرنے میں خصوصی دلچسپی لینے سے کبھی گریز نہ کرتے۔

آپ انتہائی خوش الحان تھے اور انتہائی خوبصورت انداز میں ذاکر اہلبیت (ع)بھی کرتے۔ اکثر تنظیمی پروگرامز میں تنظیمی دوستوں کی فرمائش پر اپنے مخصوص انداز میں ذکر اہلبیت علیہم السلام کیا کرتے۔ عزاداری کے ساتھ آپ کا لگاو اس حد تک تھا کہ پنجاب بھر میں کہیں بھی مجلس اور جلوس میں رکاوٹ ڈالی جاتی تو آپ اپنی تمام تر مصروفیات ترک کر کے وہاں پہنچتے اور عزاداری کے قیام کو یقینی بنانے کیلئے پوری قوت کے ساتھ بازی لگا دیتے۔

امام چہارم سید سجاد علیہ السلام کی سنت کی ادائیگی میں قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔پنجاب حکومت نے فروری 1995 ء میں آپ کی نظربندی کے احکامات جاری کئے۔ 22 رمضان المبارک کی رات تھی جب افطار کے بعد آپ کو آپ کے گھر سے گرفتار کر کے کوٹ لکھپت جیل میں نظربند کر دیا گیا۔ آپ کی نظر بندی کے دوران ڈاکٹر صاحب کو شہید کردیا گیا۔ اپنے اس عزیز ترین اور عظیم ترین رفیق کی شہادت کی خبر ملی تو جیل میں سارا دن اور رات گریہ و زاری کرتے گزری۔

1997 کے عام انتخابات میں اپنے علاقےکے صوبائی اسمبلی کے حلقے سے امیدوار کے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ اپنی سیاسی،تنظیمی و ملی سرگرمیوں کی بدولت آپ ملک دشمن یزیدی عناصر کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگے۔ امن کے دشمنوں نے آپ کو راستے سے ہٹانے کیلئے منصوبہ بندی کی اور آپ کا تعاقب شروع کردیا۔ ایک عرصے سے آپ کی زندگی کو شدید خطرات کا سامنا تھا۔ خاندان اور علاقے کے بزرگوں نے ان خطرات کے پیش نظر آپ کو اپنی سرگرمیاں محدود کرنے اور کچھ عرصے کیلئے بیرون ملک جانے پر زور دیا۔ لیکن آپ ملت کی خدمت سے ایک لمحہ بھر کیلئے غافل ہونے کیلئے راضی نہ ہوئے ۔ آخری ایام میں اپنے چند ذاتی و خاندانی امور مکمل کرنے میں غیر معمولی عجلت کا مظاہرہ کرنے لگے جیسے انہیں کسی لمبے سفر کیلئے روانہ ہونا ہے۔

بالآخر 31 دسمبر 1996ء کا دن بھی آن پہنچا۔ لشکر یزید کے گماشتے چندرائے کے باہر ایک پل پر گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جونہی آپ کی گاڑی وہاں پہنچی چاروں طرف سے اندھا دھند فائرنگ کردی گئی۔ آپ اپنے جواں سال فرزند شہید عمار حیدر نقوی کے ہمراہ سیدالشہداء اور جناب علی اکبر علیہ السلام کی بارگاہ میں سرخرو ہو کر اپنے رب کے حضور حاضر ہوئے۔ اس حملے میں کل پانچ افراد شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے جن میں آپ کے دوست، گن مین اور ڈرائیور بھی شامل تھے۔

شہید ذوالفقار حُسین نقوی اپنے خطابات میں اکثر مندرجہ ذیل اشعارپڑھ کرسنایاکرتے تھے۔ انہی اشعار میں ان شہداء کا پیغام بھی ہے اور انہی میں شہداء کا راستے کا تعین اور آنے والی نسلوں کیلئے عملی زندگی کی دعوت بھی ہے۔

ہری ہے شاخِ تمنا ابھی جلی تو نہیں

دبی ہے آگ جگر کی مگر بجھی تو نہیں

جفا کی تیغ سے گردن وفا شعاروں کی

کٹی ہے بر سرِ میداں مگر جھکی تو نہیں

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں