شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ….. ایک زندہ انسان

شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی ………. ایک زندہ انسان
تحریر: سید انجم رضا


شہید قوم میں قلب کی حیثیت رکھتا ہے، جس طرح وجود میں قلب اپنا کام کرتا ہے اور پورے جسم کو لہو فراہم کرتا ہے، عین اسی طرح شہید بھی قوموں اور معاشروں کو خون دے کر شعور فراہم کرتا ہے، شہید ملتوں کو جگاتے ہیں۔ شہید شمع کی مانند ہوتا ہے جو خود تو جل جاتی ہے لیکن اندھیروں کو مات دے کر اجالا کر جاتی ہے۔
 شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی بھی پاکستان کی ملت کے لئے ایسے شہید پُر افتخار ہیں جنہوں نے اپنے خون سے ساری قوم کو بیداری کا شعور بخشا۔
ڈاکٹر شھید کی زندگی ہمارے لئے ایک عملی نمونہ ہے، انہوں نے حق کی پہچان کے بعد ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے کو حق کی توہین قرار دیا ہے
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی ذات میں ایک تحریک تھے۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے مسلمان نوجوانوں کو انکے حقیقی دشمن یعنی عالمی استعماری قوتوں اور صہیونیزم کی سازشوںسے روشناس کروایا شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے عالمی استکبار کے مقابلے کیلئے پاکستان کی سرزمین پر شجرہ طیبہ کی بنیاد رکھی جسکا نام آئی ایس او ہے۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہیدکی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے نمونہ عمل اور رہنمائی کا ذریعہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا اخلاق،کردار،عمل،میل جول،برتائو،اٹھنا بیٹھنا،فلاحی امور کا نیٹ ورک،خدمت خلق سے سرشار معمولات،تعلیمی ترقی و پیشرفت کیلئے اسکول سسٹم کا نیٹ ورک،تنظیمی و تربیتی نشستوں کا احیا،نوجوانوں کی مختلف میدانوں میں مکمل مدد و تعاون،ذاتی و نجی معاملات میں لوگوں کی درست رہنمائی ،دختران ملت کی فعالیت و قومی اجتماعی امور میں ان کی شرکت،ملت کے دفاع و بقا کیلئے خدمات،الغرض ہر حوالے سے ان کی خدمات قابل تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔


شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی ذات اور صفات میں ایک ایسی ہمہ گیر شخصیت تھے کہ ایک پروفیشنل ڈاکٹر ہوتے ہوئے آپ  ملت کے سماجی، سیاسی، قومی ، ملی حقوق کا گہرا ادراک رکھتے ہوئے ہمیشہ ایک ایسا  مبنی بر حقیقت لائحہ عمل دیتے تھے محسوس ہوتا تھا کہ آپ ان تما م امور اور ان کے مسائل کے ماہر ہیں
 میری شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی سے پہلی ملاقات اپریل 1979میں بھکر کنونشن کے موقع پہ ہوئی ، جہاں پہ آپ اور اس وقت کے آئی ایس او کے مرکزی صدر برادر بزرگ ثاقب نقوی آئی ایس او کے نوجوانوں کی قیادت کرتے ہوئے کنونشن کے تما م تر انتظامات سنبھالے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر صاحب کو دیکھنا اور پہلی ملاقات مجھے آج بھی یاد ہے،ایک دھان پان سا نوجوان بہت مستعدی کے ساتھ کنونشن کی اسٹیج  پہ مصروف کار اور پنڈال میں موجود رضاکاروں کو ہدایات دے رہا تھا،اور وہ سب اُسے ڈاکٹر صاحب کہہ کر بہت مؤدب انداز میں مخاطب کررہے تھے
وہ آیا, اس نے دیکھا, اور فتح کرلیا,  ایک مشہورکہاوت ہے
اس کہاوت کے مصداق  شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنے ہنس مُکھ اندازاور خندہ پیشانی سے ہم سب کے دل جیت لئے۔
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین کی قیادت کے اعلان کے بعد قائد مرحوم کا بھرپور ساتھ دینے کے عزم کو عملی طور پہ سچ کردکھایا،۔
لاہور میں دیوسماج روڈ پہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کا رابطہ دفتر قائم کیا گیا، جو مفتی جعفر حسین اعلی اللہ مقامہ کے انتقال تک کسی حد تک فعال رہا،
اپریل 1984 میں جب قائد شہید علامہ سید عارف حسین الحسینی تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے سربراہ اور قائد ملت جعفریہ کے منصب پہ فائز ہوئے تو شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی کا بھر پور ساتھ دیا اور لاہور میں دیو سماج روڈ پہ موجود دفتر کو تحریک کا صوبائی اور مرکزی رابطہ دفتر کی شکل دے دی گئی، اور ملک بھر میں دیو سماج  روڈ پہ تحریک کا مرکزی دفتر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی رہنمائی میں ایک ایسا قومی مرکز بن چُکا تھا جہاں ملی و قومی مسائل کے حل کے لئے بہت سے ادارے تشکیل دئیے گئے،ملک بھر سے تنظیمی و ملی کارکن اس دفتر سے آشنا ہوچکے  تھے
شہید قائد کی اندوہ گیں شہادت کے وقت آپ برات از مشرکین کی پاداش میں سعودی عرب میں قید تھے، جب آپ رہا ہوکر پاکستان واپس آئے تو آپ نے شہید قائد کے جاری کردہ ادھورےکاموں کو پورا کرنے کی ٹھان لی، آپ نے سابقین امامینز سے روابط کو ایک نئی شروعات کی اور ہر سال  پانچ اگست شہید قائد کی برسی کے موقع پر امامینز کے ساتھ مل کر پیواڑ میں مزار شہید قائد پہ اکٹھا ہوکر تجدید عہد کرتے۔
ڈاکٹر شہید نے اپنی زندگی میں امداد فائونڈیشن کے نام سے بھی ایک ادارہ بنایا تھا جو مستحق اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتا تھااس کے تحت قوم کی بچیوں کی شادی اخراجات سے لیکر اسیران ملت و متاثرہ خانوادوں کی امداد و بحالی کا سلسلہ جاری تھااور کئی ایک لوگوں کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کروا کر ان کی مدد کی گئی ۔آج یہ ادارہ یا اس جیسا کوئی ادارہ کہیں نظر نہیں آتااسی طرح ڈاکٹر شہید نے ایک اسکول سسٹم المصطفے اسکول کے نام سے قائم کیا جس کی کئی ایک برانچز ملک کے کئی ایک شہروں میں قائم کی گئی تھیں مگر صد افسوس آج یہ اسکول سسٹم بھی بند کر دیا گیا ہے۔بلتستان کی ایک شخصیت کے ساتھ ملکر انہوں نے ایک ادارہ بلتستان کے طالبعلموں کی فلاح و بہبود کیلئے قائم کیا جس کا نامBESTرکھا تھا۔
ڈاکٹر نقوی شہید اپنی ذاتی زندگی میں بھی تعلیم کے حوالے سے بہت حساسیت رکھتے تھے ،اور ہمیشہ اس بات پر فوکس رکھتے تھے کہ نوجوان تعلیم کو اپنی زندگی کی اولیں ترجیح بنائیں، آپ ہمیشہ کہتے تھے کہ ایک اچھا صالح نوجوان جہاں بہترین فعال تنظیمی ہو اس کے لئے اپنی تعلیم پہلی ترجیح ہونی چاہیئے۔
شہید ڈاکٹر صاحب کے دونوں بڑے فرزندان عزیزی محمد سلمان اور محمد دانش لاہور کے ایک بہت اچھے ادارے میں تعلیم حاصل کرتے تھے، مگر جب شہید ڈاکٹر صاحب نے اسلامک ایجوکیشنل کونسل قائم کرکے “المصطفے ماڈل ہائی اسکول”شروع کیا ، توجہ دلانے پر ڈاکٹر صاحب
 نے اپنے دونوں فرزندان کا پرانا اسکول چھڑواکر انہیں   “المصطفے ماڈل ہائی  اسکول” میں داخل کروادیا۔
سب سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب ذاتی زندگی میں اور قومیات میں انتہائی مصروف ہونے کے باوجود وقتا فوقتا راقم الحروف اور برادر مقدس کاظمی سے صرف اپنے بیٹوں کی ہی نہیں بلکہ اسکول کے تمام طلبا کی تعلیمی پراگرس سے بہت متعلق رہتے تھے۔ڈاکٹر صاحب کی تجویز پر ہی لاہور میں  1992 میںالمصطفے اسکول کے اساتذہ نے برادر مقدس کاظمی  اور برادر ڈاکٹر شفقت حسین کی سرکردگی میںمیٹرک کے طلبا کا تین ماہ کا ڈے اینڈ نائٹ کیمپ لگایا اور رضاکارانہ طور پر ان بچوں کو تیاری کروائی ، ڈاکٹر صاحب اس کیمپ میں عموما سرپرائز وزٹ کرتے تھے، اور طلباو اساتذہ کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ، ساتھ ساتھ رہنمائی بھی، لطف کی بات یہ ہے کہ اس کیمپ میں تیاری کرنے والے تمام طلبا اول پوزیشن میں کامیاب ہوئے۔
ڈاکٹر شہید نے جو شعور دیا آج کا نوجوان بھی اسکو اپنا مشعل راہ بنا سکتا ہے ڈاکٹر شہید کی بہت زیادہ خدمات میں تعلیم سرفہرست ہے انہوں نے تعلیم کے حوالے سے بے مثال خدمات انجام دیں زندگی کے آخری ایام بھی اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ انہوں نے تعلیم کو ہی ترجیح دی۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کی آرزووں سے ایک بڑی آرزو پاکستان بھر میں ایک ایسے تعلیمی پراجیکٹ کا قیام تھا جس میں ملت کے بچے بچیاں وقت کے جدید تقاضوں کے مطابق ابتدائی سطح یعنی پرائمری سے لیکر اعلی سطح یونیورسٹی بہترین تعلیم حاصل کرسکیں۔


اگر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی زندگی پر ایک نگاہ ڈالی جائے تو وہ اپنی ذات میں چراغ ہدایت کے طور پر نظر آئیں گے، یعنی ایسا روشنی کا مینار کہ جو خود بھی ہدایت یافتہ تھا اور دوسروں کو بھی ہدایت کی دعوت دینے والا۔
شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کو بائیس برس گزر جانے کے بعد بھی ان کے افکار کی ضرورت پہلے سے زیادہ محسوس کی جا رہی ہے، اپنے شعبے سے انصاف کرنے والے ایک انتھک ڈاکٹر، ایک بے مثال استاد، ایک شفیق دوست، ایک وطن دوست غیور انسان تھے۔
آج شہید ہم میں نہیں ہیں لیکن ان کے افکار ہمارے پاس ہیں، وہ اپنی اعلی سوچ اور خدمات کی بدولت ہم میں زندہ ہیں اور ان شہدا کا تذکرہ ہماری ذمہ داری ہے، ان کی فکر کو آگے بڑھانے کیلئے ہمیں ہی کردار ادا کرنا ہے، اس کے لئے پہلے ہمیں خود فکر شہید سے آشنا ہونا ہوگا، تاکہ ہم اسے بہتر انداز میں آنے والی نسلوں کو منتقل کرسکیں۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی کی وصیت کا یہ جملہ ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے
خوش بختی ہے ان لوگوں کے لئے جو با صلاحیت اور باشعور لوگوں کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں اور ہلاکت ہے ان کیلئے جو اپنے سے کم تر کے ماحول میں پروان چڑھتے ہیں۔
نکتہ داں ، نکتہ سنج ، نکتہ شناس پاک دل ، پاک ذات ، پاک صفات
یاں اگر بزم تھی تو اس کی بزم     یاں اگر ذات تھی تو اس کی ذات
ایک روشن دماغ تھا نہ رہا
شہر میں اِک چراغ تھا نہ رہا

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں