علامہ سید مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی رح سے ملاقات کا احوال

علامہ سید مرتضیٰ حسین فاضل لکھنوی برصغیر پاک و ہند کی ایک ایسی نابغہ روزگار شخصیت  جو اپنی ذات میں ایک یونیورسٹی تھے، عالم دین، محقق و ادیب،  تاریخ دان  و ماہرغالبیات، انیسیات و دبیریات غرض کہ آپ ہر علمی میدان کے شاہسوار تھے ۔یکم اگست کو آپ کے یومِ ولادت کے موقع پر معروف دانشور و شاعر جناب ڈاکٹر مشتاق مہدی (مظفر گڑھ) نے اپنی یادوں کی صورت میں علامہ سید مرتضیٰ حسین سے  ایک خوبصورت ملاقات کا أحوال قلم بند کیا ہے (انجم رضا)

*وہ مرد جس کا فقر خزف کو کرے نگیں *
تحریر :ڈاکٹر سید مشتاق مہدی
1983ء کا ماہ صیام آیا تو جنت کے بڑے سردار, سبط اکبر, شہزادۂ امن حضرت امام حسن علیہ السلام کی ولادت کو چودہ سو سال پورے ہو گئے. مسرت و انبساط کے اس موقع پر ہم نے سوچا کہ امام علیہ السلام کی سیرت پر دس روزہ سیمینار کا انعقاد کیا جائے. ان دنوں ڈاکٹر سید اختر بخاری ڈویژنل صدر اور راقم ڈویژنل جنرل سیکریٹری امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ملتان کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے. ڈیرہ اڈہ ملتان کے قریب ماورا ہوٹل کو اس سیمینار کے لئے موزوں ترین جگہ تصور کیا گیا کیونکہ آنے والے مہمانوں کے لئے یہ آسان ترین جگہ تھی اور ہوٹل کا Basement کافی کشادہ تھا. ہوٹل مالکان سے معاملات طے کرنے کے بعد دعوت نامے اور اشتہارات شائع کرائے گئے. جس دن اشتہار آویزاں ہوئے, اس سے دوسرے دن ہوٹل والوں نے پروگرام کی میزبانی سے معذرت کر لی. کیوں کیا ہوا؟ بتایا گیا ضلعی انتظامیہ نہیں چاہتی کہ یہ سیمینار ہو. بڑی عبرت اور حیرت کی بات تھی کہ مملکت خداداد میں نواسہ رسول صلی اللہ علیہ والہ و سلم کا یوم ولادت نہ منایا جائے. وجہ کیا ہے؟ تو بتایا گیا “اندیشۂ نقص امن” . ہم حیران اور پریشان تھے کہ اس سے نقص امن کیونکر ہوسکتا ہے؟ یہ وہ دور تھا جب وطن عزیز ضیاع الحق کی آمریت کے دکھ جھیل رہا تھا. یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہر آمر اہلبیت علیہم السلام کو اپنے اقتدار کے لیے خطر ہ سمجھتا رہا ہے اور ہر آمر و جابر نے اپنی اپنی سیاسی مصلحتوں کے پیش نظر اہل بیت علیہم السلام کو ظلم و ستم کا نشانہ بنایا. اسیری ,جلاوطنی اور دربدری اہلبیت کے ہر سربرآوردہ فرد کا مقدر بن گئی. جب دست قضاء نے ان کے اجساد کو ان جبابرہ کی دسترس سے باہر کر دیا تو ان ظالموں نے ان کے مراقد کو تختہ مشق بنا لیا. جنت البقیع کے مزارات کی مسماری اور ان قبور پر مسلح پہرہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ جابر حکمران اب بھی ان ہستیوں کے تصور سے لرزہ بر اندام ہیں. کوئی ان کا نام نہ لینے پائے, کوئی ان مقدس مزارات کے قریب نہ جانے پائے, مبادا پیغام آزادی,نعرۂ حریت اور آئین جوانمردی عام ہوا تو ان کی بادشاہتوں اور ناجائز حکومتوں کا کیا بنے گا؟ اس انجانے خوف میں مبتلا آمروں نے ہمیشہ کوشش کی کہ ان کے ذکر کو پابند کیا جائے,ان کی فکر کو کنج قفس میں محدود کیا جائے . بھلا آج تک روشنی کو بھی کوئی قید کر سکا ہے؟ جس ذکر کو ذات کردگار نے بلند کیا ہو وہ کس طرح مٹ سکتا ہے؟
“و رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ ” کی آیت ضمانت ہے کہ ان ذوات مقدسہ کا ذکر ابد الآباد تک بلند رہے گا اور ان کے دشمن
” اِنَّ شَانِئَکَ ہُوَ الۡاَبۡتَرُ ” کی قرآنی سند کے تحت ابتر ہی رہیں گے لیکن فکری ابتری میں مبتلا ان کے پیروکار اپنی سی سعی لاحاصل پھر بھی کرتے رہتے ہیں. ملک کے نامور شاعر, صحافی اور روشن فکر دانشور جناب شورش کاشمیری نے بجا کہا ہے
“جن لوگوں نے 90 برس کے طنطنۂ اقتدار میں علی اور ان کی اولاد پر تبرا کیا. آج ان کی روحیں عرش و فرش کے عذاب میں مبتلا ہیں اور اس حال میں انہیں کئی صدیاں گزر چکی ہیں اور جب تک صبح قیامت طلوع نہیں ہوتی وہ انسانی پھٹکار کی زد میں رہیں گے. کروڑوں بندگان خدا میں سے بعض لوگ عقل عیار کا چھرا لے کر تاریخ کے اس سانحہ پر معکوس گفتگو کرتے ہیں اور غیر ثقہ راویوں کی حدیث سازی سے حادثہ کربلا کی اہانت کے مرتکب ہوتے ہیں. اس قسم کے لوگ یا تو عقل کے اپاہج ہیں یا انہیں اس حقیقت کا اندازہ نہیں کہ جس عہد کی تلواریں حسین علیہ السلام سے انصاف نہ کر سکیں اس عہد کے قلم کیوں کر انصاف کرتے”.
(قلم کے چراغ).
ہندہ جگر خوارہ کے کسی بیٹے کا دن منایا جاتا تو فرض شناس انتظامیہ کو خرابی کی کوئی صورت نظر نہ آتی. چونکہ زہرآ سلام اللہ علیہا کے لخت جگر کا جشن ولادت منایا جا رہا تھا,وہ بھی ایک ہوٹل میں اور ایک سیمینار کی صورت میں, تو نقص امن کا خطرہ لا حق ہو گیا. صاف ظاہر تھا کہ یہ ایک اموی تزویر تھی . جب مروان جیسا بد بخت ریاست مدینہ کا والی اور جاگیر فدک کا مالک بن بیٹھا تو ایک دردمند دل رکھنے والے شاعر نے کہا تھا:
رأیت الدھر یرفع کل وغد
و یخفض کل ذی شیم شریفہ
” میں نے دیکھا ہے کہ زمانہ ہر نا لائق کو بلند کرتا ہے اور ہر شریف صفت کو گراتا ہے”.
ضلعی دفتر پولیس کے کئی چکر لگانے کے بعد بالآخر نقص امن کا خطرہ ٹل گیا اور اجازت نامہ مل گیا. یوں اسلامی جمہوریہ پاکستان اس داغ سے بچ گیا کہ یہاں نواسۂ رسول کا یوم ولادت نہیں منایا جا سکا. اس سیمینار میں علاوہ دیگر مقرروں اور دانشوروں کے جناب مولانا سید مرتضی حسین صدرالافاضل کو خصوصی طور پر بلایا گیا تھا. ان کے خطابات بہت تجزیاتی اور انتہائی معلوماتی تھے اور شرکاء کی توجہ کا مرکز بنے رہے. ان پروگراموں میں ایک ڈاکٹر صاحب جو اس وقت ایک ہسپتال میں میڈیکل سپرنٹنڈنٹ تھے, تشریف لایا کرتے تھے .ایک دن مولانا صاحب سے ملے اور چائے کی دعوت دیتے ہوئے بتایا کہ میں فلاں مرحوم عالم دین کابیٹا ہوں. آپ میرے گھر تشریف لائیے. میں آپ کو ان کی لائبریری بھی دکھاؤں گا. چونکہ مولانا صدرالافاضل کتابوں کے بہت زیادہ قدردان تھے لہٰذا انہوں نے بلا تامل دعوت قبول کر لی. دوسرے دن ہم اور مولانا مرتضیٰ حسین صاحب , ڈاکٹر صاحب کے گھر وقت مقررہ پر پہنچ گئے. ڈاکٹر صاحب کو منتظر پایا. والہانہ استقبال کیا. پرتپاک طریقے سے ملے. پرتکلف چائے پلائی. دوران گفتگو مولانا نے ڈاکٹر صاحب کو بتایا کہ آپ کے والد عربی کے اچھے شاعر تھے. آپ کو ان کے اشعار یاد ہوں تو سنائیے! مگر ڈاکٹر موصوف کو تو یہ بھی معلوم نہ تھا کہ ان کے والد شعر بھی کہتے تھے.صدرالافاضل صاحب نے مولانا مرحوم کے کچھ شعر اس محفل میں سنائے. میں اس دوران قبلہ صدرالافاضل کی متجسس نگاہوں کو دیکھتا رہا جو کتابوں کی دید کے لئے بےچین تھیں. کافی دیر گزرنے کے بعد آخر انہوں نے تقاضا کیا ڈاکٹر صاحب!والد مغفور کی لائبریری دکھائیے. تب ڈاکٹر صاحب ایک کمرہ میں لے گئے جہاں ایک شیلف کے ایک کونے میں کہنگی اور خستگی کا شکار چند کتابیں رکھی ہوئی تھیں. جن کی تعداد Double Figure میں بھی نہ تھی. جنہیں ڈاکٹر صاحب بطور لائبریری پیش کر رہے تھے اور وہ بھی مولانا صدرالافاضل جیسی شخصیت کے سامنے ,جن کے ذاتی کتب خانے میں بمطابق مصنف تذکرہ علمائے امامیہ پاکستان 5500 پرنٹڈ اور 300 نادر مخطوطات موجود ہیں. مجھے یہ کتب خانہ دیکھنے کا اتفاق یوں ہوا کہ I. S. O کے حوالے سے کچھ ڈسکشن کرنا تھی تو آپ نے از راہ لطف مجھے اپنے گھر واقع مغل پورہ میں بلا لیا اور کتب خانے میں ہی بٹھایا. یہیں ناشتہ کیا اور مسائل پر سیر حاصل گفتگو ہوئی. یہ واقعی بہت بڑا کتب خانہ تھا الماریاں, شیلف, ریک سب کتابوں سے اٹے پڑے تھے . کتابوں کا ایک کمرہ نہ تھا دیگر کمروں میں بھی اثاث البیت کم اور کتابیں زیادہ تھیں . اندازاً یہ تعداد “تذکرہ علماء امامیہ ” میں مذکورہ تعداد سے کہیں زیادہ لگتی تھی. سید احمد مرتضیٰ نقوی کے بقول کتابوں کی تعداد تقریباً چوبیس اور پچیس ہزار کے درمیان تھی. اس وقت ہم طالب علم تھے اور مولانا کی علمی جلالت کے سبب لائبریری سے متعلق معلومات حاصل نہ کر سکے. ملاقات آج کل ہوتی تو مکمل معلومات بھی لیتے اور استفادہ بھی کرتے.
ہاں بات ڈاکٹر صاحب موصوف کی ہو رہی تھی. اب جو ان کے گھر سے لوٹے تو راستے میں مرتضیٰ صاحب کہنے لگے,: ہاں بھائی ! کیا خیال ہے ایک مولانا کے پاس اتنی کتابیں تو ہونا چاہیں نا؟
مولانا سید مرتضیٰ حسین مرحوم ایک مرنجان مرنج انسان تھے سادگی, بے ساختگی,برجستگی اور انکساری ان کی شخصیت کے عناصر اربعہ تھے. شاخ ثمر بار کی طرح جھکے رہتے تاکہ حاجت مند بآسانی تحصیل ثمرات کر سکیں . سادہ پاجامہ, کرتا ,شیروانی اور ٹوپی علم و قلم کا یہ مہر درخشاں اسی جامے بشرے میں ضو فشاں رہتا. مولانا اس فقیری میں وہ خوئے حیدری رکھتے تھے کہ شوکت سلطانی شرما جائے.
خدا نے اس کو دیا ہے شکوہ سلطانی
کہ اس کے فقر میں ہے حیدری و کراری
نگاہ کم سے نہ دیکھ اس کی بے کلاہی کو
یہ بے کلاہ ہے, سرمایۂ کلہ داری
ادبیات, لسانیات, لغات ,تدریس,تاریخ, تحقیق,تدوین حدیث اور تفسیر یہ سب مرتضیٰ حسین کے میدان ہیں اور وہ ہر میدان کے شہسوار اور ہر فن میں یکتا ہیں. ان کا گہر بار قلم مسلسل مصروف عمل رہتا اور علم کے موتی اچھالتا رہتا تاکہ نسلیں ان گہر ہائے آبدار سے دامن طلب پر کرتی رہیں.
مولانا مرتضیٰ حسین قبلہ کتاب “تذکرہ علماء امامیہ” کے مطابق 23.اگست 1923ءکو لکھنؤ میں پیدا ہونے لیکن سید احمد مرتضیٰ نقوی آپ کی تاریخ ولادت یکم اگست 1923ء بتاتے ہیں.
چونسٹھ سال عمر پائی اور 23.اگست1987ءکو داعی اجل کو لبیک کہا تو قلم قبیلہ اشکبار ہو گیا, اوراق پریشان ہو گئے کہ اب کون ان کی شیرازہ بندی کرے گا. چراغ علم کی لو پھڑپھڑانے لگی کہ کون فانوس بن کر اس کی حفاظت کرے گا.
قائد شہید علامہ سید عارف الحسینی نے مولانا مرتضیٰ حسین کےچہلم کے موقع پر خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا:
“مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شیعہ سنی علماء کے مشترکہ جلسہ میں انہوں نے تاریخ کے حوالہ سے وحدت اسلامی کے موضوع پر اتنی مدلل اور اعلیٰ درجہ کی گفتگو کی کہ تمام شیعہ سنی علماء حیران رہ گئے اور سب کو ان کی قابلیت اور تاریخ پر ان کی وسعت نظر کو تسلیم کرنا پڑا. اسی طرح وہ ادب اور لغت کے میدان میں بھی مسلم الثبوت اسکالر کی حیثیت رکھتے تھے. منکسر المزاجی اور خدا ترسی علامہ مرحوم کے مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی نیز نوجوانوں کو باعمل بنانے اور ان میں اسلامی روح پیدا کرنے اور علماء و دانشوروں کے طبقات میں موجود کشمکش اور خلیج کو ختم کرنے کے سلسلے میں انہوں نے بھر پور جہاد کیا جس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہوئے. ان کا وجود ہم سب کے لیے نعمت تھا “
مولانا مرتضیٰ حسین کی تصانیف کی تعداد سینکڑوں میں ہیں. جن کا میں مطالعہ کر سکا.وہ درج ذیل ہیں
1.آیت اللہ خمینی قم سے قم تک :
یہ انقلاب اسلامی ایران پر اردو میں پہلی کتاب ہے بلکہ دستاویز ہے.
2.مطلع انوار :
اس میں برصغیر کے علماء امامیہ کے حالات و واقعات اور ان کی علمی,تبلیغی, ادبی ,معاشرتی اور سیاسی خدمات کا احاطہ نہایت ہی عرق ریزی سے کیا گیا ہے. یہ ایک خوب صورت تاریخی تحقیقی کام ہے لیکن اس میں مصنف نے دلگداز شکوہ بھی کیا ہے.کہ
“کتب خانے, فہرستیں, اخبار, رسالے اور تاریخ و ادب کے سینکڑوں دفتر چھان ڈالے, کم و بیش پندرہ سال میں ہزار صفحے تیار ہوئے تو اب چھاپنے والا نہ ملتا تھا. میرا وہ عالم تھا جیسے کوئی سپاہی مورچہ فتح کر کے واپس آئے اور کوئی اس سے بات نہ کرے, میں تھک گیا تھا اور مدت تک کوئی کام نہ کر سکا. 1969ء میں زیارات عتبات عالیات کے لئے گیا تو بیروت و نجف و طہران و قم میں متعدد حضرات نے کہا: کاش یہ کام عربی یا فارسی میں کیا ہوتا. میں کہتا تھا :جس زمین کی بات ہے پہلے وہاں کے تولوگ پڑھ لیں پھر باہر بھی خبر ہو جائے گی “
3.کتاب المومن :
حسین بن سعید اہوازی حضرت امام رضا علیہ السلام کے صحابی تھے. انہوں نے امام علیہ السلام سے حدیث سماعت کی اور ان کو جمع کیا. یہ مجموعہ اصول اربعمأۃ میں سے ایک اصل ہے. مولانا صدرالافاضل اس کتاب کے مقدمہ میں لکھتے ہیں “کتاب المومن ان کتابوں میں ہے جس سے علامہ برقی, علامہ کلینی, علامہ طوسی اور علامہ مجلسی نے فائدہ اٹھایا.ان کی کتابوں میں اس کی حدیثیں موجود ہیں. آج ہم آپ کے سامنے اصل کتاب پیش کر رہے ہیں اور عرب و عجم میں یہ پہلی پیش کش ہے. کتاب المومن…. انسانی حقوق و فرائض کی دستاویز ہے “.
4.تاریخ تدوین حدیث :
یہ 172 صفحات پر مشتمل ایک تحقیق ہے جس میں علم حدیث میں مکتب اہلبیت کی خدمات, حدیث کی جمع آوری میں ان کی دقت نظر اور کد و کاوش اور طریق کار کو پوری ذمہ داری اور احتیاط سے بیان کیا گیا ہے. یہ ایک قابل قدر کام ہے مگر میں سمجھتا ہوں کہ موضوع کی افادیت کے پیش نظر اس پرمزید کام ہونا چاہئے تاکہ کالج اور یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالب علموں اور تحقیق سے وابستہ لوگوں کو اردو میں زیادہ سے زیادہ مواد مہیا ہو سکے .
5.ترجمہ صحیفہ علویہ :
ان دعاؤں کا ترجمہ کیوں کیا مولانا لکھتے ہیں :
“مشکلات میں آسانیاں, مقاصد میں کامیابیاں حاصل کرنے کے لیے پڑھئے یا حصول ثواب و اجر کے لئے مگر ایک مرتبہ اس ترجمہ کو اصل بات سمجھنے کے لئے ضرور پڑھیں کیوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے تعلیمات کا مبلغ اول علی بن ابی طالب علیہ السلام کی زندگی کا اصل مقصد رضائے خدا حاصل کرنا تھی.یا دنیا کو شاہراہ ہدایت و عرفان کی رہنمائی کرنا. اگر ہم نے ان دعاؤں سے خدا کو پہچان لیا, بندگی کا تصور ذہن نشین کر لیا تو بہت بڑا مقصد حاصل ہو جائے گا…… دنیا گزر گاہ ہے, قیام گاہ نہیں..
6. تفسیر قرآن :
مجلہ”توحید” میں آپ کےتفسیری نوٹس (Notes) شائع ہوتے رہے جن کا مطالعہ بالیدگی فکر و نظر کا باعث ہوا . تفسیر اگرچہ مختصر ہوتی تھی مگر تربیتی, نظریاتی, معاشرتی, تعلیمی ابعاد سے بھر پور ہوتی. آیات کی عالمی حالات پر تطبیق سے نسل نو کو عصری تقاضوں کے مطابق مکمل رہنمائی حاصل ہوئی . یہ تفسیر کتابی صورت میں شائع ہو جاتی تو بہت مفید ثابت ہوتی.
7.برصغیر میں اسلوب تفسیر اور علمائے امامیہ کی تفسیریں:
اس مختصر مقالہ میں جیسا کہ نام سے ظاہر ہے برصغیر میں جو اسلوب تفسیر اپنایاگیا اس پر بات کی گئی ہے. اردو,انگریزی, عربی, فارسی,سندھی,پشتو اور دیگر علاقائی زبانوں میں قرآن کی جو تفسیریں لکھی گئیں ان کا تذکرہ اور جائزہ بھی اس میں شامل ہے.
8ترجمہ نہج البلاغہ :
رواں, شستہ, شائستہ اردو,لکھنؤ کی زبان کی حلاوت و شیرینی لیے ہوئے یہ ترجمہ رئیس احمد جعفری اور عبد الرزاق ندوی سے مل کر کیا جو کئی بار چھپ کر قبولیت عام کی سند حاصل کر چکا ہے.
بلا شبہ مولانا مرتضیٰ حسین ان افراد میں سے تھے جن پر اقبال کا یہ مصرع صادق آتا ہے.
*وہ مرد جس کا فقر خزف کو کرے نگیں*
حقیقت یہ ہے کہ:
یہی وہ علم کے چراغ ہیں جن کو
ہوا بجھاتی نہیں, سلام کرتی ہے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں