علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی شھید

ترتیب و تدوین : سید انجم رضا
28 مارچ 1992 بمطابق 24 رمضان المبارک  علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی شھید کا روزِ شہادت ہے

 علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی شھید,زمین پاکستان کے علمائے اعلام میں ایسی شخصیت  تھےجنہوں نے علمی گھرانے میں آنکھ کھولی اور علوم آل محمد ؑسے مومنین کو سیراب کیا اور مذہب شیعہ اثنا عشریہ خیر البریہ کے پیروکاروں کو علم دین کی شعاوں سے منور کیا

علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی 1941 کو بستی جاڑا ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کا نام ملک مکھنہ خان تھا۔

چھٹی جماعت تک پڑھنے کے بعد قرآن پاک و دینیات پڑھنے کے لیے مولانا محمد پناہ کی خدمات حاصل کیں

اس کے بعد اپنے ماموں علامہ حسین بخش جاڑا اعلی اللہ مقامہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا۔ اور درس نظامی و عربی ادبیات کی تعلیم حاصل کی۔ آپ مدرسہ علمیہ باب النجف جاڑا کے ان طلاب میں شامل ہیں جنہوں نے مدرسہ کے تعمیر کرنے میں استاذ العلماء علامہ حسین بخش جاڑا اعلیٰ اللہ مقامہ کا ہاتھ بٹایا

1953 میں حوزہ علمیہ نجف اشرف تشریف لے گئے ۔ اور شرح لمعہ اور معالم الاصول تک تعلیم حاصل کی۔

محترم نثار علی ترمذی اپنی ایک پُرانی یادداشت بیان کرتے ہیں کہ

” ایک رات دس بجے کے قریب ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید رح اور بندہ ناچیز نواب پیلس، ایمپریس روڈ ، لاہور گئے۔ وہاں پر علامہ کاظم حسین اثیر جاڑوی شہید سے ملاقات کی۔ شہید علامہ نے بتایا کہ وہ مفاتیح الجنان کے ترجمے پر کام کر رہے ہیں اور نصف کے قریب مکمل ہو چکا ہے ۔ ڈاکٹر شہید رح ان کے اس کام کو سراہا۔ واپسی پر کہنے لگے کہ دعاؤں کو ترجمہ کے ساتھ پڑھنے کے  بہت اہم اثرات ہیں ۔  جاڑوی صاحب یہ کام جو کر رہے ہیں اس کی اہمیت ہے۔ بس ہم ایک دائرہ کے علماء سے رابطہ رکھتے ہیں جب کہ ہمیں سب سے استفادہ کرنا چاہیے ۔”

جناب اعجاز مرزا (لاہور) بیان کرتے ہیں کہ

جولائی ۱۹۸۱ ء میں قائد ملت جعفریہ کی سربراہی میں ایک ۲۲ رکنی وفد نے ایران کا دورہ کیا تھا ۔ اس وفد میں علامہ حسین بخش جاڑا اور علامہ کاظم حسین اثییر جاڑوی بھی شامل تھے ۔ اس سفر کے دوران اراکین وفد نے زیارات مقامات مقدسہ کے علاوہ قُم و مشہد کے تمام بزرگ شیعہ مراجع عظام سے ملاقات بھی کی ۔
“اسی سفر میں قبلہ مفتی صاحب مرحوم کی ہمراہی میں اراکین وفد نے رہبر کبیر بانئ انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ خمینی اعلی اللہ مقامہ سے خصوصی ملاقات کا شرف بھی حاصل کیا


باب النجف جاڑا

جب نجف اشرف سے واپس پاکستان آئے تو آپ نے قبلہ علامہ حسین بخش جاڑا اعلیٰ اللہ مقامہ کے ہمراہ مدرسہ باب النجف جاڑا میں تدریس کی۔


جامعہ امامیہ کراچی

پھر آپ نومبر 1964 میں جامعہ امامیہ کراچی میں بطور مدرس تشریف لے گئے کچھ عرصہ تدریس کرنے کے بعد والد بزرگوار کے انتقال پر واپس وطن جاڑا لوٹ آئے۔


باب النجف جاڑا

یکم اگست کو مدرسہ باب النجف جاڑا میں دوبارہ تدریسی سلسلہ شروع کیا اور کافی طلبہ کرام کو علوم آل محمدؑ سے سیراب

 

قم المقدسہ میں حصول تعلیم

کچھ عرصہ پاکستان میں تدریس کے بعد آپ 1971 کو قم المقدسہ تشریف لے گئے جہاں آپ نے ان اساتذہ سے کسب فیض کرتے ہوئے درس خارج پڑھا:

  1. آیت اللہ العظمی سید محمد کاظم شریعتمدار اعلیٰ اللہ مقامہ
  2. آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی دامت برکاتہ

درس و تدریس

1974 کو قم المقدسہ سے وطن واپسی پر مختلف مدارس دینیہ میں اپنے تدریسی سلسلے کو دوبارہ شروع کیا اور ترویج علوم آل محمد کے لیے مختلف شہروں کا سفر کیا۔

دار العلوم جعفریہ کوٹلہ جام

دار العلوم جعفریہ کوٹلہ جام ضلع بھکر میں درس و تدریس کی ابتدا آپ سے ہوئی۔

مدرسہ دیووال

دار العلوم جعفریہ کوٹلہ جام کے بعد دینی مدرسہ دیووال میں بھی کافی عرصہ تدریس کرتے رہے۔

دار العلوم جعفریہ خوشاب

اس کے بعد آپ دار العلوم جعفریہ خوشاب میں گئے اور طلبۂ کرام کو دینی تعلیم دی۔

جامعہ حسینہ جھنگ صدر

16 نومبر 1975 کو جامعہ حسینیہ جھنگ صدر میں تشریف لائے اور ایک عرصہ تک تدریسی فرائض انجام دیتے رہے،

مدرسۃ الواعظین لاہور

جامعہ حسینیہ کے بعد آپ لاہور آئے اور مظفر المدارس (مدرسۃ الواعظین) ایمپرس روڈ لاہور میں طویل مدت تک پرنسپل رہے اور درس و تدریس کرتے رہے۔

تلامذہ

آپ کے شاگردوں کی ایک فہرست ہے جنہوں نے مختلف مدارس میں آپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا جن میں سے چند کے اسماء یہ ہیں:

  1. خطیب علامہ سید ضمیر حسین نقوی آف لاہور
  2. علامہ منظور حسین جوادی آف سرائے مہاجر
  3. علامہ غلام حر قمی آف پہاڑ پور
  4. مولانا غلام محمد باٹھ آف دیووال
  5. مولانا ناصر مہدی جاڑا مرحوم
  6. مولانا ظہیر مہدی جاڑا لاہور
  7. مولانا نذر حسین وجھہ آف سرگودھا

تالیف کتب

جہاں آپ نے تدریس کے فرائض انجام دیے وہاں آپ نے کتب کی تصنیف و تراجم میں بھی حصہ لیا، تصنیف شدہ کتب یہ ہیں:

  1. الفکر الجدید فی القرآن المجید 3 جلدیں غیر مطبوعہ
  2. آیت العرفان بجواب بلاغ القرآن
  3. عشر کیا ہے
  4. ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے
  5. نماز حیدریہ
  6. جواز متعہ
  7. نظام مصطفی بزبان زوجہ مصطفی
  8. شرح لمعہ کتاب طہارت و طلاق
  9. مطلوب الطالب فی ایمان ابوطالب

جبکہ تراجم میں یہ کتب شامل ہیں:

  1. الارض و التربۃ الحسینیہ
  2. القول السدید فی شرح التجرید
  3. دمعۃ الساکبہ
  4. جزیرہ خضراء
  5. انوار خمسہ
  6. معالی السبطین
  7. کشف الاسرار فی عقائد الابرار

شہادت

علامہ اثیر جاڑوی 28 مارچ 1992 بمطابق 23 رمضان المبارک کو شہید ہوئے جبکہ آپ کے ہمراہ جواں بیٹے کوثر رضا جاڑا کو بھی شہید کر دیا گیا

آپ کی نماز جنازہ خوشاب میں علامہ ملک اعجاز حسین صاحب کی امامت میں ادا کی گئی اور علاقہ بھر کے مومنین شریک ہوئے۔ اور جب آپ کا جنازہ دریاخان میں پہنچا تو نماز جنازہ آپ کی وصیت کے مطابق مولانا آغا علی حسین قمی صاحب نے پڑھائی اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے قائد علامہ سید حامد علی موسوی و اراکین، تحریک جعفریہ کے قائد علامہ سید ساجد علی نقوی و اراکین، سید وزارت حسین نقوی، علامہ ملک اعجاز حسین خوشاب، علامہ طاہر ترابی پنجگرائیں، علامہ رمضان توقیر ڈیرہ اسماعیل خان، علامہ ناصر نجفی خوشاب، علامہ سید تقی نقوی ملتان، علامہ سید امداد حسین شیرازی، علامہ ناصر مہدی جاڑا، مولانا مشتاق حسین کوٹلہ جام اور دیگر علاقہ بھر کی مذہبی، سیاسی و سماجی شخصیات اور ہزاروں مومنین نے شرکت کی۔ یہ شہر دریاخان کا تاریخی جنازہ تھا جس میں کئی ہزار لوگ شریک ہوئے۔

دفن

آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو مسجد امامیہ ڈیرہ روڈ دریاخان کے قریب قبلہ علامہ حسین بخش جاڑا اعلیٰ اللہ مقامہ کے جوار میں دفن کیا گیا۔

اولادترميم

آپ کی اولاد میں 5 بیٹے اور 2 بیٹیاں ہیں جن میں سے آپ کی دستار علمی کے وارث مولانا زہیر کاظم جاڑا ہیں جو حوزہ علمیہ قم المقدسہ میں 8 سال سے تحصیل علم کے لیے مقیم ہیں۔

 
24 رمضان 1992 کو لاہور سے دریاخان جاتے ہوئے جوہر آباد کے قریب ہڈالی کے مقام پر، ان کے 27 سالہ جوان بیٹے کوثر رضا جاڑا جو کہ دریاخان ڈسٹرک بھکر میں عربی ٹیچر تھے، سمیت نامعلوم افراد نے شھید کر دیا گیا۔۔۔۔۔

انکے ساتھ ایک اور 14 سالہ بیٹا بھی سفر کر رہا تھا جسکا نام عمار کاظم جاڑا تھا، جو کہ اسی صدمے اور غم کیوجہ سے 4 ماہ بعد، خالق حقیقی سے جا ملے۔۔۔۔۔

آپ علامہ حسین بخش جاڑا مرحوم کے بھانجے تھے۔ ایک عالم باعمل فاضل محقق، خطیب، مدرس اور متعدد اہم کتب کے مترجم بھی تھے۔۔۔۔۔

مظفر المدارس مدرسہ واعظین لاہور کے پرنسپل تھے
الدمعةالساکبہ، انوار زھراء، مفتاح الجنہ، جزیرہ خضراء، کے علاوہ متعدد کتب کا اردو ترجمہ کیا اور بالخصوص مقتل کی کتب کو اردو ترجمہ کر کے خطباء ذاکرین تک پہنچایا۔۔۔۔۔

نظام مصطفی بزبان زوجہ سید الانبیاء پر ایک کمال کتاب لکھی، ایمان ابوطالب پر آپکی ایک کتاب ہے، آپ نے امام خمینی رح کی کتاب کشف الاسرار کے اس حصہ کا ترجمہ کیا جس میں آقا خمینی رح وہابیت کےخلاف سرگرم تھے۔۔۔۔۔

آخری ایام میں ماہنامہ المظفر کا اجراء کیا اور اس کے سرپرست رہے اور علمی مفید مضامین لکھے، علامہ منورعباس علوی اس ماہنامہ کے چیف ایڈیٹر تھے۔۔۔۔۔

علامہ اثیر جاڑوی نے انہی دنوں تفسیر قرآن لکھنا بھی شروع کی مگر افسوس کہ وہ مکمل نہ ہوسکی۔ علامہ کاظم حسین اثیرجاڑوی شھید نے جس طرح مکتب اہلبیت کی خدمت کی مدرسہ، منبر، تصنیف، ترجمہ، تحریر و تقریر اور عوامی رابطہ ان تمام شعبوں میں ان کے طرز عمل قابلیت مہارت اور قربانی اپنی مثال آپ ہے؛ مکتب تشیع میں انکی خدمات کبھی فراموش نہیں کی جا سکیں گی۔ ایسے بلند بخت کہ شھادت بھی نصیب ہوئی۔۔۔۔۔

خداوند عالم بحق صاحب الزماں عج شھید کے درجات کو بلند فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین

اعتراف: اس تحریر کی تیاری میں انٹر نیٹ پہ موجود مواد سے استفادہ کیا گیا ہے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں