مصورِغم اُستاد سید محسن رضا نقوی المعروف محشر لکھنوی

ترتیب و انتخاب: سید انجم رضا

دُنیا جسے محشر لکھنوی کے نام سے جانتی ہے، کبھی یہ شبنم لکھنوی بھی تھے، رومانوی شاعر کرنے والے شاعر شبنم لکھنوی بعد ازاں محشر لکھنوی نے لاہور میں بھی وقت گزارا

محشر نے شاعری کا آغاز مشہور گانوں پر پیروڈی سے کیا اُس وقت تک تخلص شبنم لکھنوی تھا ۔محشر لکھنوی کا تخلص آغا شورش کاشمیری صاحب نے دیا ۔ لاہور ہی سے محشر کی صحافت کا باقاعدہ آغاز ہوگیا ۔ محشر لکھنوی تیرہ برس آغا شورش کاشمیری کے ساتھ رہے۔ شورش کاشمیری یہ جان کے کہ  محشر لکھنوی کے جدِ امجد مولانا غفران تھے یہ سُن کر شورش کاشمیری آبدیدہ ہوگئے ۔شورش کاشمیری نے محشر لکھنوی کے لئے بہت کچھ کیا ۔،جب اچانک محشر لکھنوی کے بڑے بھائی کی حالت نازک ہوگئی مجبوری میں لاہور چھوڑنا پڑا ۔

اور جب واپس کراچی گئے تو  اب شبنم  لکھنوی  کی جگہ محشر لکھنوی نے جنم لیا اور اب رومانوی شاعری کی جگہ فقط ذکر اہل بیتؑ تھا

وہ کہیں امام حسین ؑکے چھ ماہ کے علی اصغرؑ کے غم میں گرفتار نظر آتے ہیں تو کہیں شہزادہ قاسمؑ کے لاشے کے پامال ہونے  کے نوحے لکھنے بیٹھ جاتے ہیں
میدانِ کربلا میں شبیہ پیغمبر  حضرتِ  علی اکبرؑ کی برچھی پر بلک بلک کر رونے لگتے ہیں ۔

بی بی سکینہؑ کے طمانچوں کو قلمبند کرتے نظر آتے ہیں ۔

بی بی زینب ؑ کی بہادری اور اُن کے دل پر لگے زخموں سے محشر کے قلم سے خون ٹپکنے لگتا ہے ۔

کہیں عباس علمدارؑ کی وفاداری  وبہادری پر ماتم کناں نوحے لکھتے ہیں ۔

تو کہیں امام حسین ؑکی مظلومیت پر گریہ آہ فغاں کرتے نظر آتے ہیں ۔

محشر لکھنوی نے غزل کی شاعری ترک کی اور مذہبی شاعری شروع کردی ۔شہرہ آفاق کلام کے خالق محشرلکھنوی جس محفل میں ہوتے داد و تحسین ملتی منقبت اور سلام، نوحے محفلوں میں پڑھتے ۔محشر کے نوحوں نے دنیا میں دھوم مچائی رہتی دنیا تک یہ نوحے گونجتے رہیں گے ۔
جب کوئی جواں لاش نظر آتی ہے محشر
اک یاد سوئے کرب و بلا جاتی ہے محشر
ہئے ہئےعلی اکبر
اِن جیسے کلا موں کے خالق محشر لکھنوی نے نوحہ خوانوں کو نوحہ پڑھنے کا قرینہ و سلیقہ بھی سکھایا

بہت کم لوگوں کو پتہ ہے کہ ، محشر چالیس سال پیپلز پارٹی کے کارکن رہے ،پیپلز پارٹی کے عشق میں گرفتار محشر لکھنوی نے  کبھی کوئی پلاٹ پرمٹ نہیں لیا ۔ اور نہ ہی پی پی پی نے بھی کبھی اقتدار  میں آکر محشر کو کبھی نوازا۔

پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت محشر اس کے کارکن بن گئے ۔عام انتخابات کے آخری جلسے نشتر پارک میں بھٹو صاحب کی کامیابی کا پیشگی نظم بطور سہرا لکھا جو نشتر پارک کے جلسے میں معراج محمد خان نے لوگوں میں تقسیم کرائی اس یادگار نظم کی نقل ا محشر لکھنوی کے پاس محفوظ  تھی ۔اِس کے بعد ضیاء الحق کی حکومت کے خلاف محشر نے پر جوش نظمیں لکھیں جو لوگوں میں زدِ عام ہوئیں ۔روزنامہ امن اور مساوات میں محشر کی سیاسی نظمیں شائع ہونے لگیں ۔کئی انجمنوں کی وجہہ پہچان محشر لکھنوی کا کلام ہے۔

محشر سیاسی قیدی بھی تین بار ہوئے جیل کاٹی مگر ملک میں بحالی جمہوریت کے لئے اپنے قلم کو کشکول میں نہیں رکھا حاکمِ وقت کو للکارتے رہے ۔
محترمہ بینظیر بھٹو صاحبہ کی شادی کا سہرہ ککری گراؤنڈ میں پڑھا ملک کے اخبارات میں یہ سہرہ شائع ہوا تھا۔یہ سہرا آج بھی بلاول ہاؤس میں لگا ہے جو حاکم علی زرداری صاحب نے لگایا تھا۔

سید محسن رضا نقوی المعروف محشر لکھنوی کا تعلق برصغیر کے بہت مقدس اور جلیل القدر خاندان سے تھا ، اس خاندان کے علماء دین کی قدم بوسی ہوتی تھی۔

لکھنومیں بھی غربت و افلاس کے سوا کچھ نہیں تھا پاکستان میں بھی غربت دامن گیر رہی لیکن لکھنو میں عزت و تعظیم تھی پاکستان میں یہ بھی نہ رہا ۔احساسِ محرومی نے محشر کو معاشرے کا باغی بنا دیا محشر زمانہ کم عمری میں موسیقی کے دلداہ تھے کیونکہ محشر کو اﷲنے خوش گلو بنا یا تھا مذہبی گھرانہ تھا جہاں ریڈیو رکھنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔اِس سے محشر اور دل برداشتہ ہوگئے ۔لکھنو کے لوگ زیادہ نازک مزاج اور نفاست پسند ہوتے ہیں ۔لیکن معاش کے خاطر محشر نے ہر وہ کام کیا جو مزاج کے بر خلاف تھا ۔پہلی مزدوری میر پور خاص اسٹیشن سے انڈیا کے باڈر باڑھ میر تک لو کل ٹرینوں میں پاکولا کولڈ ڈرنک بیچی ۔

محشرلکھنوی کے والدِ مولانا حکیم سید محمد یوسف علیم لکھنو کے کئی مدارس میں معلم تھے ۔تقسیم کے بعد محشر نے کراچی میں مستقل سکونت اختیار کر لی غربت بد حالی نے محشر سے وہ کام بھی لئے جو محشر کی فطرت میں نہیں تھے ۔گھروں میں رنگ و روغن بھی کرنے لگے ۔ٹرینوں میں لیمن سوڈا کی بوتلیں بھی فروخت کی تا کہ گھر کا گزارہ ہوسکے
تلاشِ معاش میں لاہور بھی گئے وہی آغا شورش کاشمیری کے آفس چلے گئے جہاں سے روزنامہ چٹان نکلتا تھا ۔آغا صاحب نے اسی (۸۰)روپے ماہوار تنخواہ پر اپنے آفس میں رکھ لیا ۔اور دفتر کی چھت پر سونے کی جگہ بھی دے دی۔محشر کی تحریریں دیکھ کر آغا شورش کاشمیری بہت متاثر ہوئے اور محشر صاحب کتابت اور پروف ریڈنگ کے کام بھی دئے گئے ۔اُردو کو صحافتی زبان کا نیا طرزِ تکلم تخاطب ملا اور اِنکی صحافتی صلاحیتوں کو جلا ملی ۔محشر بے مثال شاعر کے ساتھ ساتھ نثر میں بھی کمال کا ملکہ حاصل تھا۔

محشر سیاسی قیدی بھی تین بار ہوئے جیل کاٹی مگر ملک میں بحالی جمہوریت کے لئے اپنے قلم کو کشکول میں نہیں رکھا حاکمِ وقت کو للکارتے رہے ۔

محشر لکھنوی کی ایک نظم جو ضیاء الحق کے دور میں کہی اور مزاحمتی ادب کے عنوان سے شائع ہوئے مجموعے میں شامل تھی۔

تبدیلی ایمان ہے ہر پانچ منٹ بعد

تردیدی قرآن ہے ہر پانچ منٹ بعد

آیات کے پردے میں کبھی جھوٹ کبھی سچ

اسلام پر احسان ہے ہر پانچ منٹ  بعد

منصف نظر آتا ہے، کبھی عدل کا دشمن

کیا خوب تری شان ہے ہر پانچ منٹ بعد

آئین کے صحرا میں قوانین کا دریا

دفعات کا طوفان ہے ہر پانچ منٹ بعد

اس مرد مسلمان کو مومن کو کہوں کیا

جو صورت سفیان ہے ہر پانچ منٹ بعد

جب محشر عباس ٹاؤن کراچی میں ایک شکستہ سے مکان میں مقیم تھے تو وہاں اُنکا ننھا سا بیٹا موذی مرض کا شکار ہوا جو کچھ کماتے اُس کے علاج معالجے پر لگ جاتا ایک روز محشر کا لختِ جگر دنیا سے رخصت ہوگیا غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے محشر نے اپنے دیرینہ دوست سے کچھ پیسے اُدھار لئے اور اپنے بیٹے کی لاش کو اُٹھا کر سہراب گوٹھ کے قبرستان پہنچ گئے ۔خود قبر کھودی اور اپنے لختِ جگر کو سپردِ خاک کیا۔آج اُس قبرستان پر ایک پیڑول پمپ بن چکا ہے ۔محشر جب بھی وہاں سے گزرتے تھے سر نیچے کئے آبدیدہ ہوجاتے تھے ۔گردشِ حالات نے محشر کو کبھی چین سے رہنے نہ دیا

ایسا دکھی حساس شاعر نے جب علی اکبرؑ کی جوانی کا نوحہ  لکھا ہوگا کلیجہ پھٹ گیا ہوگا

ہئے ہئے  علی اکبرؑ ہی محشر صاحب کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لئے کافی ہے- جب بھی کوئی جوان اس دنیا سے جاتا ہے تو بے اختیار محشر صاحب کا یہ نوحہ پڑھا جاتا ہے

کہتی تھی یہ ماں خوں بھری میت سے لپٹ کر

ہائے ہائے علی اکبر ہائے ہائے علی اکبر

ارماں تھا پہنائوں گی پوشاک شاہانی

افسوس کہ راس آئی نہ تُجھ کو یہ جوانی

کیسا تھا مقدر ہائے ہائے علی اکبر

کہتی تھی یہ ماں ۔۔۔

اتنا تو ذرا ٹھہرو تمہیں دولہا بنا لوں

بس اک جھلک سہرے کی صُغریٰ کو دکھا لوں

بے چین تھی خواہر ہائے ہائے علی اکبر

کہتی تھی یہ ماں ۔۔۔

اٹھارہ برس پال کے پروان چڑھایا

وہ گیسوئوں والا ہے میرا خون میں نہایا

یہ کیا ہوا دلبر ہائے ہائے علی اکبر

کہتی تھی یہ ماں ۔۔۔

ماں تیری جُدائی میں بھلاکیسے جیئے گی

مر جائے گی صُغریٰ جو خبر تیری سُنے گی

اب کیا کروں جی کر ہائے ہائے علی اکبر

کہتی تھی یہ ماں ۔۔۔

ٹھہرو کہ میں اٹھارویں منت تو بڑھا دوں

پھر لے کے بلائیں تُجھے جینے کی دُعا دوں

صدقے ہو یہ مادر ہائے ہائے علی اکبر

کہتی تھی یہ ماں ۔۔۔

پہلے تو اک آواز پہ اُٹھ جاتے تھے بیٹا

اب اتنی صدائوں پہ بھی پہلو نہیں بدلا

کیا ہو گیا دلبر ہائے ہائے علی اکبر

کہتی تھی یہ ماں ۔۔۔

تم ہچکیاں لے لے کہ جو دم توڑ رہے ہو

منہ ماں سے ہمیشہ کے لیئے موڑ رہے ہو

کیوں روٹھے ہو دلبر ہائے ہائے علی اکبر

کہتی تھی یہ ماں ۔۔۔

آئے جو ہمیں لوٹنے خیمے میں ستم گر

ماں دے گی صدائیں علی اکبر علی اکبر

چھن جائے گی چادر ہائے ہائے علی اکبر

کہتی تھی یہ ماں ۔۔۔

جب کوئی جواں لاش نظر آتی ہے محشر

اک یاد سوئے کرب و بلا جاتی ہے محشر

دل روتا ہے کہ کر ہائے ہائے علی اکبر

کہتی تھی یہ ماں ۔


انتہا پسندوں نے محشر کے گھر کو آگ لگا ئی محشر دربدر ہوئے، محشر کے داماد سید مختار حسین بخاری ایڈ وکیٹ کو شہید کر دیا گیا بیوہ بیٹی کا بار بھی اِن بوڑھے نحیف کاندھوں پر آگیا ۔غمِ حسینؑ میں ڈوبا یہ شاعر جن کے آفاقی کلام نے تاریخِ نوحہ خوانی میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا دکھوں اور غموں سے لبریز زندگی گزار کر اٹھائیس جون کو اس دُنیا کو چھوڑ کر اپنے مولاؑ کے حضور میں پہنچ گیا۔

محشر نے زندگی بھر ذکرِ اہلِ بیتؑ کو اور خصوصاً واقعہ کربلا پہ شاعری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا،

کربلا اور کربلا والوں سے ان کا عشق ان کے عقیدے کا جزو لاینفک تھا

محشر نے زندگی بھر ذکرِ اہلِ بیتؑ کو اور خصوصاً واقعہ کربلا پہ شاعری کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا تھا،آپ بیاض  ” محرابِ عقیدت” (حمد،نعت،منقبت، سلام، نوحہ جات)  اور  بزمِ فاطمہ (مجموعہ سلام و نوحہ جات) مطبوعہ تنظیمِ امامیہ کراچی

کرب و بلا نصیب سے جانا نصیب ہو

پھر لوٹ کر وہاں سے نہ آنا نصیب ہو

ایسا در حسین پہ سجدہ ہو آخری

پھر مجھ کو اپنا سر نہ اٹھانا نصیب ہو

پروردگار ٹھوکریں در در کی کب تلک

کب مستقل نجف میں ٹھکانہ نصیب ہو

جیسا ملا نصیب سے ام البنین کو

اب کیا کسی کو ایسا گھرانہ نصیب ہو

جی چاہتا ہے سامنے بیٹھے ہوں پنج تن

ان کی ثناء انہی کو سنانا نصیب ہو

آنکھوں کو جب بھی اشق بہانہ نصیب ہو

آل نبی کے غم کا بہانہ نصیب ہو

محشر یہ آرزھو ہے کہ بے غسل و بے کفن

کرب و بلا کی تہ میں سمانا نصیب ہو

سرزمینِ اودھ پہ روشن ہونے والا رثائی شاعری کا عظیم چراغ مصوّرِ غم جناب محشرؔ لکھنوی  اٹھائیس جون نو ذوالحجہ کو  کراچی میں گُل ہوگیا

اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ

(اعتراف: اس تحریر کی تیاری میں بیشتر مواد محترم آفتاب احمد کی تحریر “ اودھ کا چراغ ,مصورِغم اُستاد محشر لکھنوی” سے لیا گیا جو عالمی اخبار کی ویب سائٹ پر موجود ہے)

 

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں