مولانا محمد باقر دہلوی اعلی اللہ مقامہ
تحقیق و جستجو: سید نثار علی ترمذی
مولوی محمد باقر 1780ء میں دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی محمد اکبر علی دہلی کے روحانی رہنما تھے۔ خاندان مولوی محمد باقر میں تمام حضرات علم دین کے ماہر فقہ، حدیث، تاریخ اور تفسیر کے عالم تھے ،عروج لکھنؤ سے قبل یہ لوگ دہلی میں مرکزی حیثیت رکھتے تھے ،مولوی محمد باقر صاحب کے والد مولانا محمد اکبر نہایت پائے کے مدرس تھے ان کے شاگردوں میں مولانا رجب علی شاہ، ارسطو جاہ اور مولانا سید قاری جعفر علی جارچوی کے اسماء بہت مشہور ہیں۔ مولانا محمد اکبر کا اپنا ایک حوزہ علمیہ تھا جو دہلی میں ملک کے اہل تشیع حضرات کے دینی و علمی مسائل کو حل کرنے میں مصروف تھا ، کہا جاتا ہے کہ مولانا کے دینی مدرسہ میں کثیر تعداد میں طلاب علوم دین تحصیل علم میں مصروف رہا کرتے تھے۔ آپ مولانا محمد اکبر کے واحد بیٹے تھے۔ مولوی باقر کو اردو کے علاوہ عربی، فارسی اور انگریزی بھی آتی تھی، انہوں نے دینی اور دنیوی تعلیم دونوں حاصل کی تھیں۔
مولوی باقر نے تعلیم دہلی کالج، دہلی سے حاصل کی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد انہوں نے کچھ ملازمتیں اختیار کیں جیسا کہ دہلی کالج میں پڑھایا اور ریونیو ڈپارٹمنٹ میں تحصیل دار کے طور پر رہے مگر یہ ان کی آخری منزل نہیں تھی۔ 1836ء میں جب حکومت نے پریس ایکٹ میں ترمیم کرنے کے بعد اخبارات کی اشاعت کی اجازت دے دی تو انہوں نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا جو ان کا فن اور پہچان بن گیا۔ جنوری 1837ء میں مولوی محمد باقر نے اردو زبان کا ہفت روزہ ”دہلی اخبار“ شروع کیا۔ یہ اخبار 21 برسوں تک جاری رہا اس دوران میں اس کا دو مرتبہ نام تبدیل ہوا۔
1836ء کے آس پاس انہوں نے اپنا چھاپہ خانہ قائم کیا اور 1837ء میں اردو کے پہلے باقاعدہ اخبار ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کا آغاز کیا۔ اردو اخبار پہلا ایسا عوامی اخبار تھا جو دربار شاہی سے لیکر کمپنی کی خبروں تک اور قومی و بین الاقوامی خبریں بھی شائع کررہا تھا۔ ’’دہلی اردو اخبار‘‘ کے پہلے صفحہ پر ’’ حضوروالا‘‘ کے عنوان کے تحت مغل بادشاہ وشہزادوں کی خبروں کے ساتھ قلعۂ معلی کی نقل و حرکات اور ’’صاحب کلاں‘‘ عنوان کے تحت ایسٹ انڈیا کمپنی کی خبریں چھپتی تھیں۔ اخبار میں مذہبی مضامین کے ساتھ ادبی گوشہ بھی ہوتا تھا جس میں مومن، ذوق، غالب، بہادرشاہ ظفر، زینت محل اور دیگر شعرا کا کلام چھپتا ۔ وہ ہندوستان میں جدید تعلیم کے فروغ کی اہمیت پر بھی زور دیا کرتے تھے۔
اس اخبار کے ذریعہ ہمیں اس عہد کی سیاسی سرگرمیوں کے علاوہ ادبی اور علمی سرگرمیوں کا حال بھی معلوم ہوتا ہے۔ اخبار کی ماہانہ قیمت 2روپے اور زر سالانہ 20روپے تھا۔ اس کا پہلا نام ’اخبار دہلی‘تھا لیکن10مئی 1840(نمبر 168جلدنمبر3)سے اس کا نام ’دہلی اردو اخبار ‘ہو گیا۔نام کی تبدیلی کے ساتھ کاغذ قدرے سفیداور کتابت قدرے جلی اور کشادہ ہو گئی۔ 12جولائی 1857کو نمبر 28جلد 19سے اس کا نام بہادر شاہ ظفر کے حکم پر ’اخبار الظفر‘کر دیا گیا۔ اخبار کا نمبر اور جلد کا شمار وہی رہا جو ’دہلی اردو اخبار‘ کاتھا اور یہ کھل کر انگریزوں کی مخالفت اور بہادر شاہ ظفر کی حمایت کرنے لگا لیکن جنگ آزادی کی ناکامی، مغلیہ سلطنت کی تاراجی کے ساتھ اور انگریزوں کی جانب سے مولوی محمد باقر کو گولی مار کر شہید کر دینے کے بعد بالآخر اس اخبار کی زندگی بھی 16ستمبر1857کو ختم ہو گئی۔
1857ء میں انہوں نے فکری قیادت کا کردار ادا کرتے ہوئے اپنے اخبار کو آزادئ ہند کے لیے وقف کر دیا تھا۔ اخبار میں دہلی، میرٹھ، سہارنپور، انبالہ اور دیگر علاقوں کی سیاسی و ثقافتی خبریں شایع ہونے لگیں۔ انہوں نے سہارنپور، انبالہ، جھجر، کٹک، لاہور، ملتان، کلکتہ، بھوپال، میسور، جھانسی اور میرٹھ جیسے علاقوں کی خبریں اور حالات معلوم کر کے شائع کیے۔
معلوم ہوتا ہے کہ مولوی محمد باقر کا صحافتی نیٹ ورک اتنا وسیع تھاکہ دوردراز کے شہروں کی خبریں انہیں بروقت مل جاتی تھیں۔ ہوسکتا ہے وہ ان خبروں کے حصول کے لیے باغی فوجی دستوں اور انقلابی نظم کا سہارا لیتے ہوں۔ کیونکہ اس کے بغیر دور دراز کے علاقوں سے صحیح حالات کا علم ہونا ممکن نہیں تھا۔ تحریک آزادی کے عروج کے وقت جب دہلی شہر میں ہندوؤں کے خلاف جہاد کے اعلان پر مبنی اشتہار لگا ئے گئے جن میں انگریزوں کو اہل کتاب بھائی کہا گیا تھا، تو مولوی محمد باقر نے تحریک آزادی کی صفوں میں انتشار اور داخلی جنگ پیدا کرنے کی اس سازش کو پہچان لیا اور اپنے اخبار میں اس سازش کے خلاف لکھا ۔ آپ نے خصوصی طور پر آزادی کے لیے لڑنے والے فوجیوں کو اپنی صفوں میں اتحاد قائم رکھنے کی تلقین کی۔ انگریزوں کے ذرائع ابلاغ نے لکھنا شروع کیا کہ کارتوسوں پر سور کی چربی استعمال نہیں ہوئی ہے۔ اس کا مقصد مسلمانوں سپاہیوں کو یہ کارتوس اپنے ہم وطن ہندوؤں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے راضی کرنا تھا۔ مولوی محمد باقر نے اپنے اخبار میں لکھا کہ آج اگر ہندوؤں کی باری ہے تو کل ہماری باری ہو گی، انہوں نے مزید لکھا کہ ہندو تو مسلمانوں کے ساتھ شانہ بشانہ انگریزوں کے خلاف لڑ رہے ہیں۔ انہوں نے رئیسوں اور راجاؤں کے لیے لکھا کہ انھیں اپنے ہم وطن عوام کے خلاف انگریزوں کا ساتھ نہیں دینا چاہئیے اور یاد رکھنا چاہئیے کہ انگریز دھوکے باز ہیں۔ انہوں نے ہم وطنوں میں اتحاد پر زور دینے کے لیے شیخ سعدی کے مشہور اشعار کا بھی حوالہ دیا:
بنیآدم اعضای یکدیگرندکہ در آفرینش ز یک گوهرند
امام بارگاہ آزاد منزل
درگاہ پنجہ شریف دہلی کے قریب ہی ان کی تعمیر کردہ امام بارگاہ تھی جسے” آزاد منزل “کے نام سے جانا جاتاتھا۔ سید احمد بریلوی کی تحریک کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی فرقہ واریت کی وجہ سے دہلی کے شیعوں میں تبرا کا رواج ہونے لگا تو علامہ باقر دہلوی نے اس سلسلے کو روکنے کی کوشش کی اور اپنے امام بارگاہ میں تبرا پر پابندی لگائی۔ انہوں نے اکتوبر 1843ء میں مظہر الحق کے نام سے بھی ایک اردو اخبار نکالاتھا، جس میں شیعہ مسلک سے مخصوص مذہبی مضامین شائع ہوتے تھے جن میں غلامی کے خلاف شیعہ نظریہ کی وضاحت کی جاتی تھی۔
سقوط دہلی
معلومات، خبروں، قیادت اور نظم و ضبط کی جنگ میں انگریز جیت گئے۔ چار ماہ بعد دہلی پر انگریزوں کا دوبارہ قبضہ ہو گیا تو مولوی محمد باقر پر ایک انگریز کے قتل کا مقدمہ چلا کر گولی مار دی گئی، جس کو دہلی میں ہجوم نے پیٹ کر ہلاک کر ڈالا تھا یوں یہ تحریک آزادی ہند کے پہلے شہید صحافی بن گئے۔ ان کے بیٹے مولانا محمد حسین آزاد لاہور چلے گئے اور وہ بھی اردو کے مایہ ناز ادیب ہوئے۔ مولوی محمد باقر کو گولی مارنے والا شخص ولیم اسٹیفن رائیکس ہوڈسن تھا، جسے ایک سال بعد (1858ء میں) لکھنؤ میں واقع بیگم کوٹھی میں کسی نے گولی مار دی تھی۔
ماخذ: 1- اردو صحافت اور مولوی محمد باقر دہلوی، ایک تجزیاتی مطالعہ، از عادل فراز
2-مطلع الانوار از علامہ مرتضٰی حسین صدر الافاضل
3-تذکرہ بے بہاء از مولانا محمد حسین
4-تزکرہ علماء امامیہ از حسین عارف نقوی، مرحوم
5- مجمع محققین ہند