کلیاتِ مشیر کاظمی ۔۔۔ ایک فراموش یاد کا تازہ ہونا

تحریر: سید نثار علی ترمذی

نیک اور لائق اولاد اپنے بزرگوں کے ورثہ کو نہ صرف محفوظ رکھتی ہے بلکہ اسے آئیندہ نسلوں تک بھی پہنچاتی ہے ۔ یہی کام سید مشیر کاظمی مرحوم کی اولاد نے کیا جسس کے لیے وہ لائق صد تحسین ہیں اور دیگر کے لیے بھی نمونہ عمل ہیں۔

مشیر کاظمی صاحب کے کلیاتِ مجھے ملے تو یقین کریں کہ ان کے فرزند محترم ثقلین کاظمی کے لیے دل سے دعائیں نکلیں۔ خوبصورت کلام کو دیدہ زیب کتاب میں جمع کر کے شائع کیا اور ان کے چاہنے والوں تک پہنچایا بھی ۔

کلیاتِ میں آپ کے رثائی کلام ،قومی شاعری اور فلمی گیتوں کو جمع کیا گیا ہے نیز آپ کی پنجابی زبان کی شاعری کو بھی سامنے لائے۔ یہ آپ کے چاہنے والوں کے لیے اور بالخصوص اردو ادب کے لیے اثاثہ ہے۔ یہ ایک اچھی بات ہوئی ہے کہ اسے ملک کی بڑی لائیبریوں کو بھی بھجوایا گیا ہے۔ لائیبریری ہی وہ مقام ہے جہاں کتاب محفوظ رہتی ہے اور شائقین کے لیے دستیاب بھی۔

مشیر کاظمی مرحوم کے کلام کےساتھ حوالہ جات بھی درج ہوتے تو بہتر تھا۔ میرے خیال میں ثقلین بھائی کو اب اپنے والد صاحب پر لکھی گئی تحریروں اور تعزیت ناموں کو بھی جمع کرنا چاہیے۔

مشیر کاظمی مرحوم سے بچپن کی یادیں وابستہ ہیں۔ آپ ہمارے رشتے کے ماموں سید جعفر رضا ترمذی مرحوم کے دوست تھے۔ ان دنوں بزرگوں اور رشتے داروں سے ملنا ایک سماجی و مذہبی ضرورت تھی۔ وقت تھا، محبت تھی اور قریبی عزیزوں کی خیر خیریت دریافت کرنے کے لیے خود جا کر ملنا اور کچھ وقت گزارنا عام تھا ۔ مہمان بھی اپنا گھر سمجھ کر آتے تھے اور میزبان بھی جو میسر ہوتا سامنے رکھ دیتے تھے ۔ اسی وجہ اس وقت مہمان نعمت سمجھا جاتا تھا نہ کہ زحمت۔ ایک مرتبہ ہمارے ماموں سید جعفر رضا ترمذی ہمارے گھر تشریف لائے۔ کافی دیر باتیں کرتے رہے۔ والدہ مرحومہ نے مجھے چائے کا کپ دے کر کہا کہ ان کے ساتھ ایک دوست آئے ہیں اور وہ باہر بیٹھے ہیں، انہیں دے آؤ۔

گلی میں ایک رکشہ کھڑا ہے۔ سامنے گھر کے سامنے بنے ہوئے تھڑے پر مشیر کاظمی مرحوم اکڑوں بیٹھے ہیں ھاتھ میں سیگریٹ اور رکشہ ڈرائیور سے گپ شپ میں مشغول تھے۔ میں نے سلام کیا اور چائے کا کپ ان کے ھاتھ میں تھما دیا۔ آپ نے میرا نام پوچھا، تعلیم کے بارے میں دریافت کیا اور دعائیں دی۔ کئی دن میں اپنے چھوٹے بھائیوں کے سامنے اتراتا رہا اور دل ہی دل میں خوش ہوتا رہا کیوں کہ آپ ان دنوں اکثر مجالس میں اپنی شاعری کی وجہ سے مقبول تھے۔ ان کی منقبت ” حسین سب کا ” کے بیشتر بند مجھے زبانی یاد تھے۔ ان کی مشہور نظمیں، حسین خاموش کیوں کھڑا ہے، تلہ زینبیہ کی ڈیمانڈ تھی۔ ہر مجلس میں آپ سے انہی نظموں کو پڑھنے کا کہا جاتا۔ لمبا قد، پینٹ شرٹ میں ملبوس، مائیک کے سامنے کھڑے ہو کر لہک لہک کر تحت لفظ پڑھنے کا منفرد انداز اور بعض مقامات پر نثر میں تشریح اور مجمع کی داد غرضیکہ اس دور میں شاذ و نادر ہی کوئی اس انداز میں پڑھتا ہو۔

ماموں سید جعفر رضا ترمذی مرحوم ، اپنی رہائش گاہ ” سنت نگر ” لاہور میں سالانہ مجلس عزاء منعقد کرتے تھے۔ میرے بڑے بھائی سید غلام علی ترمذی مرحوم اس کے منتظمین میں سے ہوتے تھے۔ اس مجلس کی کئی باتیں طویل وقت گزرنے کے بعد بھی یاد ہیں۔ ایک نماز ظہرین سے قبل علامہ اظہر حسن زیدی مرحوم اور بعد از نماز علامہ محمد جعفر زیدی شہید کا خطاب ، دوسرے مشیر کاظمی مرحوم کی منقبت اور تیسرے بھنڈارہ دال نان پر رکھ کر بطور نیاز تقسیم کرنا۔

ان دنوں ہم لوگ ساندہ کلاں میں رہتے تھے۔ ظفر عباس زیدی مرحوم جو کہ مشہور ہومیوپیتھک ڈاکٹر شمیم عباس زیدی مرحوم کے والد تھے کی اہلیہ ہماری امی مرحومہ کی سہیلی تھیں۔ ان کا روزانہ کی بنیاد پر ہمارے گھر آنا جانا تھا ۔ وہ میری والدہ مرحومہ سیدہ صابرہ خاتون سے گھنٹوں باتیں کرتی رہتی تھیں۔

ایک دن انہوں نے لے میں ” ہو لعل میری پت رکھیو! بلا جھولے لالن ” سنایا۔ اس کے بعد وہ جب بھی آئیں ہم نے یہ قصیدہ ان سے ضرور سنا۔ اس وقت تو یہ علم نہیں تھا کہ یہ کس کا شاہ کار ہے اور کسی فلم کا حصہ بھی ہے ۔ کلیاتِ مشیر کاظمی سے معلوم ہوا کہ یہ کلام بھی مشیر کاظمی کا ہے۔

انہی دنوں میں یہ خبر بھی آ گئی کہ آپ اچانک اپنے چاہنے والوں کو روتا چھوڑ کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے آمین ثم آمین ۔

وقت گزرتا چلا گیا، مصروفیات اور سے اور ہوتی چلی گئیں مگر کتاب دوستی قائم رہی۔ ایک مرتبہ مال روڈ، نزد پرانی انارکلی، لاہور پر پرانی کتابوں کے اتوار بازار سے “حسین سب کا ” چند صفحات پر مشتمل کتابچہ مل گیا جو بعد ازاں ہماری ایک عزیزہ لے گیں۔ بس کبھی کبھار ” حسین سب کا ” ٹائٹل کسی سیمینار، مجلس یا گروپ کے عنوان سے نظر آتے یا اس کے ایک دو بند بر سر منبر پڑھے جاتے۔

پیام اسلام آباد کا خاص نعت نمبر کے سلسلے میں شعراء کرام کی تلاش جاری تھی کہ مشیر کاظمی مرحوم کے نام سے فیس بک پیج نظر سے گزرا۔ بہت خوشی ہوئی۔ رابطے پر معلوم ہوا کہ محترم ثقلین کاظمی صاحب ہیں جو مشیر کاظمی مرحوم کے فرزند ہیں۔ آج کل امریکہ میں ہوتے ہیں۔ بتایا کہ ان کے والد بزرگوار کی نعت تو ملی نہیں مگر ان کی اپنی کہی ہوئی نعت ہے۔ یہ نعت مل بھی گئی۔ ہم میسنجر سے واٹس ایپ پر آ گئے۔ بات سے بات نکلی تو مشیر کاظمی کے کلام کو جمع کرنے اور شائع کرنے تک آ نکلی۔ برادر ثقلین کاظمی نے بتایا کہ ان کے والد بزرگوار کا مذہبی کلام تو شائع ہو چکا ہے اب وہ کلیاتِ مرتب کر رہے۔ آپ نے ” کھلی جو چشم بصیرت ” کا ایک نسخہ مجھے بھجوا دیا جو لائیبریری کا حصہ ہے۔ اب کلیاتِ بھی عنایت فرمائے جس میں مذہبی کلام بھی موجود ہے ۔

آپ کا اصل نام سید مشیر حسین کاظمی ہے۔ 9 مئی 1915ء کو بنوڑ، ضلع انبالہ، ریاست پٹیالہ, ہندوستان میں پیدا ہوئے ۔( ہمارا گاؤں ” سید کھیڑی” ریاست پٹیالہ میں ہے) والد گرامی پولیس سروس میں تھے۔ میٹرک کے بعد ادیب فاضل کا امتحان پاس کر کے شعر و ادب کی طرف مائل ہوئے۔ تقسم ہند کے بعد ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور، ضلع مظفر گڑھ میں آن بسے، مگر یہاں ان کی طبیعت مائل نہ ہوئی، چنانچہ آپ علی پور سے لاہور آ گئے

1965ء کی پاک بھارت جنگ کے دوران مشیر کاظمی کا قومی نغمہ

اے راہ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو

تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

بے حد مقبول ہوا۔ آپ نے متعدد فلموں کے گیت بھی لکھے ۔

مشہور نظمیں

1-قائدِاعظم کی قبر پر

2-نقطہ

3- حسین سب کا

4-حسین خاموش کیوں کھڑا ہے

5- دس محرم

6- تصورات کربلا

7-نہیں ہوتی گناہ گاروں سے محبت ہو بھی سکتی ہے

8- ہم علی کو خدا نہیں کہتے

9- تلہ زینبیہ

10- سجدہ

11- زینب سر بازار ہے خاموش ہے دنیا

12- عشق علی

آپ 8-12-1975 کو دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے اور مومن پورا قبرستان میں آسودہ خاک خاک ہیں ۔

تحریر: سید نثار علی ترمذی

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں