وزارت حسین نقوی ایڈووکیٹ

تحریر: سید نثار علی ترمذی

وزارت حسین نقوی کا خاندان انڈیا سے ہجرت کر کے بھکر میں رہائش پذیر ہوا۔ حکومت پاکستان نے تحریک پاکستان کے کارکنوں اور شھداء کو اعزازات سے نوازا گیا جس میں بھکر سے آپ کو بھی نوازا گیا ۔

آپ بنیادی طور پر وکالت کے پیشے سے منسلک تھے۔ اس پیشے میں آپ ایک ممتاز مقام رکھتے تھے۔قانونی معاملات کے علاوہ وکلاء سیاست میں بھی کافی اثر رکھتے تھے۔ یہ کہا جا سکتا یے کہ اپنے علاقہ میں اپنی مثال آپ تھے۔

دین داری اور دین کے کاموں میں ہمیشہ پیش رو رہے۔ بھکر میں شاندار مرکز ” قصر زینب ” کے نام سے تعمیر کرایا جو علاقہ کی مذہبی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔ اس کے معاملات کی نگرانی آخر تک کرتے رہے۔ اس میں مسجد امام بارگاہ اور ضریع مبارک اور تنظیموں کے دفاتر ہیں۔ اپنے علاقے کی مذہبی سرگرمیوں اور سیاست میں کام کرتے رہے۔

1979ء میں ضیاء الحق نے اپنی من پسند طرز کے فقہی قوانین کے نفاذ کا اعلان کردیا۔ یہ وہ دور تھا کہ ملک میں سناٹے کا سماں تھا۔ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں خاموشی کی پالیسی پر گامزن تھیں۔ ایسے میں وزارت حسین نقوی صاحب نے بھکر میں ملک گیر مرکزی شیعہ کنونشن کا اعلان کردیا۔ اس سے قبل علماء کرام اور زعماء قوم کو اعتماد میں لیا۔ اس کے لیے ملک بھر کا دورہ کیا۔ یہ ایک تاریخی اور ملت کے لیے اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس کنونشن کے انتظامات آپ کی مہارت کا ثبوت ہے۔ جو اس کنونشن میں شریک ہوا وہ انتظامات کی تعریف کئے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کنونشن نے آپ کو ملک بھر میں متعارف کروا دیا۔ اس کنونشن میں طے پایا کہ ملت کےلیے ایک پلیٹ فارم ” تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کی داغ بیل ڈالی گئی۔ ملت کی قیادت کے لیے علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کو چنا گیا۔ اس عمل نے ملت کو ایک تسبیح میں پرو دیا۔ مخالفت کی کمزور سی آواز دب کر رہ گئی۔ 1980ء میں اسلام آباد کنونشن منعقد ہوا جو ملت کے حقوق کے حصول کا مرحلہ قرار پایا۔  مفتی صاحب اللہ کو پیارے ہوگئے۔ مولانا صفدر حسین نجفی مرحوم کیوں مرکزی سینئر نائب صدر تھے وہ قائم مقام صدر بن گئے۔ لیکن انہوں نے اپنا ایجنڈا طے کر لیا تھا اور اس پر عمل درآمد کرنے کےلیے کوشاں تھے۔ ان نے خود بتایا کہ علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب اور وزارت حسین نقوی صاحب ایک ہفتہ ان کے پاس رہے اور انہیں قائل کیا کہ ملی پلیٹ فارم کا احیاء ہونا چاہیے۔ ان سے تائید لے کر ملک بھر کا دورہ کیا۔ دستور کے مطابق ہر ضلع میں نمائندے مقرر کیے۔ ان کا اجلاس بھکر میں دس گیارہ فروری 1984ء  منعقد کیا جس میں علامہ عارف الحسینی شہید کا بطور قائد ملت چناو عمل میں آیا۔ شہید نے آپ کو مرکزی جنرل سیکرٹری مقرر کیا۔ چھ جولائی 1985ء کو جب سانحہ کوئٹہ پیش آیا تو آپ بھکر سے براستہ سڑک کوئٹہ پہنچے تو آرمی آ چکی تھی ۔ جیسے ہی آپ شہر میں داخل ہوئے گرفتار ہو گے۔ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔جس کا آپ کی صحت پر برے اثرات پڑے۔ شہید کے دور میں مرکزی جنرل سیکرٹری ہونے کے باوجود پھر اس طرح کی فعالیت نہ کر سکے۔ مرکزی اجلاسوں میں شرکت کرتے۔ بعض اوقات غیر حاضر رہتے۔شہید کے دور میں2- دیو سماج ،لاہور کا دفتر فعال تھا۔ ان کی کمی  پوری ہوتی رہتی۔ شہید علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے بعد سپریم کونسل اور مرکزی کونسل  کے اجلاس کنڈکٹ کیے جس نے نئے سربراہ کا انتخاب کیا۔ علامہ ساجد نقوی صاحب نے جب 1988ء میں الیکشن میں حصہ لیا تو اپ نے اس کی حمایت نہ کی بلکہ پیپلز پارٹی کو مقامی سطح پر سپورٹ کیا۔ الیکشن کے بعد جب مرکزی دفتر میں میری ملاقات ہوئی تو آپ نے نے دل کھول کر الیکشن پر تنقید کی۔ آپ سپریم کونسل کے رکن رہے۔ نواز شریف کی حکومت جب ختم ہوئی اور نگران حکومت میں منیر حسین گیلانی صاحب مرکز میں وزیر ہو گۓ اس پر آپ سخت نالاں تھے اور گلہ کرتے تھے کہ قربانیاں میں نے دیں اور جب اعزاز دینے کی باری ہوئی تو کسی اور کو نواز دیا۔  اس موقع پر آپ نے اپنی خدمات کی تفصیل پیش کی جسے آگاہی کے لیے یہاں درج کیا جا رہا ہے ۔” (یہ خط سید منیر حسین گیلانی صاحب کی خود نوشت ، سیاسی بیداری جلد اول میں موجود ہے )

1-جنرل ضیا کے سفاکانہ دور میں جب ملک پر مارشل لا کی تاریکی چھائی ہوئی تھی ملت جعفریہ کے حقوق کو غصب کیا جا رہا تھا ایسے ہی پرخطر پر آشوب دور میں اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بھکر کنونشن کے توسل سے ملت کو بیدار کیا۔

2- 12 -13 اپریل 1979ء علماء کے ایک موثر طبقہ کی زبردست مخالفت کے باوجود دن رات محنت کر کے ملت جعفریہ کو ایک قائد اور ایک پلیٹ فارم مہیا کیا جس کی قیادت کا شرف آج قائد محترم علامہ سید علی نقوی کو حاصل ہے۔

3- 26, اپریل 1979ء اس وقت کے وزیر داخلہ محمود ہارون سے جرآت مندانہ گفتگو شنید کر کے مجبور کیا کہ جنرل ضیاء الحق تحریک کے اکابرین سے ملت کے مسائل پر گفتگو کرے.

4- 5, مئی 1979ء ایوان صدر اور چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر ہاؤس میں 19، اکابرین ملت کے سامنے جنرل ضیا سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنے موقف کو بلا خوف و خطر جرآت مندانہ انداز میں پیش کر کے اس حدیث کو سچ ثابت  کر دکھایا کہ” جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے سے مت ڈرو” بات اتنی سخت تھی کہ چیف مارشل ایڈمنسٹریٹر کا منہ سرخ اور تیور بدل گئے اور محفل پر سکوت طاری ہو گیا جس کے گواہان ابھی زندہ ہیں۔

5- سال 1979 سے سال 1982 تک قائد تحریک علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کے شانہ بشانہ ملکی دورہ کر کے” اپنے خرچ پر “ملت کے تشخص کو بحال اور ملت جعفریہ کو خواب غفلت سے چونکانے کا کام انجام دیا اپنی زندگی اور مال کی کوئی پرواہ نہیں کی۔

6- سال 1981 میں دستور کمیٹی کا کنوینر مقرر کیا گیا تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کو پہلا دستور دینے کا شرف حاصل کیا۔

7- علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی وفات کے بعد تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کو ختم کرنے کی حکومتی اور ملت کے ابن الوقت افراد کی سازش کا تنہا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور سازش کو ناکام بنایا۔

ورنہ تحریک قائد کی وفات کے بعد ختم ہو جاتی اور جماعت کی امانت موجودہ قائد تک پہنچنے سے پہلے ہی دم توڑ جاتی۔

8- علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم کی چہلم کے موقع پر حکومت اور ملت کے مفاد پرست ٹو لے نے اقتدار کی جھلک دکھاتے ہوئے درخواست کی کہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ میں حکومت یعنی ضیاء  کی لابی قائم کی جائے لیکن راقم الحروف نے سازش کو پائے استحقار سے ٹھکرا دیا اور ملت فروشی کے گھناؤنے  جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔

9- علامہ مفتی جعفر حسین کی وفات کے بعد ایک گہری سازش کے ذریعے تحریک کو دفن کرنے کی خاطر ملت جعفریہ پر جمود طاری کر دیا گیا جس کو راقم الحروف سے قوم کے اکابرین کے نام ایک درد مندانہ اپیل سے توڑا۔ اس کے نتیجے میں 18 نومبر 1983ء سرگودہا کے مقام پر انتخاب قائد کے لیے مجلس عاملہ کا انعقاد ہوا۔

10- 18 نومبر 1983ء کو مرکزی کونسل نہ ہونے کی وجہ سے انتخاب نہ ہوا۔ سربراہ کمیٹی تشکیل دی گئی اس کے ذمے یہ فرض تھا کہ ملک گیر دورہ کر کے مرکزی کونسل قائم کرے لیکن یہ کام کون کرتا۔ اراکین کے تحریری انکار وصول ہوئے۔ تحریک ختم ہوتی نظر آئی۔کمر ہمت باندھی اور اپنے اخراجات پر مرد مجاہد علامہ محمد حسین ڈھکو کو ساتھ لے کر ملک گیر دورہ کیا اور مرکزی کونسل قائم کی۔

11- 19 جنوری ،1984ء مرکزی کونسل قائم کرنے کے بعد راقم الحروف جامعہ المنتظر پہنچا، وہاں علماء موجود تھے۔ تحریک کے عہدے داران سینیئر نائب صدر اور جنرل سیکرٹری بھی موجود تھے۔ گزارش کی کہ انتخاب قائد کرائیے۔ خدا شاید سب نے انکار کر دیا۔ ایک صاحب نے یہاں تک کہ دیا کہ اگر آپ کی خواہش ہے تو آپ خود کرا لیں۔ ان حالات نے تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے تابوت  میں اخری کیل ٹھکتی نظر آنے لگی۔ ہمت نہیں ہاری۔ راقم الحروف نے مال روڈ کے ہوٹل میں پرہجوم پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ انتخاب 10 فروری 1984ء کو بھکر میں ہوگا۔ فرد واحد اور انتخاب کا مرحلہ، نہ تحریک کا کوئی فنڈ، نہ ساتھی اکیلے کندھوں پر یہ عظیم بوجھ لیکن فلاح ملت کی خاطر سب کچھ برداشت کیا اور 10 فروری 1984ء اپنے ذاتی خرچ پر یہ عظیم کارنامہ انجام دے کر تحریک کو زندگی بخش دی۔

12- انتخاب کے اعلان کے بعد دھمکی آمیز خط آنے شروع ہوئے اگر انتخاب کرایا تو یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ یہ دھمکی آمیز خطوط راہ حق سے نہ ہٹا سکے اور خدا کے فضل و کرم سے انتخاب کرائے اور ڈٹ کر کرائے۔

13- 10 فروری 1984ء فرد واحد کی کوشش سے ملت جعفریہ کا عظیم اور تاریخی انتخاب، کسی کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھا کہ علامہ شہید رح کو قائد بنایا جائے گا۔ خود قائد شہید کو بھی علم نہیں تھا کہ بھکر ایک عالم دین کی حیثیت میں آئیں گے اور یہاں سے قائد ملت جعفریہ بن کر جائیں گے۔ فخر ہے کہ راقم الحروف کی ذاتی فکر کے نتیجہ میں قائد شہید کا نام میں نے قیادت کے لیے پیش کیا۔ یہ تاریخی کارنامہ ہمیشہ میرے لیے باعث صد افتخار رہے گا اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ را قم الحروف نے قوم کو فرزند خمینی  دیا۔

14- جنرل ضیاء الحق نے دو مرتبہ اقتدار کی پیشکش کر کے خریدنے کی کوشش کی۔ ایک مرتبہ خطیب شام غریباں علامہ نصیر اجتہادی کو ایک مشن پر بھکر بھیجا گیا۔ موصوف نے بند کمرے میں  راقم الحروف سےملاقات کی۔ جنرل ضیا کا پیغام پہنچایا لیکن موصوف کو کیا جواب دیا ملاحظہ کیجئے ” شاید محترم علامہ صاحب آپ وزارتِ حسین نقوی کو نہیں سمجھے”

 اقتدار کی پیشکش کو ٹھوکر مار کر ذاتی فائدے کے لیے ملت فروشی کا مجرم نہ بنا جس کو میرا خدا جانتا ہے۔  اج بھی اس بات پر میرا سر فخر سے بلند ہے۔

15- اسیر کوئیٹہ کی صورت میں 17 یوم دن رات تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ظالمانہ انداز میں ٹارچر کیا گیا۔ کتے کے برتن میں پانی پلایا گیا۔ گم چوٹوں کے ذریعے پھیپڑے اور آنتوں میں زخم ہو گئے۔ تین سال تک منہ سے خون تھوکتا رہا۔ کون سا ظلم تھا جو ملت کی خاطر راقم الحروف نے برداشت نہیں کیا۔ تحریک کے موقف سے ایک انچ پیچھے نہیں ہٹا۔ حکومت کی خواہش کے مطابق یہ لکھ کرنہ دیا کہ( چھ جولائی کو راقم الحروف  نے علمدار روڈ پر تقریر کی کہ خمینی صاحب کا حکم ہے کہ حکومت سے ٹکراؤ اور اس کو ختم کر دو) جب کہ یہ سرا سر غلط تھا۔ لیکن ناقابل برداشت دشدد کے بعد بھی ملت فروشی کا ارتکاب نہ کیا۔

16- سیکرٹری جنرل کے عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد مختلف جماعتوں نے عہدوں کا لالچ دے کر تحریک کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی لیکن راقم الحروف  نے جماعت سے غداری نہیں کی۔  ابن الوقت نہیں بنا۔ جماعت کا وفادار رہا اور دو سالوں میں جماعت نے جو خدمت سپرد کی اس کو باطریق احسن  انجام دینے کی کوشش کی۔

17- راقم الحروف  نے جماعت یا اپنے عہدے سے کبھی ذاتی مفاد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ کبھی بلیک میلنگ نہیں کی۔ کبھی جماعت میں گروپ بنانے یا گروپ بندی کی کوشش نہیں کی اگر جماعت کے کسی فرد نے مخالفت کی تو اپنی قربانی پیش کر دی۔

18- قائد مرحوم علامہ مفتی جعفر حسین کے دور میں بطور کنوینر دستور کمیٹی سال 1980ء میں آئین کے اغراض و مقاصد  میں مخالفت کے باوجود درج ذیل شق شامل کی۔” تمام مرکزی، صوبائی ،بلدیاتی قانون ساز اداروں میں فقہ جعفریہ اور  شیعہ نقط نظر کی ترجمانی  کے لیے مناسب نمائندگی اور آئین میں اس  شق کے ذریعے ملت کی توجہ سیاسی منصوبہ حقوق کی طرف مبذول کرائی اور ملت کو مستقبل میں سیاسی منصوبہ بندی کا راستہ دکھایا۔

19- تنظیمی سال 1985ء، بمقام خیرپور میرس غیر جماعتی انتخاب کے بائیکاٹ قرداد منظور کرا کر قوم کے سیاسی تدبر کی بالادستی قائم کی۔

20- ایم آر ڈی اجلاس میں نمائندگی کرتے ہوئے ملت جعفریہ کے سیاسی اور مذہبی حقوق ایم آر ڈی سے تسلیم کرانے کے بعد تحریری ضمانت حاصل کی۔

21- ضیاء ریفرنڈم  کے بائیکاٹ کے فیصلہ میں کابینہ کے اجلاس میں موثر اور بھرپور کردار ادا کیا جس کے زریعے قوم میں سیاسی شعور اور بیداری پیدا ہوئی۔

22- کل جماعتی کانفرنس اور دیگر سیاسی کانفرنسوں  میں تحریک کی موثر نمائندگی کی۔

23- 1985ء میں جماعت کے سامنے سب سے پہلے یہ نظریہ پیش کیا کہ بغیر اتحاد اور اتحاد بھی پیپلز پارٹی سے، الیکشن میں حصہ نہ لیا جائے۔ خدا کا شکر ہے اس نظریے کی مخالفین نے 1990ء میں من وعن یہی نظریہ اپنایا، اتحاد کیا اور پیپلز پارٹی سے۔

   چودہ سال بعد ایک موقع عارضی اعزاز جماعت کے کسی کارکن کو عبوری حکومت میں شامل کرنے کا حاصل ہوا۔ عدل اسلامی کیا تقاضا کرتا ہے کہ یہی کہ کارکن کی جماعت کے لیے خدمات کو تولا جائے۔ اس اہل کارکن کو ان کے دامن میں یہ وزن ہو اس کو یہ عارضی اعزاز دے کر عدل کے تقاضے پورے کیے جائیں لیکن مندرجہ بالا میرٹ کے باوجود اس عارضی اعزاز سے راقم الحروف  کو محروم کر دیا گیا۔  یہ ایک سوالیہ نشان ہے اہل فکر کی لیے بھی اور جماعت کی مخلص کارکنوں کے لیے بھی۔”

         فعالیت اور عدم فعالیت کا نشیب و فراز ان کی تنظیمی زندگی کا حصہ رہا۔وہ روائتی تشیع اور انداز کے نمائندے تھے۔ قومیات سے  وابستگی انہوں نے کسی نہ کسی طرح برقرار رکھی۔ وہ تشیع کی چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ انہوں نے ثابت کیا کہ دور دراز علاقے میں رہنے کے باوجود مرکزی کردار ادا کیا جا سکتا ہے۔ وہ رواداری کا مرقع تھے۔ انہوں نے پوری زندگی بامقصد گزاری۔ ان کے اس دنیا سے جانے سے ایک دور کا خاتمہ ہوگیا۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے۔آمین۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں