زیارات ِ روضہ ہائے مبارک معصومین علیہم السلام اور شبیہات
تحریر: جنابِ علیم رحمانی
اس وقت الحمد للہ عراق ، ایران اور شام میں آئمہ اطہار علیہم السلام اور ان کی اولاد کے روضہ ہائے مبارک زائرین اور ان کے چاہنے والوں کے لئے کھلے ہوئے ہیں ، وہاں جانے ، سکون سے زیارات اور عبادات کی انجام دہی پہ نہ صرف کوئی پابندی نہیں بلکہ یہ عظیم الشان مقامات جدید ترین سہولیات سے آراستہ و پیراستہ ہیں اور وہاں کے خدام اور عوام بشمول حکومت کے زائرین کی خدمت کے لئے چشم براہ رہتے ہیں ۔
چونکہ ان عتبات عالیات کی طرف سفر اور ان کی زیارات شروع سے ہی ائمہ اہلبیت علیہم السلام کی تأسی میں ان کے پیروؤں کے لئے روحانی ومعنوی طور پہ نہایت پرکشش اور بامعنی رہی ہیں اس لئے بنوامیہ اور بنو عباس کے مظالم اور مشکلات کے باوجود ان تمام مشاہد بالخصوص کربلائے معلی کی زیارت کے لئے جانے کاسلسلہ کم وبیش جاری رہا۔
مگر جب تشیع کو ہندوستان جیسے دور و دراز علاقوں میں فروغ حاصل ہوا اور ہزاروں افراد مکتب تشیع سے وابستہ ہوتے گئے تو اہلبیت اطہار علیہم السلام کی محبت بھی ان کے دلوں میں راسخ ہوتی چلی گئی اور ان کے مشاہد کی زیارت کی تمنا بھی دلوں میں کروٹیں لینے لگیں۔
چونکہ لوگ بے پناہ سفری مشکلات کی وجہ سے آسانی کے ساتھ ان مقامات کی زیارتوں کو نہ جاسکتے تھے تو کچھ لوگوں نے اپنی دلی حسرت پوری کرنے کے لئے ان روضوں کے ماڈل بنائے تاکہ ان کو دیکھ کر اصل کی زیارت کی تمنا پوری ہو،مگر شدہ شدہ ان ماڈلز کے لئے ایک عربی لفظ شبہیات بطور تقدس استعمال ہونے لگا، اس کے بعد تو سلسلہ چل نکلا اورائمہ اہلبیت علیہم السلام کے روضہ ہائے مبارک سمیت ان کی زیر استعمال رہی ہر چیز کی شبیہ بننے لگی اور ان پہ تقدس کاوہ ہالہ چڑھادیا گیا کہ آج ان میں سے چند ایک شبہیات بعض علاقوں میں شیعوں کی پہچان بن گئی ہیں اور ان پہ بات کرنے یا ان کی حجم اور رنگ پہ گفتگو کرنا تشیع پہ اعتراض کے مترادف سمجھا جاتا ہے اور ذاکرین کے ساتھ بعض قم پلٹ اور نجف الٹ علماء ان کی حمایت میں یوں کمربستہ کھڑے ہیں کہ ان کی دال روٹی ہی ان کے پرچار اور تقدس پہ دلائل تراشنے سے چلتی ہے ۔
اگر کوئی ان کے تقدس یا مکتب تشیع میں ان کی دینی حیثیت اور تاریخ پہ سوال اٹھائے تو یہ سارے مل کر اس کے خلاف طوفان بدتمیزی برپا کرتے ہیں ، دینی خدمت سمجھ کر اس کے خلاف سوشل میڈیا پہ مہم چلاتے ہیں بلکہ کبھی کبھار تواس کو عملا سبق سکھانے کی دھمکی بھی دی جاتی ہے۔
انہوں نے ایسا ماحول بنادیا ہے کہ ہر ایرا غیرا برسر منبر عقیدہ توحید پہ سوال اٹھا سکتا ہے ، خدا کے اختیارات کو چیلنج کرسکتا ہے ، فرشتوں کو گنہگار بھی کہہ سکتا ہے ، جبرئیل کی ڈیوٹی تبدیل کراسکتا ہے،مرجعیت کو مذھبی عقائد پہ حملہ قرار دے سکتا ہے، گالم گلوچ کرسکتا ہے ،سب کچھ کرسکتا ہے اور کسی مدافع رسومات کے لمبے کانوں پہ جوں بھی نہیں رینگتی لیکن اگر کسی نے ان کے اپنے بنائے ہوئے رسومات اور شبیہات پہ ذرا سی بھی بات کی تو قیامت آجائے گی۔
آج اللہ کے فضل و کرم سے عتبات عالیات کی زیارت آسانی سے کی جاسکتی ہے اور ایران میں امام علی رضا علیہ السلام کے روضہ اقدس کی زیارت تو چند ہزار روپوں میں ہی ہوسکتی ہےایسے میں اہم ترین ضروریات اور مصرف کو چھوڑکر محض چندوں اور ڈبوں کی خاطر یہاں پہ ان کے روضے تعمیر کرنا اور پہلے سے بنی ان شبیہات میں توسیع اورمدارس ودیگر تعلیمی اداروں کی جگہ بین الحرمین بنادینا کسی طور بھی مناسب نہیں۔
یہ تعمیرات اگرچہ حرام تو نہیں مگر آئمہ اھلبیت علیہم السلام کی ترجیحات ہرگز نہیں ہوسکتیں ۔