پروفیسر خادم حسین لغاری۔۔۔ شخصیت و افکار

(تحریر: ڈاکٹرسیدمشتاق مہدی مظفرگڑھ)

🌨️موسم تو جاڑے کا تھا ہی مگر اس رات کڑاکے کی سردی پڑی۔ ہم بذریعہ بس سفر کر رہے تھے۔ پرانی بس اور ناہموار سڑک۔ عمر رسیدگی کے باعث گاڑی کے تمام جوڑ ڈھیلے پڑ چکے تھے لیکن اس نے ہماری بھی چولیں ہلا کر رکھ دیں۔ انجن کی آواز کے ساتھ ساتھ بہت سی دیگر مکروہ اور ناگوار آوازیں بیزاری میں اضافے کا سبب بنتی رہیں۔ کہولت نے بس سے زندگی کے تمام رنگ چھین لئے تھے۔ شکست وریخت کے سبب  کھڑکیوں کے اکثر شیشے غائب تھے۔ اب جو یخ بستہ ہوا آتی تو رگوں میں خون جمنے لگتا۔ بہرحال خدا خدا کر کے بس تونسہ پہنچی۔ نماز فجر کا وقت ہو چکا تھا۔ اترتے ہی مسجد کا رخ کیا۔ یہ ایک چھوٹی سی کچی مسجد تھی، جہاں مٹکوں میں وضو کے لیے پانی جمع کیا گیا تھا۔ رات بھر کی یخ بستگی کے باعث پانی انتہائی ٹھنڈا تھا۔

💧وضو کرنے بیٹھے تو امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کا یہ فرمان یاد آیا کہ مجھے جاڑے کی نمازیں، گرمی کے روزے اور دو تلواروں کا جہاد بہت پسند ہے۔

♦️سوچا یہ بول انہی ہستیوں کو زیبا ہے۔ ہم کیا اور ہماری اوقات کیا؟ نماز کے بعد متوسط قد وقامت مگر قدرے بھاری جسم کا جواں میری طرف بڑھا۔ میں نے مصافحہ کے لیے دایاں ہاتھ آگے بڑھایا تو انہوں نے مجھے سینے سے لگا لیا۔ گلے کیا ملے، دل سے دل مل گیا اور روح تک اپنائیت کا احساس اتر گیا۔ خادم حسین لغاری نام بتایا، گفتگو شروع ہوئی تو دل نے گواہی دی کہ ان کا نام واقعا خادم حسین ہی ہونا چاہیے۔ گفتگو اختتام کو پہنچی تو میں اس یقین کے ساتھ اٹھا کہ اگر یہ شخص 61ھ میں ہوتا تو شہید ہو چکا ہوتا کیونکہ ظالموں کے ساتھ زندہ رہنا اسے ہرگز گوارہ نہ تھا۔

🔹یہ 1983ء کی بات ہے۔ میں آئی۔ ایس۔او کے حوالے سے تونسہ گیا تھا۔ پروفیسر ان دنوں گورنمنٹ ڈگری کالج تونسہ میں تعینات تھے۔ ان کا سبجیکٹ اکنامکس تھا۔ اس ملاقات میں میں نے اندازہ کر لیا کہ آپ اسلام کا گہرا تفہیمی مطالعہ رکھتے ہیں، پھر انقلاب اسلامی ایران نے ان تفہیمات کو عملی تعبیریں عطا کر دی ہیں۔ ان کے سبجیکٹ اکنامکس نے انہیں فکری و عملی طور پر اصحاب رسول اللہ رضی اللہ عنہم میں سے حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بہت قریب کر دیا تھا۔

🔰 1984/85ء کا دورانیہ تھا اور اس عرصہ میں میں آئی۔ ایس۔ او ملتان کا ڈویژنل صدرِ تھا۔ ڈیرہ غازی خان آئی۔ ایس۔ او کی انتظامی تقسیم کے مطابق ان دنوں الگ ڈویژن نہیں بنا تھا بلکہ ملتان ڈویژن کا ہی حصّہ ہوا کرتا تھا۔ ہم نے ملتان سے پہلی بار ” قیام ”  کے نام سے ایک تنظیمی میگزین کا اجراء کیا۔ اس کے پہلے شمارے میں پروفیسر خادم حسین لغاری نے ایک مضمون حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں ” تاریخ سے ایک کردار” کے عنوان سے لکھا۔ اس میں آپ نے جناب ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی سیرت کے چند پہلوؤں کو اجاگر کیا۔ آپ نے لکھا:

📘”حضرت ابوذر غفاری کی زندگی کا بعد وفات رسول مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ دو چیزوں پر آپ کی توجہ مرکوز رہی۔

1:ایک اہلبیت رسول کی حمایت و محبت کی تبلیغ

2:دوسری مال و دولت جمع کرنے کے خلاف تبلیغی جد و جہد”۔                          (قیام۔۔ 1984/85ء)

📃اسی مضمون میں آگے چل کر لکھتے ہیں:

🔹حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ زکوٰۃ ادا کرنے کو کافی نہیں سمجھتے بلکہ وہ قرآن کے اس حکم اقتصادی کے علمبردار ہیں

” لوگ تم سے سوال کرتے ہیں کہ راہ خدا میں کیا خرچ کریں تو (اے رسول!) کہہ دو جو تمہاری ضرورت سے بچے وہ سارے کا سارا۔

💰معاشیاتِ کی جدید اصطلاح میں ابوذر منصفانہ تقسیم دولت کے علمبردار تھے۔ حضرت ابوذر دین محمد پر سختی سے کاربند رہے اور اس میں کسی تبدیلی کے سخت خلاف تھے۔ البتہ دین اسلام کی تشریح ابوذری میں عادلانہ تقسیم دولت اسلام کی روح ہے۔”۔       (قیام۔۔ 1984/85ء)

🏵️ پروفیسر صاحب فکر میں، مزاج میں، عمل میں اور رویوں میں ابوذری تھے۔

🔹 اسی لیے تو اچھے خاصے زمیندار ہونے کے باوجود ساری زندگی ایک پرانی پھٹیچر قسم کی موٹر سائیکل پر قناعت کیے رہے۔ قوی الجثہ ہونے کے باوجود عام ویگنوں میں سفر کرتے، یہ بات ان کے فکر و عمل میں یکسانیت کی دلیل ہے۔ پروفیسر صاحب وحدت امت کے پرجوش حامی اور ولولہ انگیز داعی تھے اور فرقہ واریت کو استعماری سازش گردانتے تھے۔ اپنی اس تعمیری سوچ کا اظہار انہوں نے 1985/86ء میں چھپنے والے رسالہ “قیام ” میں کیا۔ ان کے مضمون کا عنوان تھا

           ” پاکستان میں نفاذ اسلام میں رکاوٹیں “

📃اس آرٹیکل کے اقتباسات دیکھئے ۔

  ” تخلیق پاکستان کا مقصد ایک ایسا عادلانہ معاشرہ قائم کرنا تھا جو قرآنی قوانین پر مبنی ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔

🇵🇰 نظریہ پاکستان کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مسلمانوں کی باہمی فرقہ واریت رہی ہے۔ انگریزوں نے اپنے دور حکومت میں اپنی حکومت کے استحکام کی خاطر مسلمانوں میں تفریق کو فروغ دیا۔ قیام پاکستان کے بعد بھی مسلمان اس استعماری سازش سے سنبھلنے کی بجائے لاشعوری طور پر اس فرقہ واریت کے عفریت کا شکار رہے۔ اس لیے اسلام کے لیے اسلام پسند قوتیں مجتمع ہو کر دباؤ نہ ڈال سکیں اگر ان اسلام پسند گروپوں نے سیاست میں حصہ لیا بھی تو علیحدہ علیحدہ اسلامی جماعتیں بنا ڈالیں۔”

                                     (قیام۔۔ 1985/86ء)

✍🏻پھر لکھتے ہیں:

” اب بھی اسلامی انقلاب برپا کرنا ہے تو اسلامی بھائی چارہ اور اتحاد اسلامی ضروری ہے۔ آج شیعہ، سنی، وہابی، بریلوی، اہل حدیث اور دیگر اسلامی طبقوں میں اتحاد پیدا کرنے کے لئے تحریکی انداز میں کام کرنے کی ضرورت ہے”.                            (قیام۔۔ 1985/86ء)

◀️ ذرا آگے چل کر پاکستانی حکمرانوں کے طرز فکر و عمل پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

“اسلامی فکر، معنوی عدل اور اجتہادی شعور سے عاری حکمرانوں سے توقع عبث تھی کہ وہ عادلانہ اسلامی معاشرہ تشکیل دیں گے۔ ایسے حکمرانوں کے پیش نظر صرف مغربی طرز پر پیداوار میں اضافہ کے ذریعے ملک کو مادی طور پر خوشحال بنانا تھا اور یہی ان کے نزدیک فلاحی ریاست کا تصور تھا۔ اسلام کے اخلاقی اصول اور عادلانہ قوانین ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتے تھے۔ مغربی لادینی طرز فکر کا حامل یہ گروہ نظریہ پاکستان کے حوالے سے پاکستان کے لیے ایک المیہ ثابت ہوا۔”                 (قیام۔۔ 1985/86ء)

📒 نفاذ اسلام کے حوالے سے اپنی کتاب رہنمائے مبلغین جلد دوم میں وہ ایک عقلی اور منطقی دلیل سامنے لاتے ہیں اور کہتے ہیں

“عقل کی رو سے بھی کسی نظام کو چلانے کے لئے ضروری ہے کہ حکومت ایسے شخص کے پاس ہو جو دو صفات رکھتا ہو:

:1 اس تحریک یا نظام کے تعلیمات کا سب سے زیادہ علم رکھتا ہو

  2:خود بھی اس فلسفہ یا نظام پر عمل پیرا ہو۔

🔰 اس فلسفہ کی رو سے اسلامی معاشرے پر حق حکومت فقہیہ عادل کو حاصل ہے۔”    (رہنمائے مبلغین جلد دوم)

♦️یہ بہت ہی بنیادی اور اساسی بات ہے جو انہوں نے کہی ہے۔ لادین نظام تعلیم سے فارغ التحصیل افراد اور لادین معاشروں میں پرورش پانے والے لوگ کیونکر قرآنی قوانین کو لاگو کر سکیں گے اور وہ اس باریک مگر اہم فرق کو کیسے سمجھ پائیں گے کہ مادی معاشروں میں تو قدر اعلیٰ سرمایہ (Capital) ہے جبکہ اسلامی معاشرہ الوہیت و ربوبیت کا فیضان ہے اور اس کی اساس رحمت و مودت پر ہے. اس اہم نکتے کی تفہیم اور اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لئے مسجد کو بنیادی اہمیت حاصل ہے اور اسی تفہیم دینی کے پیش نظر پروفیسر صاحب مساجد کی تعمیر اور آبادکاری پر زور دیتے ہوئے رہنمائے مبلغین جلد دوم میں لکھتے ہیں:

“مسجد دین کی اجتماعی مرکزیت کا ایک شاہکار ہے۔ مساجد کو آباد کیا جائے، مسجد کی آبادی کی تحریک چلائی جائے، اگر کسی بستی میں مسجد نہیں ہے، مسجد کی تعمیر کو تمام مذہبی کاموں میں اولیت دی جائے، مسجد کے بغیر کسی بھی مذہبی سرگرمی اور دینی تربیت اور عبادت کے انجام دینے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہر مسجد میں قرآن و دینیات کی تعلیم کا باقاعدہ بند و بست ہونا چاہئے، نماز باجماعت ہو، ہر مسجد میں ایک عالم دین ہو جو مسجد کی آبادی کے ساتھ لوگوں پر نظرِ رکھے، امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرے، علاقہ میں ایک مذہبی رہنما کا کردار ادا کرے۔”

                         (رہنمائے مبلغین جلد دوم)

🏵️ پروفیسر لغاری ایک عملی انسان تھے، ان کا عمل ان کی گفتار کا پیشرو ہوتا تھا۔ انہوں نے مساجد کے قیام اور ان کی آباد کاری کی بات کی تو اس کے لیے عملی اقدامات بھی کئے۔ انہوں نے ایک سو ساٹھ مساجد تعمیر کیں اور ان کے لیے ایسے مبلغ تیار کئے جو رضاکارانہ خدمات انجام دیتے تھے۔ اب یہ کار خیر برادر خادم حسین کھوسہ کی نگرانی میں جاری و ساری ہے ۔ پروفیسر مرحوم کا یہ کارنامہ ذہنی تبدیلی کے لیے ایک تحریکی کام تھا۔

📖 پروفیسر صاحب قرآن مجید کی تلاوت محض حصول ثواب کی نیت سے نہیں کرتے تھے بلکہ اس میں تدبر و تفکر سے کام لیتے۔ “زندگی کا سفر” ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔ اس میں ایک چشم کشاء واقعہ لکھتے ہیں:

📍خافِضَۃٌ  رَّافِعَۃٌ📍

    جب سردار فاروق احمد خان لغاری صدر مملکت تھے۔ ہر ماہ چوٹی آتے تھے چونکہ ہم نے لوکل ایڈجسٹمنٹ میں ان کی حمایت کی تھی۔ کبھی کبھی میں بھی ملنے چوٹی جاتا تھا۔ چوٹی میں ان کا بڑا استقبال ہوتا تھا۔ ایک دفعہ تو میں بڑا مرعوب ہوا۔ چوٹی زیریں میں صدر مملکت کے لئے انتظامیہ کا پروٹوکول، عوام کا والہانہ استقبال، ان کے اختیارات، ان کی گفتگو، لوگوں کی ان سے ملنے کی بے چینی دیکھ کر بہت مرعوب ہوا کہ ایک انسان اتنی بڑی عزت کا مالک بھی ہو سکتا ہے۔ واپسی پر بھی یہی تصور میرے ذہن پر چھایا رہا۔ رات بھر یہی تصور غالب رہا اور میں واقعی احساس کمتری کا شکار ہو رہا تھا۔ صبحِ جب معمول کے مطابق تلاوت قرآن مجید کا آغاز کیا تو تلاوت کے ابتداء ہی میں سورہ واقعہ کی ابتدائی آیات سامنے آئیں۔

📖”جب قیامت برپا ہو گی اور اس کے واقع ہونے میں ذرا بھی جھوٹ نہیں ہے۔ کسی کو پست کر دے گی اور کسی کو بلند”                            (سورہ واقعہ1,2,3)

‼️میں چونکا: ہیں، قرآن کیا کہہ رہا ہے؟ کیا یہ میرے مغلوب احساسات پر الہی تبصرہ تو نہیں؟ میں نے سورہ واقعہ کی پہلی تین آیات بار بار تلاوت کیں۔ معنی پڑھے، غور کیا۔تفسیر نمونہ کھولی تو یہ مفہوم سامنے آیا۔

” قیامت کے دن بعض صدر نشین پستی میں جا گریں گے اور بعض بے حثیت لوگ اعلیٰ مقامات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے”

♦️میں یقین کی حد تک سمجھ گیا کہ یہ ظاہری عظمت عارضی ہے۔ مرنے کے بعد تمام انسانوں کے لئے از سر نو درجہ بندی ہو گی۔ مدارج کا از سر نو تعین ہو گا۔ یہاں مدارج عارضی ہیں، وہاں مدارج دائمی ہوں گے۔ احساس کمتری کا شکار ہونے کی ضرورت نہیں، البتہ خدا کی طرف متوجہ ہوں، حق پر قائم رہیں۔ الہی تعلیمات کے زیر ہدایت زندگی گزاریں۔ دنیا کے عارضی عہدوں کی بجائے قیامت کے دائمی مدارج کی جستجو کریں۔ قیامت واقعی بڑی چیز ہے۔ بعض بلند مرتبہ لوگوں کو پستی میں گرا دے گی اور بہت سے کم مایہ لوگوں کو ہمیشہ کی بلندی عطا کر دے گی”.

                                             (زندگی کا سفر)

♦️پروفیسر خادم حسین لغاری نے 1986ء میں ایران کا مطالعاتی دورہ کیا اور اپنے مشاہدات و تاثرات کتابی شکل میں ” سر زمین انقلاب” کے نام سے قلم بند کیے ۔  اس میں ” ایران کی دیواریں” کی سرخی قائم کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ گونگی اور بے جان دیواروں سے کس طرح تعلیم و تربیت کا کام لیا جا سکتا ہے۔ آپ لکھتے ہیں کہ:

*”یہاں دیواریں ایک ایسی کھلی کتاب کا درجہ رکھتی ہیں کہ جن کو نہ خریدنے کی ضرورت ہے اور نہ طویل مطالعہ کی زحمت, لیکن یہ مختصر نعرے اپنے اندر اثر رکھتے ہیں اور انسانی سوچ کو متاثر کرتے ہیں۔ امام خمینی نے فرمایا تھا کہ ہم سارے ایران کو مدرسہ بنا دیں گے۔ ہاں پورے ایران کی دیواریں عوامی تربیت کا مدرسہ ہیں۔ ان نعروں کے ذریعے ملت ایران کی فکری تربیت اور اصلاح نفس کا کام لیا جا رہا ہے۔”۔                        (سرزمین انقلاب)

◀️ اسی عنوان کے آخری حصے میں لکھتے ہیں:

” یہ نمونہ تھا ایران کی دیواروں کا۔ یہ دیواریں ملت ایران کو معنویت کا درس دے رہی ہیں۔ ادھر پاکستان کی دیواریں۔ ان دیواروں پر کاروباری اشتہارات کی بھرمار ہوتی ہے۔ حکومت سے مطالبات ہوتے ہیں جو حکومت اور عوام میں بعد اور تفریق کا پتہ دیتے ہیں۔اشیاء کی تشہیر کے لیے عورتوں کی عریاں تصاویر کے بورڈ عام ہوتے ہیں۔ کہیں لکھا ہوتا ہے” خواہش کیسی ہی کیوں نہ ہو، آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں”۔ جنسی بیماریوں کا شرطیہ علاج اور ۔۔۔۔۔۔۔ گھریلو پریشانیوں کا مداوا وغیرہ…….. “۔      (سرزمین انقلاب)

♦️چونکہ آپ بنیادی طور پر معلم اور مربی تھے ۔ تعلیم و تربیت کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے نصیحت کرتے ہیں کہ:

     “پاکستان کی مقدس دیواروں کو مضر اثرات رکھنے والی گھٹیا تحریروں سے پاک کریں۔ پاکستان کی دیواروں پر مختصر مفید اور مستقل تحریروں سے ملت کا رخ مادیت سے معنویت کی طرف، دنیا سے آخرت کی طرف، جمود سے بیداری کی طرف، ذلت سے جہاد کی طرف اور استعمار سے اسلام و قرآن کی طرف موڑنے کی کوشش کریں”

                                             (سرزمین انقلاب)

♦️پروفیسر صاحب فکر ونظر میں، رفتار و روش میں، گفتار و عمل میں اسلامی سماج کے فرد تھے۔ وہ سماج کہ جس کا زریں اور خوبصورت اصول ہے”

                   ” تَعَاوَنُوۡا عَلَی الۡبِرِّ وَ التَّقۡوٰی”

📍 مخالفت میں اٹھنے والے طوفان اس کوہ عزم و ثبات کو کبھی متزلزل نہ کر سکے بلکہ ان کے دست تعاون نے بہت سوں کو سنبھالے رکھا۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ سچائی کے راستے پر چلنا ایک انتہائی مشکل کام ہے۔ کئی دفعہ انسان گرتا اور پھسلتا ہے اور کئی بار حوصلہ چھوڑ بیٹھتا ہے۔ اس راہ میں بسا اوقات آدمی کو ایک مدد گار کی ضرورت رہتی ہے جو اس کا حوصلہ بڑھاتا رہے اور بوقت لغزش و لرزش سہارا بنے۔

♦️ایک دفعہ جب میں حالات کی سنگینی کا شکار ہوا تو انہوں نے مجھے سہارا دیا اور یہ سہارا ایک خط کی صورت میں تھا جو انہوں نے 7.5.1984ء کو لکھا اور 14.5.1984ء کو موصول ہوا۔ اس طویل خط کا آخری حصہ آپ بھی پڑھیے۔ لکھتے ہیں:

                  🌷بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم*

           محترم جناب برادر مشتاق مہدی صاحب

            السلام علیکم:۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔۔۔۔۔   ۔۔۔۔۔۔۔۔۔    ۔۔۔۔۔۔۔

        ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔        ۔۔۔۔۔۔۔    ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   ۔۔۔۔۔۔۔     ۔۔۔۔    

🔹” قوم کے مستقبل کی امید صرف آپ نوجوان ہیں۔ ان حالات میں پہاڑ سا بلند عزم ہونا چاہیے۔ عظیم قوت برداشت اور مسلسل قوم کی بھلائی کے لیے رات دن ایک کر دینا چاہیے۔ امید ہے مخصوص حالات کے پیش نظر اپنی عظیم تر ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے، گزرے ہوئے حالات کو بھلائیں گے، تنقید کو فراخدلی سے برداشت کرتے ہوئے اپنے خلوص اور شعور کے مطابق قوم کی بھلائی اور تنظیم کی ترقی کے لیے ہمہ وقت مصروف رہیں۔آپ مایوس ہوئے تو جونئیر ساتھی تو زیادہ مایوسی کا شکار ہو جائیں گے

💚 برادر! جب آپ عظیم کام کا بیڑا اٹھائیں گے، تنقید ہو گی، شکوے ہوں گے، برداشت کریں۔ مجھے خود تجربہ ہے کہ ہم قوم کی بھلائی کا کام خلوص سے کرتے ہیں۔ اس کے باوجود جب مومنین میں سے بعض انجان یا بدنیت الزام تراشی کرتے ہیں تو بہت دکھ ہوتا ہے مگر برداشت کئے بغیر چارہ نہیں۔ میں کچھ دیر مایوس ضرور ہوتا ہوں۔ Rest کرنے کے بعد ساری پچھلی باتیں بھلا کر اپنے خلوص اور سوچ کے سہارے قوم کے کام میں لگ جاتا ہوں۔ جب سے میں نے آپ کے احساسات کا سنا ہے۔ عہد کیا ہے کہ خط لکھوں گا اور ایک بڑے بھائی کی حیثیت سے جو مشورہ ہو سکتا ہے، حاضر ہے۔ آپ کی شخصیت کا امتحان ہے، جھیل جائیے اور اپنے عظیم عہدے کے عظیم تر تقاضوں کو پورا کرنا شروع کر دیجئے۔ ان مشکل حالات، بحران، دباؤ، خطرات کے حالات میں جتنا خلوص، محنت سے کام کریں گے، اتنا مزہ آئے گا اور یہی قوم کا سرمایہ ہے۔ آپ کی آخرت کی عظیم پونجی ہے۔ ایسے نوجوان ہی مستقبل کی نسلوں کے لیے روشن نشان راہ چھوڑ جاتے ہیں۔ دنیوی تعلیم بھی ضروری ہے مگر اس کا عرصہ افادیت (عارضی دنیوی زندگی تک) محدود ہے۔ اپنی طویل تر زندگی کے حقیقی اور سنگین تقاضوں پر زیادہ زور دیجئے۔۔                                والسلام

                                           مخلص

                                          خادم حسین لغاری

🏵️ حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا:

🔰المرء یوزن بقولہ و یقو م بفعلہ

      انسان کی گفتگو سے اس کا وزن کیا جاتا ہے اور اس کے کاموں سے اس کی قیمت لگائی جاتی ہے۔

                                             (📚میزان الحکمت)

♦️ پروفیسر خادم حسین لغاری گفتگو میں بہت وزنی اور عمل بہت قیمتی تھے کیونکہ وہ ساری زندگی اصلاح کے لئے بولتے اور دوسروں کی بھلائی کے لئے کام کرتے رہے۔ ان کی شخصیت کے بارے اگرچہ بہت کچھ کہہ دیا گیا ہے مگر یہ اس سے بہت کم ہے جو کہنا ابھی باقی ہے لیکن طوالت کا خوف مزید لکھنے سے مانع ہے۔ اب مجھے اجازت دیجئے لیکن ان کے دردمند دل کی وہ آواز سن لیجئے جو انہوں نے روضہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر حاضری کے موقع پر خاتم الانبیاء سے بانداز سرگوشی کی۔ اسی سے ان کی شخصیت کا وزن اور قیمت کا اندازہ بھی کر لیجئے۔ کہتے ہیں:

       *🕯️” (یا رسول اللہ!) آپ نے عدل و انصاف کے معیار کو قائم کیا اور آپس میں عدل و احسان کی نصیحت کر گئے مگر ہم نے ظلم کو زندگی کا وطیرہ بنا لیا۔ آپ نے قل العفو کا فلسفہ پڑھایا اور اپنے بھرے گھر کو راہ خدا اور مجبور انسانوں پر خرچ کر دیا لیکن ہم نے لوٹ کھسوٹ کر کے انسانوں کو ننگا بھوکا کر چھوڑا اور مجبور انسانوں کی قیمت پر محلات تعمیر کئے۔ آپ نے دشمنوں کو دوست بنا دیا تھا لیکن ہم تو آپس میں بھی دشمن بن رہے ہیں۔ آپ نے تو ایک اللہ کی اطاعت کا درس دیا تھا لیکن ہم تو مارے خوف کے چھوٹے چھوٹے طاغوتوں کے بتوں کی پرستش کر رہے ہیں۔ آپ نے ہماری آزادی اور شرف انسانیت کی حفاظت کی تھی لیکن ہم ہیں کہ کفار کی غلامی کی ذلت قبول کر رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔        یا رسول اللہ! ہم شرمندہ ہیں

                                           (زندگی کا سفر)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں