جسٹس سید افضل حیدر ایڈووکیٹ 

جسٹس سید افضل حیدر ایڈووکیٹ 

)1930 – 2022(

سید نثار علی ترمذی تحریر:

1985ء کی بات ہے۔ غیر جماعتی انتخاب سے محمد خان جونیجو وزیر اعظم بن گئے۔ انہی دنوں سندھ کے رہنما رسول بخش پلیجو کے ایک انٹرویو پر بہت تنقید ہو رہی تھی۔ اس انٹرویو میں انہوں نے محمد بن قاسم کو ڈاکو اور راجہ داہر کو اس دھرتی کا ہیرو قرار دیا تھا ۔ پلیجو صاحب لاہور کے دورے پر تھے، سید افضل حیدر ایڈووکیٹ پنجاب بار کے صدر تھے ۔ پلیجو صاحب نے ڈسٹرکٹ بار لاہور سے خطاب کے لیے ضلع کچہری تشریف لانا تھا۔ دائیں بازو کی تنظیموں نے اعلان کیا ہوا تھا کہ وہ یہ خطاب نہیں ہونے دیں گے۔ ان دنوں میرا دفتر ضلع کچہری کے قریب تھا۔ میں بھی یہ منظر دیکھنے کے لیے چلا گیا ۔بار روم کے دونوں جانب پولیس کھڑی تھی اور بار کے دروازے پر مخالفین نعرے لگا رہے تھے جب کہ سامنے سے رسول بخش پلیجو صاحب وکلاء کے ساتھ پہنچے ہوئے تھے۔ پلیجو صاحب کے سامنے سید افضل حیدر ایڈووکیٹ کھڑے دبنگ آواز میں للکارتے ہوئے کہ رہے تھے کہ پلیجو صاحب ہمارے مہمان ہیں اگر کسی نے انہیں ھاتھ لگایا تو سندھ سے لاشوں کے انبار آئیں گے ۔ سید کا چمکتا ہوا روشن چہرہ آج بھی اس طرح یاد ہے کہ جیسے کل کی بات ہو۔

1986ء کی بات ہے کہ تحریک جعفریہ نے مختلف شعبہ جاتی تنظیموں کا اجراء کیا تھا، ان میں وکلاء کی تنظیم بھی تھی۔ اس کا پہلا تاسیسی اجلاس 2- دیو سماج روڈ، لاہور پر منعقد ہوا تھا۔ اس اجلاس میں میرے کزن اور معروف شاعر قمر رضا شہزاد بطور ایڈووکیٹ کے شریک تھے اور ان کے ہمراہ سید حسین اصغر تبسم ، میرے برادر نسبتی بھی تھے۔ جب میں ان سے ملنے وہاں پہنچا تو اس محفل کے روح رواں بھی سید افضل حیدر ایڈووکیٹ تھے۔ ہم تینوں دیو سماج سے نکلے تو مال روڈ پر مٹر گشت کرتے ہوئے پاک ٹی ہاؤس تک آ گئے جہاں چائے پی گئی اور گپ شپ کا دور بھی چلا۔

            مجھے یاد ہے کہ ان دنوں جب بھی کوئی پروگرام یا سیمینار منعقد ہوتا تو ان میں سید افضل حیدر ایڈووکیٹ ، ڈاکٹر محمد یوسف گورایہ اور پروفیسر مغیث الدین اس کے مقررین میں شامل ہوتے۔ یہ انقلاب اسلامی ایران، امام خمینی اور اتحاد بین المسلمین کے موضوع پر گفتگو کرتے ۔ جب وہ اپنے دورہ ایران کے مشاہدات بیان کرتے تو شرکاء اپنی دلچسپی کا اظہار فلک شگاف نعروں سے کرتے نیز اپنی محفلوں میں بھی ان کا تذکرہ کیا جاتا تھا۔ آپ کی ایک تصویر ہے جس میں آپ 16، مئی یوم مردہ باد امریکہ سیمینار جو کہ پہلی بار 1986ء میں منعقد ہوا تھا سے بطور مرکزی مقرر خطاب کرتے نظر آتے ہیں۔

          جب تحریک جعفریہ کا منشور ” ہمارا راستہ ” لکھا جا رہا تھا تو اس حوالے سے آپ سے بھی مشاورت کی گئی تھی ۔ اس کے علاؤہ متعدد قانونی امور پر ملت کے زعماء آپ سے مشاورت کرتے رہے ہیں ۔

           شہید علامہ عارف حسین الحسینی رح کے دور قیادت میں جب تحریک جعفریہ اور تحریک بحالی جمہوریت ( MRD) سے تعاون کے لیے مذاکرات ہوئے تو یہ مشترکہ اجلاس بھی سید بزرگوار کی رہائش گاہ پر منعقد ہوا تھا جس میں تحریک جعفریہ نے ایم آر ڈی میں شمولیت کے بجائے مشروط تعاون پر آمادگی کا اظہار کیا تھا ۔

        میرے چھوٹے بھائی سید محمد علی ترمذی مرحوم نے ایک مرتبہ بتایا کہ خانہ فرہنگ ایران ، لاہور میں ان کی ملاقات سید افضل حیدر ایڈووکیٹ سے ہوئی ہے اور وہ تذکرہ کر رہے تھے کہ حضرت علی علیہ السلام کا مالک اشتر کے نام خط کا شہرہ تو بہت سنا ہے کیا مولا علی علیہ السلام کے اور بھی خطوط ہیں؟ جس پر انہیں بتایا کہ نہج البلاغہ میں مزید خطوط موجود ہیں جو گورنروں کو لکھے گئے ہیں۔ سید صاحب نے کہا کہ انہیں تلاش کریں اور ان کی نقول لے کر شام کو ان کے گھر آ جائیں ۔ بھائی نے مجھے کہا کہ آپ یہ خطوط تلاش کر دیں اور ان کی فوٹو کاپی کروا دیں، شام کو ہم دونوں سید صاحب کی رہائش گاہ پر چلیں گے ۔ حضرت علی علیہ السلام کا عثمان بن حنیف کے نام  خط تو مشہور تھا اور جس کا درس تنظیمی حلقوں میں معروف بھی تھا اس کے علاؤہ مزید خطوط مل گئے جنہیں ہم دونوں لے کر گلبرگ سید صاحب کی رہائش گاہ پر گئے۔ آپ نے شکریہ ادا کیا اور تواضع کی نیز اپنی آئیندہ کی علمی تحقیق کے بارے میں بتایا ۔ ان کا خوب صورت گھر کتابوں سے بھرا ہوا تھا اور ان کی زبان علم کے موتی بکھیر رہی تھی ۔وہ کبھی ایک موضوع پر بات کرتے تو ساتھ ہی دوسرے موضوع چھیڑ دیتے۔ یہ محفل کافی دیر جاری رہی۔

     ایک مرتبہ سید ثاقب اکبر مرحوم لاہور تشریف لائے، وہ جب بھی تشریف لاتے تو مجھے ہمراہی کا موقع فراہم کرتے۔ کہنے لگے کہ شام سید افضل حیدر ایڈووکیٹ صاحب ملنا ہے۔ گلہ کر رہے تھے کہ آپ لوگوں نے ملنا چھوڑ دیا ہے ۔ سید کے ساتھ یہ محفل بھی یادگار رہی۔ کتب کا تبادلہ بھی ہوا ۔

برادر ثاقب اکبر ، سید افضل حیدر ایڈووکیٹ کے بارے میں فرماتے ہیں :-

” سید افضل حیدر مفاخر پاکستان میں سے ہیں۔ مختلف موضوعات پر 50 سے زائد گراں قدر کتب لکھ چکے ہیں۔ اس وقت اسلامی قانون پر اپنے لیکچرز مرتب کر رہے ہیں۔ انھوں نے ایک لاکھ بیس ہزار سے زیادہ مرتبہ ‘ بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم’ اپنے ہاتھ سے لکھی ہے۔ ہر ایک تحریر دوسری سے مختلف ہے۔ ان سے گزشتہ 43 سال سے محبت کا رشتہ ہے ۔ تصوف و عرفان سے بھی گہرا تعلق رکھتے ہیں۔ اس حوالے سے بھی قابل قدر کام کر چکے ہیں۔”

جمہوریت پبلیکیشنز نے یہ تبصرہ کیا جو آپ کے کردار کو مزید واضح کرتا ہے۔

“سید افضل حیدر درحقیقت پاکستان میں جمہوریت اور آئین کے وکیل بن کر ابھرے، ان کی اور ان کے دیگر ساتھیوں کی کوششوں نے لوگوں کے دلوں میں جنرل ضیا کے خوف کا سکوت توڑا اور لاہور میں وکلا کی طرف سے یکم جون 1980ءکوایک شاندار مظاہرہ منعقد کرکے جنرل ضیا کے خلاف باقاعدہ عوامی بغاوت کا آغاز کر دیا۔ وکلا کی طرف سے آئین کی بحالی اور جمہوریت کے قیام کی جدوجہد عملاً پاکستان میں جنرل ضیا کے خلاف پہلا احتجاجی آغاز تھا۔ وکلا کی یہ تحریک جس کا آغاز چند وکلاءنے کیا، بعد میں پاکستان کی گیارہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد کا سبب بنی اور یوں پاکستان کی گیارہ سیاسی جماعتیں Movement for the Restoration of Democracy(MRD) کے نام پر اکٹھی ہوئیں۔ اس پلیٹ فارم سے پاکستان کی گیارہ سیاسی جماعتوں نے جنرل ضیا کی آمریت کو کھلا چیلنج کر دیا اور اس اتحاد (ایم آر ڈی) کے پیچھے اصل محرک وہ وکلاءکی تحریک تھی جن میں سید افضل حیدر اور دیگر وکلا اور دانشوروں نے بنیادی کردار ادا کیا۔ “

آپ 1930ء کو پاک پتن شریف میں پیدا ہوئے  اور 18, نومبر 2022ء اس فانی دنیا کو الوداع کہ گئے۔

1956ء سے آپ وکالت کے پیشے سے وابستہ تھے اور اس میں اپنا ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ مختلف لاء کالجز میں آپ پڑھاتے رہیے ۔

آپ 1990ء سے 2003ء اسلامی نظریاتی کونسل کے رکن رہے ۔ آپ نگران حکومت میں وزیر قانون اور 2008ء سے فیڈرل شریعت کورٹ کے جج بھی رہے ۔

 1983ء لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر رہے۔ 1988ء میں پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین رہے ۔

خواجہ غلام فرید اور گورو نانک کے حوالے سے آپ کا خصوصی مطالعہ اور لگاؤ تھا۔ اس مناسبت سے کتب تحریر کیں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا ۔

آپ نے متعدد موضوعات پر مختلف زبانوں میں لکھا ہے جس کی مکمل فہرست تاحال مل نہیں سکی۔

جن کتب کے نام معلوم ہو سکے ہیں وہ یہ ہیں ۔

1- ذکر فاطمہ سلام علیہما

2- ذکر فرید

3- تحریک بحالی جمہوریت

4- کھوج، قرآن و انسان

5- حسین ابن علی

6-ذکرِ حسین؛

7-ولایت فقیہ (انگریزی اور اردو)؛

8- سید معین چشتی؛

9- بابا نانک؛

10- وجود ذات اور صفات؛

11- ذکرِ سخیان؛ فرید- نانک- باللہ- وارث;

12-زندگی نامہ

13- بابا فرید انٹرنیشنل کانفرنس،

14-بھٹو ٹرائل دو جلدوں میں

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں