سفرِ عشق
((اک عاشقِ حسینؑ کی داستانِ عشق
تحریر : ڈاکٹر آغا وقار ھاشمی
حرمِ امامِ حسین (ع) کے باہر کے برآمدوں میں بستر بچھائے وہ کمبل میں سے کچھ ایسے منہ نکالے جیسے گلہری کسی درخت کی کھوہ میں سے باہر جھانک رہی ہو سڑک سے اس پار دوکانوں کو مسلسل دیکھ رہا تھا.
سوچوں کے سمندر میں غرق تھا,لوگ اپنے پیاروں کے لئے، عزیزو اقارب کے لئے تحفے تحائف و تبرکات خرید رہے تھے, لیکن اسکی جیب قیمتی تحائف خریدنے کی اجازت نہ دیتی تھی ,وہ اِسی سوچ میں گُم تھا کہ وہ اتنے روپوں میں اپنے اُن عزیز و اقارب کے لئے کیا لے کے جا سکتا ہے کہ جنہیں ابھی تک یہ سعادت نصیب نہ ہوئی کہ وہ خود کربلا آ سکیں، لیکن یہاں سے گیا تبرک بھی انکے لئے ایسے ہی ہو گا جیسے امامؑ کی زیارت کر رہے ہوں ، بہت سے احباب کی فرمائشیں بھی تو ہیں کسی کو مس شدہ انگوٹھی چاہیے تو کسی کو رومال کسی کو خاک شفاء چاہیے تو کسی کو کربلا سے کفن.
خیر اُس نے سوچا جو ہو سکا لوں گا اور امام(ع) کے روضے سے مس ہو کر تو معمولی چیز بھی گراں قدر ہو جاتی ہے, انہیں سوچوں میں گم تھا کہ اتنے میں اس کے ایک ساتھی نے عراقی قہوہ کا ایک کپ لا کر اس کو تھما دیا, جو کہ قریب ہی ایک سبیل امام حسین (ع) پر بٹ رہا تھا, قہوہ کی ایک چسکی لیتے ہوئے اس نے اپنی سوچوں کے سلسلے کووہیں سے مربوط کیا جہاں اسکے ساتھی کی آمد کی وجہ سے ٹوٹا تھا.
اس کا نام حیدر علی تھا, عمر 53سال, اور اسکا تعلق پاراچنار سے تھا,اور وہ چالیس ہزار کے عوض ایک بسوں کے قافلے کے ساتھ براستہ ایران کربلا میں امامِ حسین (ع) کا چہلم منانے آیا تھا, اور یہ چالیس ہزار بھی اس نے بہت مشکل سے جمع کیے تھے، اس کے لئے اسے 11 ہزار روپے قرض بھی اُٹھانا پڑا تھا, وہ اپنے خاندان کا پہلا فرد تھا جس کو زیارتِ امام حسین (ع) کا شرف حاصل ہوا. کیوں کہ وہ چالیس ہزار کے پیکج میں آیا تھا، جس میں کہ کھانا اور رہائش کا بندوبست خود سے کرنا تھا, یہی وجہ تھی کہ وہ حرمِ امام حسینؑ میں ملنے والے مفت بسترجو کہ زائرین کو دئیے جاتے تھے، روزانہ لے کر حرم میں ہی سوتا تھا, رات میں حرم کے اندر جگہ نہ ملنے کے باعث وہ باہر کے برآمدوں میں ہی سو لیا تھا , نجف, کاظمین جوادین, سامرہ, کی زیارات کے بعد اس کے قافلے کا کچھ دن کربلا میں ہی قیام رہا, اس دوران آقا و مولاامام حسینؑ سے خوب گفتگو ہوئی, انکے توسل سے دعائیں بھی کی, حالات کی سختی کی شکایت بھی کی, جن لوگوں نے اس کے ذمے لگایا تھا انکا سلام, دعائیں اور حاجات مولا امام حسین علیہ السلام کے گوش گزار کیں.
اس کا ذیادہ تر وقت حرم میں ہی گزرتا, لیکن اب اسکے واپس جانے کاوقت قریب تھا, دل میں سوالیہ دعا مچل رہی تھی کہ اے امامؑ پھر کب بلاؤ گے؟ مولاکیا میری یہ سعی اللہ کے حضور قبول بھی ہوئی یا نہیں ؟
اتنے میں خیال آیا کہ احباب کے لئے تبرک کے طور پر تحائف بھی تو خریدنے تھے ………..
ان سوچوں میں گم اس نے خود کو ان دکانوں کے سامنے پایا, جہاں لوگ تبرک و تحائف خرید رہے تھے۔ کسی دوکان پر سیدہ سکینہ (ع) کی مناسبت سے رکھی گئی بالیاں دیکھ کر اپنی نواسی کا خیال آیا, کہیں جناب علی اصغر کی مناسبت سے رکھے گئے کرتے کو دیکھ کر پوتے کا چہرہ آنکھوں میں آجاتا, کہیں رسول اللہ (ص) اور اہل بیت (ع) کے ناموں کے خوبصوت کتبے دیکھ کر جی چاہتا کہ کاش یہ گھر کے در دیوار کی زینت بنتے, تسبیح لوں یا سجدہ گاہ,پتھر لوں یا خاکِ شفا, خیر اپنی اسطاعت کے مطابق اس نے کچھ چیزیں خریدیں اور روضہ امام ؑسے مس کیں. جیسے ہی قافلہ سالار نے روانگی کا عندیہ دیا تو جیسے پیروں تلے زمیں نکل گئی ہو , دوڑتا ہوا سلام آخر کی غرض سے حرمِ امام حسین علیہ السلام اور جناب غازی عباس علیہ السلام پر پہنچا، آنسوؤں سے نم آنکھوں کے ساتھ بس میں سوار ہوا ، دل تھا کہ بچوں کی طرح ضد کر رہا تھا کہ مولا جا رہا لیکن پھر بلائیے گا, ائے میرے امام ؑ آپکے حضور پہنچا ضرور لیکن جو غلطیاں کوتاہیاں دورانِ سفرِ زیارات ہوئیں اللہ کے حضور معاف کروا دیجیے گا, مولا قرض بھی ہے سر پر, ایک بیٹی ابھی تک اولاد کی دولت سے محروم ہے. ہاں وہ زوجہ بیمار ہے، اور بیٹے کا روزگار …………
جیسے جیسے بس کربلا سے دور جا رہی تھی دل جیسے ڈوبتا جا رہا تھا، خیربس نے عراق سے ایران اور ایران سے پاکستان بارڈر کو عبور کیا اور کوئٹہ کی طرف روانہ ہوئی, اپنا ملک آتے ہی عزیز و اقارب کی یادوں نے آ گھیرا، سوچنے لگا کہ وہ جا کر سب کو بتائے گا کہ کتنے کریم امامؑ کامہمان رہ کر آیا ہے. کیسی مہمان نوازی کی امامؑ نے, آخر رسولِ خدا (ص) کے نواسے تھے ، علیِؑ مرتضیٰ اور سیدہ زاہراہؑ کے لعل، مجھ نا چیز غلام کو کیا عزت بخشی امامؑ نے, پارا چنار پہنچتے ہی اپنے گھر والوں اور دیگر احباب کے لئے جو اپنی استطاعت کے مطابق خرید پایا وہ تحفے تقسیم کروں گا سب کتنے خوش ہوں گے، اور ہاں اپنے بچپن کے دوست شیر محمد کے لئے انگوٹھی بھی تو لی ہے اور خاص امام حسینؑ کے روضے سے مس کی ہے، شیر محمد ہے تو اہلِ سنت سے لیکن بڑا محبِ امام حسینؑ ہے ، گھر پر جناب عباسؑ کے روضے سے مس کیا علم نصب کروں گا. اب امامؑ سے بات ہو گئی, مجال ہے کہ مشکلیں میرا آنگن دیکھیں اب زوجہ صحت یاب ہو گی. بیٹے کو نوکری بھی دلوا دیں گے,بیٹی کی گود ہری ہو گی اور ہاں سب سے پہلے 11 ہزار روپے قرض اتاروں گا. سنا ہے لوگ کربلا سے کفن بھی لاتے ہیں کچھ اور پیسے ہوتے تو وہ بھی خرید لیتا.لیکن اب سب بہتر ہو جائے گا میرے سخی امامؑ, میرے کریم امامؑ….. یہ سب سوچ کر اسکی آنکھیں خوشی سے چمکنے لگیں. چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی. اس نے جلدی سے اپنی گود میں پڑے چھوٹے بیگ کو کھولاجس میں اُس نے وہ سب تحائف رکھے تھے جو اُس نے احباب کے لئے خریدے تھے، ایک ایک چیز دیکھنے لگا اور جسکے لئے خریدی تھی اُس کا چہرہ تخیل میں سوچنے لگا ،پھر اُس میں سے علمِ عباس علیہ السلام اور خاکِ شفا کی تسبیح کو نکال کرآنکھوں سے لگایا اور چمکتی آنکھوں سے دیکھنے لگا. بس ابھی کوئٹہ سے کچھ دور تھی, اچانک سے کسی نے بس کو روکا کچھ لوگ بس کے اندر داخل ہوئے, اور ‘ کافر کافر شیعہ کافر ‘ کا نعرہ لگا کر بس میں اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی, دو گولیاں سوچوں میں گم حیدر علی کے سینے میں پیوست ہو گئیں ,
یہ اتنا اچانک ہوا کہ چہرے پر مسکراہٹ کے آسار ابھی باقی تھے, حیدر علی نے اپنے لہو کا غسل لیا, ہاتھ میں موجود جنابِ عباسؑ کے روضے سے مس علم اس پر کفن کی طرح پھیل گیا, اور خاک شفاء کی تسبیح کے دانے تسبیح سے ٹوٹ کر اس کے جسم پر بکھر گئے.