حقیقی نابغہ ر وزگار باقر الصدر شہید رح
شھید سید محمد باقر الصدر(رہ) کا شمار گذشتہ صدی کے عظیم ترین فقہا اور مفکرین میں سے ہوتا ہے۔ آپ ۵ / ذی قعدہ ۱۳۵۳ ھ بمطابق ۱ مارچ ۱۹۳۵ کو عراق کے مشہور شھر کاظمین میں پیدا ہوئے، آپ کے پدر بزرگوار سید حیدر مراجع تقلید میں سے تھے جن کا سلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے جا ملتا ہے۔ اس خاندان کی خصوصیات میں سے ایک یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کا شمار اپنے زمانے کے جید علماء و فقھاء میں شمار ہوتا تھا۔
آیت اللہ العظمیٰ سید باقرالصدر اپنے دور کے عظیم فلسفی اور مفکر تھے۔ آپؒ کی تحریروں اور قیادت نے عراقی عوام سمیت دنیا بھر کے دبے ہوئے محروم طبقوں کو متاثر کیا اور ظالم حکمرانوں کے سامنے کلمہ حق بلند کرنے کا حوصلہ دیا۔ آپؒ نے اپنے دور میں نہ صرف استعماری و استکباری عناصر کو چیلنج کیا بلکہ ان نام نہاد مذہبی عناصر کو بھی چیلنج کیا جو انقلابی و اسلامی فکر کی راہ میں رکاوٹ تھے
نو اپریل آپ کا روزِ شہادت ہے، محترم نثار علی ترمذی کی تحریر قارئین ہفت روزہ رضا کار (ویب) کے لئے
تحریر: سید نثار علی ترمذی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ شہید ڈاکٹر محمد علی نقویؒ کے ساتھ بیٹھا ان کی زیارت میں مگن تھا کہ فرمانے لگے کہ ایک وقت تھا جب بڑے بڑے ہوٹلوں میں شہید باقر الصدر پر سیمینار منعقد ہوتے تھے۔ اب ان کا یوم شہادت گذر جاتا ہے اور کوئی نام بھی نہیں لیتا۔ دوسروں کا کیا گلہ کریں ہم بھی انہیں فراموش کر بیٹھے ہیں۔ اب ان کا یوم شہادت آنے والا ہے تو کیوں نا ان کی یاد میں محفل کا انعقاد کیا جائے؟ وہیں بیٹھے بیٹھے پروگرام طے پایا کہ فلییٹز ہوٹل میں سیمینار منعقد ہو اور شرکاء کو افطاری دی جائے کیوں کہ ماہِ رمضان کے دن تھے۔ مقررین طے ہوئے۔ شہید نے اس سیمینار کی صدارت کے لئے آیت اللہ حسن طاہری خرم آبادی مرحوم کو جو پاکستان میں امام خمینیؒ کے نمائندے تھے اور ماہ رمضان میں درس و تدریس کے لئے تشریف لائے ہوئے تھے کا نام تجویز کیا۔ نیز اس سیمینار کی افادیت کو دوچند کرنے کے لئے شہید باقر الصدر کی کتب کی نمائش کا اہتمام بھی کیا گیا۔
وقت مقررہ پر ہال شرکاء سے بھر گیا۔ بہت سے لوگوں نے شہید کی کتب دیکھ کو حیرانگی کا اظہار کیا۔ ایک صحافی نے تو دریافت کیا کہ آپ لوگوں نے اس شخصیت کو کہاں چھپا رکھا تھا۔ غرضیکہ آیت اللہ حسن طاہری خرم آبادی مرحوم نے اپنا خطبہ صدارت ارشاد فرماتے ہوئے کہا
’’گو کہ کسی شخصیت کے چلے جانے سے اس کی کمی تو دور نہیں ہوسکتی اگر آج شہید باقرالصدرؒ اور استاد شہید مطہریؒ موجود ہوتے تو امام خمینیؒ کا خلا پر ہو سکتا تھا‘‘۔
یہاں چند سطریں اسی عظیم شخصیت کے بارے میں تحریر کی جا رہی ہیں۔ یہ وہ شخصیت ہیں جن کی قدر خود ان کی ملت نے نہیں کی جس کے حقوق کے تحفظ کے لئے انہوں نے اپنی جان تک قربان کر دی۔
شہید باقر الصدرؒ 25 ذیقعدہ 1353ھ بمطابق یکم مارچ 1935ء کو کاظمین میں پیدا ہوئے۔ آپ کا خاندان دوسو سال سے زائد عرصے سے دینی ہدایت کا مرکز رہا ہے۔ آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام موسیٰ کاظم ؑ سے ملتا ہے۔ آپ کے والد سید حیدر صدر مرجع تقلید میں سے تھے۔ اپنے زمانہ کے یگانہ انسان اور زہد و تقویٰ کا مظہر تھے۔ ان کا انتقال 1356ھ میں ہوا۔
شہید کی والدہ مرحوم آیت اللہ شیخ عبدالحسین آل یسٰین کی بیٹی تھیں۔ جو خود بھی عالمہ تھیں۔ اس مایہ ناز خاتون نے طولانی عمرپائی اور اپنے فرزند شہید باقرالصدرؒ اور بیٹی آمنہ بنت الھدیٰ شہیدہ کے جانسوز اور درد ناک سانحہ شہادت کا مشاہدہ کرنے کے بعد 1407ھ کو دعوت حق کو لبیک کہی۔
آپ نے ابتدائی تعلیم اپنی والدہ اور اپنے بھائی سے حاصل کی۔ پھر کاظمین کے مدرسہ ’’منتدالنثر‘‘ سے تعلیم حاصل کی۔ آپ کی ذہانت و خوش اخلاقی کے سبب اساتذہ اور طلاب آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ اساتذہ آپ کو لائق اور ذہین طالب علم کے طور پر متعارف کرواتے تھے۔
آپ کی مقبولیت کا ایک سبب ، آپ کی عزاداری امام حسین ؑ کے پروگراموں میں آپ کی تقریریں اورشعرخوانی تھی۔ آپ چھوٹی عمر میں بغیر لکنت کے رواں تقریر فرمایا کرتے تھے۔ لوگ آپ کی اس صلاحیت پر عش عش کر اٹھتے تھے۔
اپنی عالمہ والدہ کے مشورہ پر حوزہ علمیہ نجف اشرف تشریف لائے۔ آپ نے دو بزرگ شخصیات مرحوم آیت اللہ شیخ محمدؒ رضا آلِ یسٰین اور مرحوم آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی ؒ کے دروس میں شرکت کی جن میں آپ کے اساتذہ بھی شریک ہوتے تھے۔ آپ کے بھائی نے آپ کے بارے میں یوں فرمایا؛ کہ ہمارے گراں قدر بھائی نے سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے ہی تمام مدراج علمی کو طے کر لیا تھا۔ انہوں نے اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ اپنی چھوٹی بہن سیدہ بنت الھدیٰ کو بھی ابتدائی کتابوں کی تعلیم دی تھی اور شہیدہ سیدہ نے بھی کسی غیر مناسب گرلز اسکول میں قدم رکھے بغیر اپنے بھائی سے قرآن وحدیث، ادبیات، اصول وغیرہ کی تعلیم حاصل کی۔ شہید صدرؒ اپنی سترہ اٹھارہ سال کی طالب علمی کی زندگی میں (شروع سے آخر تک) اگرچہ غیر معمولی ذہانت کے حامل رہے ہیں لیکن پھر بھی روزانہ سولہ گھنٹے پڑھائی، مطالعہ، بحث و مباحثہ اور تحقیق میں صرف کرتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ خود بھی ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ میں تنہا ہی کئی طالب علموں کے برابر محنت کرتاہوں۔ ان کی اسی محنت و تلاش کا نتیجہ ہے کہ تمام مشکلات پر قابو پالیا اور علم و فضیلت کے بہت اعلیٰ درجے پر فائز ہو گئے۔
آپ نے گیارہ سال کی عمر میں منطق پڑھی اور اسی موضوع پر ایک کتاب لکھ ڈالی۔ ان کی اس کتاب کا موضوع وہ اعتراضات تھے جو بعض منطقی کتابوں میں کئے گئے تھے۔ شیخ مرتضیٰ آلِ یسٰین 1370ھ میں رحلت کرگئے تو آپ نے ان کے رسالہ علمیہ ’’بلغۃ الراغبین‘‘ پر حاشیہ لکھا۔ جب حواشی کو متطم کر رہے تھے کہ شیخ عباس میثی نے آپ سے فرمایا کہ ’’ آپ پر تقلید حرام ہے‘‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ مسلم مجتہد ہیں۔ اس طرح آپ کا تعلیمی سلسلہ فقط 17 یا 18 تک جاری رہا۔
آپ نے رسمی طور پر 1378ھ میں اصول، درس خارج کہنا شروع کیا۔ یہ دورہ 1391ھ تک جاری رہا۔ اسی طرح آپ نے فقہ کا درس خارج کتاب ’’عروۃ الوثقٰی‘‘ سے 1381ھ میں شروع کیا جو برسوں جاری رہا۔
آپ کے شاگرد عزیز آیت اللہ سید کمال حیدری اپنے ایک انٹرویو میں شہید کی مرجیعت کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں یوں فرماتے ہیں؛
جب وہ نجف اشرف گئے تو اپنے استاد شیخ یوسف فقیہ سے جو خود بھی شہید صدر کے شاگرد تھے سے دریافت کیا کہ وہ اب حوزہ علمیہ میں آگئے ہیں تو کس مجتہد کے درس میں شریک ہوں تو انہوں نے شہید صدر کے درس میں جانے کی سفارش کی۔ تو میں نے حیرانگی سے پوچھا کیا وہ مجتہد ہیں؟ انہیں میرا سوال عجیب لگا۔ اس کے بعد آقا یوسف فقیہ نے مجھ سے کہا یعنی کیا مطلب وہ مجتہد ہیں یا نہیں؟ اس وقت آقا باقرالصدرؒ کے زیر نظر مجتہد پروان چڑھ رہے ہیں اور ان کا شاگرد بذات خود مجتہد ہے۔ لہٰذا انہوں نے شہید صدرؒ کے درس میں شرکت کا فیصلہ کیا۔ یہ 1976ء کی بات ہے۔
آیت اللہ العظمیٰ سید محسن الحکیم کی رحلت کے بعد عرب اور بالخصوص عراق کے مؤمنین نے تقلید کے لئے آپ سے رجوع کیا۔
آیت اللہ کمال حیدری شہید باقر الصدرؒ کی خصوصیات بیان کیں۔ ان کی تلخیص پیش ہیں۔
ا) شہید صدر اپنے زمانے میں رائج فکری اور فلسفی مبانی (Bases) سے بخوبی آگاہ تھے۔ شہید صدر کی ایک خصوصیت ایک پیغام کی حامل ہے اور وہ یہ کہ اگر ہمارے حوزات علمیہ کو عصری تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چائیے تو ان کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس وقت دنیا میں کیا ہو رہا ہے اور دنیا کی فکر کے ساتھ ترقی کریں۔ چالیس سال پہلے کے سوالات آج کے سوالوں سے متفاوت ہیں۔ بدقسمتی سے ہم میں سے بعض جمود کا شکار ہو جاتے ہیں۔ شہید صدرؒ، شہید مطہریؒ اور علامہ طبا طبائی ؒ جیسی عظیم شخصیات کی روش بھی یہی تھی یعنی یہ لوگ اپنے دور کے مسائل کو مدِ نظر رکھ کر اپنے علمی آثار مرتب کرتے تھے۔
ب) مرحوم شہید باقر الصدرؒ واقعاً اپنی ذات میں ایک مخزن علوم اور دائرہ المعارف کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ جس موضوع پر بھی قلم اٹھاتے یا کسی بھی مسئلے کے بارے میں تحقیق کا ارادہ کرتے تھے تو ان بحثوں میں ابتکار initiative اور تازگی نظر آتی تھی۔ فقہ، اصول، منطق، معرفت شناسی اور اقتصاد کے مبانی (Bases) میں شہید صدر کی روش دوسروں سے بہت متفاوت ہے۔
ج) شہید صدرؒ کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ اسلامی معاشرے کو درپیش عصری مسائل کو حل کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔ ہمارے حوزات علمیہ کا بھی یہی فریضہ ہے۔ مثلاً آج کا ہمارا اصل چیلنج، جیسا کہ رہبرِ معظم انقلاب اسلامی نے بھی فرمایا ہے معاشی مسائل ہیں۔ شہید صدر نے اپنی کتاب ’’اقتصادنا‘‘ میں اسلامی اقتصادی نظام کا تعارف پیش کیا۔
ھ) شہید صدر نے اسلامی دنیا کو درپیش مسائل کے حل کے لئے جو لائحہ عمل پیش وہ ایک اسلامی حکومت کا قیام ہے جس کا نمونہ ایران میں ہے کہ ایک رہبر اور ولی امر ہو اور گارڈین کونسل جیسا ایک گروہ ہونا چائیے جو رہبر کو مشورے دے۔ اسی کے شہید صدر قائل تھے کہ حوزات علمیہ کے مراجع عظام اس نظام کی دیکھ بھال، حفاظت اور نظارت کے ذمہ دار ہیں۔
شہید صدر نے عالم اسلام کو جو آج مسئلہ درپیش ہے اس کا حل پیش کیا۔ ان کے شاگردِ عزیز آیت اللہ کمال حیدری ان الفاظ میں تحریر کرتے ہیں؛
’’اسلامی دنیا، عالم تشیع اور عالم بشریت کو درپیش چیلنج یعنی تفرقہ، ناانصافی اور اختلاف ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ میں اپنے علاوہ کسی دوسرے کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوں۔ مثلاً جس شخص نے فلسفہ پڑھا ہے وہ اس شخص کا مخالف ہے جس نے فلسفہ نہیں پڑھا۔ اسی طرح بعض کے نزدیک جو فلاں فلاں شخص پر لعنت نہ کرے وہ شیعہ نہیں ہے۔ اس کو اہلِ تبرہ نہیں سمجھتے۔ در حقیقت ہم خود اپنے ہاتھوں سے شیعہ معاشرے کو تقسیم کر رہے ہیں۔ شہید صدرؒ اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے کہ اہل سنت کے بڑوں کی توہین ہو حتیٰ کہ نام لیتے ہوئے بھی۔ مثال کے طور پر کہتے تھے کہ ’’ابوبکر‘‘ کا نام لیتے ہوئے احترام کا خیال رکھا جائے۔ حقیقت کا انکشاف ایک چیز ہے لیکن بے احترامی ایک مختلف بات ہے۔ آپ نہ صرف باقی اہل تشیع اور مسلمین بلکہ غیر مسلموں کی بے احترامی بھی نہیں کرتے تھے۔
’’امیر المؤمنین ؑ فرماتے ہیں؛ دوسرے انسان یا تو تمہارے بھائی ہیں یا تم جیسے انسان ہیں۔ شہید صدرؒ کا نقطہ نظر بھی یہی تھا۔ حوزہ سے تعلق رکھنے والے بعض ناخوانداہ افراد نے اس بارے میں کتابیں لکھیں کہ شہید صدرؒ نے لعنت کیوں نہ کی؟ یہ لوگ شہید صدر کو ایک ’’التقاطی‘‘ (دو مذہبوں کو جمع کرنے والا) سمجھتے تھے۔ شہید صدرؒ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے والے تھے۔ اور یہ چیز ان کی سیرت اور کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔ عالم اسلام کی حالیہ مشکلات اور اختلافات سے چھٹکارے کا راستہ یہی احترام اور ایک دوسرے کے مقدسات اور عقائد کی توہین سے پرہیز کرنا ہے‘‘۔
شہید باقر الصدرؒ نے درس و تدریس اور علمی جہاد کے علاوہ متعدد علمی اقدامات بھی کئے۔ ان میں چند اقدامات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
۱) آپ نے جوانی میں ایک گروہ بنام ’’حزب الدعوۃ الاسلامیہ‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ اقدام اس زمانے کی ظرفیت اور تقاضوں اور خاص طور سے حوزہ علمیہ نجف اشرف میں ان دنوں موجود سیاسی سطح فکر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے آپ کے عمیق سیاسی شعور کی غمازی کرتا ہے۔
۲) جماعۃ العلماء کی تاسیس ایک اہم اسلامی قدم تھا۔ گو کہ آپ اس کا حصہ شمار نہ ہوتے ہوئے بھی اس پر برکت اقدام کی نسبت دلسوز اور مہربان تھے اور اس تحریک کی پشت پناہی اورراہنمائی میں بڑا کردار ادا کیا۔
بعد ازاں آیت العظمیٰ محسن الحکیم کی خواہش پر تمام حِذبوں سے جدائی اختیار کر لی تھی کیونکہ وہ نہیں چاہتے تھے کہ آپ جیسی بڑی شخصیت کو کسی ایک حذب سے وابستہ کیا جائے بجائے اس کے تمام حِذبوں اور گروپوں کی سرپرستی و نگرانی کرنی چائیے۔
۳) مجلہ ’’الاضواء اسلامیہ‘‘ جو علماء اور نوجوانوں میں رابطے کا ترجمان تھا۔ اس میں شہید کا مقالہ ’’رسالتنا‘‘ کے نام سے شائع ہوتا تھا۔ جو بعد ازاں اسی نام سے کتابی شکل میں شائع ہوا۔
شہید باقرالصدر نے فقہی لحاظ سے کچھ ایسے فتویٰ دیے جو کہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے کو قریب کرنے کے لیے تھے جس سے باہمی محبت اور ایک دوسرے پراعتماد بحال کرانا مقصود تھا۔ اس ضمن میں ان کا اپنے مقلدین کے لیے وہ فتویٰ قابل ذکر ہے جس میں انھوں نے حکم دیا کہ ’’اگر امام جماعت اہل سنت میں سے ہو اوراس میں شرائط امامت یعنی عدالت و حسن قرآت وغیرہ موجود ہوں تو جماعت اس کی اقتداء کی جائے۔‘‘
(اقتباس تقریر حجۃ الاسلام شیخ فاضل سہلانی، رپورٹ، بین الاقوامی سیمینار بانیا وحدت اسلامی کر 1985ء ص 179)
اب جب کہ اہل تشیع کے جید مجتہدین نے اہل سنت کے امام جماعت کی اقتداء میں نماز با جماعت کے فتاوے دے دیے ہیں تو اس کو عملی شکل دینے کی ضرورت ہے۔ جب مساجد میں اتحاد کے مناظر دن میں پانچ مرتبہ دیکھنے کو ملیں گے تو بہت سی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو جائے گا۔ اہل سنت اپنی مساجد کے دروازے اہل تشیع کے لیے وا کردیں اور اہل تشیع اپنے مجتہدین کے فتاوں پر عمل کرنا شروع کردیں تو یہ ملک امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔
مفکر اسلام علامہ سید باقر الصدر نے اپنی شہادت سے چند روز قبل عراقی عوام کے نام ایک پیغام میں فرمایا:
’’میں نے جب سے شعور سنبھالا ہے، اس امت میں جب سے میں نے اپنی تکلیف و ذمہ داری کا احساس کیا ہے، اس وقت سے میں نے اپنے وجود کو شیعہ و سنی دونوں کے لیے برابر خرچ کیا ہے، عربی و کردی کے لیے برابر کام کیا ہے۔ میں نے ایسا پیغام دیا ہے جو ان کو متحد کردے، ایسے عقیدہ کا دفاع کیا ہے جو سب کے لیے ہے۔ میں اپنی ذات، اپنے وجود کے اعتبار سے فقط اور فقط اسلام کے لیے زندہ ہوں، جو سب کے لیے نجات کا راستہ اور سب کا ہدف ہے۔
میں آپ کے ساتھ اتنا ہوں اے سنی بیٹے، سنی بھائی، جس قدر میں آپ کے ساتھ اے شیعہ بیٹے، اسے شیعہ بھائی، میں اسی قدر آپ کے دونوں کے ساتھ ہوں جس قدر آپ اسلام کے ساتھ ہیں۔ جس قدر آپ دونوں اسلام کی مشعل کو اٹھائے ہوئے ہو۔ عراق کو جبر، ظلم و استبداد، نکبت وذلت کے تسلط سے بچانے کے لیے ہے۔ بے شک طاغوت، میں یہ بات بٹھانا چاہتے ہیں کہ یہ سنی و شیعہ کا مسئلہ ہے تاکہ سنیوں کو مشترکہ دشمن کے خلاف ان کی حقیقی جنگ اور معرکہ سے علیحدہ رکھیں۔
میں یہ بات آپ سے کہنا چاہتا ہوں اے علی و حسین کے فرزندو! اے ابو بکر و عمر کے بیٹوٖٖ! یہ جنگ شیعہ و سنی کے درمیان نہیں۔ سنی حکومت وہ ہے جس کا نمونہ خلفاء راشدین نے پیش کیا، جو اسلام و عدالت کی اساس پر قائم تھی جس کے دفاع کے لیے علیؑ نے تلوار اٹھائی۔۔۔ ہم سب اسلام کے لیے جنگ کرتے ہیں۔ اسلام کا پرچم اس مذہبی رنگ جو بھی ہو ایسی سنی حکومت جو اسلام کی پرچم بردار ہے اس کی حفاظت کے لیے شیعہ علماء نے فتویٰ جاری کیا۔
آج جو حکومت عراق میں ہے وہ سنی حکومت نہیں ہے اگرچہ وہ گروہ جو حکومت پر قابض وہ سنی خاندان کی طرف منسوب ہے۔ سنی حکومت سے یہ مراد نہیں کہ ایسے شخص کی حکومت سے مراد ابو بکرؓ و عمرؓ کی حکومت ہے۔ عراق میں طاغوت حکمران اس کے خلاف ہیں۔
اسلام کے مقدمات کو پامال کیا جاتا ہے۔ عمرؓ و علیؑ دونوں کی روزانہ ہتک ہوتی ہے۔ ہر اقدام و پروگرام میں، ہر مجرمانہ قدم پر اسلام، علیؑ، عمرؓ کی بے حرمتی، توہین اور ہتک کی جاتی ہے۔ میرے فرزندو، میرے بھائیو! کیا ہم نہیں دیکھتے کہ دینی شعائر جن کا حضرت علیؑ و حضرت عمرؓ دنوں نے دفاع کیا۔ انھوں نے ان کو ختم کر دیا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ انھوں نے پورے ملک کو شراب، خنزیروں کے غول، فساد و گناہ کے تمام وسائل سے بھردیا ہے۔
میں آپ سب سے یہ عہد کرتا ہوں کہ میں آپ سب کے لیے ہوں۔ آپ کی خاطر اور آپ کو فائندہ پہنچانے کی خاطر ہوں۔ آپ سب اب اور مستقبل میں میرا ہدف و مقصد ہیں۔ پس آپ سب کا پروگرام ایک ہونا چاہیے۔ اسلام کے پرچم تلے، آپ سب اپنی صفوں کو سیدھا کرلیں۔۔۔ ایک آزاد، محترم، باوقار عراق کی تعمیر کے لیے جس میں اسلامی عدالت ہو، انسان کی کرامت و سرداری ہو جس میں تمام شہری مختلف قومیتوں، مختلف مذہبوں، مختلف قبیلوں، مختلف رنگوں میں ہونے کے باوجود خود کو بھائی بھائی سمجھیں۔ سب مل کر اس ملک کی قیادت کریں۔ سب مل کر اپنے وطن کی تعمیر کریں۔ سب مل کر اسلام کے زریں اور حیات بخش قوانین کو وجود بخشیں۔ (رپورٹ’’بین الاقوامی سیمنیار، بائیان وحدت اسلامی، 29,28,27 نومبر1985ء کراچی زیراہتمام خانہ فرہنگ جمہوری اسلامی ایران، کراچی، ص 425-426)
یہ پیغام اگرچہ عراقی عوام سے مخصوص ہے لیکن ان الفاظ پر غور کریں کہ اس عظیم مفکر نے اسلامی اتحاد کے لیے کیا پیغام دیا ہے۔ اسی کی پاداش میں انھوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ ہمیں اس شہید کے خون کو رائیگاں نہ جانے دینا چاہیے۔ اپنے اتحاد سے پوری دنیا میں اسلام کے پرچم تلے، اکٹھے ہو کر اسلامی وقار، اسلامی عظمت، اسلامی اقدار کی حفاظت کرنا چاہیے اور مذہبی اختلافات کو اپنے انتشار کا سبب نہ بننے دینا چاہیے۔
آپ نے حکومت اسلامی کے قیام اور مختلف مسالک مابین فرق پر وضاحت کرتے ہوئے کہا جسے آپ نے اپنی کتاب ’’خلافۃ الانسان والشھادۃ الانبیاء‘‘ میں حق حکومت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’بے شک امت اس بات کی حق دار ہے کہ وہ حکومت چلائے اور امانت اقتدار کی امین بنے۔۔۔ حکومت کرنے کے اس حق میں امت کے تمام افراد قانون کے سامنے مساوی ہیں اور ہر شخص اپنے مخصوص طرز فکر اور خاص سیاسی طرز غمل کو اپنا سکتاہے، اسی طرح مخصوص شعائر دینی اور مذہبی رسوم میں مروجہ طریقہ کار اپنا سکتا ہے۔ ‘‘
(اقتباس از تقریر حجۃ الاسلام شیخ فاضل سہلانی، رپورٹ، بین الاقوامی سیمینار، بانیان وحدت اسلامی، 27تا29 نومبر 1985ء زیراہتمام خانہ فرہنگ، جمہوری اسلامی ایران، کراچی، ص 178)
جب امام خمینی نےؒ ایران سے جلا وطن ہو کر ترکی سے عراق(نجف) کی جانب مراجعت فرمائی تو آپ نے ایک استقبالیہ کمیٹی تشکیل دے کر ان کا شاندار استقبال کیا۔ آپ کا امام خمینیؒ کے حوالہ سے یہ فرمان سنہری لفظوں سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ یہ فقرہ کئی کتابوں پر حاوی ہے جو رہبرِ کبیر انقلاب اسلامی کی شان میں لکھی گئیں۔
’’ذوبوا فی الخمینی کما ھوذاب فی الاسلام‘‘
امام خمینیؒ میں اس طرح ضم ہو جائو جس طرح وہ اسلام میں ضم ہو چکے ہیں۔
آپ کی امام خمینیؒ سے حمایت، محبت اور انقلاب اسلامی کی تائید و نصرت، بعثی حکومت کا تشدد بھی کم نہ کر سکا۔ آپ نے ان کے خلاف ایک لفظ بھی نہ کہا۔ آخرکار صدام نے آپ کی ثابت قدمی کا توڑ آپ کی زندگی کا ناطہ توڑ دینے میں ہی سمجھا۔ مگر اس کا یہ حربہ بھی شہیدباقرالصدرؒ کی شخصیت و افکار کو مٹانہ سکا بلکہ روزبروز ان کی اہمیت دوچند ہوتی جا رہی ہے۔
رہبر معظم سید علی خامنہ شہید باقر الصدر کے خانوادہ سے ملاقات میں فرمایا؛
میں 1957ء میں عراق گیا اور وہیں میں نے سید محمد باقرالصدر کو دیکھا۔ اس وقت وہ کافی جواں تھے۔ تقریباً پچیس سال کے تھے۔ اس وقت میں بھی نوجوان تھا اور میری عمر تقریباً اٹھارہ سال تھی۔ الحمداللہ خاندان کے تمام افراد بہت زیادہ استعداد اور صلاحیت کے مالک تھے۔ جیسے مرحوم جناب رضا، جناب موسیٰ۔
اسلامی انقلاب کے اوائل میں جب آیت اللہ صدر کی شہادت کی خبر ہم تک پہنچی تو بڑا صدمہ ہوا۔ اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کے لئے شہید صدر حقیقت میں ایک فکری ستون تھے۔ اسلامی انقلاب سے پہلے ہی ہم ان کی کتابوں اور بڑی ہی گرانقدر سرگرمیوں سے واقف تھے۔ پھر جب اسلامی انقلاب آیا تو انہوں نے بہت اچھے پیغامات بھیجے۔ شہید صدر سے بہت زیادہ امیدیں وابستہ تھیں۔ خدا لعنت کرے صدام پر، الحمداللہ ان لوگوں(صدام اور اس کے گرگوں) کی بیخ کنی ہوگئی۔
شہید صدر حقیقی معنوں میں نابغہ روزگار شخصیت کے مالک تھے۔ اسلامی اور فکری مسائل، فقہ و اصول اور دیگر علوم میں ماہرین کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن نابغہ روزگار شخصیات بہت کم ہیں۔ شہید صدر ان افراد میں سے تھے جو حقیقت میں نابغہ روزگار ہیں۔ ان کا ذہن اور ان کے افکار دوسروں کی فکری رسائی سے بہت آگے تھے۔ بحمداللہ انہوں نے بہت اچھے تلازمہ کی تربیت بھی کی۔
آیت اللہ شہید باقر الصدر کی کرامت نفس
شہید صدر رح کی نظر بندی کے دوران سوائے چند شاگردوں اور قریبی ساتھیوں کے کسی اور کو ان سے ملنے کی اجازت نہیں تھی ۔ ان کے قریبی ساتھی اور شاگرد شیخ محمد رضا نعمانی نقل کرتے ہیں کہ آیت اللہ صدر رح کی نظر بندی کو ابھی چند ہی ماہ گزرے ھوں گے کہ ایک دن دوپہر کے وقت میں شہید صدر رح کی لائیبریری میں سویا ھواء تھا ۔ اچانک انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا ادھر آؤ ۔ میں لائیبریری سے باہر آیا تو دیکھا استاد محترم گلی کی طرف کھلنے والی کھڑکی کے پاس کھڑے باہر دیکھ رھے ھیں اور آہستہ آہستہ یہ ذکر پڑھ رھے ھیں ’’لاحول ولا قوہ الا باللہ العلی العظیم ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
میں نے حیرت سے پوچھا ۔ جناب استاد آپ کیا کہہ رھے ھیں ؟ انشاءاللہ خیر تو ھے ؟
آیت اللہ صدر رح نے فرمایا ’’ آگے آؤ اور ان سپاہیوں کو دیکھو ہ جنہوں نے ہمارے گھر کا محاصرہ کیا ھواء ھے ، یہ بے چارے کس طرح گرمی کے عالم میں گرم دھوپ کے نیچے کھڑے ہیں اور لگتا ھے سب پیاسے ھیں ، دیکھو انکی پیشانیوں سے پسینہ بہہ رھا ھے ۔ یہ بے چارے اس گرمی میں جل رھے ھیں ، اور انکا ایک بھی افسر یہاں نہیں ، میرا دل انکے لئے جل رھا ھے ، کاش ہم ان بیچاروں کو پینے کےلئے ٹھنڈا پانی ہی دے دیتے ۔
شیخ نعمانی نے کہا ۔ جناب استاد یہ لوگ مجرم اور خطا کار ھیں۔ اور آپ کو کئ ماہ سے بے رحمی اور شقاوت کے ساتھ محاصرے میں لئے ھوئے ھیں ۔ ۔۔ ان کے ہاتھ اس ملک و قوم کے مسلمانوں کے خون سے آلودہ ہیں، آپ ان پر کس طرح رحم کررھے ھیں۔ ؟؟
آیت اللہ صدر رح نے کچھ دیر سوچنے کے بعد جواب دیا ۔ آپ کی بات درست ھے ۔ اور میں آپ کی ہمدردی کا احساس کررھا ھوں ، لیکن آپکو یہ بھی جاننا چاہئے کہ اس گروہ کی بدبختی اور انحراف کا سبب زمانے اور معاشرے کے نامساعد حالات ھیں یا یہ لوگ کسی سالم اور اچھے گھرانے میں پیدا نہیں ھوئے ۔ اور انکی صحیح تربیت نہیں ھوئی ۔ ان سب علل و اسباب کی وجہ سے یہ گمراہ اور خراب ھوگئے ھیں، ورنہ یہ بھی ایماندار اور دیندار ھوتے ۔ بنابریں یہ ترحم اور ہمدردی کے لائق ھیں۔
شیخ نعمانی اپنے استاد کی کرامت نفس اور اخلاق عالیہ سے حیرت زدہ ھوکر انہیں دیکھنے لگے ۔ اتنے میں آیت اللہ صدر رح نے اپنے خادم حاج عباس کو بلایا اور کہا ۔ کچھ ٹھنڈا پانی لے جاؤ اور ہمارے گھر کے ارد گرد کھڑے پولیس والوں کو دو ، شاید وہ پیاسے ھوں ؟
آیت اللہ صدر رح کے اسی بلند اخلاق اور کریمانہ طرز عمل کی وجہ سے انکے گھر کا محاصرہ کرنے والے بہت سے بعثی سپاہی آپ کے مرید اور گرویدہ ھوگئے ، اور انکی خاطر وہ اپنے افسروں سے لڑ پڑے تھے اور ان میں سے بعض اسی جرم میں سزائے موت کے مستحق بھی قرار پائے ۔ ایک دفعہ شیخ نعمانی نے انہی سپاہیوں میں سے بعض کی موت کی خبر استاد تک پہنچائی تو وہ بہت غمگین ہوگئے کہ ان لوگوں کو میری خاطر جان سے ہاتھ دھونے پڑے (دیدار با ابرار جلد ۱۵ صفحہ ۱۲۸)
اقتباس از ’’ استعمار و استبداد کے خلاف علمائے عراق کی جد و جہد ‘‘
صفحہ ۱۳۰۔۔ از سید رمیز الحسن موسوی)
شہید باقر الصدر پر بہت زیادہ لکھا جانا چائیے مگر کوشش کے باوجود کم لکھا جا سکا۔ یہ ایسی شخصیت ہے کہ جن کے افکار، کتب اور اوصاف کو عام کرنا چائیے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ اللہ کرے یہ ملت بیدار ہو اور اپنے ورثے کو اپنائے۔ آمین ثم آمین