امیرالمومنین علی ابن ابی طالب  علیہ السلام کی حیات مبارک ۔مشعل راہ

                                                                                                                                    ارشاد حسین ناصر

 امیر المومنین امام علی  ؑ ابن ابی طالب کا یوم شہادت21رمضان المبارک ہے۔ آپ پر 40ھ میں مسجد کوفہ میں نماز فجر کی امامت فرماتے ہوئے ایک خارجی شقی جس کا نام عبد الرحمن ابن ملجم تھا نے امیر المومنین علی ابن ابی طالب ؑ کے سرپر زہرمیں بجھی ہوئی تلوار کا وار کیا۔ دو روز بعد اکیس ماہ رمضان کو آپ نے جان جان آفریں کے سپرد کردی،اور کوفہ کی گلیوں میں صدا گونجنے لگی قد قتل الامیر المومنین ،آپ پر دشمن نے جو حملہ کیا وہ بہت سوچ و بچار اور مشوروں کے بعد کیا گیا تھا اس لیئے کہ سب جانتے تھے کہ علی ؑ کو سامنے آکر قتل کرنا ممکن نہیں ان کی شجاعت کی دھاک عرب  و عجم میں بیٹھی ہوئی تھی ،اور یہ بھی سب کو معلوم تھا کہ انہیں خدا کے ساتھ راز و نیاز کے وقت ہی نشانہ بنایا جا سکتا ہے چونکہ وہ اس دوران اپنی عبودیت میں اس طرح غرق ہوتے تھے کہ ان کے جسم میں لگا تیر بھی نکالا جا سکتا تھا ۔آپ رسول اکرم ؐ کے چچا زاد تھے ،پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے آپ کا نام اللہ کے نام پر علی رکھا ۔ حضرت ابوطالب و فاطمہ بنت اسد نے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ ِ وسلم سے عرض کیا کہ ہم نے ہاتف غیبی سے یہی نام سنا تھا۔ آپ کے مشہور القاب امیر المومنین ، مرتضی، اسد اللہ، ید اللہ، نفس اللہ، حیدر، کرار، نفس رسول اور ساقی کوثر ہیں۔ جب کہ آپ کی مشہور کنیت ابو الحسن و ابو تراب ہیں۔

            حضرت علی کرم اللہ وجہ ہاشمی خاندان کے وہ پہلے فرزند ہیں جن کے والد اور والدہ دونوں ہاشمی ہیں ۔ آپ کے والد ابو طالب بن عبد المطلب بن ہاشم ہیں اور ماں فاطمہ بنت اسد بن ہاشم ہیں۔ہاشمی خاندان قبیلہ قریش میں اور قریش تمام عربوں میں اخلاقی فضائل کے لحاظ سے مشہور و معروف تھے ۔ جواں مردی ، دلیری ، شجاعت اور بہت سے فضائل بنی ہاشم سے مخصوص تھے اور یہ تمام فضائل حضرت علی علیہ السلام کی ذات مبارک میں بدرجہ اتم موجود تھے ۔ روایات میں آیا ہے کہ جب حضرت علی کرم اللہ وجہ کی ولادت کا وقت قریب آیا تو آپ کی والدہ گرامی فاطمہ بنت اسد کعبہ کے پاس تشریف لائیں اور اپنے جسم کو اس کی دیوار سے مس کر کے عرض کیا: پروردگارا ! میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر، تیری طرف سے نازل شدہ کتابوں پر اور اس مکان کی تعمیر کرنے والے، اپنے جد ابراھیم علیہ السلام کے کلام پر راسخ ایمان رکھتی ہوں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ تین سال کی عمر تک اپنے والدین کے پاس رہے اور اس کے بعد پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ ِ وسلم کے پاس آگئے کائنات کے رسول نے ہی آپ کی تربیت فرمائی اور بچپن سے لیکر جوانی تک اور جوانی سے لیکر رسول خاتم ؐ  کے اس دنیا سے ظاہری پردہ فرمانے تک مولائے کائنات نے ان کا ساتھ نہیں چھوڑا ،اگر دقت نظر کی جائے تو رسول کا یہ ساتھ کربلا کے میدان میں فرزندان سیدہ مخدومہ کائنات و علی کرم اللہ وجہ بھی نبھاتے نظر آتے ہیں۔

امیر المومنین علی کرم اللہ وجہ کو دنیا میں مجموعہ اضداد شخصیت کے طور پر پہچانا اور لکھاجاتا ہے یعنی آپ ہی وہ شخصیت ہیں جن میں بیک وقت ایک دوسرے کی ضد صفات پائی جاتی ہیں،کوئی اندازہ کر سکتا ہے کہ مصلیٰ عبادت پر محو رہنے والا علی میدان کارزار کا شہسوار بھی ہے اور اس کی شجاعت و بہادری کا ڈنکا عالم عرب میں بجتا ہے اور اسے یہ کمال بھی حاصل ہے کہ اس کے خطبات اور اقوال ایسے فصیح و بلیغ ہوں کہ آج تک شیدائے علم و ادب ا نہیں ادب و زبان کی گہرائیوں کے عنوان دیتے ہیں اور اہل علم ان سے استفادہ کرتے ہیں،آپ کی انہی بلند صفات و کمالات کی بدولت رسول خاتم صلی اللہ علیہ و آلہ ِ وسلم آپ کی بہت عزت کرتے تھے اور اپنے قول و فعل سے ان کی خوبیوں کو ظاہر کرتے رہتے تھے ،لوگوں نے دیکھا کہ کبھی اللہ کے پیارے نبی یہ فرماتے تھے کہ ” علی مجھ سے ہیں اور میں علی سے ہوں” .کبھی یہ فرمایا کہ ” میں علم کا شہر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں . کبھی یہ فرمایا کہ سب میں بہترین فیصلہ کرنے والا علی ہے . کبھی یہ مژدہ سنایا کہ ” علی کومجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو موسیٰ سے تھی . کبھی یہ فرمایا:  علی کو مجھ سے وہ نسبت ہے جو روح کو جسم سے یاسر کو بدن سے ہوتی ہے۔ یہاں تک کہ مباہلہ کے واقعہ میں علی کرم اللہ وجہ کو نفسِ رسول کا خطاب ملا. رسول خدا کی طرف سے یہ اعزاز کسی اور کے حصہ میں نا آیا کہ جب مسجد کے صحن میں کھلنے والے، سب کے دروازے بند ہوئے تو علی کرم اللہ وجہ کادروازہ کھلا رکھا گیا . جب مہاجرین وانصار میں بھائی کا رشتہ قائم کیا گیا تو علی کرم اللہ وجہ کو پیغمبر نے اپنا بھائی قرار دیا۔ اور سب سے آخر میں غدیر خم کے میدان میں ایک لاکھ سے زائدحاجیوں کے مجمع میں علی علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کر کے یہ اعلان فرما دیا کہ جس طرح میں تم سب کا مولا اور سرپرست ہوں اسی طرح علی بھی تم سب کے مولا و سرپرست ہیں۔ یہ بہت بڑا اعزاز ہے اور تمام مسلمانوں نے علی کرم اللہ وجہ کو مبارک باد دی ۔

                         امیر المومنین علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہ جب مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد سارا کا سارا بیت المال آپ کے ہاتھ میں تھا ایک روز آپ کے بھائی عقیل آئے اور کہا کہ مقروض ہوں اور اس کی ادائیگی سے عاجز ہوں ۔ ’’ علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا: خدا کی قسم ! میرے پاس فی الحال اتنے پیسے بھی نہیں کہ تیرا قرض ادا کرو ںصبر کر میں آخری حد تک تیرا ساتھ دوں گا۔ عقیل نے کہا کہ بیت المال آپ کے اختیار میں ہے۔( یہ گفتگو دارالامارہ کے اوپر ہورہی تھی) نیچے بازار کی طرف اشارہ کرکے مولاعلیؑ نے اپنے بھائی عقیل سے کہا بازار میں جاؤ اور دکانداروں کے پاس بھرے ہوئے صندوق  پڑے ہیں ان کو توڑ کر رقم نکال لو عقیل نے کہا اے امیر المومنین کرم اللہ وجہ آپ مجھے کہہ رہے ہیں کہ میں لوگوں کے صندوق توڑ کر رقم نکا لوں جبکہ انہوں نے خدا پر توکل کرکے اپنی دولت کو صندوقوں میں چھوڑا ہے۔ مولا علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا : کیا تو مجھے کہہ رہا ہے کہ بیت المال جو کہ ان مسلمانوں کا مال ہے اور خدا پر توکل کرکے اسے بند کیا ہے کھول دوں اگر چاہتا ہے تو تلوار اٹھا میں بھی تلوار اٹھاتا ہوں دونوں حیرہ شہر چلتے ہیں وہاں امیر لوگ زیادہ رہتے ہیں کسی ایک کے گھر پر حملہ کرکے اس کے مال کو لوٹ لیتے ہیںعقیل نے عرض کیا۔ کیا چوری کریں۔ علی  کرم اللہ وجہنے فرمایا: ایک آدمی کے مال میں چوری کرنا اس سے بہتر ہے کہ تمام مسلمانوں کے مال میں چوری کی جائے چونکہ بیت المال تمام مسلمانوں کا مشترکہ مال ہے۔

      ایک دوسری روایت میں ہے کہ ایک روز  آپ کے سگے بھائی عقیل نے مولا علی کرم اللہ وجہ سے بیت المال میں سے مدد کی درخواست کی علی کرم اللہ وجہ نے فرمایا روز جمعہ تک صبر کرو۔ عقیل نے روز جمعہ تک صبر کیا نماز جمعہ کے بعد مولا علی کرم اللہ وجہ نے عقیل سے کہا یہ تمام مسلمان جو نماز جمعہ کے لئے جمع ہوئے ہیں ان کے ساتھ اگر کوئی شخص خیانت کرے تو اس کے بارے میں کیا خیال ہے ۔ عقیل  نے کہا ایسا کرنے والا بہت برا شخص ہوگا۔ مولیٰ علی نے فرمایاتو مدد کی درخواست کے ذریعے چاہتا ہے میں بیت المال میں سے تجھے تیرے حق سے زیادہ دوں یعنی مجھے حکم کررہا ہے کہ ان مسلمانوں کے ساتھ خیانت کروں۔

      ایک اور واقعہ تاریخ نے یوں رقم کیا ہے ایک بزرگ شخص( بنام عاصم بن میثم) مولا کی خدمت میں آیا مولا بیت المال کی تقسیم میں مشغول تھے۔ مولا کے قریب آکر کہنے لگا میں بوڑھا اور کام کرنے سے عاجز ہوں مجھے زیادہ دیں۔ مولا علی  نے فرمایا: خدا کی قسم یہ مال میںنے مزدوری سے اکٹھا نہیںکیااور نہ ہی مجھے اپنے باپ سے وراثت میں ملا ہے بلکہ یہ (مسلمانوں کی) امانت ہے۔ مجھ پر لازم ہے کہ حدود کی رعایت کروں۔ پس پیرمرد پر احسان کی خاطر حاضرین کی طرف رخ کرکے فرمایا خدا اس پر اپنی رحمت نازل کرے جو اس ضعیف ناتواں کی مدد کرے اس طرح علی کرم اللہ وجہ کے کہنے پر بہت سے لوگوں نے اس بوڑھے شخص کی مدد کی۔

      ٭آپ کے عصر خلافت کے دوران چند ایرانی جو کہ عربوں کے غلام تھے اور مولا نے انہیں آزاد کرایا تھا کوفے میں موالی اور حمراء کے نام سے جانے جاتے تھے ہر روز مسجد میں آتے اور مولا سے فیض حاصل کرتے۔ عربوں میں بہت سے انا پرست تھے مانند ’’ اشعث بن قیس‘‘ جو عجمیوں کو حقیر سمجھتا تھا۔مولا علی کرم اللہ وجہ سے کہنے لگا ’’ اے امیرا لمومنین  ؑ یہ افراد (حمراء) تیرے سامنے ہمارے اوپر مسلط ہوگئے ۔ آپ ان کاراستہ کیوں نہیں روکتے۔ میں ان کو روکوں گا اور دکھاؤں گا عرب کیسے ہوتے ہیں؟ حضرت علی کرم اللہ وجہ    نے فرمایا : یہ عرب جو کھاپی کر نرم بستر پر لیٹ جاتے ہیں اور حمراء (ایرانی) گرمی کے دنوں میں ضروریات زندگی کی خاطر محنت کرتے ہیں تم چاہتے ہو ان زحمت کشوں کو میں اپنے سے دور کردوں ہرگز ایسا نہ ہوگا۔

             آپ کی زندگانی و حیات کا مطالعہ کریں تو بہت سے سبق آموز اور قابل تقلید واقعات سے نھری پڑی ہے انہیں میں یہ واقعہ بھی ہمارے کردار و عمل اور حکمرانوں کے لئے بہت سے سبق آشکار کرتاہے ۔۔۔۔ ایک روز امام علی کرم اللہ وجہ زمانہ خلافت کے دوران شہر کوفہ سے گذر رہے تھے کہ آپ کی نظر ایک خاتون پر پڑی جو پانی سے بھری مشک کو کاندھے پر لادے گھر کی طرف جارہی تھی آپ فوراً آگے بڑھے اور اس سے مشک لے کر اپنے شانوں پررکھ کر اس کے گھر تک آئے یہ عورت امیر المومنین کو پہچانتی نہ تھی آپ نے راستے میں حال دریافت کیا توکہنے لگی علی ابن ابی طالب نے میرے شوہر کو سرحد کی حفاظت کی خاطر بھیجا تھا دشمنوں نے اسے مار ڈالا میرے بچے یتیم ہوگئے اب کوئی سرپرستی کرنے والا نہیں ہے میں فقیر و تنگ دست ہوں۔ مجبوراً مجھے لوگوں کی کنیزی کرنا پڑتی ہے جو تھوڑی بہت مزدوری ملتی ہے اس سے اپنے اور بچوں کے لیے غذا کا انتظام کرتی ہوں مولا علی کرم اللہ وجہ مشک کو اس کے گھر پہنچا کر واپس آئے آپ نے یہ رات انتہائی اضطراب میں گزاری آدھی رات کے وقت ایک تھیلے کو غذا سے پرُ کرکے اس عورت کے گھر پر آئے راستے میں کئی شناسا لوگوں نے کہا امیر المومنین کرم اللہ وجہ تھیلا ہمیں دے دیں ہم اٹھالیتے ہیں مولا نے فرمایا ’’ روز قیامت میرے وزن کو کون اٹھائے گا؟ اگر آج اس وزن کو اٹھا ئوں گا تو کل قیامت کا وزن ہلکا محسوس ہوگا مولا اس عورت کے گھر پہنچے دستک دی اندر سے اس عورت نے پوچھا کون مولا نے کہا’’ میں وہی غلام ہوں جو دن میں مشک اٹھا کر لایا تھا ۔ دروازہ کھول میں بچوں کے لئے غذا لایا ہوں عورت نے کہا خدا تجھ سے راضی ہو۔ مولاگھر میں داخل ہوئے اور اس سے کہا آٹا گوندھنے اور روٹی پکانے کا کام توکر بچوں کو میں سنبھالتا ہوں یا اس کے برعکس کر لیتے ہیں عورت نے کہا ۔ مناسب یہ ہی ہے کہ میں کھانا بناؤ ںاور آپ بچوں کو سنبھالیں الغرض مولا نے اپنی ڈیوٹی سنبھالی اور اس دوران اپنے ساتھ لائے ہوئے گوشت کوخرما کے ساتھ چھوٹے چھوٹے لقمے بنا کر بچوں کو کھلاتے اور کہتے جاتے اے بچوں علی ابن ابی طالب کو معاف کردو۔

            آٹا گوندھنے کے بعد، عورت نے کہا اے بندہ خدا تنور کو روشن کر مولا نے لکڑیوں کو جمع کر کے تنور میں ڈالا آگ لگائی اور اپنے چہرے کو شعلوں کے نزدیک کرکے فرمایا ٰ ‘‘ اے علی حرارت کے مزے کو چکھ یہ کسی کی بیوہ اور یتیم بچوں کے حق کو تباہ کرنے کی جزا ہے۔ اسی دوران پڑوس کی ایک عورت گھرمیں داخل ہوئی جو مولا کو پہچانتی تھی اس عورت سے کہنے لگی  یہ مرد تو امیر المومنین علی ابن ابی طالب ہیں جیسے ہی اسے پتا چلا آگے بڑھی اور اظہار شرمندگی کرنے لگی مولا آپکی شان میں گستاخی ہوگئی  مولا نے فرمایا ’’ بل واحیاء منک یا امۃ اللہ فیما قصرت فی امرک ‘‘ بلکہ میں تجھ سے شرمندہ ہوں، اے کنیز خدا تیرے معاملے میں میں نے کوتاہی کی۔ذرا سوچیں آج ہمارے حکمران ہمارے پاک وطن کے شہدا و محسنین کے حق میںکیسی کیسی کوتاہی کا ارتکاب کر رہے ہیں،آپ یتما ء کے ساتھ کس طرح پیش آتے تھے اور ان کیلئے کس قدر احساس و درد رکھتے تھے اس بارے بہت سے واقعات امیر المومنین کی زندگی میں ہمیںملتے ہیں ، تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہ یتیموں اور غمزدہ افراد کے ساتھ بہت مہربانی اور محبت سے پیش آتے تھے ۔ ان کے سروں پر دست شفقت پھیرتے تھے اور ان کا خیال رکھتے تھے آپ نے یتیموں کے سلسلے میں انتہائی سنجیدہ نصیحت فرمائی ہے  آپ فرماتے ہیں تمہیں خدا کی قسم یتیموں کو فراموش نہ کرنا ، ان کے لبوں کو غذا کے انتظار میں نہ رکھنا ، خیال رہے کہ وہ بھوکے نہ رہ جائیں اور تمہاری موجودگی میں ان کے حقوق ضائع نہ ہوں ۔ ایک دن امام علی کرم اللہ وجہ کا ایک دوست کچھ مقدار میں شہد اور انجیر حضرت کے لئے لایا ۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ نے حکم دیا کہ اسے یتیموں کے درمیان تقسیم کردیا جائے اور پھر آپ  بنفس نفیس  ان کے پاس بیٹھ گئے ان کے سروں پر ہاتھ پھیرتے جاتے اور اپنے مبارک ہاتھوں سے شہد اور انجیر ان کے منہ میں دیتے تھے ۔ لوگوں نے عرض کی کہ آپ کیوں یہ کام کر رہے ہیں ؟ تو آپ نے فرمایا ” امام یتیموں کا باپ اور ان کا سرپرست ہوتاہے میں یہ کام اس لئے انجام دے رہا ہوں تاکہ ان میں بے پدری کا احساس نہ ہونے پائے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں