کیا غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرسکتے ہیں؟

کیا غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرسکتے ہیں؟

( سید ابن حسن بخاری پی ایچ ڈی سکالر ہیں، سماجی و فرہنگی موضوعات میں تخصص رکھتے ہیں، آپ ایک متحرک اورفعال نوجوان سکالر ہیں، پیشہ ورانہ مصروفیات کے ساتھ ساتھ مختلف سماجی وعلمی پر مطالعے و مکالمے اور تحریر و تقریر کے ذریعے اپنا نکتہ نظر بیان کرتے ہیں، آپ کی تحریر قارئین “ہفت روزہ رضا کار ویب”کے ذوق مطالعہ کی نذر (سید انجم رضا)

تحریر: سید ابنِ حسن بخاری

انسان ایک سماجی مخلوق ہے، وہ اپنے گرد و پیش سے بے تعلق نہیں ہوسکتا،اس کی ضرورتیں باہمی لین دین سے پوری ہوتی ہیں۔ اسی تعامل سے خاندان، قبیلہ اور سماج کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔

قدیم زمانے میں لوگ محدود پیمانہ پر یہ رشتہ استوار کرتے تھے، اسلام نے قبائلی، علاقائی، جغرافیائی اور نظریاتی حد بندیوں سے بلند ہو کر عالم گیر انسانی سماج کی تشکیل دی، تمام انسانوں کو انسانی اخوت کے رشتہ سے باندھ دیا، پرامن بقاے باہم کے منظم و مستحکم ضابطے عطا کیے، نیز مختلف سماجی و مذہبی اکائیوں کے ساتھ سماجی،معاشرتی، معاشی اور اخلاقی رابطوں کے اصول بھی واضح کر دیے گئے۔

کسی زمانے میں مغربی ممالک میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے یہ مسئلہ بہت اہم اور حسا سیت کا حامل رہا ہے، فی زمانہ جب کہ دُنیا ایک گلوبل ویلج کی سی صورت اختیار کرچکی ہے اور سوشل میڈیا کے نفوذ نے اقوام و ملل اور مختلف ادیان  و مذاہب کے ایک دوسرے سے ہمکاری و رابطہ کاری کو بہت سہل اور آسان کردیا ہے

خاص طور پہ غیرمسلم بھائیوں کے ساتھ تعامل کے حوالے سے ایک اہم فقہی مسئلہ ان کی خوشی و غم اور عید و تہوار کی مناسبت سے اظہار غمگساری یا مبارک بادی پیش کرنا ہے،  

کسی غیر مسلم کو اُس کے کسی تہوار کے موقعے پر مبارک باد دینا جس عام استعمال میں Wish کرنا کہتے ہیں جائز ہے یا ناجائز ہے؟

قرآن کریم نے سورہ ممتحنہ کی دوآیتوں میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کے درمیان تعلقات کے اصول وضوابط مقرر کردیے ہیں اور بلا یہ آیتیں بت پرست مشرکین کے سلسلے میں اتری ہیں- اللہ تعالی کا فرمان ہے:

لَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ لَمْ یُقَاتِلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَلَمْ یُخْرِجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ أَنْ تَبَرُّوہُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَیْہِمْ إِنَّ اللَّہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِینَ. إِنَّمَا یَنْہَاکُمُ اللَّہُ عَنِ الَّذِینَ قَاتَلُوکُمْ فِی الدِّینِ وَأَخْرَجُوکُمْ مِنْ دِیَارِکُمْ وَظَاہَرُوا عَلَی إِخْرَاجِکُمْ أَنْ تَوَلَّوْہُمْ وَمَنْ یَتَوَلَّہُمْ فَأُولَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ (الممتحنۃ: 8-9)

”اللہ تمہیں ان لوگوں کے ساتھ حسن سلوک اور انصاف کرنے سے نہیں روکتا جنہوں نے دین کے معاملہ میں نہ تم سے جنگ کی ہے اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا – اللہ انصاف کرنے والوں کو محبوب رکھتا ہے-

فقہائے امامیہ کی رائے یہی ہے کہ شریعت محمدی میں اس پر مطلقا پابندی نہیں ہے لیکن چند شرائط ضرور ملحوظ رکھنی ہوں گی۔ جیسے جب ایک طالب علم کسی جامعہ میں داخل ہوتا تو اس پر جامعہ کے کچھ قواعد و ضوابط لاگو ہوتے ہین ایسے ہی جب انسان دین میں داخل ہوگیا تو اس پر دین کے چند احکام لاگو ہیں جن کی خلاف ورزی بہرحال دنیوی یا اخروی یا دونوں عقاب کا باعث ہے۔

آپ غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں میں شرکت کرسکتے ہیں بشرطیکہ آپ کے عقیدہ اسلام اور اخلاق پر منفی اثرات نہ پڑیں یا آپ پر کوئی تہمت نہ لگے۔ اگر ان تہواروں کی تقریبات میں شرکت سے آپ کا بطور مسلمان عقیدہ محفوظ رہے، آپ سے اسلامی احکامات کی خلاف ورزی بھی نہ ہو، آپ کے اخلاق پر بھی منفی اثرات نہ پڑیں تو آپ بھلے شرکت کریں دین کو اس سے کوئی سروکار نہیں لیکن اگر آپ کا عقیدہ اسلام متاثر ہو، آپ سے اسلامی احکامات کی خلاف ورزی ہو، آپ کا اخلاق متاثر ہو یا آپ پر ترک اسلام یا اس جیسی کوئی تہمت آئے تو ایسے میں دین حساسیت دکھاتا اور آپ کو اجازت نہیں دیتا کیونکہ دین اپنے قواعد و ضوابط پر کمپرومائز نہیں کرتا بالکل ایسے جیسے دیگر بشری مکاتب فکر اپنے اصول و ضوابط پر کمپرومائز نہیں کرتے؛ اسلام تو پھر الہی ضابطہ ہے اور خود میں کمال کا بھی دعوی رکھتا ہے تو وہ کیسے آپ کو خود کے اصول و ضوابط پائمال کرنے کی اجازت دے سکتا ہے۔

دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ اسلام نے رحم کا معاملہ کرنے کا کہا ہے۔ ان کے ساتھ عقیدہ اسلام اور اسلامی اخلاق کی حفاظت کی شرط کے ساتھ حسن معاشرت کی تاکید کی ہے حتی غیر مسلم رشتہ دار کے ساتھ صلہ رحم کو اسی طرح واجب قرار دیا ہے جیسے مسلمان رشتہ دار کے ساتھ صلہ رحم کا حکم دیا ہے۔

ہر چیز اپنے ضابطے کے اندر اچھی لگتی ہے۔ دین بھی اپنے ضابطے کے بارے حساس ہے۔ لیکن یہاں دین کے ضوابط کی تعبیریں اتنی پیش کردی گئی ہیں کہ حقیقی تعبیر کی تلاش مشکل ہوگئی اور شدت پسندی کی حامل تعبیروں نے دین کا مجموعی تاثر خراب کر دیا ہے۔

 حسن تعلق کے اظہار کے غیر مسلموں کو ان کے تہواروں کے دن پر خیر سگالی کے طور پر مبارک باد دینا جائز ہی نہیں پسندیدہ بھی ہونا چاہیے۔ خصوصا موجودہ دنیا کی ایسی صورت حال میں جب مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد غیر مسلم ممالک میں رہائش پذیر ہوگئی ہے۔ بڑی تعداد میں غیر مسلم مسلمانوں کے ساتھ حسن معاشرت کا برتاو رکھتے ہیں۔ بلکہ ان میں ایک بڑی تعداد مسلمانوں کے حقوق کے لیے لڑتی اور جد وجہد کرتی ہے۔ مسلمانوں کے لیے اور ان کی مذہبی آزادیوں کے لیے یہ طبقہ بہت قیمتی ہے۔ اور ان ممالک میں مسلمانوں کے ملی وجود کے بقا کے لیے ضروری ہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حسن معاشرت اور شرکت عمل کی راہیں ہموار ہوں۔ بلکہ اب دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے، نیز مسلم حکومتوں کی کم زوری وبے بسی کسی لفظ وبیان کے حدود سے بھی ماوراء ہوگئی ہے۔ اس صورت حال میں مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ مسلم ممالک میں بھی ان کے غیر مسلموں کے ساتھ وسیع عام برادرانہ تعلقات قائم ہوں اور ان کے ذہن ونفسیات کے پردے پر مسلم امت کی ایک خوشگوار تصویر مرتسم ہو۔ اور مجموعی طور پر پوری دنیا امت مسلمہ کو اپنا دشمن وبد خواہ اور جھگڑنے والی قوم سمجھنے کے بجائے انسانیت کی خیر خواہ جماعت خیال کرے۔

ایک عربی شاعر کا بہت عمدہ شعر ہے

أَحْسِنْ إلی النَّاسِ تَسْتَعْبِدْ قُلُوْبَہُمْ            فَطَالَمَا اسْتَعْبَدَ الإنْسَانَ إحْسَانُ!

’’لوگوں کے دلوں پر راج کرنا ہے تو حسن سلوک سے پیش آؤ- ایسا بہت ہوا ہے کہ حسن سلوک نے انسانوں پر راج کیا ہے-‘‘

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں