شہیدِ منیٰ علامہ ڈاکٹرغلام محمد فخر الدین

شہیدعلامہ ڈاکٹرغلام محمد فخر الدین کی آٹھویں برسی کی مناسبت سے ایک خصوصی تحریر

تحریر: علی احمد نوری                     
چیئرمین الہدیٰ فاؤنڈیشن بلتستان

تمہید:
جب میں میٹرک میں پڑھتا تھا، اس وقت میری رہائش حسین آباد میں تھی، لیکن جب میٹرک کے امتحانات قریب آگئے تو اس کی تیاری کے سلسلے میں الڈینگ کسی رشتہ دار کے ہاں مقیم ہونا پڑا۔ حسن اتفاق ہمارے پیرو مرشد بھی ان دنوں اولڈینگ میں قیام پذیر تھے۔ اس سے مراد ہمارے مربی محترم جناب زاہد علی خان صاحب ہیں۔ پیرو مرشد سے میری جان پہچان میرے بڑے بھائی(شیخ احمد علی نوری) کے توسط سے ہوئی۔ چونکہ ان دنوں میرے بڑے بھائی، موسیٰ کلیم، اعجاز احمد اور پیرو مرشد صاحب کی اکثر نشستیں ہوا کرتی تھیں۔ کبھی کبھار مجھے بھی ان کے ساتھ بیٹھنے کا موقع نصیب ہوتا تھا۔ ایک دفعہ ہمارے مرشد نے چند اسٹوڈنٹس کے ساتھ حمید گڑھ کی ایک چھوٹی سی مسجد میں پروگرام رکھا۔ جس میں کم و بیش بارہ چودہ برادران شریک تھے۔ پروگرام کا باقاعدہ آغاز تلاوت قرآن مجید سے ہوا، جس کا شرف اخوند صاحب کو حاصل ہوا۔ تلاوت کے بعد تعارف کا سلسلہ شروع ہوا، سب سے پہلے مرشد نے اپنا تعارف کروایا۔ بعد ازاں دائیں طرف سے سلسلہ وار تعارف شروع ہوا۔

پیر ومرشد کے بعد جس نے اپنا تعارف کروایا، اس کا انداز کچھ ایسا تھا کہ سب سے پہلے انھوں نے ایک شخصیت کا قول نقل کیا، اس کے بعد اپنا نام، علاقہ، تعلیم، تنظیمی عہدہ کچھ اس انداز میں بیان کیا کہ سب اس کی طرف متوجہ ہوئے اور وہ جاذب شخصیت برادر سید ہادی الحسینی تھے۔ ان کے بعد ایک گندمی رنگت، خوبصورت داڑھی، نفیس لباس زین تن کیے ہوئے اور  بلند قد و قامت کے مالک ایک وجیہہ طالب علم نے خوبصورت لحن میں اپنا تعارف یوں کروایا:”میرا نام غلام محمد ہے اور لوگ مجھے اخوند کہتے ہیں۔ میرا تعلق قمراہ سے ہے۔” جہاں تک میرا تعلق ہے  اس محفل کا رعب مجھ پر کچھ اس طرح سے طاری ہوا تھا کہ میں بار بار اپنا نام، تعلیم، علاقہ غرض اپنا تعارفی جملہ بار بار دہرا رہا تھا، کہیں غلطی نہ ہو جائے۔ اس پروگرام میں سید ہادی الحسینی، اخوند غلام محمد کے ساتھ محمد حسین حاجی آغا، محمد یعقوب، شبیر حسین زوار، سید طاہر، اخوند فرمان اور رسول کے علاوہ بھی بعض برادران موجود تھے۔(معذرت کے ساتھ ان کے نام ذہن میں نہیں آرہے۔)

شہید سے پہلی باضابطہ ملاقات اسی پروگرام میں ہوئی تھی۔ اس وقت وہ کالج میں پڑھتے تھے اور سکردو میں کسی کرائے کے مکان میں رہائش پذیر تھے۔ ابتدائی ملاقات کے بعد ملاقاتوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا، جو ہفتوں اور روزانہ کی بنیاد پر جاری رہا۔ گویا تنظیمی رشتوں میں جڑنے کے بعد ان کے ساتھ ایک ایسا تعلق قائم ہوا، جو وقت کے ساتھ ساتھ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا گیا۔ اس کی وجہ مختلف تنظیمی پروگرامز، تربیتی نشستیں اور دورہ جات تھے، جس کے سبب انھیں قریب سے دیکھنے اور جاننے کا موقع میسر آیا۔ اگرچہ شہید عمر اور تعلیم کے لحاظ سے مجھ سے بڑے تھے، تاہم دیگر احباب کی بہ نسبت مجھ  سے کچھ زیادہ انسیت رکھتے تھے (سید ہادی الحسینی اس بات کے گواہ ہیں) معلوم نہیں اس کی وجہ کیا تھی۔

شخصیت کے نمایاں پہلو:
مختصر تعارف:
حجۃ الاسلام علامہ ڈاکٹر غلام محمد فخرالدین 22 نومبر 1971 کو بلتستان کے نواحی گاؤں قمراہ سکردو کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ مرحوم کے والد ایک دیندار، ذاکر اہل بیت، دور اندیش اور سخی انسان تھے۔ شہید نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی گاؤں قمراہ سے حاصل کی۔ 5 سال کی عمر میں اپنے علاقے کے معروف استاد اخوند احمد سے قرآن سیکھنا شروع کیا۔ استاد مذکور سے علوم اسلامی، احکام اور بوستان و گلستان سعدی وغیرہ بھی پڑھا۔ میٹرک کی تعلیم ہائی سکول نمبر 1 سکردو سے حاصل کی۔ گورنمنٹ ڈگری کالج سکردو سے انٹرمیڈیٹ اور گریجویشن کی تعلیم مکمل کی۔ موصوف کا نام کالج کے پوزیشن ہولڈٖروں میں شامل ہوتا تھا۔ وہ سکول اور کالج کی تعلیم کے دوران ہر کلاس کے ممتاز طالب علم رہے۔

ان کے دوستوں کے بقول وہ شروع ہی سے اسلامی آداب کے پابند، محنتی اور عظیم شخصیت کے مالک تھے۔ آپ کالج دور میں آئی ایس او پاکستان بلتستان ڈویژن کے صدر رہے۔ تحریک جعفریہ بلتستان سکردو کے جنرل سکرٹری رہے۔ پچھلے دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین قم کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔ پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کے لوگ ان کی مدبرانہ، عالمانہ اور مبارزانہ زندگی کی وجہ سے ان کے گرویدہ تھے۔ وہ عمر بھر اتحاد بین المسلمین کے داعی رہے۔ تمام مسالک و مذاہب کے لوگوں نے ان کی شہادت پر افسوس کا اظہار کیا۔ موصوف کے پسماندگان میں والدہ، اہلیہ، چار بیٹے، دو بیٹیاں اور دو بہنیں شامل ہیں۔

علمی سفر:
ایک طرف آپ کو دینی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا، دوسری طرف آپ اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے تھے، اس لئے بوڑھے والدین کو چھوڑ کر کہیں اور جانا بہت مشکل مرحلہ تھا، لیکن آپ کے والدین کو بھی اس بات کا احساس تھا کہ آپ کو علم دین حاصل کرنے کا بے حد شوق ہے۔ انھوں نے نہ صرف اس بات کی اجازت دی بلکہ ان کی رضامندی سے گریجویشن کے بعد 1995ء میں اعلیٰ دینی تعلیم یعنی علوم محمد و آل محمد کے حصول کے لیے حوزہ علمیہ قم تشریف لے گئے، جہاں آپ  نے محنت، لگن اور دیانتداری کے ساتھ کم وقت میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ رواں سال 28 جنوری کو جامعۃ المصطفیٰ العالمیہ قم سے اعزازی نمبروں کے ساتھ ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ آپ کے اساتید میں آیۃ اللہ جوادی آملی، آیۃ اللہ وحید خراسانی، آیت اللہ معرفت، آیت اللہ غلام عباس رئیسی، حجۃ الاسلام سید حامد رضوی، ڈاکٹر محمد علی رضائی، ڈاکٹر محمد حسن زمانی وغیرہ شامل ہیں۔ مرحوم نے حضرت آیۃ اللہ بہجت سے روحانی و عرفانی فیوضات حاصل کیں۔

حوزہ علمیہ قم میں علم اصول، علم فقہ، علم حدیث، علم رجال، فلسفہ، کلام، ادبیات عرب، علوم قرآنی و تفاسیر اور دیگر علوم سے اپنا دامن بھرا۔ ظاہری علوم کے ساتھ اخلاقی، باطنی اور عرفانی کمالات کی طرف بھی بھرپور توجہ دی۔ حصول علم کے ساتھ تدریس و تالیف کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ آپ  نے ملک بھر میں مختلف مقامات پر اخلاقی، تربیتی اور تبلیغی دروس کا ایک موثر سلسلہ بھی شروع کر رکھا تھا۔ شہید نے درج بالا شعبوں کے علاوہ قومی اور اجتماعی میدان میں بھی زمانہ طالب علمی سے جام شہادت نوش کرنے تک بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر میدان میں اپنی علمی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کامیاب و کامران رہے۔

علمی دنیا میں ابتداء سے ہی آپ کا رجحان علوم ِدینیہ کی طرف تھا۔ طالب علمی کے دور میں آپ کو مذہبی اسکالر بننے کا شوق تھا۔ کالج کے دور میں تنظیمی دوستوں اور کالج فیلوز کے ساتھ اکثر علمی موضوعات پر گفتگو کرتے رہتے تھے۔ بسا اوقات بحث اس حد تک طول پکڑتی موضوع کی پیچیدگیوں کو سلجھانے اور اس کے حل کے لیے علماء کرام سے بھی رجوع کرنا پڑتا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رمضان المبارک میں قتل گاہ مسجد میں درس اخلاق کے لیے حجۃ الاسلام شیخ یوسف کریمی تشریف لاتے تھے، ان سے مختلف موضوعات پر استفادہ کرتے رہتے تھے۔ ان کے علاوہ حجۃ الاسلام آقا علی رضوی، حجۃ الاسلام شیخ اصغر حکمت کے پاس علمی تشنگی بجھانے کے لیے کثرت سے حاضر ہوتے۔ آپ ؒ علمی میدان میں آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی اعلی اللہ مقامہ، شہید محراب آیت اللہ سید محمد باقر الصدر اعلی اللہ مقامہ اور آیت اللہ استاد شہید مطہری اعلی اللہ مقامہ کے گرویدہ تھے۔

جہاں بھی آپ کو موقع ملتا، عمامہ سازی کرتے تھے، گویا طالب علمی کے زمانے میں عمامہ سازی آپ کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے چوٹی کے علماء کی تقاریر سننا اور اس کی نقل کرنا بھی آپ کی بہترین مصروفیات میں سے ایک تھا۔ مجھے یاد ہے کہ اس وقت کے ممتاز مقررین رشید ترابی، عقیل ترابی، عرفان حیدر عابدی، شہید محسن نقوی اور علمائے کرام میں سے قائد شہید علامہ عارف حسین، علامہ فاضل موسوی، علامہ آقا علی موسوی اور علامہ ساجد علی نقوی وغیرہ کی تقاریر کی بہترین نقالی کرتے تھے۔ آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں وصف تحقیق و جستجو ہے۔ سیاسی حالات ہوں یا تنظیمی معاملات، قومی مسائل ہوں یا ملی مشکلات، ان کی تفہیم اور حل میں آپ افواہوں یا دوسروں کی اندھی تقلید کے قائل نہیں تھے اور نہ ہی آپ کسی قسم کی مصلحت کے شکار ہوتے تھے بلکہ ان تمام معاملات کا باریک بینی سے مشاہدہ کرتے اور تحقیق کے بعد اپنا نقطہ نظر واضح کرتے اور اس پر ثابت قدم بھی رہتے۔

اگرچہ ان کے اس رویئے سے بہت سوں کو اختلاف تھا۔ اسی لیے ان کی مختصر سی عملی زندگی میں کسی قسم کا ابہام نہیں پایا جاتا۔ عملی زندگی میں جس طرح آپ حق و حقیقت کو اہمیت دیتے تھے، علمی میدان میں بھی آپ کا رجحان تحقیق کی طرف مائل تھا۔ آپ بہترین قاری،خطیب، ذاکر، ماتمی اور لیڈر ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ پائے کے محقق بھی تھے۔ جامعۃ المصطفیٰ قم سے آپ نے تحقیقی مقالہ لکھ کر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر کتابیں تالیف کرنے کے ساتھ کئی تحقیقی مقالے بھی تحریر کیے۔ آپ کی زیر ادارت رسالہ ’’بصیرت‘‘ شائع ہوتا تھا۔ شہید کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو شہید ایک فرض شناس اور دشمن شناس شخصیت اور ظاہری نفاست و پاکیزگی کے ساتھ ساتھ باطنی نفاست و پاکیزگی کی حامل و مالک شخصیت تھے، اسی لیے فریضہ حج کے دوران عرفات کے اعمال سے فارغ ہوکر منیٰ میں جام شہادت نوش کرگئے۔ شہادت ہر کس و ناکس کو نصیب نہیں ہوتی۔

بحیثیت خطیب:
جب تک ان کی رفاقت میسر رہی اور انھیں قریب سے دیکھنے کے جتنے بھی مواقع میسر آئے، میں نے ہمیشہ ان میں مشکلات، مسائل اور رکاوٹوں سے مقابلہ کرتے ہوئے منزل کی طرف بڑھنے کا ایک خاص جذبہ دیکھا۔ مقصد کو پانے کے بعد ان کے چہرے پر طمانیت اور سرور کی جو کیفیت ظاہر ہوتی، وہ ہمیشہ قابل دید ہوتی۔ ریاکاری، نمود و نمائش اور طمع و خود غرضی سے بالاتر ہو کر ہمیشہ اجتماعی مفادات اور خدمت کے جذبے سے سرشار ہو کر ہمیشہ آگے بڑھتے تھے۔ آپ دینی علوم سے خاص شغف رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ طالب علمی کے زمانے سے ہی آپ اخوند کے نام سے پہچانے جاتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ سکول اور کالج میں منعقدہ تقریری اور قرائت کے مقابلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور نمایاں پوزیشن بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوتے۔ اچھے قاری ہونے ساتھ ساتھ آپ فن خطابت میں بھی اپنی مثال آپ تھے۔ آپ کی تقاریر ہمیشہ فکر انگیز اور حالات حاضرہ  کے مطابق ہوتیں۔

کالج کے زمانے میں آپ کی خطابت کا بڑا چرچا رہا۔ یوم القدس کا پروگرام ہو یا یوم الحسین کا جلسہ، اخوند صاحب کی تقاریر حالات و واقعات سے آگاہی کی وجہ سے سب پر بھاری تھیں۔ آپ ایک انقلابی سوچ کے مالک تھے۔ یہی وجہ ہے کہ واقعہ کربلا، انقلاب اسلامی اور نظام ولایت فقیہ آپ کے پسندیدہ موضوعات میں سے تھے۔ اس کے علاوہ امام خمینی ؒاور رہبر معظم سے عشق کی حد تک لگاؤ رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ مدافع انقلاب و ولایت کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔ ایام مجالس عزا میں آپ مومنین کو عصر حاضر کے مسائل اور ذمہ داریوں سے متعلق آگاہ کرتے رہے۔ اپنی گفتگو کے لیے ہمیشہ کلام خدا اور احادیث رسول سے استنباط کرتے، اس کے علاوہ آپ کی تقریروں کی خاص بات یہ تھی کہ آپ نہج البلاغہ پر بھی عبور رکھتے تھے، اس لیے کلام امام سے بھی مومنین کو مستفید کرتے تھے۔ دستہ امامیہ کے زیر اہتمام عاشورائے محرم و عاشورائے اسد میں حسینی چوک پر آپ کا خطاب سننے کے لیے ہزاروں عاشقان کربلا گھنٹوں آپ کا انتظار کرتے تھے۔ اس کے علاوہ عشرہ محرم میں آپ سے کسب استفادہ کرنے کے لیے لوگوں کی کثیر تعداد جمع ہوتی تھی۔

پچھلے تین چار سالوں سے عشرہ محرم لاہور میں تین چار جگہوں پر پڑھتے رہے۔ اس سال بھی حج سے واپسی پر عشرہ محرم لاہور میں دو تین مقامات پر پڑھنے کا پروگرام ترتیب دے رکھا تھا، لیکن آپ ومن یھاجر الی اللہ ورسولہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کا مصداق بن گئے اور سانحہ منیٰ میں اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے امر ہوگئے۔ خوف خدا اور عزاداری سید الشہداء میں آپ کا گریہ کرنا اور آنسو بہانا۔۔۔ قابل دید تھا۔ آپ دعائیہ اجتماعات میں گریہ و زاری کے ساتھ اللہ سے راز و نیاز کرنے کا خاص سلیقہ رکھتے تھے۔ دعائے کمیل پڑھنے کا انداز بھی دل و دماغ کو مسحور کرنے دینے والا ہوتا تھا۔ ان کی معیت میں پڑھی گئی دعائیں آج بھی کانوں میں رس گھولتی ہیں۔ آپ عابد شب زندہ دار تھے۔ عشق الہیٰ سے سرشار ہو کر کئی بار حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ اسی عشق کا تقاضا تھا کہ آپ حالت احرام میں داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے بارگاہ الہیٰ میں سرخرو ہوگئے۔

بحیثیت میر کارواں:
نگہ بلند سخن دلنواز جاں پرسوز
یہی رخت سفر میر کارواں کے لیے
علامہ اقبالؒ نے قیادت کی جو خوبیاں بیان کی ہیں۔ شہید فخرالدین میں یہ تمام خوبیاں موجود تھیں۔ آپ حال میں رہ کر مستقبل کے حالات کو دیکھنے کی نظر رکھتے تھے۔ گفتگو کا انداز دلوں کو لبھانے والا تھا۔ مذہبی جذبے اور خلوص کے ساتھ ساتھ آپ ملت کے بھی دردمند تھے۔ 88ء کا کشت و خون ہو یا مومن پورہ کا اندوہناک واقعہ، پارا چنار کا اڑھائی سالہ محاصرہ ہو یا چلاس کا دلسوز سانحہ ہو، سانحہ لولوسر ہو یا سانحہ کوہستان، کوئٹہ میں رونماء ہونے والے خونی واقعات ہوں یا سانحہ عباس ٹاؤن، غرض شہید فخرالدین ملت کے ساتھ ہونے والی ظلم و زیادتیوں کے خلاف آواز حق بلند کرنے میں ہمیشہ پیش پیش رہے۔ ہر فورم پر قومی و ملی مسائل اجاگر کرنے اور قومی ترجمانی کا حق ادا کیا۔ ہر مشکل گھڑی میں ہمیشہ میدان عمل میں حاضر اور پیش پیش رہنا آپ کا ایک طرہ امتیاز تھا۔ اس کی واضح سی مثال شہید ضیاءالدین کی زیر قیادت چلنے والی تحریک نصاب ہے۔ آپ نے نہ صرف اس تحریک میں بھرپور حصہ لیا بلکہ پورے گلگت بلتستان کا طوفانی دورہ کرکے عوام الناس کو اصل حقائق سے روشناس بھی کرایا۔(یاد رہے کہ تحریک نصاب میں بلتستان کے بزرگ علماء و زعماء خاموش رہے تھے) گنتی کے چند نوجوان علماء تھے، جو شہید ضیاءالدین کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے سربکف میدان میں کود پڑے اور نوجوانوں اور عوام کی بھاری اکثریت کی قیادت و رہبری کی۔

زمانہ طالب علمی 1990ء، 91 میں آئی ایس او پاکستان بلتستان ڈویژن کے فعال صدر رہے۔ دو سال آئی ایس او پاکستان بلتستان ڈویژن کی ذیلی نظارت کے بھی رکن رہے۔ آئی ایس او کے جوانوں کے ایک بہترین مربی تھے، ان کی امیدیں آپ سے وابستہ تھیں۔ آپ ہر میدان میں ان کی رہنمائی کرتے تھے۔ پاکستان میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ اور شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی اور عالمی سطح پر عالم مبارز قائد مقاومت سید حسن نصراللہ کو آپ اپنا آئیڈیل سمجھتے تھے۔ گلگت بلتستان کی سیاست پر آپ کی گہری نظر تھی۔ 1991ء میں گلگت بلتستان الیکشن سے بائیکاٹ کے دوران طلباء رہنماء کی حیثیت سے قائد گلگت بلتستان علامہ شیخ غلام محمد الغروی ؒ اور علامہ شیخ محمد حسن جعفری کے شانہ بشانہ پورے گلگت بلتستان کا دورہ کیا۔ ان دورہ جات میں شہید ایک ایسے سخنور کے طور پر سامنے آئے، جو لوگوں کے دلوں کو موہ لینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ گویا اللہ نے انھیں فصاحت و بلاغت اور دلیل و منطق کے ذریعے مسائل کو بیان کرنے کی ایک خاص مہارت ودیعت فرمائی تھی۔ لوگوں کو Motivate کرنے، یعنی قائل کرنے اور ان میں تحرک پیدا کرنے میں آپ کا کوئی ثانی نہ تھا۔

بحیثیت میر کارواں آپ خلوص اور اخلاص کا ایسا پیکر تھے، جو دردِ قوم و ملت میں ہمیشہ تڑپتا رہتا تھا۔ گویا وہ ایک ایسے میر کارواں تھے، جو دوسروں کے دلوں میں جاگزیں ہونے کی پوری قدرت رکھتے تھے۔ آپ کے اخلاص اور جذبہ ایمانی کی بدولت نوے کی دہائی میں جب تحریک جعفریہ عروج پر تھی، اس وقت آپ تحریک جعفریہ بلتستاان سکردو کے جنرل سکریٹری منتخب ہوئے۔ علامہ شیخ محمد حسن جعفری کے معتمد خاص ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ان کے مالی امور میں معاونت بھی کرتے رہے۔ آپ ؒپچھلے دو سالوں سے مجلس وحدت مسلمین قم کے سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے تھے۔ مجلس وحدت کے قیام سے جام شہادت نوش کرنے تک آپ مرکزی رہنماء کی حیثیت سے گلگت بلتستان، پاکستان اور پاکستان سے باہر مختلف فورمز پر قوم و ملت کی نمائندگی کرتے رہے۔ مجلس وحدت کے قائدین کی قوم و ملت کے لیے خدمات کو آپ ؒ قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ عرفات کے میدان سے Whatsapp کے ذریعے علامہ امین شہیدی کو پیغام دیا اور دشمنوں کے شر سے ان کی حفاظت کی خصوصی دعا کی۔

جب کبھی گلگت بلتستان میں طلبہ تنظیموں کا اجلاس یا اجتماع ہوتا تھا، ان میں اخوند غلام محمد لیڈینگ رول ادا کر رہے ہوتے تھے، یعنی آپ میں قیادت و رہبری کی صلاحیت بدرجہ اتم موجود تھی۔ جب آپ اعلیٰ تعلیم کے لیے قم تشریف لے گئے تو وہاں بھی طلباء تنظیموں کی قیادت کرتے رہے۔ مختلف اداروں میں، مختلف شخصیات سے اور مختلف وفود کے ہمراہ بحیثیت رہنماء آپ طلاب دینی کی رہبری کرتے تھے۔ علاقائی، ملکی اور عالمی مسائل پر آپ کی گہری نظر تھی۔ مسئلہ فلسطین، کشمیر، افغانستان، عراق، بحرین، یمن، بوسینا اور شام وغیرہ کے حالات سے نہ صرف آگاہ تھے بلکہ ان کے لیے آواز حق بروقت بلند کرنا اپنی شرعی ذمہ داری سمجھتے تھے۔ آپ حضرت علیؑ کے اس قول “کونا للظالم خصماً وللمظلوم عوناً” کے مصداق نظر آتے تھے۔

دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے بھی اپنی تقریرں اور تحریروں میں نہ صرف صدائے احتجاج بلند کی، بلکہ ارباب حل و عقد کو اس کے حل کے لیے ٹھوس مشورے بھی دیئے اور ان سے ہمیشہ یہ اپیل کرتے کہ ملک سے اس ناسور کو ختم کرنے کے لیے روٹ لیول پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح فرقہ واریت کو ختم کرنے کے لیے آپ تنگ نظری، تعصب اور مسلکی ہمدردیوں سے بالاتر ہو کر علمی اور عقلی دلیلوں کے ذریعے دوریوں کو ختم کرنے کے قائل تھے۔ آپ نہ صرف تقریب مذاہب کے قائل تھے بلکہ اتحاد امت کو عالم اسلام کی تمام مشکلات کا واحد حل قرار دیتے تھے۔ آپ مزاجاً سب کو لے کر چلنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ کالج لائف میں آپ کے حلقہ احباب میں اہل سنت اور اہل حدیث برادران بھی شامل  تھے۔ بعض اوقات کلاس کے بعد فارغ اوقات میں ان کے ساتھ مختلف موضوعات پر ڈسکشن کرتے تھے اور ان کے علماء سے ملاقات کے لیے ان کے مراکز میں جایا کرتے تھے۔

زمانہ طالب علمی سے جام شہادت نوش کرنے تک قومی اور اجتماعی مسائل کے حل کے لیے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور ہر میدان میں اپنی علمی اور سیاسی بصیرت کی وجہ سے کامیاب و کامران رہے۔ قومی، ملی اور مذہبی امور کی انجام دہی کی پاداش میں آپ کو پس زندان بھی ڈالا گیا، مگر آمر اور ظالم لوگوں کے سامنے کبھی نہیں جھکے۔ ہمیشہ کلمہ حق بلند کرتے رہے۔ آپ نے حوزہ علمیہ سے کم ترین وقت میں وہ مقام حاصل کرلیا، جو عادی لوگ ساری زندگی میں حاصل نہیں کر پاتے۔ حوزہ علمیہ میں بھی آپ کا ایک نمایاں علمی مقام تھا، زہد و تقویٰ کے ساتھ ساتھ علمی، تبلیغی، فرہنگی، تنظیمی اور سیاسی میدان میں بھی ایک ممتاز حیثیت رکھتے تھے۔ جامعۃ المصطفٰی میں نہ صرف پاکستانی طلاب کی نمائندگی کرتے تھے، بلکہ ان کی پذیرش و پژوھش کے لیے بھی آپ ہر ممکن کوشش کرتے رہے۔ کوتاہ مدت میں آپ استاد کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ حوزہ علمیہ قم میں آپ تسلسل کے ساتھ لیکچر بھی دیا کرتے تھے۔ جن میں طلباء کی کثیر تعداد ذوق و شوق کے ساتھ شریک ہوتے۔ بین الاقوامی سطح کے متعدد سیمینارز میں مقالے بھی پڑھے۔

سفر آخرت:
اس طرح آپ نے بہت مختصر عرصے میں اخوند غلام محمد سے علامہ ڈاکٹر فخرالدین تک کا سفر طے کیا۔ آپ کی شہادت کے بعد یہ ہم پر کشف ہوا کہ چونکہ آپ نے بارگاہ ایزدی میں جلد حاضر ہونا تھا اور اپنی ذمہ داریوں سے جلد از جلد عہدہ برآ ہو کر  دوسروں کے لیے ایک مثال قائم کرنی تھی۔ سانحہ منیٰ کے بعد سے آپ کی شہادت کی خبر آنے تک پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں جگہ جگہ آپ کی صحت و سلامتی کے لیے دعائیہ محافل کا سلسلہ جاری تھا، جب طلوع ماہ محرم کے ساتھ ہی آپ کی شہادت کی خبر سے پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان میں صف ماتم بچھ گئی، ہر طرف ایک کہرام مچ گیا۔  
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
شہید سے راقم کی آخری ملاقات سفر حج روانگی سے ایک دن پہلے سکردو میں ہوئی تھی۔
بدلا نہ تیرے بعد بھی موضوع گفتگو
تو جا چکا ہے پھر بھی میری محفلوں میں ہے

اس قومی سانحے پر مرحوم کے لواحقین اور امت اسلامیہ کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتا ہوں اور اس عزم کے ساتھ کہ ہم شہید کے مشن کو زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔ (شہید کے ساتھ 20،25 سالہ رفاقتوں کی داستانیں اور یادیں، ان شاء اللہ سلسلہ وار ضبط تحریر کرنے کی کوشش جاری رکھوں گا، تاکہ اس عظیم روحانی شخصیت  کے مختلف پہلو ہم پر روشن ہوں۔ شہید سے محبت اور عقیدت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم شہید کے افکار و نظریات اور خدمات کو ہمیشہ زندہ رکھیں اور آنے والی نسلوں  تک پہنچائیں)۔
آسمان تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

نیک تمناؤں کے ساتھ
شہید کا ایک ادنی ٰ ساتھی
علی احمدنوری
چیئرمین الہدیٰ فاؤنڈیشن بلتستان(سابقین آئی ایس او)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں