طاغوت پسند عزاداری اور طاغوت شکن عزاداری

تحریر: رمیض الحسن موسوی

٦١ ھجری میں واقعہ کربلا کے رونما ہونے کے بعد اس واقعہ نے جہاں دنیائے اسلام کے احساسات اورجذبات کو شدید متاثر کیا ہے وہاں اس زمانے اوربعد میں آنے والے زمانوں کے عمومی افکار میں بھی انقلاب برپا کیا ہے۔ انسانی معاشروں بالخصوص مسلمان معاشروں پر کربلا وعاشورا کے ان دونوں قسم کے اثرات کا آپس میں گہرا ربط ہے۔ جس طرح دنیائے اسلام کے افکار عامہ اس واقعہ سے متاثر ہوئے ہیں، اسی طرح دنیائے اسلام بلکہ پوری دنیا پر حاکم طاغوتی سیاست بھی اس واقعہ سے متاثر ہوئی ہے۔یعنی اگر عوام نے عاشورا سے منفی اثر لیا ہے اور صاحبان عاشورا کے اہداف و مقاصد کے بر عکس اسے سمجھا ہے تو اسی کے مطابق حکمران طبقے نے بھی اس کے بارے میں اپنا ردعمل ظاہر کیا ہے ۔ اگر عوام نے اس سے مثبت اثرات قبول کیئے ہیں تو سیاست دانوں نے بھی اسی کے مطابق عاشورا کے بارے میں اپنی پالیسی مرتب کی ہے۔

شہدائے کربلا کی عزاداری کے بارے میں حکمرانوں کے متضاد رویئے کی سب سے بڑی وجہ عاشورا کے بارے میں رائے عامہ کا طرز تفکر اور نقطہ نظر ہے ۔ یعنی رائے عامہ واقعہ کربلا اورقیام امام حسین علیہ السلام کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟ یہ وضاحت طلب موضوع ہے، لیکن ہم یہاں تمام ضروری تمہیدات سے صرف نظر کرتے ہوئے اختصار کے ساتھ عاشورا وکربلاکے بارے میں ان دونوں نظریوں اور ان کے حکمرانوں پرمرتب ہونے والے اثرات کو پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

 عاشورا کے بارے میں اسلامی دنیا میں دوقسم کے نظریات پائے جاتے ہیں اورمسلمانوں پر یہ نظریات ہر دور میں زمان ومکان کے تقاضوں کے مطابق اپنی خاص شکل کے ساتھ حاکم رہے ہیں اوران دونوں نظریات میں سے جس نظریہ نے بھی غلبہ حاصل کیا ہے اسی کے مطابق عاشورا اورقیام سیدالشہداکے بارے میں دنیاوی حکمرانوں اورظالم حکومتوں کا رویہ بھی تبدیل ہوتا رہا ہے ۔وہ دونظریات یہ ہیں:

الف:یہ کہ ہم آئمہ اطہار بالخصوص سید الشہدا امام حسین علیہ السلام کو محض ایک آسمانی شخصیت کی حیثیت سے دیکھتے ہیں۔جن کا ہر کام وحی اورالہام الٰہی کے تحت انجام پاتا ہے اوروہ ایسے پر اسرار ،آسمانی اصول وقوانین کے تحت زندگی گذارتے ہیں کہ جن کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ ان ذوات مقدسہ کا ہر کام غیبی اورمافوق البشری ،قدرت واطلاعات کے ذریعے انجام پاتا ہے۔ اس اعتقاد کے مطابق ان بزرگوار ہستیوں کی تمام حرکات وسکنات عام لوگوں کے لئے پراسرار اورناقابل تقلید حیثیت اختیار کرلیتی ہیں اورمعصومین  کی یہ زندگی ،وحی ،معجزات اورکرامات معصومین کی مانند عام فہم نہیں رہتی ۔جس طرح معجزات اوروحی کی حقیقت کے ادراک سے انسانی ذہن عاجز ہے ، اسی طرح آئمہ اطہار  اوربالخصوص سید الشہداء  کا ہرعمل اورہر قدم خواہ وہ اجتماعی قدم ہو یا سیاسی ،سب کا سب ناقابل تقلید وناقابل پیروی بن جاتا ہے ؛یعنی آئمہ طاہرین کی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لئے ایک افسانوی حیثیت اختیار کرلیتا ہے اورآئمہ  کی سیرت ، شہدائے کربلا کا کردار ان کے پیروکاروں کے لئے نمونہ عمل ہونے کے بجائے فقط ایک افسانوی ،خیالی اورآئیڈیل چیز بن جاتی ہے، جس کا پیروکاروں کی عملی زندگی سے کوئی تعلق نہیں رہتا۔ پیروکار خواہ کسی بھی طرز حیات کو اپنائیں خواہ وہ غربی آزادانہ طرز حیات ہو یا ہندو ثقافت پر مبنی خرافاتی طرز حیات، امام حسین علیہ السلام کی سیر ت سے اس کا تعلق ہونا ضروری نہیں ہے۔ اس نظریہ کے مطابق محرم اور عاشورا کے ایام محض ایک رسم کی حیثیت رکھتے ہیں جن میں ایک آئیڈیل  شخصیت کے ساتھ اپنے جذبات واحساسات کا اظہار کیا جاتا ہے، خواہ یہ اظہار کسی بھی انداز میں ہو سیاہ لباس زیب تن کر کے ہو یا نئی سی نئی طرز پر مرثیہ ونوحہ خوانی اورنئے سے نئے انداز خطابت کے ساتھ ہو،گریہ کے ذریعے ہو یا عام لوگوں کو حیرت زدہ کر نے  والے غیر معمولی کاموں کے ذریعے ۔۔۔اس نظریہ کے مطابق عاشورا کا فلسفہ فقط گریہ کرنا ہے اور اس گریہ کے ذریعے اُمت کے گناہ بخشے جانے ہیں !!اس طرز تفکر کے مطابق عاشورا سب کے لئے پسندیدہ دن ہے ۔تن پرور خطیبوں کے لئے بھی کہ جو خون حسین  کے صدقے میں دس دن میں سال بھر کے اخراجات نکال لیتے ہیں اورمذہبی راہنماؤں اورقائدین ملت کے لئے بھی کہ جو ہر سال محرم الحرام کے موقع پر امام حسین کی بے مثال قربانی پر پیغامات جاری کر کے اور ذوالجناح کی لگام تھام کر اپنی قیادت اورلیڈری کی تجدید کرلیتے ہیں اور جب ناصبی دشمنوں کی طرف سے امام حسین علیہ السلام کی مقدس سواری کی اس شبیہ پر حملہ ہوتا ہے تو ذوالجناح کو اشقیا کے نرغے میں تنہا چھوڑ کر اپنی کوفی نفسیات کو ظاہر کردیتے ہیں ۔ حکمرانوں کے لئے بھی اس قسم کا عاشورا پسندیدہ دن ہے کہ جس کی وجہ سے ان کی حکمرانی کی بنیادوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں ہوتا۔

ب:عاشورا اورقیام امام حسین علیہ السلام کے بارے میں دوسرا نظریہ، یہ ہے کہ جہاں آئمہ اطہار  بالخصوص امام حسین علیہ السلام کی زندگی کا ہر پہلو پیروکاروں کے لئے نمونہ عمل ہے اورقابل تقلید ہے وہاں عاشورا کا ہر کردار اورہر لحظہ ،پیروان عاشورا کے لئے پیام لیئے ہوئے ہے۔ اس نظریہ کے مطابق آئمہ اطہار  کی زندگی وحی الٰہی ،معجزات وکرامات کی طرح پر اسرار اور ناقابل فہم نہیں، بلکہ قرآن کی طرح محکمات ومتشابہات پر مشتمل ہے۔ جس کے محکمات قابل تقلید اورقابل عمل ہیں اورجن کے متشابہات غور وفکر کے متقاضی ہیں۔ایسا نہیں کہ جس طرح ہم قرآن کے نہ محکمات پر عمل کرتے ہیں نہ متشابہات میں غور وفکر،بلکہ اسے ریشمی کپڑوں میں لپیٹ کر رکھ دیتے ہیں ۔اسی طرح آئمہ اطہار  اور سید الشہدا  کی سیر ت کے بارے میں بھی ہمیں ایسا رویہ اختیار نہیں کرنا چاہیے کہ ظلم کے خلاف قیام کو بھول جائیں کہ جو سیرت آئمہ  اور سیرت امام  عالی مقام  کے محکمات میں سے ہے۔اس نظریہ کے مطابق آئمہ اطہار اورسیدالشہدا  کی زندگی کا ہر پہلو روشن ہے اورقابل تقلید ہے ،جس کی پیروی کرنا ہر مؤمن پیروکار کا فریضہ ہے۔ اس نظریہ کے مطابق عاشورا کا دن پیغام کا حامل ہے جس میں ہر دور کے مظلوموں کے لئے بھی پیام ہے اورظالموں کے لئے بھی۔ اس نظریہ کے مطابق امام حسین  اسطورا (افسانوی شخصیت) نہیں ،بلکہ نمونہ عمل ہیں اورزمینی حقائق سے بہت قریب ہیں۔ اس نظریہ کے مطابق کی جانے والی عزاداری رسم نہیں،بلکہ عبادی وسیاسی عمل ہے اور اما م حسین  اورآئمہ طاہرین  کے حقیقی پیروکاروں کی عزاداری اورہندوؤں کی عزاداری میں فرق ہے۔ اس نظریہ کے مطابق امام حسین  کی شھادت کا فلسفہ گریہ بھی ہے ،حکومت بھی اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر بھی ہے۔چونکہ حکومت کے قیام کی خواہش اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ فقط  ٦١ ھ تک ہی محدود نہیں ،بلکہ ہر دور میں گریہ ،مقدس احساسات اور جذبات کی عکاسی کی علامت ہے اور ہر دور کے ظلم وستم کے خلاف احتجاج ہے اور ہر دور میں اسلامی حکومت کا قیام حسینیوں کا مقصد ہے اور ہر دور کے منکرات کے خلاف نہی کرنا ہے اور ہر دور کے معروف کی حمایت کرنا ہے عاشورا کا ہدف ہے ۔اس نظریہ کے مطابق یزید و معاویہ اگر اپنے دور کے منکرات اور علی  واولاد علی  اپنے زمانے کے معروفات ہیں تو عصر حاضر میں بھی امریکی استکبار اور اس سے وابستہ لوگ منکرات شمار ہوتے ہیں اور ان کے مقابلے میں قیام کرنے والے خمینی و خامنہ ای اور شہید حسینی  کا شمار معروفات میں ہوتا ہے ۔اس نظریہ کے مطابق عاشورا کے ایام میں نوجوانوں کے لئے مہندی قاسم کا قصہ بیان نہیں کیا جاتا ،بلکہ خون قاسم اورموت سے قاسم  کی محبت کا قصہ بیان کیاجاتا ہے اورنوجوانوں کو حضرت قاسم  کا یہ درس دیا جاتا ہے کہ ”موت ہمارے لئے شہد سے زیادہ شیرین ہے۔”عاشورا کے بارے میں یہ طرز تفکر ذلت کی زندگی پر موت کو ترجیح دینے کا سبق دیتا ہے اورعالمی اورعلاقائی طاغوتوں کے مقابلے میں قیام کی دعوت دیتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق امام حسین  جس قدر اپنے پیروکاروں کے لئے مقدس ہیں، اسی قدر نمونہ ٔ عمل بھی ہیں اور ہر پیروکار کے دل میں جس قدر امام حسین  اورعاشورا کے دوسرے کرداروں کا تقدس بڑھتا جاتا ہے، اسی قدر اس کے عمل میں شدت پیدا ہوتی جاتی ہے اور وہ امربالمعروف اورنہی عن المنکرکرتا ہے۔ کیونکہ یہ اس کے مولا حسین  کا عمل ہے اورعاشورا کا پیغام ہے ،وہ ظالموں اورطاغوتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرتا ہے، کیونکہ یہ اس کے سیدوسردار حسین  کی سیرت ہے اورروز عاشورا کا درس ہے۔وہ قوم وملت اور اپنے دین ومذہب سے وفاداری کرتا ہے چونکہ یہ اُس کے مولا وآقا عباس کی سیرت ہے ۔وہ چشم بصیر ت سے دیکھتا ہے چونکہ وہ حر  جیسے صاحب بصیرت کا عزادار ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے کہ جس کی وجہ سے حکمرانوں کا عزاداری اور عاشورا کے مقابلے میں رویہ بدل جاتا ہے اور وہ عاشورا کو اپنے اقتدارکی راہ میں حائل تصور کرنے لگتے ہیں ۔اگر اس نظریہ پر عمل ہوتو شاہ ایران جیسے طاغوتی حکمرانوں کے جنازے نکلنے لگتے ہیں او ر عاشورا اور عزاداری سے انقلاب اسلامی کا تنور گرم ہو جاتا ہے ۔اگر آج ہمارے نوجوانوں کے لئے یہ نظریہ واضح ہو جاتا تو وہ ایام محرم میں مہندی قاسم  کی یاد منانے کے بجائے حضرت قاسم  کی مانند موت کو شہد سے زیادہ شریں قرار دیتے اور اپنے خون کی مہندی میں رنگین ہوکرپاکستان کی مقدس سرزمین میں داخل ہونے والے ہر امریکی نجس قدم کو کاٹ ڈالتے۔ اگر عاشورا کا یہ پیغام عزادار سمجھ جاتے تو امسال عالمی کفار کی جانب سے ہونے والی توہین رسالت ﷺ کے مقابلے میں قوم کا ہر عزادار پیغام مرگ بن جاتا اور اُس کے سینے پر لگنے والا ہر ماتمی ہاتھ ظالموں کے منہ پر تماچہ بن کر لگتا، لیکن افسوس کے اس نظریہ کی وضاحت نہیں کی گئی ۔

ہر دور کاطاغوتی اور ظالم حکمران دیکھتا ہے کہ رائے عامہ عاشورا کے بارے میں کیا نظریہ رکھتی ہے تو وہ اسی کے مطابق عاشورا کے بارے میں رویہ اختیار کرتا ہے۔ اگر وہ دیکھتا ہے کہ عاشورا لوگوں کی نظرمیںایک پیام ہے ،یعنی مظلوموں کے لئے انتقام کا پیام ہے ،مختلف عوامی طبقات میں حرکت کا پیام ہے، ظالموں کے لئے عذاب کا پیام ہے اور عالمی استکبار کے لئے انکار واحتجاج کا پیغام ہے تو وہ عاشورا پر پابندی لگانا شروع کردیتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال اُموی اورعباسی حکومتیں ہیں جو روضہ ٔ امام حسین  پر ہل چلا کر عاشورا کے آزادی وحریت پر مبنی پیغام کو خاموش کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ایران کا شاہ رضا خان پہلوی ہے کہ جو عزاداری پر پابندی لگاتا ہے چونکہ اس دور کے عوام اوررائے عامہ، علمائے حق کی برکت سے عاشورا کے حماسی پہلو کا نظریہ رکھتے ہیں اور اس دور کی عزاداری ،استعمار شکن عزاداری بن جاتی ہے۔ لیکن ایک زمانہ وہ آتا ہے کہ جب رائے عامہ کی نظر میں عاشورا اسطورا (افسانہ )بن جاتا ہے اور امام حسین  فقط ایک مقدس آسمانی شخصیت ۔تواس وقت عزاداری عبادی وسیاسی عمل کے بجائے محض ایک رسم بن جاتی ہے اورعاشورا کا سیاسی پہلو دب جاتا ہے اوراسطورائی(افسانوی) پہلو اُبھر آتا ہے اور لوگ منتوں مراد وںکی شکل میں عاشورا منانے لگتے ہیں جب پلاؤ ،حلیم اورزرد ے کی دیگوں کے گرم ہونے کا نام عاشورا رکھ دیا جاتا تو اس وقت صفوی اورقاچاری بادشاہ اورہندوستان کے نواب اورمہاراجے بھی عزادار بن جاتے ہیں اورعزاداری پر کڑوڑوں روپیہ خرچ کرنے لگتے ہیں اوربنفس نفیس عزاداری کی محافل ومجالس میں شرکت کرنے لگتے ہیں ۔حالانکہ یہی سلاطین شقاوت وظلم میں اورطاغوتیت میں بنی امیہ وبنی عباس سے کم نہیں تھے۔یہ ایک قابل غور مسئلہ ہے کہ مظلوموں کے خون اورکھوپڑیوں سے تشکیل پانے والے پہلوی وقاچاری بادشاہتیں کس طرح ”ظلم ستیز عاشورا” کی یاد مناتی ہیں اورانگریز استعمار کے کاسہ لیس ہندوستانی نواب اورمہاراجے کس طرح عزاداری امام حسین  کا دم بھرتے ہیں۔یہ راز اس وقت منکشف ہوتا ہے کہ جب انسان ،عاشورا کے بارے میں اس دور کی رائے عامہ کے طرز تفکر کا مطالعہ کرے ۔ عاشورا اورقیام امام حسین کے بارے میںیہ رائے عامہ اوردنیائے اسلام کا عقیدہ، نظریہ اورطرز تفکر ہے کہ جو ظالم حکومتوں کے رویہ میں تبدیلی لاتا ہے اور وہ کبھی تو عزاداری کی حامی بن جاتی ہیں اورکبھی عزاداری اورعاشورا کی دشمن ۔

جس وقت عزاداری اورعاشورا محض رسم ورواج اورعوام کی ذہنی عیاشی اورجذبات واحساسات ،خطباء کی نکتہ بازیوں اورشعراء اورمرثیہ نگاروں کے تفنن طبع کا وسیلہ بن جاتے ہیں تو آرام طلب امراء ، طاغوت پسند نواب اورمہاراجے اورموجودہ دور کے استکبار پسند لبرل جمہوریت کے علمبردار بھی عزادار بن جاتے ہیں اوراپنی آزاد ی پسند جمہوریت اورحکومت کا ثبوت فراہم کرتے ہوئے ہر قسم کی مذہبی آزادی دینے کو تیار ہو جاتے ہیں ۔حتیٰ ایسے مراسم پر اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں اوران کے گماشتہ خطباء ذاکرین اوربانیان مجالس عزاداری کاحقیقی چہرہ بگاڑنے کے لئے ہر قسم کی خرافات کا مظاہر ہ شروع کر دیتے ہیں حتیٰ دشمنان اہل بیت  بھی عزاداری امام حسین  اورذکر اہل بیت کے پردے میں عاشورا کی تحریف کرنے اور اس کا چہرہ بگاڑنے میں مصروف عمل نظر آتے ہیں اورہمارے جذبات سے بھرے دل، اپنے خون پسینے کی کمائی ان پر لٹا کر ان کا استقبال کرتے ہیں۔ حکمران ایسی عزاداری سے کیوں گھبرائیں جس سے ان کے قبیح سیاسی کردار کو کوئی خطرہ محسوس نہ ہو۔ جو عزاداری، ان کی طرف سے دشمنان اسلام اورعالمی استکبار کے ساتھ کیئے گئے خائنانہ معاہدوں پر سے پردہ نہیں اٹھاتی وہ اسے کیوں بند کریں ۔جب منبر حسینی  ،ظلم وستم کے خلاف بولنے ،امر بالمعروف اورنہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنے کے بجائے خرافات کی ترویج میں مصروف ہو تو یہ حکمر ان اس کا استقبال نہیں کریں گے تو کون کرے گا؟

پس عزاداری اورعاشورا کے بارے میں ظالم اورطاغوتی حکمرانوں کا رویہ اگر متضاد ہے تو اس کی سب سے بڑی وجہ عزاداری اورعاشورا کے بارے میں ہمارا طرز تفکر ہے اگر ہم منفی طرز تفکر کے ساتھ عاشورا منائیں گے تو منفی قدروں کے علمبردار حکمران ہمارے ساتھ ہوں گے اورہمیں پوری آزادی دیں گے اوراگر ہم مثبت طرز تفکر کے ساتھ عاشورا کو زندہ کریں گے اوراس طرز تفکر کے ساتھ عاشورا کی یاد منائیں گے کہ جس کے ساتھ امام عالی مقام نے عاشورا کو وجود بخشا تھا اورعاشورا کو ظلم وستم کے خلاف معرکہ ٔ حق وباطل کا میدان بنایا تھا تو یقینا یہ ظالم حکمران اورطاغوتی طاقتیں ہماری عزاداری کے خلاف سازشیں کریں گی اور ہمیں عزاداری کی ہرگز اجازت نہیں دی جائے گی۔ یہ وہ معیار اورکسوٹی ہے کہ جس پر ہم ہر دور میں عزاداری اورعاشورا کے بارے میں اپنے طرز تفکر کی آزمائش کرسکتے ہیں ۔اگرظالم وطاغوت پسند حکمرانوں کے دور میں ہمیں ان حکمرانوں کی طرف سے عزاداری کی کھلی اجازت ہے، نہ صرف اجازت ہے، بلکہ وہ اس میں ہمارے ساتھ شریک بھی ہیں تو جان لیں کہ اس دور میں عزاداری اورعاشورا کے بارے میں ہمارا طرز تفکر حسینی طرز تفکر کے برعکس ہے اورہماری عزاداری حسین پسند عزاداری نہیں ہے ۔جس عزاداری سے ظالموں اورطاغوتوں کی نیندیں حرام نہیں ہوتیں وہ حسین پسند عزاداری نہیں ہو سکتی اور جس سرزمین کے رہنے والوں کی عزاداری سے اورجس روزِ عاشورا سے طاغوتی اورظالم طاقتیں لرزتی ہیں وہی عزاداری حقیقی ہے اور وہی روز ،روز عاشورا ہے اوروہی سرزمین ارض کربلا ہے۔

یکم محرم الحرام ١٤٣٤ھ   

٭٭٭٭٭٭٭٭٭

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں