معلم باعمل جناب سید عرفان زیدی مرحوم

۔9اگست 2022 صبح عاشورہ محرم مولا اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کے عاشق  علم باعمل جناب سید عرفان زیدی مرحوم نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ آپ کی ذات و شخصیت مولائے متقیان حضرت علی ؑ کے فرمان    إنَّ الحیاةَ عقیدةٌ و جهادٌ کا عملی نمونہ تھی، آپ کی پہلی برسی پر برادر نثار علی ترمذی کی تحریر (سید انجم رضا)

معلم باعمل جناب سید عرفان زیدی مرحوم

تحریر: سید نثار علی ترمذی

یہ 1980ء کے قریب کی بات ہے کہ لاہور میں ایک متعصب آفیسر محکمہ تعلیم میں تعینات ہو گیا۔ اس نے آتے ہی چن چن کر اساتذہ کے لاہور سے باہر تبادلے کرنا شروع کر دئیے نیز مختلف حربوں سے تنگ کرنا شروع کر دیا ۔ جنرل ضیاء کے مارشل لاء کا دور تھا۔ جلوس جلسہ کرنے پر سخت سزا دی جاتی تھی۔ ایسے میں اساتذہ نے کربلا گامے شاہ، لاہور میں ایک اجلاس کیا جس میں مذکورہ بالا افسر کے متعصبانہ و ظالمانہ رویہ پر غور ہوا اور تجاویز کی روشنی میں ” امامیہ ٹیچرز آرگنائزیشن پاکستان کے نام سے ایک تنظیم معرض وجود میں آ گئی۔ مختلف خطوط لکھے گئے اور قراردادیں منظور کی گئیں۔ بلآخر ان بے چارے اساتذہ کی کوشیش تھی یا بددعائیں کہ اس آفسر کا تبادلہ ہو ہی گیا ۔ سب نے سکون کا سانس لیا اور امامیہ ٹیچرز آرگنائزیشن بھی غیر فعال ہوتی چلی گئی ۔

شہید علامہ عارف حسین الحسینی رح نے جب تحریک کی شعبہ جاتی تنظیموں کے اجراء کا اعلان کیا تو اساتذہ کی یہ تنظیم اس کا حصہ بن گئی ۔ اس طرح ملازمین کی تنظیم ” امامیہ ایمپلائز ویلفیئر آرگنائزیشن پاکستان ” معرض وجود میں آئی۔ یہ فروری 1986ء کا زمانہ تھا۔

  1986ء کی ہی بات ہے کہ منظور چنیوٹی جو اس وقت پنجاب اسمبلی کے رکن تھے نے دو سوال اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کروائے۔ ایک قادیانی سرکاری ملازمین دوسرا شیعہ سرکاری ملازمین کے  بارےمیں۔ ان سوالوں کا مواد ایک جیسا تھا بس قادیانی اور شیعہ کا فرق تھا۔ دونوں سوالوں کے نمبر بھی آگے پیچھے ترتیب سے تھے۔ ان سوالوں میں پوچھا گیا کہ گریڈ 17 سے گریڈ 22 تک کتنے شیعہ یا قادیانی ملازم ہیں اور کن پوسٹوں پر تعینات ہیں، ان کے نام، ولدیت، تعلیم، عہدہ، گریڈ وغیرہ کیا ہیں؟ انہیں حساس ذمہ داریوں سے علیحدہ کرنے کی حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے اور کب تک ؟ یہ سوال سب اداروں میں بھیج دیا گیا۔ سرکاری ھدایات ہیں کہ اسمبلی کے معاملات کو  سب پر ترجیح دی جائے، اس لیے اس کے بارے میں پورے  صوبہ پنجاب معلومات جمع کرنی شروع کر دیں۔ جیسے یہ سوال پہنچا تو اس کی ایک نقل کروا کر تحریک کے ذمہ داروں کے علم میں لایا گیا۔ سید امیر علی شاہ ( لاہور کی معروف سماجی و مذہبی شخصیت ) نے اسے کربلا گامے شاہ میں منعقدہ مجلس عزاء میں مذمتی اعلان کروا دیا۔ ہر ذاکر و مولانا سے انفرادی رابطہ کیا۔ یوں پوری مجلس گویا اس خلاف یک زبان ہو گئی۔ کسی نے اپنے جاننے والے ایم پی اے کو کاپی پہنچا دی۔ اس ایم پی اے نے اسمبلی کو احتجاجی فون کیا تو اسے احساس ہوا کہ غلط سوال پوچھا اور جاری ہو گیا نیز اس اسے واپس لینے کا عندیہ دے دیا۔ یوں یہ سوال تو اپنی حیثیت میں ختم ہو گیا مگر اسمبلی بزنس کی وجہ سے کافی معلومات جمع ہو گیں۔ ایک مرتبہ بندہ ناچیز ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن میں اپنے دوستوں سپرنٹینڈنٹ سجاد نقوی مرحوم سے ملنے گیا تو یہ سوال بھی زیر بحث آ گیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس پر کافی معلومات جمع ہو چکی ہیں۔ میں نے ان کہا  اس کی نقل مہیا کر دیں۔ انہوں نے نقل کیے بجائے پورا اصل پلندہ میرے حوالے کر دیا۔ یوں اساتذہ کی معلومات کا اچھا خاصہ ذخیرہ رابطے کے لیے دستیاب ہو گیا۔ جس سے کما حقہ استفادہ کیا گیا۔ یہ بات برسبیل تبصرہ درمیان میں آ گئی۔

  تحریک کے صوبائی دفتر کے پاس دو مستطیل طرح کے کمرے تھے۔ اندر کی طرف والا کمرہ باقاعدہ دفتر تھا جہاں شام کو آفس سیکرٹری جناب احسان جعفری صاحب بیٹھتے تھے۔ ان کے سامنے قدرے لمبی میز تھی جس کے گرد چند کرسیاں تھیں۔ باہر والے میں ایک طرف صف بچھی ہوتی دوسری طرف کرساں رکھی ہوتیں تھیں۔ اسی کمرے میں اجلاس منعقد ہوتے تھے۔ ہفتہ وار میٹنگ میں اساتذہ تشریف لاتے۔ جس میں اعجاز علی شاہ مرحوم  اسیر حرم کے ساتھ جناب عرفان زیدی مرحوم بھی تشریف لاتے تھے۔ آپ مسکراتے ہوئے بااخلاق چہرے کے ساتھ ہر ایک سے مصافحہ کرتے۔ میٹنگ کے شرکاء کا انتظار کرتے یا میٹنگ میں شریک ہوتے۔ میں نے نہیں دیکھا کہ وہ ادھر ادھر کی باتوں میں مشغول ہوتے۔ آپ کے لباس و اطوار سے سے ہر شخص پہچان لیتا تھا کہ آپ معلم ہیں۔ آپ کی ریش مبارک اس دور میں بھی اتنی گھنی تھی۔ سادہ لباس اور مختصر سا تھیلا نما بیگ۔ اسلامک ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے پانچ سالانہ اجتماع ہؤے، اس کے علاؤہ بھی ہؤے جن کا بندہ ناچیز کوئی خاص علم نہیں رکھتا۔ تین اسلامک ایجوکیشنل کانفرنسز، زینبیہ کمپلیکس، ہنجروال، ملتان روڈ پر منعقد ہوئیں۔ ایک چنیوٹ میں۔ لاہور کی کانفرنسز بطور میزبان کے عرفان زیدی مرحوم پیش پیش تھے۔ اساتذہ سے رابطہ کرنا، قائل کرنا اور زراعانت حاصل کرنا شامل تھا۔ پھر تاریخ کا ورق الٹا گیا۔ ترجیحات بدل گیں۔ بقول شاعر

  قافلے دلدلوں میں جا ٹھہرے

راہنما، پھر بھی رہنما ٹھہرے

آپ سے ملاقات ملی اجتماعات میں ہو پاتی۔ اسی طرح خلوص سے ملتے۔ پرانی یادیں تازہ کرتے۔ مستقبل میں میں ملنے کا وعدہ کرتے اور جدا ہو جاتے۔ یوں کسی اور پروگرام میں شامل ہو جاتے۔ آپ اپنے آخری ایام تک اجتماعی ملی پروگراموں میں شریک ہوتے رہے۔ آپ کی آمد سے پروگراموں کی روحانیت میں  اضافہ ہو جاتا۔ اکثر لوگ آپ کو، آپ کے برخوردار فرحان زیدی سابقہ مرکزی صدر، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے والد کے حوالے سے جانتے ہیں جب کہ بندہ ناچیز کی ان کےدرخشاں ماضی کے حوالے سے آشنائی تھی۔

میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ نے جو دین سیکھا اسے اپنے اوپر لاگو کیا اور اسے اپنی اولاد کو منتقل بھی کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ نیک اولاد چھوڑ کر گئے ہیں۔ ہر شخص خطا کا پتلا ہے مگر اس کا اجتماعی کردار ہی اس کا اصلی چہرہ ہوتا ہے۔

وراثت فقط زمین و جائیداد و روپیہ نہیں ہوتی۔ اخلاق و اطوار و نیک اعمال بھی ورثہ ہوتے ہیں جسے اولاد کو اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔

مرحوم ستمبر 1945 کو مشرقی پنجاب کے علاقے شاہ آباد میں پیدا ہوئے ۔اسلامیہ کالج ریلوے روڈ سے گریجویشن کر کے محکمہ تعلیم سے بطور استاد وابستہ ہو گئے۔۔اوائل جوانی سے تادم رخصت  پاکستان میں ملی قومیات کے سفر کے شاہد اور فعال فرد کے طور پر  میدان میں رہے۔ امام خمینی کے عاشق تھے اور تمام زندگی ان کے بتائے اتحاد بین المسلمین ، عالمی سامراجی قوتوں کی مخالفت اور دنیا کے مظلومین کے حق میں آواز بلند کرتے رہے۔9اگست 2022 صبح عاشورہ محرم مولا اباعبداللہ الحسین علیہ السلام کے عاشق نے عالم بقا کے راہی ہو گئے۔۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں