مولانا مرتضیٰ حسین صدر الافاضل _ ایک ہمہ جہت انسان

از سید جعفر مرتضیٰ (مرحوم)

“مولانا مرتضی حسین انتقال کر گئے “ 23 اگست 1987ء کی یہ خبر ایک شخص یا شخصیت کی خبر انتقال نہ تھی، نہ جانے کتنی انجمنیں تھیں جو مر گئیں کتنے ادارے تھے جو بند ہو گئے۔ مولانا اس درجہ ہمہ گیر اور ہمہ جہت انسان تھے کہ کم ان میں تھے آفاق اور وہ آفاق ان کی آنکھ بند ہونے سے ہماری آنکھوں کے سامنے سے اوجھل ہو گئے۔

‏Work first money second ان کا ماٹو نہ تھا اور نہ ہی انہوں نے کبھی ستائش کی تمنا کی۔ مولانا کام، کام اور بس کام کے قائل تھے۔ انہوں نے کبھی ”عالم “ ہونے کا دعوئی نہیں کیا مگر علم شناس جانتے اور مانتے ہیں کہ وہ علم کے بحر ذخار کے کنار آشنا شناور تھے۔ علامہ “ کہلوانا انہیں پسند نہ تھا البتہ وہ کہتے تھے کہ میں نے “آزاد اور شیلی” کو دیکھ کر “مولانا” اپنے نام کا جزو بنایا ہے۔ مگر وہ صرف شاعر، ادیب، نقاد اور مورخ نہ تھے۔ جہاں وہ قلم کی قلمرو کے کئی قلمدانوں کے مالک و مختار تھے وہاں منبر و محراب بھی ان کی قلمرو سے باہر نہ تھے۔ وہ بیک وقت تابع شریعت بھی تھے اور سالک طریقت بھی، رند و صوفی بھی تھے اور صاحب نظر فقیہ بھی۔ علم کی شناخت ان کا مقصد اس کی تشہیر ان کا مشن اور کتاب ان کی جنس تھی۔

انہوں نے ہمیشہ حصول علم کو فرض جانا اور خود کو طالب علم سمجھا لیکن عطاء علم ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ جس کو پڑھایا اس کو دوست بنا لیا۔ کبھی خود کو استاد نہ جتایا نہ اس کو شاگرد بتایا۔ البتہ جس سے کچھ سیکھا اس کو ہمیشہ بطور استاد تعارف کرایا۔ مرحوم ضیا الحسن موسوی رحمتہ اللہ علیہ مولانا کے ہم سن دوست اور بچپن کے ساتھی تھے۔ جناب موسوی مصر گئے تو وہاں سے وہاں کا لب و لہجہ سیکھ کر آئے۔ مولانا نے وعدہ لیا کہ میں روزانہ آپ کے گھر آؤں گا اور اس ملاقات میں عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں بات نہ ہو گی۔ دونوں روزانہ ملتے، مختلف موضوع زیر بحث آتے مگر گفتگو عربی میں ہوتی۔ اس بول چال کو مولانا نے ہمیشہ درس و تدریس کا نام دیا اور جب بھی موسوی صاحب کا ذکر آیا یہی بتایا کہ وہ میرے اُستاد ہیں۔ حالانکہ مرحوم فرماتے تھے “مولانا آپ شرمندہ کرتے ہیں۔ یہ تو میں ہی جانتا ہوں کہ اس زمانے میں بھی میں نے آپ سے کیا کچھ سیکھا مگر ہمت نہیں پڑتی کہ آپ کی شاگردی کا دعوی کروں”۔

 مولانا سید طیب آغا صاحب الجزائری مدظلہ مولانا مرحوم کے ایک ہم درس ہیں ان کا سلسلہ روایت وجد ہے۔ مولانا مرحوم نجف تشریف لے گئے تو قیام کے لئے آپ ہی کا شریعت کدہ منتخب فرمایا۔ اس قیام کے دوران ایک دن درخواست کی مولانا! آپ سے مجھے سند روایت چاہئے ہے “ آغا صاحب مدظلہ حیران رہ گئے ”مولانا! یہ آپ کیا فرما رہے ہیں میں اور آپ کو اجازہ دوں” مولانا مرحوم نے آغا صاحب قبلہ کو ان کے سلسلہ روایت کی یہ خصوصیت یاد ولاتے ہوئے فرمایا کہ میں سند روایت لینے کے سلسلے میں محتاط ہوں آج تک میں نے کسی سے سند روایت کی درخواست نہیں کی اس سفر میں بھی شیوخ نے مجھ پر نظر کرم فرمائی اور میری عزت افزائی فرماتے ہوئے اجازہ مرحمت فرمانے کے ارادے کا اظہار فرمایا مگر میں نے موضوع بدل دیا اس کے باوجود میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اجازت روایت دیں۔

مولانا مرحوم جب بھی اپنی اسناد و روایت کا ذکر فرماتے ہیں اس سند روایت کا ذکر خصوصیت سے کرتے اور اس پر فخر کرتے تھے۔ ہم درس و ہم عصر سے علمی چشمک کی عام روش کے برخلاف مولانا مرحوم نے کبھی یہ خیال نہ فرمایا کہ یہ بات خود ان کے رتبے میں کمی کا باعث بنے یا نہ بنے کم از کم دوسرے کی بجایا بے جا بلندی رتبہ کی دلیل ضرور ہو جائے گی۔

انہیں بلندی پر ایک اور منزل بنانے کی للک تھی۔ جہاں انہیں اس بات کا کامل ادراک حاصل تھا کہ

ستاروں کے آگے جہاں اور بھی ہیں

وہاں وہ اس سبق کے ماہر استاد بھی تھے۔ بہت سے لوگوں کے علاوہ میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ بڑے سے بڑا کوئی ادیب، خطیب، نقاد، مصور، مورخ، شاعر، فلسفی، محقق، مفسر، محدث، قیمه ، قانون دان، زبان دان یا علم و فن کی کسی شاخ کا کوئی امام جب بھی مولانا سے ملا تو ملاقات سے پہلے اسے اپنے علم و فن پر کتنا ہی ناز کیوں نہ ہو جب موضوع سمٹا گفتگو ختم ہوئی اور مجلس برخاست ہوئی تو یہ احساس لیکر گیا کہ اس کا غرور بے جا اور دعوی بے معنی تھا۔

 یہ مبالغہ نہیں حقیقت ہے کہ کتابوں کی کان میں جا کر وہ خود کتاب ہو گئے تھے۔ انہوں نے پانچویں جماعت سےلکھنا شروع کیا فرماتے تھے کہ مجھے اس وقت بھی یہ شعور تھا کہ نوٹس لکھنے اور کتاب لکھنے میں کیا فرق ہے (بقول خود مولانا مرحوم) اس زمانے کی لکھی بہت سی کتابیں تلامذہ نے ضائع کر دیں” کچھ باقی ہیں جو مولانا کے اس شعور کا ثبوت بہم پہنچاتی ہیں) سن، تعلیم اور شعور میں اضافے کے ساتھ ساتھ مطالعہ وسیع اور قلم پختہ ہوتا گیا۔ پھر تو اکثر ایسا ہوا کہ وہ بستہ چھوڑ کر فرش پر اس لئے سوئے کہ بستر پر کتابوں نے ان کے لئے جگہ نہ چھوڑی اور جب فرش چھوڑ کر کرسی پر اس لئے جانا چاہا کہ کتابوں کے انبار در انبار نے فرش کو پر کر دیا ہے تو وہاں بھی اپنی جگہ کتابوں ہی کو دیکھ کر کمرہ تبدیل کر لیا۔ ایک کمرہ پھر دوسرا کمرہ پھر تیسرا کمرہ یہاں تک کہ ہم لوگوں نے ان کے ڈانٹنے کے باوجود پہلے کمرے کی پھیلی ہوئی کتابیں الماریوں میں رکھ دیں اور وہ صحن سے کتابیں اٹھا کر اسی کمرے میں چلے گئے اور میزوں کرسیوں اور فرش پر کتابیں پھر سے پھیلنے لگیں۔ وہ ایک ہی وقت میں مختلف النوع موضوعات پر کام کرتے تھے۔ اگر میز پر ادب ہوتا تو کرسی اور صوفوں پر تفسیر اور فرش پر تاریخ ایک جگہ کتاب لکھ رہے ہوتے تو دوسری جگہ مضمون اور تیسری جگہ تقریظ ہمہ وقت مصروفیت کا یہ عالم کہ وقت آخر تفسیر ( تفسیر مرتضوی) اور حدیث (المقتبس) کے علاوہ تین اور کتابیں ان کے زیر قلم تھیں۔ مضامین، خطوط اور ان کے جوابات ان پر مستزاد۔ کتاب کی شناخت کا یہ عالم تھا کہ پشت کتاب دیکھ کر اس کا نام اس کے مصنف کا نام، موضوع کتاب اور کتاب کی عمر بتا دیتے تھے۔ وہ جہاں تشریف لے جاتے لائبریری میں ضرور تشریف لے جاتے اور کتاب دار سے ایک کتاب” کا سوال کرتے تھے۔ اگر کوئی نایاب کتاب مل جاتی تھی تو اسے لے کر بیٹھ جاتے تھے۔ کتاب دار تنخواہ دار ہو یا خود مالک کتاب اس کو کتاب کا ایسا تعارف کراتے کہ اسے یہ یقین ہو جاتا کہ یہ کتاب دراصل مولانا ہی کی ملکیت ہے۔ کتاب کی تاریخ تعریف اس کے مصنف کی سوانح اس کے کاتب کا تعارف کاغذ کی جائے پیدائش اور ساخت جلد بندی کے ہنر و نقائص، اس کی حفاظت کے آداب اس کے متلاشی حضرات کے نام اور پتے کتاب کا استعمال، لہجے میں اس قدر شگفتگی آنکھوں میں اتنی چمک اور لبوں پر ایسی مسکراہٹ ہوتی تھی کہ پورا ماحول سحر زده محسوس ہوتا در و دیوار ہمہ تن گوش لگتے یوں لگتا کہ کتاب خود کہہ رہی ہو کہ میں مرچکی تھی دوبارہ زندہ ہو رہی ہوں۔

جس سے ملتے تھے اس کی پسند اور دلچسپی کے مطابق موضوع چھیڑتے تھے۔ خود اس کی بات کرتے تھے اگر صاحب علم و فن ہے تو علم و فن کی بات خود اس کے فن پاروں کی بات اگر صاحب حیثیت ہے تو اس کی اپنی اہمیت اس کی حیثیت ، کسی نامور خاندان کا چشم و چراغ سے تو اس کے خاندان اس کے آباء و اجداد کی بات اگر طبقہ عوام سے تعلق رکھتا ہے تو اس کی زمین کی بات اس کے گاؤں، اس کے شہر اس کے تھے ، ضلع یا صوبے کی بات، وہاں کا موسم، وہاں کی زمین، وہاں کے دریا اور نہریں وہاں کے آدمی وہاں کا ماضی اور وہیں کا حال، سامع یہ سوچنے لگتا کہ کہیں یہ شخص میرے ہی خاندان یا میرے ہی علاقے کا تو نہیں مگر ان باتوں میں یہ لحاظ کہ حصول علم کی تشویق ہو، خدمت مذہب و ادب کا جذبہ ابھرے۔ خدا آشنا ہو جائے۔

مولانا خاک نشین تھے اور خاک نشینی انہیں پسند تھی۔ وہ گوشہ نشین تھے اور شہرت و ناموری ان کو ناپسند تھی لیکن یہ خاک نشینی یوں نہ تھی کہ سیادت و سرداری ان کے بس کی بات نہ تھی اور نہ یہ گوشہ نشینی اس لئے تھی کہ بزم آرائی نہ آتی تھی۔ ان کے والد کو شعر و ادب سے رغبت تھی اور گھر پر شاعروں اور ادیبوں کی روزانہ کی بیٹھک کے علاوہ گاہے بگاہے مشاعرے بھی ہوا کرتے تھے اور یہ ان کے گھر کی ایک روایت تھی۔ شاید یہی وجہ تھی کہ زمانہ طالب علمی ہی میں مولانا نے اپنی لائبریری کا باقاعدہ افتتاح اور اور پھر سال بہ سال اس کے یوم تاسیس کا انتظام و انصرام کیا۔ (مولانا کو کتابوں سے اس قدر دلچسپی تھی کہ اپنا جیب خرچ اور اس کے علاوہ امتحانات میں اول آنے پر انعامات اور وظائف جو کچھ بھی ملتا کتابوں کی خریداری پر صرف کر دیتے۔ نخاس پرانی کتابوں کی مارکیٹ تھی وہاں سے مولانا کو بہت سے جواہر نایاب ملے جن میں سے کچھ تو ساتھ آگئے لیکن زیادہ تر وقت ہجرت ساتھ نہ آسکے اور وہیں رہ گئے) مولانا نے ان تقریبات کے ذریعے لکھنے پڑھنے کے شوق کو اپنے ساتھیوں میں مقبول بنایا ان مواقع پر اردو عربی اور فارسی تینوں زبانوں میں ایک ایک مقالہ پڑھا جاتا ایک مقالہ خود پڑھتے دوسرے دو اور ساتھی۔ بزرگ مصنفین اور محققین، اساتذہ اور ہم جماعتوں کو مدعو کرتے اور شرکا سے بھی یہ فرمائش کرتے کہ موضوع پر تیار ہو کر آئیں ہم مقالے پڑھیں گے آپ تنقید اور سوالات کریں۔ ہونہار ساتھی مقالے لکھنے کے لئے سال بھر تیاری کرتے۔ کتابیں پڑھتے رسالے تلاش کرتے، شخصیات سے ملاقاتیں کرتے ، ساتھی ساتھ دیتے بزرگ اور اساتذہ ہمت بڑھاتے تھے، خود تو پڑھنے کا شوق تھا ہی اب پڑھنے اور لکھنے والوں کی ایک ٹیم تیار ہو گئی۔

اس سلسلے میں ایک لطیفہ بھی یادگار ہے۔ جناب آغا نواب عالم صاحب بارہوی کے نکاح کے موقعے پر مولانانے سہرا کہا۔ نکاح ختم ہوا تو سہرا پڑھا، داد وصول کی اپنی نشست پر آکر بیٹھے۔ اتفاقا” اس محفل میں اس مجلس کے ایک رکن بھی شریک تھے وہ مولانا کے پاس تشریف لائے گلے لگا لیا ”مولانا! بہت عمدہ سہرا کہا ۔۔ مگر آپ یہ بھول گئے کہ آخری اجلاس میں طے یہ ہوا تھا کہ آئندہ آپ کا مضمون عربی میں ہو گا”۔ مولانا ہنس دیئے فرمایا “حضور! آپ کو معلوم ہی ہے کہ اس جلسے کی دو نشستیں ہیں اس نشست میں مضمون کا تعارف کرایا ہے اصل مضمون انشاء اللّٰہ دوسری نشست میں پیش کروں گا”۔ دونوں ہنس دیئے موضوع بدل گیا۔ رخصتی کے موقعہ پر سہرا عربی زبان میں کہا۔ موصوف بہت خوش ہوئے، بہت داد دی، فرمایا میں نے تو از راہ مزاح بات کی تھی ماضی کی ایک اچھی یاد تھی جو آپ کو بولتا دیکھ کر یاد آگئی تھی آپ نے میری خاطر زحمت کی اس زبان و بیان کو یہاں کون سمجھا ہو گا۔

مولانا کی زندگی کے اس پہلو کی طرف نشان دہی اس بات کی وضاحت کے لئے تھی کہ وہ گوشہ نشین ان معنوں میں نہ تھے کہ تنہائی پسند تھے۔ وہ بزم آرا تھے، انجمن ساز تھے مگر یہ سب ادارے تعمیر و ترقی کے لئے ہوتے تھے۔ تعمیر کی طرف متوجہ اور ترقی کے لئے کوشاں رہنے کی یہ صفت ان کی ذات کا جزو تھی۔ انہوں نے کام اور نام کے درمیان ایک واضح خط کھینچ لیا تھا۔ انہوں نے ہر تحریک انجمن اور تنظیم کی سرپرستی کی مگر اس وقت تک جب تک کسی نے تعمیر و ترقی کو اپنا مطمع نظر رکھا۔ جہاں نام و نمود کا پیوند لگا وہاں سے دوسروں کی دوڑ تو شروع ہو گئی لیکن آپ نے ہاتھ اٹھا لیا۔ فرماتے تھے ہم طالب علموں کو تصویریں کھنچوانے ، نعرے لگوانے ، بیان دینے اور انٹرویو چھپوانے کا وقت اور اکھاڑ پچھاڑ کرنے کی فرصت کہاں۔ یہ لیڈروں” کا کام ہے۔

لاہور کی انجمنوں کا تو ہمیں اس لئے علم ہے کہ سامنے کی بات ہے باہر کی بات اس لئے نہیں معلوم کہ وہ اپنی خدمات کا تذکرہ نہیں کرتے تھے۔ لاہور کی کوئی ایسی انجمن ہو گی جو اپنی تاسیس خاص طور پر دستور عمل کی تدوین کے سلسلے میں مولانا کی مرہون منت نہ ہو۔ اس کے لئے تنظیم یا انجمن کے نظریات و خیالات کا مولانا سے متفق ہونا ضروری نہیں تھا۔ اگر وہ لوگ اسلام یا وطن کے دشمن نہیں تو مولانا حاضر ہیں فرماتے تھے مقصد سب کا ایک ہی ہوتا ہے سفرکے ذرائع اور انداز مختلف ہوتے ہیں۔ مولانا کا یہ ساتھ اور سرپرستی اس وقت تک رہتی تھی جب تک اغراض و مقاصد کے اولیت حاصل رہتی اور انجمنوں کی زندگی کا یہ عرصہ مختصر ہی ہوتا ہے اور یہی وہ وقت ہوتا ہے جب ان کا مستقبل غیر یقینی رکنیت محدود اور شہرت ناپید ہوتی ہے۔ مولانا کی اس عادت اور قومیات میں ان کے اس رویے پر حیرت اس وقت ہوتی جب مولانا ان افراد کے ساتھ مل کر کام کرتے یا ان انجمنوں کی دستگیری فرماتے جو ماضی میں ان کے کام یا نظریات کے خلاف کام کر چکی ہوتی تھیں۔ ایسے ہی مواقع پر مولانا کی ذات پر قوم کے اعتماد کا اندازہ ہوتا کہ مخالف بھی ان کے صائب مشوروں کی افادیت اور ان کی معاملہ فہمی پر کس قدر یقین کرتے ہیں۔ اور مولانا کی ان کے کام میں دلچسپی اور لگن بھی دیدنی ہوتی۔ فرماتے تھے ، جیو اور جینے دو کا یہ مطلب نہیں کہ خود اپنے یا اپنوں کے لئے جیو اور دوسروں کو جینے دو سے مراد یہ نہیں کہ ان سے لا تعلق ہو جاؤ۔ جیو سے مراد ہے دوسروں کے لئے بھی جیو اور جینے سے مراد ہے کہ

دوسروں کی جینے میں ہر ممکن مدد کرو کہ بہتر زندگی بسر کر سکیں اور بہترین راہ اختیار کر سکیں۔

ابھی چند ہی برس کی بات ہے کہ مولانا احسان الہی ظہیر (مرحوم) کا ٹیلی فون آیا فرمایا میں ایک کتاب لکھ رہا ہوں اور اس کے لئے کچھ حوالے درکار ہیں جو نایاب ہیں۔ یہ تو مجھے بہت پہلے اطلاع مل چکی تھی کہ وہ کتابیں آپ کے کتاب خانے میں موجود ہیں مگر میں نے اب تک آپ سے اس لئے نہیں مانگیں کہ زیر قلم کتاب آپ کے عقائد کی رو میں ہے۔ اب میں تھک چکا ہوں جہاں تک میری رسائی تھی میں نے تلاش کیں وہ مجھے نہیں مل سکیں البتہ کتاب خوانوں کتاب داروں اور کتاب نویسوں سب ہی کو آپ کی تعریف میں طب اللسان پایا سب نے یہی بتایا کہ تم ان کی خدمت میں حاضری دو جتنا مانگو گے اس سے زیادہ ہی ملے گا” مولانا نے فرمایا : یہ تو میرے بارے میں دوستوں کا حسن ظن ہے خوشی جب ہو گی جب دوستوں کی اس غلط فہمی کی بدولت آپ کی یہ مشکل آسان ہو جائے اور مطلوبہ کتابیں میر ے پاس نکل آئیں۔ آپ کے پاس وقت ہو اور زحمت نہ ہو تو تشریف لے آئے ملاقات بھی ہو جائے گی ان کے علاوہ شاید آپ کو کچھ اور بھی مل جائے۔ اگر مصروف ہیں تو مطلوبہ چیزیں لکھا دیجئے اگر ہوئیں تو ابھی نکال کر کسی بچے کے ساتھ بھیج دوں گا مرحوم نے فرمایا میں حاضر ہو رہا ہوں آدھے گھنٹے کے بعد وہ گھر پر تھے اپنی تصنیفات کا سیٹ مولانا کو ہدیہ کیا مولانا نے مطلوبہ کتابیں عاریتا اور اپنی کچھ تصنیفات تحفتا” مرحوم کو عنایت فرمائیں۔ کچھ دنوں بعد عاریتا” لی ہوئی کتابیں واپس دینے تشریف لائے تو فرمایا عظمت و بلندی کردار کے قصے کتابوں میں پڑھتا تھا اب ان میں سے ایک کا چشم دید گواہ ہوں۔ لیکن حیران ہوں یہ آپ نے کیوں کیا؟ آپ کی مجھ سے پہلے سے کوئی ملاقات نہ تھی نہ ہی کسی قسم کے روابط اور اس کام میں بدنامی کے علاوہ آپ کو کچھ ملنے کی امید بھی نہیں۔ مولانا مسکرا دیئے فرمایا میں طالب جو ئیندہ یا بندہ میرا ایمان بھی ہے اور تجربہ بھی یہ کتابیں بہت کم یاب ہیں مگر نایاب نہیں۔ فلاں فلاں اشخاص اور فلاے فلاں لائبریری میں ان کے نسخے موجود ہیں اگر یہ میرے ہاں سے نہ ملتیں تو آپ کا وقت اور قوت تو ضرور ضائع ہوتی مگر بالاخر مل ہی جاتیں اس کے علاوہ آپ کیا لکھ رہے ہیں اور کیوں آپ کو بھی معلوم ہے اور ہمیں بھی۔ ان ہوں ۔ حوالوں کا تعلق، حیثیت، سیاق و سباق اور رد نہ آپ سے پوشیدہ ہے نہ ہم سے تو پھر اگر میری وجہ ہی سے صحیح آپ کے نظم میں زور اور بیان میں حسن پیدا ہو جائے تو کیا مضائقہ۔ مرحوم نے وضاحت فرمائی میں تو مزدور ہوں میرا مقصد فرقہ واریت اور مذہبی منافرت پھیلانا نہیں اس لئے عربی میں لکھتا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ اس کے بعد ایک آدھ مرتبہ سرراہ ملاقات ہوئی فرماتے تھے مولانا! اس ملاقات کے بعد کسی کی رو میں جب بھی قلم اٹھایا اسے کمزور پایا۔ اس سے پہلے “ یہ ملاقات رنگ لاتی وعدہ پورا ہو گیا مرحوم دھماکے میں زخمی ہوئے اور زخموں سے جانبر نہ ہو سکے ان دنوں مولانا کے خواہش اور کوشش تو بہت کی کہ عیادت کو جائیں مگر کمزوری اور بیماری نے اجازت نہیں دی۔

فراخ دلی بلند حوصلگی اور اعلیٰ اخلاق مولانا کی شخصیت کا حصہ تھے۔ دشمن کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کرنا انہوں نے ورثے میں پایا تھا اور اس کا ذکر انہوں نے لبنان (بیروت) کی ایک محفل میں کیا۔ مولانا جب لبنان تشریف لے گئے تو جناب حسن الامین نے آپ کے اعزاز میں ایک دعوت کی، جس میں معززین شہر ادیب، شاعر اور علماء مدعو تھے۔ مولانا کا قیام جناب حسن الامین کے یہاں ہی تھا مگر پروگرام کے مطابق آپ کو ہال میں ذرا دیر میں آنا تھا۔ مقررہ وقت پر سب جمع ہو گئے پروگرام کے مطابق مولانا تشریف لائے تو سب کھڑے ہو گئے ایک ایک سے تعارف ہوا مصافحہ ہوا معانقہ ہوا کہ ایک صاحب نے مصافحہ کرتے ہوئے اپنا نام بتایا اور تعارف میں کہا میں تمہارے دادا کا قاتل ہوں (اس شخص کے آباؤ اجداد کربلا میں قتل امام مظلوم میں شریک تھے ) مولانا نے اس شخص کو گلے سے لگا لیا فرمایا تم ہمارے مہمان ہو۔ بیٹھو اور ہمارے ساتھ کھانا کھاؤ کہ یہ ہمارے دادا کی سنت اور آباؤ اجداد کی رسم ہے۔ ہم اپنے قاتلوں کو دودھ سے سیراب کرتے ہیں۔ شرکاء محفل حیران رہ گئے کہ کہنے والے نے کیا کہا اور سننے والے نے کیا جواب دیا۔ اپنے قریب بٹھایا، خود کھانا نکال کر اسے دیا۔ مجمع خاموش تھا ایک عیسائی شاعر خاموش نہ رہ سکا۔ بولا : “سید! میں تمہارے رسول پر ایمان نہ رکھتا مگر ان کے اس معجزے کا قائل ہوں کہ ان کے اخلاق و کردار نے عربوں کو آپس میں ملا دیا۔ یہ عرب نہ ان سے پہلے ایک تھے نہ ان کے بعد آج تک کبھی ایک ہوئے۔

 اعلیٰ کردار اور عمدہ اخلاق کا یہ نمونہ 23 اگست کی صبح ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ لیکن ایسے اثرات چھوڑ گیا اپنے پیچھے اپنے ایسے آثار چھوڑ گیا کہ ایک زمانہ ہے جو کہہ رہا ہے۔

سید جعفر مر تضٰی مرحوم

سید جعفر مر تضٰی مرحوم

 آپ  مولانا مرتضیٰ حسین صدر الافاضل کے بیٹے اور حسین مرتضیٰ سے چھوٹے تھے ۔ آپ نے علوم آل محمد علیھم السلام بچپن میں اپنے والد سے حاصل کیا اور دنیاوی علوم میں چار ٹیڈ اکاؤنٹ ، تعلیم مکمل کر کے ملازمت اختیار کی۔ آپ نے بھی ملازمت کے ساتھ ساتھ ترویج دین و عزاداری میں اہم کردار ادا کیا اور قبلہ کی وفات کے بعد ان کے قائم کردہ اداروں سے کافی عرصہ تک وابستہ رہے اور دین وملت کی خدمت کی۔ آپ 21 دسمبر 2007ء10 ، ذی الحجہ کو خالق حقیقی سے جاملے اور اپنے چچا کے پہلو میں دفن ہوئے

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں