ایم ڈبلیو ایم کے 15 سالہ سفر پر ایک نظر

تحریر: سید کاشف علی

حال ہی میں علامہ راجہ ناصر عباس جعفری دوسری مرتبہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے چیرمین منتخب ہوئے ہیں اس سے پہلے وہ مسلسل تین بار اُس وقت کے اعلی ترین تنظیمی عہدے، مرکزی سیکرٹری جنرل پر فائز رہے ہیں۔ اس طرح بانی چیرمین کو مسلسل پندرہ سال سے مجلس وحدت کا سربراہ رہنےکا اعزاز حاصل ہوا ہے۔

راقم نے راجہ ناصر عباس جعفری کا نام سب سے پہلے شاید 1991 میں سنا، جب انھوں نے قم میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد مسلسل دو سال عشرہ محرم ڈیرہ اسماعیل خان میں پڑھا تھا، ان کے خطابات سننے کے بعد علامہ صاحب سے متعلق ہمارا جوپہلا تاثر قائم ہوا وہ یہ تھا کہ آپ دو ٹوک انداز میں اپنا موقف پیش کرنے والی ایک انقلابی اور جرات مند شخصیت کے مالک ہیں۔ 2005 میں تعلیم مکمل کرنے کے بعد بسلسلہ روزگار اسلام آباد منتقل ہوا، تویہاں بھی شیعہ حقوق کے لیے جو مظاہرے ہوتے، آپ اس میں بھی پیش پیش نظر آتے تھے۔ 2006 سے ڈیرہ اسماعیل خان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی لہر میں اضافہ ہو گیا، بےسروسامانی کی کیفیت میں چند مخلص مومنین نے آئی ایس او کے پلیٹ فارم سے 2008 میں ڈیرہ اسماعیل خان میں ‘عظمت شہدا کانفرنس’ کے عنوان سے ملک گیرکانفرنس کا انعقاد کیا، اس میں علامہ راجہ ناصر عباس سمیت پاکستان بھر سے علماء کرام نے شرکت کی، راقم بھی اپنی ملی ذمہ داری کے تحت اس کانفرنس میں شریک ہوا، اور کانفرنس کی اختتامی قراردادیں پیش کیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی عظمت شہداء کانفرنس مجلس وحدت مسلمین کی تاسیس کا پیش خیمہ ثابت ہوئی، اس کانفرنس سے ملنے والے مومینٹم سے علماء امامیہ اور سابقین امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن مزید متحرک ہوئے، اور ان احباب نے اپنی ملی ذمہ داری کے تحت خاموش تماشائی کے بجائے میدان عمل میں اترنے کا فیصلہ کیا، آئندہ برس اسلام آباد میں قائد شہید کی برسی کے ملک گیر پروگرام نے اس مومینٹم میں مزید اضافہ کیا۔ اگست 2009 میں جامعہ بعثت رجوعہ سادات میں ہونے والے علمائے امامیہ و سابقین آئی ایس او کے اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین کی بنیاد رکھی گئی اور یوں علامہ راجہ ناصرعباس مجلس وحدت کے پہلے سربراہ یعنی سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے۔

مجلس وحدت مسلمین کی جدوجہد کے ابتدائی سال

علامہ راجہ ناصر صاحب کی قیادت میں علمائے امامیہ اور آئی ایس او کے سابقین پر مشتمل مرکزی کابینہ نے پاکستان میں ملی حقوق کی جدوجہد کا نیا سفر شروع کیا، شورائے عالی میں قابل قدر بزرگ علماء کرام کی موجودگی نے بھی جماعت کی رہنمائی میں اہم کردار ادا کیا۔ نئے ملی سیٹ اپ نے پارہ چنار و ڈیرہ اسماعیل خان سمیت ملک بھر میں ہونے والی شیعہ کُشی پر بھرپور آواز بلند کی، مجلس وحدت نے 1995 سے پاکستان میں شروع ہونے والے قیادتی بحران کی وجہ سے پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کرنے کی کوشش کی، آئی ایس او اس کوشش میں ہمیشہ کی طرح ہر اول دستہ ثابت ہوئی اور یوں مایوسی کی فضاء چھٹ گئی، اورپاکستان میں ایک متحرک، فعال اور طاقت ور ملت تشیع کی امید پیدا ہوئی، جونہ صرف محفوظ ہو بلکہ معاشی، تعلیمی، سیاسی و سماجی لحاظ سے طاقت ور بھی ہو، اور جس کی طرف دشمن کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہ ہو۔ سنہ 2013 کی ابتداء میں کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کے قتل عام کے بڑے واقعہ میں کوئٹہ میں احتجاج شروع ہوا، تو اظہار یکجہتی کے طور پر مجلس وحدت نے ملک گیر مظاہروں کا آغاز کیا، جو رئیسانی حکومت کے اختتام پر منتج ہوا۔ بلوچستان میں گورنر راج کے زریعے رئیسانی حکومت کو گھر بھیجنے سے مجلس وحدت، پاکستان کے سیاسی افق پر شیعہ جماعت کے طور پر نمودار ہوئی، جس کے بعد جماعت نے مئی میں ہونے والے عام انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا۔ جس میں بلوچستان اسمبلی میں ایک سیٹ کے علاوہ اسے خاطر خواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی۔ اس کے باوجود مجلس وحدت اپنے آپ کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر پاکستان میں منوانے میں کامیاب رہی۔

بانی احباب کا سائیڈ لائن کیا جانا

تنظیم کی تاسیسں کے ابتدائی چند سالوں میں علمائے کرام و سابقین آئی ایس او متحرک و فعال رہے، شعبہ جواں بھی متحرک رہا اور علامہ ناصر عباس کے معاون و مددگار کے طور پر متعدد علمائے کرام میدان عمل میں جدوجہد کرتے دکھائے دیئے۔ بعد ازاں مجلس وحدت سے بانی اراکین کو آہستہ آہستہ نکالنے کا عمل شروع ہوا۔ یوں علامہ امین شہیدی، آئی ایس او کے سابق مرکزی صدور سمیت متعدد اہم بانی اراکین مختلف وجوہات کی وجہ سے مجلس سے علیحدہ ہونے پر مجبور کر دیئے گئے۔ مستند ذرائع کے مطابق، کچھ احباب کی ذاتی مصروفیات کے ساتھ مجلس میں متحرک ایک سابق مرکزی صدر آئی ایس او نے ایسے حالات پیدا کیے۔

اس صورتحال کی وجہ سے ان سے سینیئر سابق مرکزی صدور کو تنظیم سے علیحدہ ہونا پڑا۔ اس طرح علامہ امین شہیدی جو مستقبل کی قیادت کی ذمہ داری نبھا سکتے تھے، وہ بھی خاموشی سے تنظیم سے علیحدہ ہونے پر مجبور ہوگئے، کچھ عرصہ بعد شعبہ جوان کے مرکزی مسئول آئی ایس او کے سابق مرکزی چیف اسکاوٹ بھی تنظیم سے الگ ہوگئے۔ ذرائع کے مطابق، مذکورہ بالا سابق مرکزی صدر اپنے زیر اثر من پسند سابق مرکزی صدور و سابقین کو ہی مجلس میں دیکھنا چاہتے تھے، تاکہ وہ تمام اختیارات اور وسائل اپنے ہاتھ میں رکھ سکیں، اس لیے انھوں نے ایک ایک کرکے سب کو گھر بھیجنے کے لئے حالات سازگار بنائے۔

راقم کی علامہ صاحب سے نشست

مجلس وحدت کی تاسیس کے ابتدائی چند سالوں بعد جماعت کے پہلے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ امین شہیدی جماعت سے علیحدہ ہوگئے، انھوں نے امت واحدہ پاکستان کے نام سے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھ دی، جبکہ مجلس وحدت کی تاسیس میں متحرک علمائے امامیہ بھی اجلاسوں کی حد تک مجلس سے مربوط رہے، آہستہ آہستہ یہ بزرگان اپنے مدارس و دیگر پروجیکٹس میں مصروف ہوگئے۔ سابق مرکزی صدور آئی ایس او بھی باوجوہ علیحدہ ہوگئے، ان کے علاوہ متعدد مرکزی افراد یا تو جماعت سے نکل گئے یا انھیں بے اثر کر دیا گیا۔ راقم ان دنوں ایک انگریزی اخبار سے منسلک تھا اور ایک اردو اخبار میں کالم لکھنے کا سلسلہ بھی جاری تھا۔ مجلس وحدت سے ایک ایک کرکے بانی شخصیات کو نکالنے پر راقم اور چند دیگر دوستوں نے مین اسٹریم میڈیا میں احتجاج کرنے کے بجائے، 300 سے زائد مرکزی و ڈویژنل سطح کے سابقین کے ایک کلوز فیس بک گروپ میں آواز اٹھانا شروع کی۔

تمام اختیارات ایک ہاتھ میں مرتکز ہونے سے ڈیکٹیٹرشپ کی سی صورت حال پر مجلس وحدت پر کڑی تنقید کی۔ گروپ میں موجود راقم کے دیرینہ قریبی دوست معروف صحافی نادر بلوچ نے علامہ راجہ ناصر عباس کے ساتھ ان کے ایف سکس میں موجود گھر پر میٹنگ کا اہتمام کیا، یہ شاید 2015ء کا رمضان المبارک تھا، جب ایک دن افطار کے بعد ناچیز، نادر بلوچ اور ملتان سے تعلق رکھنے والے سابق آئی ایس او برادر عابس کے ہمراہ علامہ ناصر عباس کی رہائش گاہ پہنچے۔ شب بھر جاری رہنے والی اس میٹنگ میں علامہ ناصر عباس جعفری نے انتہائی شفقت سے راقم کی بات سنی اور جماعت کی پالیسیوں و مالیات سے متعلق سخت ترین سوالات کے جوابات انتہائی تحمل و بردباری سے دیئے۔ جس سے راقم کی نظر میں ان کے مقام و مرتبہ میں اضافہ ہوا، واپسی پر انھوں نے کتابوں کے تحائف بھی دیئے، ملاقات خوشگوار رہی۔

 مجلس وحدت کی فعالیت اور 2018 کے انتخابات میں شرکت

اس عرصہ میں مجلس وحدت کے مختلف شعبوں نے اپنا کام جاری رکھا، ملی حقوق کے دفاع اور فلاح و بہبود کے لیے مقدور بھر کوششیں جاری رکھیں، 2018 کے انتخابات کے نتیجے میں صوبائی سطح پر کچھ مخصوص نشستوں نے مجلس وحدت کے سیاسی قد کاٹھ میں اضافہ کیا، جب کہ گلگت بلتستان میں مجلس ایک موثر سیاسی قوت بن کر ابھری۔ 2022 میں عمران حکومت کے خاتمے کے بعد مجلس وحدت، تحریک انصاف کی مضبوط حلیف جماعت کے طور پر سامنے آئی اور علامہ راجہ ناصر عباس نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود بانی پی ٹی آئی عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا۔ تحریک انصاف کے ساتھ سیاسی الحاق پر علامہ صاحب کا ہمیشہ یہ موقف رہا ہے کہ انھوں نے کم تر برائی کا انتخاب کیا ہے، یعنی پی ٹی آئی سے بہتر آپشن نہ ہونے کی وجہ سے یہ اتحاد مجلس وحدت کی سیاسی مجبوری ہے۔

قائد وحدت عمران خان کے لیے متحرک

تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کی وجہ سے 2018 کے بعد مجلس کو چند مخصوص نشتیں ملیں، 2022 میں عمران حکومت کو گھر بھیجنے کے بعد مجلس وحدت نے اپنی سیاست کا مرکزی نکتہ عمران خان کی حمایت کو قرار دیا، اور ملت جعفریہ کو منظم و متحرک کرنے سے زیادہ عمران خان کی رہائی جماعت کا مرکزی فوکس بن گیا۔ 2024 میں ہونے والے عام انتخابات میں علامہ ناصر عباس جعفری کی ذاتی کاوشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے، تحریک انصاف نے مجلس وحدت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی، جس کی بدولت کرم سے مجلس وحدت مسلمین کی ٹکٹ پر پی ٹی آئی کی حمایت سے انجینئر حمید حسین طوری رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے، جب کہ علامہ راجہ ناصر عباس پی ٹی آئی کی حمایت سے سینٹر منتخب ہو گئے۔ قومی اسمبلی و سینیٹ میں پہنچنا مجلس وحدت کی ایک بڑی کامیابی ہے، جس نے اسے پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک قابل ذکر اسٹیک ہولڈر کے طور پر تسلیم کروانے میں مدد دی۔

مجلس وحدت کے زریعے ملت کی ترقی کو کیسے جانچا جائے؟

 کسی سیاسی، سماجی یا مذہبی تنظیم جو کسی مخصوص کمیونٹی کی نمائندہ ہو، اس کی افادیت و مؤثریت جانچنے کے لیے یہ دیکھا جاتا ہے کہ وہ کمیونٹی کے تمام طبقات کی نمائندگی کرتی ہے یا نہیں، اس کی ساکھ اور اعتماد کا درجہ کیا ہے، وہ مسائل کی حقیقی ترجمانی کرتی ہے یا نہیں، اور کیا اس کی سرگرمیاں تعمیری اور فلاحی نوعیت کی ہیں۔ مزید یہ کہ تنظیم کی پالیسیوں میں رواداری، قانون کی پاسداری، شفافیت، احتساب اور قومی دھارے سے تعلق کتنا موجود ہے۔ ان معیارات کے ساتھ اعدادو شمار کا ہونا بھی ضروری ہے، جس کی بنیاد پر ملت کی ترقی کو پرکھا جا سکے۔ پندرہ سال جدوجہد کے باوجود مجلس وحدت آج تک ایک موثر ملک گیر سروے نہیں کروا سکی، جس سے ملت تشیع سے متعلق آبادی، شرح خواندگی، صنفی تناسب، شرح روزگار و دیگر اہم اعداد و شمار جمع کیے جا سکیں، جن کی بنیاد پر کمیونٹی کی فلاح و بہبود اور ترقی و خوشحالی کا جامع پروگرام مرتب کیا جا سکے۔ مجلس وحدت فائرفائٹنگ سے کب باہرآ کر قوم کے اصل ایشوز پر کام کرے گی، یہ وہ سوال ہے جو اکثر پاکستانی شیعہ پوچھتے نظر آتے ہیں۔ سیاسی میدان میں موثر اظہار وجود کے باوجود سیاسی، مذہی، معاشی، معاشرتی و سماجی میدانوں میں ٹھوس کام کرنا ابھی باقی ہے، جس کی بنیاد وسیع عوامی حمایت کا حصول ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مجلس وحدت کے پاس ایک وسیع سپورٹ بیس موجود ہے اور کیا وہ اپنے حامیان کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے درست سمت میں کام کر رہی ہے؟؟

ٹارگٹڈ کلنگ کے خلاف موثر آواز بلند کرنے اور سیاسی میدان میں جدوجہد کے باوجود ملت تشیع کے جملہ مسائل جوں کے توں برقرار ہیں، 2010 سے پہلے ملت کی معاشی، تعلیمی، سماجی و سیاسی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا، جس کی وجہ گراس روٹس میں جماعت کی حمایت کی کمی، مکمل و فعال تنظیمی ڈھانچے کی عدم موجودگی اور طویل المدتی منصوبہ بندی کے بجائے فائرفائٹنگ جیسے روز مرہ چیلنجز پر جماعت کی مکمل توجہ ہونا ہے۔ مجلس اس تمام عرصہ میں عوام سے مضبوط رابطہ قائم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی اور مکتب جعفریہ کی اکثریت جماعت سے لاتعلق رہی جو کہ تشیوشناک صورت حال کا ناقابل تردید ثبوت ہے۔ اربعین و توہین مذہب کی ہزاروں ایف آرز ہوں، پارہ چنار کے راستوں کی بندش ہو ، ٹارگٹڈ کلنگ ہو یا نصاب کا مسلہ، تعلیمی و سماجی شعبوں میں مجلس وحدت زیادہ موثر کردار ادا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکی، جس کی وجہ سے ملت کی کُلی صورت حال میں 2010 کی نسبت کوئی خاطر خواہ مثبت تبدیلی نہیں آئی۔ اکثر اضلاع میں عوام نے جملہ ملی مسائل اپنی مدد آپ کے تحت حل کیے، جس سے مختلف حلقوں کی جانب سے ملت کے مسائل کے حل میں مجلس کے موثر ہونے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں؟

مجلس وحدت کی سیاسی کامیابی کیوں عارضی ثابت ہو سکتی ہے؟

مجلس وحدت مسلمین پارلیمان پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہے، لیکن اس کی یہ کامیابی مستعار شدہ ووٹ بینک سے ہے۔ بدقسمتی سے تادم تحریر مجلس وحدت کا کسی ایک صوبائی یا قومی اسمبلی حلقہ میں خالص اپنا ووٹ بینک نہیں، جس کی بنیاد پر وہ صوبائی یا قومی اسمبلیوں میں پہنچ سکے۔ لہذا سیاسی الحاق ختم ہونے کی صورت یا پالیسی اختلاف کی صورت مجلس کے لیے دوبارہ پارلیمان میں پہنچنا مشکل ہوسکتا ہے۔ یاد رہے سیاسی طاقت آپ کے اپنے ووٹ بینک سے حاصل ہوتی ہے، اتحادیوں کی مدد سے پارلیمان میں پہنچنے سے جماعت کا سیاسی قد کاٹھ اور وزن ہمیشہ کم رہتا ہے اور اسے اتحادیوں اور مخالفین کے طعنے بھی سننے کو ملتے رہتے ہیں۔

مجلس وحدت کی سب سے بڑی غلطی کیا ہے؟

مجلس وحدت نے اپنے سارے انڈے پی ٹی آئی کی ٹوکری میں ڈال دیے ہیں، جس کی وجہ سے گزشتہ تین سالوں میں اس کا فوکس بانی پی ٹی آئی کی رہائی اور اس طرح کے دوسرے معاملات پر رہا ہے۔ کسی بھی سیاسی الحاق کا مطلب، اپنے سیاسی ایجنڈے کو ترک کرکے کسی کی ذیلی جماعت بننا نہیں ہوتا۔ مجلس وحدت اپنے سیاسی منشور کے مطابق سیاست نہیں کر رہی، بلکہ پی ٹی آئی کے ایجنڈہ کو اپنی سیاست قرار دیا ہے، جو ایک دانشمندانہ حکمت عملی نہیں،، اور اس سے مجلس کے پی ٹی آئی کی ذیلی جماعت ہونے کا تاثر پیدا ہو رہا ہے۔

مجلس کی تمام توجہ گراس روٹس کے بجائے پاور کوریڈور پر کیوں ہے؟

کسی بھی سیاسی جماعت کی اصل طاقت اس کی عوام میں حمایت و مقبولیت ہوتی ہے۔ یہ طاقت اسے پارلیمان پہنچانے کے ساتھ طاقت کی راہداریوں میں قابل قدر مقام دلواتی ہے۔ مجلس کی ایک عرصہ سے تمام تر توجہ پاور کاریڈور میں ہے، یوں یہ سیاسی جماعت عوامی حمایت اور ووٹ بینک نہ ہونے کی وجہ سے ہوا میں معلق ہے، اس کی سیاسی کامیابی عارضی اور طاقت کی راہداریوں میں موجودگی وقتی ہے۔ اس لیے مجلس وحدت کو تمام تر توجہ گراس روٹس پر عوامی حمایت حاصل کرنے اور اپنی سپورٹ بیس کو بڑھانے پر مرکوز رکھنی چاہیے، وسیع عوامی حمایت کے بغیر مجلس کی بظاہر سیاسی کامیابی پانی پر لیکر ثابت ہو گی اور خاکم بدہن جماعت جلد قصہ پارینہ بن جائے گی۔

گراس روٹس پر مجلس وحدت کی صورت حال

گراس روٹس پر مجلس وحدت مسلمین کی صورت حال مایوس کن ہے۔ تمام صوبوں میں اکثریتی اضلاع میں یا تو تنظیمی ڈھانچہ مکمل نہیں یا ضلع بھر میں رابطے کے چند افراد ہیں، جو گاہے بگاہےمجلس کی موجودگی کا تاثر دیتے رہتے ہیں۔ زرائع کے مطابق، پنجاب ،کے پی اور بلوچستان کے اکثریتی اضلاع میں بنیادی تنظیمی ڈھانچہ نامکمل یا سرے سے موجود ہی نہیں، دیہی سندھ کی بھی یہی صورت حال ہے۔ میڈیا کوریج اور اسلام آباد میں ملاقاتوں سے تنظیم کا بھرم قائم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تنظیمی ڈھانچہ برائے نام اور عوامی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس پریشان کن صورت حال کی بنیادی وجہ جماعت کی طرف سے گراس روٹس پر محنت نہ کرنا ہے۔ اگر مجلس وحدت، پاکستان کی سیاست میں طویل عرصہ تک اپنا وجود برقرار رکھنا چاہتی ہے تو جماعت کی قیادت کو چاہیے کہ بنیادی تنظیمی ڈھانچے کو وارڈ لیول تک لے جائے، تمام صوبوں، شہروں اور اضلاع میں جماعت کو منظم کریں، صرف اسلام آباد، کراچی اور چند دیگر بڑے شہروں میں فعالیت یا میڈیا میں موجودگی سے مجلس ایک طاقتور سیاسی طاقت نہیں بن سکے گی۔

مجلس اور فیصل آباد کا گھنٹہ گھر

صدر ایوب نے 1962ء میں ایک نیا آئین متعارف کروایا، جس میں صدارتی نظام نافذ کیا گیا۔ اس آئین کے تحت صدر کو وسیع اختیارات حاصل تھے، جس پر مختلف حلقوں نے تنقید کی۔ جسٹس رستم کیانی، جو اس وقت مغربی پاکستان ہائی کورٹ لاہور کے چیف جسٹس تھے، نے اس آئین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ “صدر ایوب خان ملک میں فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی طرح ہیں، جس طرف سے بھی جاؤ، وہی نظر آتے ہیں،، مذکورہ فقرہ میں انہوں نے صدر ایوب خان کے اختیارات کو فیصل آباد کے گھنٹہ گھر سے تشبیہ دی، جو شہر کے مرکز میں واقع ہے اور ہر سمت سے نظر آتا ہے۔ اس وقت مجلس وحدت مسلمین کی بھی کم و بیش ویسی ہی صورت حال ہے، جماعت میں ہر طرف علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نظر آتے ہیں، ان کا سنیٹر بننا اور مین اسٹریم سیاست میں نظر آنا، ملت جعفریہ پاکستان کے لیے خوش آئند ہے، لیکن فرد واحد پر حد سے زیادہ انحصار مستقبل مییں جماعت کے لیے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان میں ملت تشیع یہ غلطی ایک بار کر چکی ہے، ماضی میں شہید قائد علامہ عارف حسین اور ڈاکٹر محمد علی نقوی پر علماء کرام ، نوجوانان ملت اور عوام نے اس حد تک تکیہ کر لیا، کہ ان کی بےوقت جدائی کے بعد ملک و ملت کی ترقی کا سفر اس زور و شور سے جاری نہ رہ سکا۔ اگر قوم نے چند افراد کے بجائے ادارہ جات پر تکیہ کیا ہوتا، تو افراد کے بدلنے سے ملت کی ترقی کا سفر نہ رکتا۔ اگر علامہ ناصرعباس جعفری حفظ اللہ مضبوط افراد کے بجائے، مجلس وحدت کی شکل مستقل، مضبوط و حقیقی جمہوری ادارے قوم کو فراہم کر سکیں، جہاں افراد کے آنے جانے سے زیادہ فرق نہ پڑے اور ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی کا سفر ہمیشہ جاری رہے، تو یہ ملت کی پائیدار ترقی کی ضمانت ہوگی۔

علامہ ناصر عباس جعفری کی بار بار تقرری پر اعتراض

علامہ صاحب کے پانچویں بار سربراہ مجلس وحدت المسلمین منتخب ہونے پر بعض حلقوں کی جانب سے شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ ناقدین کے مطابق مجلس وحدت میں موجود تنظیمی افراد کا بار بار یا تاحیات تقرری پر ایک تاریخی موقف رہا ہے۔ یہ لوگ تاحیات تقرری کے مخالف رہے ہیں، اس لیے ایک ہی شخصیت کو مجلس وحدت کا سربراہ پانچویں مرتبہ منتخب کرنا مورل گراؤنڈ پر درست عمل نہیں۔ بعض ناقدین کے مطابق، مجلس وحدت کے دستور میں سےایک شق کو بھی حذف کیا گیا، جس کے تحت دو مرتبہ سے زائد ایک ہی شخصیت کو سربراہ جماعت منتخب کرنے پر پابندی تھی۔ مجلس سے وابستہ احباب اس کی تردید کرتے ہیں۔ مجلس وحدت کے بعض مرکزی عہدے داران کے مطابق، شخصیات مشکل سے بنائی جاتی ہیں، اس لیے انہیں جلد ضائع نہیں کیا جا سکتا۔ راقم کا خیال ہے کہ مجلس وحدت کے اندرایسا نظام ہونا چاہیے، جس میں شخصیات کے بجائے ادارے مضبوط ہوں، کوئی کسی کو انگلیوں پر نچا نہ سکے، اور تنظیمی پراسس سے ملکی سطح کی شخصیات سامنے لانے کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے۔

کیا مجلس وحدت جمود کا شکار ہے؟

 نامکمل تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ چند سو افراد کے زریعے موجودہ شخصیات کا مرکزی و صوبائی و ضلعی سطح پر بار بار انتخاب جماعت کے اندر جمود کی نشاندہی کر رہا ہے۔ اس کے ساتھ مجلس کے عہدے داروں میں تنظیمی ترقی کے مدارج طے کرنے کے برابر مواقع کی عدم موجودگی کا تاثر بھی پایا جاتا ہے۔ حال ہی میں مجلس کے چند مرکزی سطح کے قائدین سے بات ہوئی، جن کا ماننا تھا کہ جماعت پر کچھ مخصوص تنظیمی افراد کی مکمل، موثر و فیصلہ کن گرفت موجود ہے، جو عہدے داران کی ترقی و تنزلی اور مرکزی عہدوں پر تعیناتی کے فیصلے کرتے ہیں اور بعد میں ایک فارمیلٹی کے طور پر جماعت کے اداروں سے رسمی منظوری لے لی جاتی ہے، زرائع کے مطابق، مجلس کے ادارے ربر اسٹیمپ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں، جب کہ اصل طاقت چند ہاتھوں میں مرتکز ہے۔ اس تاثر یا حقیقت کو رد کرنے کے لیے علامہ راجہ ناصر عباس کو مرکزی کابینہ میں نئے چہرے سامنے لانے ہوں گے۔ اس طرح صوبائی و ضلعی سطح پر بھی نئے افراد کو شامل کیا جائے تاکہ جمود کی کیفیت کا خاتمہ ہو۔

مجلس سے باہر افراد کو تنقید کا حق حاصل ہے؟

مجلس کے بعض احباب کا خیال ہے کہ جماعت سے باہر ملت تشیع کی اکثریت کو مجلس وحدت پر تنقید یا احتساب کا کوئی حق حاصل نہیں اور یہ حق صرف جماعت کے افراد اور اس کے اداروں کو حاصل ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تنظیم کسی کمیونٹی کی نمائندگی کرے اور اس کے نام پر مختلف سیاسی، سماجی و معاشی پروجیکٹس لانچ کرے اور فنڈنگ وصول کرے تو اس کمیونٹی کے ہر فرد کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اس جماعت سے سوال کرے۔ مجلس وحدت چونکہ ایک شیعہ سیاسی جماعت ہے اور اس کا کور سپورٹ بیس شیعہ ہے، اس لیے ہر پاکستانی شیعہ کو مناسب انداز میں اس کی پالیسیوں پر سوال اٹھانے کا حق حاصل ہے۔

علامہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت کو ایک ملی جماعت کے طور پر سب کے لیے اوپن کر کے چند مخصوص افراد کی تنظیم ہونے کے تاثر زائل کر سکتے ہیں، جماعت میں اختیارات حقیقی معنوں میں چند مخصوص افراد کے بجائے جماعت کے اداروں کے پاس ہونے چاہیے۔ ان اداروں میں ملت کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بہترین دماغ شامل ہوں۔ کسی بھی جماعت کے ساتھ مناسب شرائط پر سیاسی الحاق کرنے میں کوئی قباحت نہیں، لیکن اس کا مطلب اپنے سیاسی منشورکو ترک کرنا قطعا نہیں۔ پارلیمان میں موجودگی کو موقع غنیمت جانتے ہوئے مجلس گراس روٹ لیول پر اپنا سپورٹ بیس کو بڑھانےکے لیے کام کر سکتی ہے، بنیادی تنظیمی ڈھانچے کو یونین کونسل اور وارڈ لیول تک لے جانے سے جماعت کو ملک گیر سطح پر اپنی سپورٹ بیس کو متحرک کرنے کی صلاحیت حاصل ہو گی، جس سے اس کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوگا۔ ملک گیر سروے کے زریعے کمیونٹی سے متعلق بنیادی اعداد و شمار اکھٹے کیے جائیں اور ان کی بنیاد پر قلیل و طویل مدتی سیاسی، معاشی، معاشرتی و تعلیمی منصوبہ بندی کرنی چاہیے، مجلس وحدت کو اپنے اندر ملت جعفریہ کے تمام طبقات خاص کر آئی ایس او سے فارغ التحصیل افراد کو جذب کرنے کے لیے وسعت قلبی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور چند سابقین کے بجائے زیادہ سے زیادہ سابقین کو جماعت میں شامل کر کے ان کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ اختیارات کے چند ہاتھوں تک محدود ہونے کے تاثر کو غلط ثابت کرنے کے لیے علامہ صاحب کو اپنی کابینہ میں مناسب ردوبدل کرنا چاہیے۔ اگر تمام سابقہ افراد کو ان کے سابقہ عہدوں پر از سر نو تعینات کیا گیا تو یہ تاثر حقیقت میں بدل جائے گا کہ جماعت چند افراد کے ہاتھوں یرغمال ہے، جس میں صرف چیرمین ہی نہیں، بلکہ کابینہ بھی تاحیات ہے۔

100% LikesVS
0% Dislikes

2 تبصرے “ایم ڈبلیو ایم کے 15 سالہ سفر پر ایک نظر

اپنا تبصرہ بھیجیں