جنرل حسن تہرانی مقدم اور ایران کا بیلسٹک میزائل پروگرام

تحریر: سید کاشف علی
سید کاشف علی سینئر صحافی و تجزیہ کار ہیں۔ سیاسی و سماجی امور اور فارن افیرز پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ پاکستان کے مین اسٹریم نیوز چینلز میں ایڈیٹر فارن افیرز رہے ہیں۔ قومی و بین الاقوامی چینلز کے ٹاک شوز میں بطور تجزیہ کار حصہ لیتے ہیں، اور ایک انگریزی اخبار میں قومی و بین الاقوامی موضوعات پر کالم بھی لکھتے ہیں۔ (سید انجم رضا)
ایران کے بیلسٹک میزائل اسرائیل کے اسٹراٹیجک اہمیت کے فوجی، معاشی، توانائی اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنا کر اسرائیل کی ناقابل شکست ہونے کے تصور کو ملیا ملیٹ کر رہے ہیں۔ ایک شہید جن کا اس کامیابی میں کلیدی کردار رہا ہے وہ سپاہ پاسداران کے جنرل حسن تہرانی مقدم ہیں، جن کا خواب ا-سر-ا-ئیل کو ت-با-ہ کرنا اور ایران کو ایک ناقابل تسخیر فوجی طاقت بنانا تھا۔
جنرل حسن تہرانی مقدم ایران کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے بانی، معمار اور روح رواں مانے جاتے ہیں۔ ان کی انقلابی سوچ، سائنسی ذہانت اور بے پناہ عزم نے ایران کو ایک ایسی فوجی طاقت میں تبدیل کر دیا جو آج دشمنوں کے لیے خوف کی علامت ہے۔
حسن تہرانی مقدم 29 اکتوبر 1959 کو تہران کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انقلابِ ایران سے قبل ہی ان کے خیالات انقلابی ہو چکے تھے، اور 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد وہ فوراً سپاہ پاسدارانِ انقلاب میں شامل ہو گئے۔ تعلیم کے میدان میں انہوں نے مکینیکل انجینئرنگ اور ایروناٹکس میں مہارت حاصل کی، اور جنگی ٹیکنالوجی سے گہری دلچسپی رکھی۔ وہ بیک وقت ایک سپاہی، سائنسدان اور سٹریٹجک پلانر تھے۔
1980 میں جب ایران-عراق جنگ کا آغاز ہوا تو ایران کو شدید فوجی دباؤ کا سامنا تھا۔ اسلحہ کی قلت، بین الاقوامی پابندیاں، اور ٹیکنالوجی تک رسائی نہ ہونے کے باعث ایران کا دفاعی نظام شدید کمزور تھا۔ عراق کے پاس سوویت یونین سے حاصل کردہ جدید اسلحہ اور اسکڈ بی میزائل موجود تھے، جن سے ایرانی شہروں پر حملے ہو رہے تھے، مگر ایران کے پاس ان حملوں کا جواب دینے کے لیے کوئی مؤثر میزائل سسٹم نہیں تھا۔
اسی دوران جنرل مقدم نے فیصلہ کیا کہ ایران کو اپنا میزائل پروگرام ازخود کھڑا کرنا ہوگا، چاہے دنیا کچھ بھی کہے۔ ابتدائی دنوں میں ان کے پاس وسائل نہ ہونے کے برابر تھے۔ راکٹ انجن، گائیڈنس سسٹم، دھماکہ خیز مواد—سب کچھ دستیاب نہ تھا۔ لیکن انہوں نے خودی، محنت اور سائنسی عزم سے اس کام کی ابتدا کی۔ غزہ کے فلسطینیوں کی طرح ایران میں بھی ابتدائی طور پر “کاتیوشا” طرز کے چھوٹے راکٹ تیار کیے گئے۔
جنرل مقدم نے شامی اور شمالی کوریائی ماہرین سے بھی تعاون حاصل کیا اور ان کے ذریعے ٹیکنالوجی اور تکنیکی علم ایران لایا۔ جلد ہی ایران نے “شہاب” میزائل سیریز تیار کرنا شروع کی، جن میں شہاب-1، شہاب-2 اور پھر طویل فاصلے تک مار کرنے والا شہاب-3 شامل تھے، جو اسرائیل تک مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انہوں نے ایران میں میزائل ٹیسٹنگ اور ریسرچ سنٹرز قائم کیے، ان میں سب سے اہم “الحدید بیس” اور “القدس بیس” تھے۔ ان کی سربراہی میں ایران نے میزائلوں کی قوت تباہی، درستگی اور رینج میں حیرت انگیز ترقی حاصل کی۔
12 نومبر 2011 کو تہران کے قریب “القدس بیس” پر ایک میزائل تجربے کے دوران زوردار دھماکہ ہوا جس میں جنرل حسن تہرانی مقدم سمیت 17 افراد شہید ہو گئے۔ ان کی شہادت نے پورے ایران کو ہلا کر رکھ دیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں اسرائیلی موساد نے دھماکے میں شہید کیا۔
جنرل مقدم کی شہادت کے وقت ایران کا میزائل پروگرام نہ صرف علاقائی سطح پر ایک طاقت بن چکا تھا بلکہ مغرب اور اسرائیل کے لیے بھی ایک بڑا اسٹریٹجک چیلنج بن چکا تھا۔ ایران کے پاس اُس وقت شہاب-3، قدر، سجیّل، فاتح، اور دیگر کئی میزائل موجود تھے جو 2,000 کلومیٹر سے زائد فاصلے تک مار کر سکتے تھے۔
ان کی شہادت کے بعد رہبر انقلاب آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا کہ “جنرل مقدم شہید نہیں، وہ زندہ ہیں، اور ان کا راستہ جاری رہے گا۔”
ان کے مزار پر جو الفاظ کندہ ہیں وہ ان کے مشن اور سوچ کا نچوڑ ہیں
“یہاں وہ شخص دفن ہے جو ا-سرا-ئیل کو مٹا-نا چاہتا تھا۔”
جنرل حسن تہرانی مقدم نہ صرف ایران بلکہ پورے خطے کی عسکری تاریخ کے ایک اہم باب کا نام ہیں۔ انہوں نے شدید پابندیوں، وسائل کی قلت، اور بین الاقوامی مخالفت کے باوجود ایران کو خود کفیل میزائل طاقت بنایا۔ ان کا خواب، ان کا وژن اور ان کی محنت آج بھی ایران کے دفاعی اداروں کے لیے ایک مشعلِ راہ ہے۔ ان کی شہادت اگرچہ ایک عظیم نقصان تھی، لیکن ان کا پروگرام، ان کا مشن اور ان کا نظریہ آج بھی پوری شدت سے جاری ہے