آیت اللہ محقق سید محمد مہدی خرسان کا تعارف
تحریر: سید سبطین علی نقوی امروہوی
سید خرسان نو رجب 1347 ہجری کو نجف میں پیدا ہوئے. قرآن کی تعلیم اور لکھنے پڑھنے کا فن اپنی والدہ سے سیکھا. آپ کے والد سید حسن بن ہادی خرسان علمائے نجف اور آیت اللہ سید ابو الحسن اصفہانی اور نائینی کے شاگردون میں سے تھے. والدہ سے کسب فیض کے بعد حوزہ علمیہ نجف میں باقاعدہ وارد ہوئے اور درس خارج تک پائے کے اساتید کے حلقہ دروس و بحث میں شرکت کر کے سند اجتہاد حاصل کی. سید مہدی کو جوانی سے لکھنے اور تحقیقات کا شوق تھا۔ انہوں نے جوانی میں ہی عبد اللہ بن عباس کے موضوع پر تحقیقات کا کام شروع کر دیا تھا. کچھ عرصے بعد انتشارات اسلامی ایران نے انہیں کتاب بحار الانوار کی تصحیح میں شامل ہونے کی دعوت دی جسے قبول کرتے ہوئے بحار کی 110 جلدوں میں سے اٹھ جلدوں کی تحقیق آپ ہی نے انجام دی.
آپ کے اساتید:
ابتدائی تعلیم اپنے والد، شیخ محمد رضا عامری، سید محمود حكیم، شیخ محمدعلى تبریزى، شیخ على سماكه حلى اور شیخ صادق قاموسى سے حاصل کی.
اس کے بعد آیت اللہ ابو القاسم خوئی، سید عبد الہادی شیرازی اور سید محسن الحکیم کے دروس خارج میں شرکت کی. اپنے والد، آقا بزرگ تہرانی، سید حسن بجنوردی، سید محمد صادق بحر العلوم، سید علی بہبہانی، سید عبد الاعلیٰ سبزواری وغیرہ سے اجازہ روایت حاصل کیا.
درج ذیل علمائے اهل سنت نے بھی آپ کو اجازہ روایت عطا کیا: سید علوى بن عباس مالكى مكى، شیخ حماد انصارى، شیخ محمد ابىالیسر بن عابدین مفتى شام، شیخ محمدصالح قادرى شامى، سید بن حمزه نقیب شامى، الحبیب محمد بن علوى حضرمى مالكى و مجدالدین مؤیدى الیمانى.
آپ کی تالیفات، تصحیحات اور رسائل کی ایک طویل فہرست ہے۔ ان میں سے چند کے اسماء درج کر رہے ہیں.
تصحیح
موسوعه ابن ادريس حلى (م 598ق)؛
طب النبي(ص)، ابوالعباس مستغفرى؛
طب الأئمة، برواية أبيعتاب عبدالله بن سابور الزيات و الحسين ابني بسطام النيسابوريين؛
طب الرضا(ع)، معروف به رساله ذهبيه؛
التوحيد، ابوجعفر محمد بن على بن حسين، معروف به شيخ صدوق (م 381ق)؛
إكمالالدين و إتمام النعمة، شيخ صدوق (م 381ق)؛
امالى، صدوق (م 381ق)؛
عيون أخبار الرضا(ع)، از صدوق (م 381ق)؛
خصال، صدوق (م 381ق)؛
. معاني الأخبار، صدوق (م 381ق)؛
ثواب الأعمال و عقاب الأعمال، صدوق (م 381ق)؛
اختصاص، ابوعبدالله محمد بن محمد بن نعمان، معروف به شيخ مفيد (م 413ق)؛
تذكرة الألباب في الأنساب، شيخ ابىجعفر احمد بن عبدالولى بتّى اندلسى (م 488ق)؛
منتقلة الطالبية، از ابواسماعيل ابراهیم بن ناصر بن طباطبا (از علماى قرن 5ق)؛
روضة الواعظين، محمد بن فتّال نيشابورى (شهيد 508ق)؛
إعلام الوری بأعلام الهدی، ابوعلى فضل بن حسن طبرسى (م 548ق)؛
مكارم الأخلاق، رضىالدين ابىنصر حسن بن فضل طبرسى (قرن 6ق)؛
البيان في أخبار صاحبالزمان(عج)، حافظ ابىعبدالله محمد بن يوسف گنجى شافعى ( م 658ق)؛
فلاح السائل، رضىالدين ابىالقاسم على بن موسى، معروف به سيد بن طاووس (589 – 664ق)؛
الألفين في إمامة أميرالمؤمنين علي بن أبيطالب(ع)، از جمالالدين حسن بن مطهر اسدى، معروف به علامه حلى (648 – 726ق)؛
جواهر الأدب في كلام العرب، علاءالدين بن على اربلى؛
تاريخ ابن الوردي، زينالدين عمر بن مظفر، مشهور به ابن وردى (م 749ق)؛
الكشكول، بهاءالدين محمد عاملى، معروف به شيخ بهائى (953 – 1030ق)؛
ينابيع المودّة، سليمان بن ابراهیم بلخى قندوزى حنفى (1220 – 1294ق)؛
نزهة الجليس و منية الأديب الأنيس، از سيد عباس بن على موسوى مكى (1110 – حدود 1180ق)؛
صلاة الجماعة و يليه صلاة المسافر، آيتالله شيخ محمدحسين غروى اصفهانى كمپانى (1296 – 1361ق)؛
ذيل كشف الظنون؛
بغية الطالب في إيمان أبىطالب(ع)، سيد محمد بن حيدر موسوى؛
تركة النبي(ص)، حماد بن اسحاق ازدى مالكى بغدادى (م 267ق).
تالیفات:
موسوعة عبدالله عباس، حبر الأمة و ترجمان القرآن؛ (یہ کتاب سید مہدی کی ستر سالہ زندگی اور تحقیق کا نچوڑ ہے جو 21 جلدوں پر مشتمل ہے. یہ کتاب حکومت ایران کی جانب سے سال کی بہترین کتاب کا ایوارڈ بھی پا چکی ہے. تاریخ میں جو کچھ بھی عبد اللہ بن عباس کے بارے میں موجود ہے وہ سب اس کتاب میں جمع ہے).
كشاف بلدان منتقلة الطالبية؛
السجود على التربة الحسينية؛ (مٹی پر سجدہ کرنے کے حوالے سے اذہان عموم و خصوص اہل سنت میں موجود سوالات کے جوابات اور فقہی بحث پر مشتمل ہے. )
علي إمام البررة، شرح ارجوزه استادم آيتالله خوئى؛
المحسن السبط مولود أم سقط؟؛ (جناب فاطمہ ع کے بیٹے محسن شہید کے وجود اور ان کا ماں کے رحم میں سقط ہونا ثابت کیا گیا ہے)
حي على خير العمل؛
مقدمات كتب تراثيه؛
غريب القرآن؛
نهاية التحقيق في ما جرى في أمر فدك للصديقة و الصدّيق؛
مزيل اللبس عن معجزتي شق القمر و رد الشمس؛
نظرات فاحصة في كتاب الطبقات الكبير، نوشته محمد بن سعد كاتب واقدى (م 230)؛
معجم شعراء الطالبيين؛
شذا العرف في ضحايا الطف؛
الظاهرة القرآنية في نهجالبلاغة؛
المهدي الموعود مولود و موجود؛
سلوة الأفاضل في المسائل و الرسائل؛
قلائد العقيان في ما قيل في آل الخرسان؛
على المحك، صحابة و صحاح؛
الكشف الصريح في من رمي بالتجريح من رجال الصحيح؛
ذكرياتي في حياتي؛
المنخول و المخلخل من الشعر المهلهل. ديوان شعر ہے.
بعيداً عن السياسة، ديوان شعر ہے.
جمع ديوان سيد جعفر خرسان.
جو رسائل اور کتب اب تک نہیں چھپ سکے وہ یہ ہیں:
القناة المستقلة مستغلة أو مستغلة؛
المشجّر المبين لمن في منتقلة الطالبيين لابن طباطبا؛
اللباب في تشجير تهذيب الأنساب للعبيدلي؛
نشوة الأماني (علم الانساب سے متعلق)؛
تعريب فصل من تاريخ قم للحسن بن محمد بن حسن قمى (م 378ق) (تاریخ قم کے ایک حصے کا فارسی سے عربی میں ترجمہ)؛
وجيزة النبأ (رسول اكرم و آل عبا(ع) کے بارے میں جس کا ایک بڑا حصہ حوادث زمانہ کی نذر ہو گیا)؛
شعر الحماني العلوي؛
التنويه في المختومين ب«ويه»؛
بيان الدلائل العليلة في الأخبار الدخيلة ( صاحب قاموس الرجال علامہ سوشتری کی کتاب کی رد میں)؛
منتخبات المهدي من كتاب المَجدي، تالیف عمرى در نسب؛
خديعة الشورى؛
الأبناء الثلاثة بأقلام أنصارهم، ابن تيميه ابن عبدالوهاب بن مسعود؛
من هنا و هناك (عجیب و غریب فتاوی کو جمع کیا ہے.)
دعا ہے کہ پروردگار سید خرسان کے درجات بلند فرمائے نیز تشنگان علم کو ان کی تحقیقات سے بہرہ مند ہونے کی توفیق سے نوازے. آمین