اربعین ،مشق ظہور

بسمہ اللّہ الرّحمن الرّحیم

تحریر: سیدہ شمائلہ رباب رضوی

مقدمہ

عربی میں چالیس کے ہندسے کو اربعین کہتے ہیں ۔کسی امر کے  لگاتارچالیس  ایام تک کرنے کو بھی اربعین کہا جاتا ہے اور پروردگار عالم کو بھی بڑا لگاؤ  اور پیار ہے اس ہندسے سے  کبھی کسی کو چالیس سال کی عمر میں نبوت عطاء فرمارہا ہے تو کبھی کسی رسول کو وظیفہ کرنے کو کہہ رہا ہے چالیس دن کا ، کچھ راز ضرور ہے اربعین میں۔ اربعین کا اجتماع وہ عظیم مذہبی جلوس  و اجتماع ہے جو چہلم امام حسین   کے موقع پر تمام دنیا کے اہل دل لوگوں کی جانب سے بنا مذہب و عقائد کی تفریق کے منایا جاتا ہے ۔ہر چیز کی ایک بہار ہے ، معراج ہے، اوج ہے زیارت امام حسین کی معراج و بہار اربعین ہے یوں تو سارا سال مخلوقات خدا  زیارت امام حسین کے لئے آتے ہیں لیکن اربعین کے دن  جنکو ازن  زیارت ملتی ہے  وہ خاص لوگ ہوتے ہیں روایات میں ہے کہ کوئی نبی کوئی ملک مقرب ایسا نہیں ہے کہ جو اربعین کی دن  خدادند کریم سے ازن زیارت طلب نا کر رہا ہو۔اربعین کا پیدل مارچ  صرف عشق و بصیرت کا مظہر نہیں  بلکے امام زمانہ عجل لولیک الفرج کے ظہور کی مشق و تیاری ہےآپ غور کریں کہ اگر دس ہزار افراد یا پچاس ہزار افراد کو ایک جگہ جمع کریں تو دنیا میں کتنی پبلسٹی کی جاتی ہے، اور پھر بھی جمع نہیں ہو پاتے یہاں اتنی زیاده رکاوٹیں ہونے کے باوجودصرف ایران سے دو میلین افراد اسی کلومیٹر کے پیدل مارچ کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، لطف اندوز ہونے کے لئے نہیں! ہوٹل میں سستانے کے لئےنہیں! اور اس تعداد سے کئی گنا زیاده خود عراق اور دوسرے علاقوں سے آتے ہیں؛ یہ ایک الہی اتفاق ہے! یا الہی واقعہ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ راستہ، عشق کا راستہ ہے؛ البتہ نہ مجنون والا عشق بلکہ بصیرت کے ساتھ عشق ،معرفت امام کے ساتھ اور اپنے امام وقت    کی تلاش و جستجو میں ،اولیاءالله کے الله سے عشق کی طرح ہے۔

 اَللٰهُمَّ ارزُقنی حُبَّکَ وَ حُبَّ مَن یُحِبُّکَ وَ حُبَّ کُلِّ عَمَلٍ یوصِلُنی اِلیٰ قُربِک

“یعنی اے الله میں تجھ سے تیری دوستی کا طلبگار ہوں اور ہر اس شخص کی دوستی کہ جو تجھے دوست رکھتا ہے اور ہر اس کام کی پسندیدگی جو مجھے تیری قربت تک پہنچائے۔”

یہ محبت اور یہ عشق بصیرت کے ساتھ ہے؛ انسان جانتا ہے، سمجھتا ہے اور اس کی کشش اسے کھینچتی ہے، یہ مقناطیس اسے کھینچتا ہے. بہت خوب! اس بنا پر یہ ایک عظیم کام ہے؛ یہ پیش آنے والا واقعہ ایک عظیم واقعہ ہے اور اس کے ذریعے  ہم اپنے امام وقت  عجل لولیک الفرج کے  ظہور کی زمینہ سازی کر رہے ہیں۔

تعارف

اربعین وہ عبادت ہے جو دور حاضر میں جوانوں کے دلوں میں نا صرف امام حسین علیہ السّلام   بلکہ  امام زمانہ عجل لولیک الفرج کی سپاہ میں شامل ہونے کا جوش وجذبہ بڑھتا جارہا ہے جسکے نتیجے میں وہ نڈر ودلیر ہوتا جارہا ہے۔

. ناصرف جوش و جذبہ بلکے معرفت امامِ وقت عجل لولیک الفرج بھی شدت سے بڑھتی جارہی ہے جسکے نتیجے میں وہ سچا عبادت گزار بنے کی کوشش میں ہے۔ آج اربعین کی عبادت پوری دنیا میں اہل تشیع کا مثبت چہرہ بن کر سامنے آئی ہے۔

پہلے اربعین کے لئے مشی صرف نجف و کربلا کے مابین ہی ہوا کرتی تھی اور اب شاید ہی دنیا کا کوئی کونا بچا ہو اس عبادت سے۔

کیا مسلم، کیا مشرک،کیا یہود اور کیا نصاریٰ اربعین پر آپ کو سب عشق حسین علیہ السلام میں غرق مشی کرتے نظر آتے ہیں۔

. مہمان نوازی کی ایسی مثال کے جس پر دنیا جہان کے ریسرچ اسکالر تحقیق کرنے پہنچ جاتے ہیں کہ جو دنیا بھر میں دہشت گرد مشہور ہیں وہ کیسے مذہب و مسلک اور لسانی تضاد کے باوجود اس قدر جانفشانی کے ساتھ خدمت گزاری انجام دینے کے لئے تڑپ رہے ہوتے ہیں۔

. تمام عالم کو یہ اربعین کا ہی پیغام ہے کہ ہم متحد، محبتی،خدمت گزار اور عشق حسین علیہ السّلام میں مبتلا  اپنے امام وقت  کی منتظرقوم ہیں

جوانوں میں نہی عن المنکر اور امر المعروف کی جدوجہد بڑھتی جارہی ہے۔

اربعین بقا دین اسلام

دینِ اسلام کی بقا کا تعلق اربعینِ حسینی (ع) کو زندہ رکھنے سے اس طرح ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی حضرت آدم سے تا قیامت ایک ایسی لازوال قربانی ہے جس کی مثال ملتی ہے اور نا ہی مستقبل میں مل سکتی ہے کیونکہ امام حسین علیہ السلام کی قربانی خالصتاً امربالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے تھی اپنے رب کی رضا کے لئے اسی کی فرض عبادت یعنی حج جیسی عظیم عبادت کو چھوڑ دیا اور رب کی خوشنودی کے لیے سن رسیدہ (حبیب) و کمسن ترین( اصغر)، نازک ترین (قاسم),کڑیل جوان،شبہیہ پیغمبر ( اکبر)، بہادر ترین (عباس)جیسی عظیم و بلند ہستیوں کی قربانی اور پھر حد یہ کہ جن کے کھلے سر دیکھ کر چاند سورج چھپ جائیں ان کی چادروں کی قربانی یہ سب اس بات کی دلالت ہیں کہ رب کی رضا، خوشنودی ، واجبات اور احکامات کے آگے کچھ نہیں ۔یہ اربعین ہی ہے جو ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمارا رب ہم سب فرماتا ہے کہ میں اپنے پیاروں کا، بھوک،پیاس، جان ،مال،اولاد سے امتحان لونگا تو اربعین سے ہی ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ ہر حال اور ہر صورت میں رب کی رضا کے لئے قیمتی، عزیز اور معتبر قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کریں۔ اربعین وہ اجتماع ہے جس کے ذریعے ہر انسان کے اندر پوشیدہ انسانیت اور شرافت بیدار ہوتی ہے۔ اربعین طاغوت اور طاغوتی طاقتوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن جانے کا درس دیتا ہے۔

اربعین کے ذریعے دنیاوی چیزوں سے بڑھ کر امام حسین علیہ السلام اور امام زمانہ عجل لولیک الفرج کی محبت و سچی معرفت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس کے لئے ہر حسینی بہترین خدمت گزار، وفاشعار، پرخلوص،عبادت گزار اور مشقت پسند بن کر تمام دنیا کے سامنے اپنا روشن چہرہ لاتا ہے۔ اربعین نہی عن المنکر سے نفرت اور امربالمعروف سے محبت کا نام ہے۔

⬅ اربعین کی رسم ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حق ہمیشہ حق ہے، یہ حق کے ساتھ وفاداری ہی ہے جو آپ کو نجات دلا سکتی ہے ۔

???? اس جملے میں کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش ہی نہیں ہے یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ چہلم کی رسم ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ حق ہمیشہ حق ہے، یہ حق کے ساتھ وفاداری ہی ہے جو آپ کو نجات دلا سکتی ہے کیونکہ اس کا منہ بولتا ثبوت واقعہ کربلا کے بعد انقلاب ایران سے بھی حاصل کر سکتے ہیں کہ کیسے حق کا ساتھ دینے سے آج ایران دنیا کی طاقتور ترین قوتوں کو للکارتا ہے اور حق سے وفاداری نبھا کر شاہ ایران جیسے بے راہرو بادشاہت سے نجات دلائی اور اگر آپ کی یادداشت کو تازہ کروں تو آغا سیستانی رح کا فتویٰ جو طاغوتی قوتوں کے خلاف تھا اور اس کے نتیجے میں آج آپ پورے عراق کے مقدس مقامات کی آزادانہ زیارت کرتے ہیں بشمول عاشورا اور اربعین جیسی عظیم عبادت۔ حق ایسا عنصر ہے جس کو جتنا چھپانے،دبانے اور مٹانے کی کوشش کی جائے یہ اتنی ہی شدت سے ظاہر ہوتا ہے۔ حق کا ساتھ حق کی پہچان ہی ایک انسان کو اہلبیت علیہ السّلام کی سچی معرفت  دیتا ہے امر بالمعروف کرنے اور نہی عن المنکر کے مقابلہ کی سکت دیتاہے۔ حق کا ساتھ ہمت، بہادری، سچائی،وفاداری اور حقیقی حسینی  اور سچا ،منتظر امام  وقت بنے کی سعادت دیتاہے۔

اربعین، مشق ظہور

آیت اللہ تقی  بہجت ؒ فرماتے ہیں کہ: “روایات میں ہے کہ جس وقت  امام زمانہ عج ظہور فرمائیں گے تو دنیا والوں کو پانچ مرتبہ آواز دیں گے: اس طرح امام زمانہ عج دنیا والوں سے اپنا تعارف امام حسین ع     کے توسط سے کریں گے لہٰذا  اس زمانے تک یقینا ساری دنیا امام حسین کو پہچان گئی ہوگی۔لیکن ابھی تک ساری دنیا امام حسین ع کو نہیں جانتی اور یہ ہمارا قصور ہے اسلئے اربعین پیادہ روی  امام حسین کو روشناس کرانے اور امام زمانہ عج کے ظہور کی مشق ہے۔اسی لئے تو
اربعین امام حسین ع کے موقع پر زیارت کے لیے پیدل آنے والا بھی سفر کی مشقت اور تکالیف کو اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لیے برداشت کرتا ہے اور وہ اپنے اس عہد و پیمان اور ولاء کی تجدید کر رہا ہوتا ہے کہ امام حسین  ع کے انقلاب کے اصولوں کو باقی رکھنے اور اسی ہدف کو حاصل کرنے کے لیے سرگرم رہے گا، جبکہ امام مہدی  عج بھی خدا کی طرف سے ظہور کی اجازت کے منتظر ہیں تاکہ امام حسین ع کے ہدف کو پورا کر سکیں، اور یہی چیز ظہور کے اشتیاق کو پیدا کرتی ہے، امام مہدی کے ساتھ ارتباط کو مضبوط کرتی ہے۔ امام حسین ع کو زیارت اربعین کے بعد بھی یاد رکھنا۔
امام حسین ع کے اہداف کو حاصل کرنے کے لیے ہمارا سفر کسی کی قیادت میں ہونا چاہیے اور اس موجودہ زمانے میں وہ قیادت امام مہدی عج اور ان کی نیابت کے فرائض ادا کرنے والے عادل فقہاء کی صورت میں موجود ہے۔
جب زیارت اربعین ختم ہو جائے گی تو پھر بھی آپ امام حسین ع  کو یاد رکھیں، بہت سے ایسے اذکار اور زیارات ہیں جو ہمیں امام حسین ع کی یاد دلاتی ہیں اور خاص طور پر زیارت عاشوراء۔
یاد رکھیں زیارت عاشوراء میں بہت سے ایسے اصولوں کا ذکر ہے جو امام حسین ع سے ولاء اور محبت کی بنیاد ہیں مثال کے طور پر زیارت عاشوراء میں ہے:

 (اني سلم لمن سالمكم وحرب لمن حاربكم وولي لمن والاكم وعدو لمن عاداكم)
میری آپ سے صلح کرنے والے کے ساتھ صلح، آپ سے جنگ کرنے والے کے ساتھ جنگ، آپ سے دوستی کرنے والے کے ساتھ دوستی، اور آپ سے دشمنی کرنے والے کے ساتھ دشمنی ہے۔
جو زائر حسینی اور مہدوی بننا چاہتا ہے اسے زیارت عاشوراء کے ساتھ ساتھ دعائے عہد کو بھی پڑھنا چاہیے۔ دعا عہد امام مہدی کے ساتھ رابطے کا ایک ذریعہ ہے اس دعا میں ہے:
(اللهم إني اجدد له في صبيحة يومي هذا عهداً وعقداً وبيعةً له في عنقي لا أحول عنها ولا أزول ابداً)
اے اللہ میں آج کے اس دن کی صبح اپنے (امام مہدی کے ساتھ) عہد و پیمان اور اپنی گردن میں موجود بیعت کی تجدید کرتا ہوں میں نہ تو کبھی اسے بدلوں گا اور نہ ہی کبھی اس سے پیچھے ہٹوں گا۔
زائر کے ذمہ دو عہد و پیمان ہیں ایک امام حسین ع کے ساتھ کہ جو زیارت عاشوراء میں مذکور ہے اور دوسرا امام مہدی عج کے ساتھ کہ جو دعائے عہد میں مذکور ہے۔ یہ چيز زائر سے امام مہدی عج  کی مدد کرنے اور ان کے ساتھ کھڑے ہونے کے کے لیے تیار رہنے کا تقاضہ کرتی ہے، امام مہدی کا ظہور و قیام انقلاب حسینی کی ہی سلسلہ وار کڑی ہے۔
بعض عبادتی کاموں کے لیے ہمیں زیادہ مشقت نہیں کرنی پڑتی، ہمارے پاس روزانہ چند گھنٹے یا چند منٹ ایسے بھی ہونے چاہیے کہ جن میں ہم زیارت عاشوراء کے ذریعے امام حسین ع  سے اور دعائے عہد کے ذریعے امام مہدی کے ساتھ رابطہ قائم کر سکیں۔
اگر غور و فکر کیا جائے اس زیارت کے تمام اجزاء اور مفردات امام مہدی عج   کے ساتھ تجدیدِ عہد ہیں، تاکہ امام کے ظہور کا منتظر مومن امام زمانہ کی مدد اور ان کا ساتھ دینے کی تیاری کی تجدید کر سکے۔ اور یہ چیز پرہیزگار بننے، شرعی واجبات ادا کرنے، محرمات سے بچنے اور عدل وانصاف کے پھیلانے اور ظالموں کے خلاف قیام کرنے والوں کا ساتھ دینے سے ممکن ہے۔ 
یہ تمام امور امام مہدی  عج کی نصرت و تائید کی تیاری کو ثابت کرتے ہیں اور یہ زیارت اربعین ہمیں امام حسین ع کے اصولوں کو مجسم صورت فراہم کرنے اور بلند اخلاق اپنانے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ منتظرین امام کو  انتظار امام  عجل لولیک الفرج کو اصحاب امام حسین ع کی نگاہ سے دیکھنا بہت ضروری ہے کیونکہ اصل مقصد حسین علیہ السلام کو وہ دل و جان سے جانتے تھے کیونکہ  انتظار امام کا مقصد صرف مجلس، ماتم یا ایام عزا تک محدود رہنے کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقی معرفت امامِ عجل لولیک الفرج ہونا ہے کیونکہ جب سچی معرفت امام حاصل ہو جاتی ہے تو جذبہ حبیب ابن مظاہر پیدا ہو جاتا ہے اور حق شناسی و حق گوئی کی طاقت ملتی ہے اور تمام طاقتیں، جان و مال زمانے کے امام پر  قربان کرنے میں کوئی خوف و دکھ محسوس نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک فخر و شکر گزاری کی کیفیت بن جاتی ہے۔کیونکہ اللّہ کا ارادہ  راہِ حق پر چلنے والوں کا ارادہ بن جاتا ہے اور ان کو حقیقی معرفت الٰہی اور امامِ وقت حاصل ہو جاتی ہے۔کربلا کو اصحاب امام حسین علیہ السلام کی نگاہ سے دیکھنے کی صورت میں زیادہ استقامت، بھرپور وفاداری،حجت و دلیل پر عملدرآمد، پرہیز گاری عروج پر پہنچ جاتی ہے، منطق زیادہ روشن و واضح ہو جاتی ہےاور مجاہدانہ صلاحیتوں میں نکھار پیدا ہو جاتا ہے، حب دنیا ختم ہو جاتاہے اور صرف و صرف قربت خداوندِمتعال اور معرفت امامِ وقت مقصد حیات رہ جاتا ہے کیونکہ انتظار،قربت اور معرفت میں فرق ہوتا ہے اسکی مثال علامہ مجلسی کا واقعہ ہے کہ “علامہ مجلسی روز شدتِ جذبات  کے ساتھ گریا کرتے تھے میں کربلا میں امام کے ساتھ ہوتا تو جان نثار کرتا ایک روز  ایک خواب دیکھتے ہیں کہ روزِ عاشورا میں امام کے آگے حفاظت کے لئے میں موجود تھا اور ہم آگے بڑھ رہے تھے کہ ایک جانب سے ایک تیر آیا اور میں اپنی جان کی حفاظت کے لئے فوراً جھک گیا اگلے ہی لمحے خیال آیا میرے بلکل پیچھے امام ہیں تیر ان کو جا کر لگ گیا ہوگا اپنے کو ملامت کر کے پیچھے دیکھا تو حضرت حبیب اور سعید نے اس تیر کر اپنے بازو پر لے لیا تھا اور امام بخیر تھے امام نے مجھ شرمندہ دیکھا تو مسکرائے اور فرمایا میرا محب ہونا الگ بات ہے اور کربلا کے جانثار ہونا الگ مرتبہ ہے یعنی ساتھ دینے کی خواہش الگ ہے اور تلواروں کے سائے میں ساتھ دینا الگ بات ہے۔”یہ ہی صورت دور حاضر میں  منتظر امام کی ہے  اس لئےسچی معرفت کے ساتھ بھر پور مشق  ظہورہم اربعین میں کرتے ہیں۔

منتظرین امام  مہدی عج و اربعین آیات و اقوال معصومین ؑکے تناظر میں

زائرین حسین بن علی ع جنت کے رہائشی ہیں 1۔

وَسِيقَ الَّذِينَ اتَّقَوْا رَبَّهُمْ إِلَى الْجَنَّةِ زُمَرًا ۖ حَتَّىٰ إِذَا جَاءُوهَا وَفُتِحَتْ أَبْوَابُهَا وَقَالَ لَهُمْ خَزَنَتُهَا سَلَامٌ عَلَيْكُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوهَا خَالِدِينَ ﴿٧٣﴾

اور جو لوگ اپنے پروردگار سے ڈرتے رہے انہیں گروہ در گروہ جنت کی طرف لے جایا جائے گا یہاں تک کہ جب اس کے قریب پہنچیں گے اور اس کے دروازے کھول دیئے جائیں گے تو اس کے خزانہ دار کہیں کہ تم پر ہمارا سلام ہو، تم پاک و پاکیزہ ہو لہذا ہمیشہ کے لئے جنت میں داخل ہو جاؤ۔

2۔ اللہ تعالی کے نزدیک امام مہدی کے انتظار کی قدر وقیمت اور مرتبہ کس قدر بلند ہے۔

ہمارے پاس اس سلسلہ میں احادیث ،واقوال معصومین ع  موجود ہیں ہمارے لیے ان میں غور و فکر کرنا بہت ضروری ہے ایک حدیث میں مذکور ہے۔:
(أفضل عبادة المؤمن انتظار فرج الله)
مومن کی سب سے افضل عبادت اللہ کی طرف سے کشائش (ظہور امام) کا انتظار ہے۔

3۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے۔
(من مات منكم وهو منتظر لهذا الأمر كمن هو مع القائم في فسطاطه).
جو بھی اس امر (ظہور امام) کا انتظار کرتے ہوئے مر جائے وہ ایسے ہی جیسے وہ ان (امام مہدی) کے ساتھ ان کے خیمے میں کھڑا ہے۔

4۔ امام محمد باقر علیہ السلام بھی فرماتے ہیں:  

“ہم امام حسین علیہ السلام کے خون کے وارث ہیں۔ جب ہمارے قائم قیام کریں گے، خون امام حسین(ع) کا معاملہ اٹھائیں گے”۔

5۔ ہمارے آئمہ طاہرین علیہم السلام نے بارہا بیان کیا ہےکہ:    
     ”  تم میں سے ہر ایک ہمارے قائم کے خروج کے لئےآمادہ رہے چاہے وہ ایک تیر کو مہیہ کرنے کی حد تک ہی کیوں نہ ہو چونکہ جب خدا یہ دیکھے گا کہ انسان نے مہدی عجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کی نصرت کی نیت سے اسلحہ مہیہ کیا ہے تو امید ہے کہ خدا اسکی عمر کو طولانی کر دے کہ وہ  ظہور کو درک کر لے اور امام مہدی علیہ السلام کے یاور و مددگاروں میں قرار پائے”۔

6۔ امام حسن عسکری  فرماتے ہیں :

“کہ پانچ چیزیں مومن اور شیعوں کی علامت ہیں ان میں سے ایک زیارت اربعین امام حسین”

7۔ امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت نقل ہوئی ہے جو نہایت خوبی سے اس موضوع کے پوشیدہ پہلوؤں کو آشکار کرتی ہے۔ امام صادق (ع) امام حسین علیہ السلام کی زیارت کے لیے پا پیادہ سفر کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں:

      “جو امام حسین ع کی پیدل زیارت کوجاتا ہے خدا اس کے          ہر قدم کے بدلے ایک نیکی لکھتا ہے اور ایک گناہ مٹا دیتا ہے اور اسکا ایک درجہ بلند فرما دیتا ہے۔ اور وہ جس وقت زیارت کر کے واپس جا رہا ہوتا ہے تو اللہ پاک دو فرشتے اس پر موکل فرمادیتا ہےکہجو صرف اس کے منہ سے نکلنے والے خیر ونیکی کے ہی الفاظ لکھتے ہیں اور کوئی بری بات نہیں لکھتے اور جس وقت وہ وداع ہورہا ہوتا ہے رو اس سے کہتے ہیں کہ:

اے ولئی خدا! تمہارے سب گناہ بخشے جا چکے ہیں اور اب تم خدا، رسولؐ  اور اہل بیت ع کی جماعت میں شامل ہوچکے ہو۔ خدا کی قسماب جب تک تم خود نہ چاہو تمہاری آنکھیں ہرگز آتش جہنم نہ دیکھیں گی اور نہ آتش جہنم تم کو دیکھے گی۔”

8-  امام جعفر صادق ؑ نے فر مایا کہ :قبر امام حسین ؑ کے پاس چار ہزار پراگندہ اور غبار آلود فرشتے قیامت تک روتے رہیں گے ان فرشتوں کے سردار کا نام منصور ہے۔کوئی زائر ایسا نہیں ہے  مگر یہ کہ یہ فرشتے اس کا استقبال کرتے ہیں کوئی وداع ہونے والا وداع نہیں ہوتا مگر یہ کہ یہ فرشتے اس کے ساتھ  چلتے ہیں کوئی زائر مریض نہیں ہوتا مگریہ کہ یہ فرشتے اس کی عیادت کرتے ہیں کوئی زائر مرتا نہیں ہےمگر یہ کہ یہ فرشتے اس کے اوپر نماز جنازہ پڑھتے ہیں اور  اس کے مرنے کے بعد اس کے لئے استغفار کرتے ہیں۔(ثواب الاعمال، ص ۱۷۱)

اربعین، مشق ظہور علماء  و مجتہدین کی نگاہ میں

1۔آیت اللہ تقی  بہجت ؒ  فرماتے ہیں کہ: “روایات میں ہے کہ جس وقت  امام زمانہ عج ظہور فرمائیں گے تو دنیا والوں کو پانچ مرتبہ آواز دیں گے: اس طرح امام زمانہ عج دنیا والوں سے اپنا تعارف امام حسین ع     کے توسط سے کریں گے لہٰذا  اس زمانے تک یقینا ساری دنیا امام حسین کو پہچان گئی ہوگی۔لیکن ابھی تک ساری دنیا امام حسین ع کو نہیں جانتی اور یہ ہمارا قصور ہے اسلئے اربعین پیادہ روی  امام حسین کو روشناس کرانے اور امام زمانہ عج کے ظہور کی مشق ہے۔

2۔روز اربعین کو اپنے لئے غم والم کا دن قرار دینا چاہیئے اور خواہ پوری زندگی میں ایک بار سہی اربعین پر امام  حسین ؑ کی قبر کی زیارت کے لئے ضرور جانا چاہیئے۔ (آیت اللہ مرزا جواد ملکی تبریزیؒ   (   کتاب المرقبات آیت اللہ مرزا جواد ملکی تبریزیؒ))

3۔اربعین پر  نجف سے کربلا جانا تبلیغ شریعت وحضرات معصومینؑ  کی ولایت کی تبلیغ ہے اور یہ دشمنوں ، ظالموں اور تکفیریوں    کو دہشت زدہ کرتی ہے۔یہ  پیادہ  روی تشیع کی عظمت  کا نشان ہے۔ میں آرزو   رکھتا  ہوں کہ اگر جسم میں اتنی طاقت آجائے تو اس  پیادہ روی میں خود جاکر شریک ہوجاؤں۔              (آیت اللہ موسیٰ شبیری زنجانی)      

4۔زیارت اربعین کے سفر میں نجف سے کربلا جاتے ہوئے امام موسیٰ  صدر اس قدر گریہ کرتے   تھے کہ شدت گریہ کے باعث آنکھیں مستقل سرخ رہتی تھیں۔                                       ( آیت اللہ سید محمد موحد ابطحی)

5۔اربعین عالمی حیثیت اختیار کرچکا ہے   اور اب اس سے بڑھ کر عالمی  سطح پر پھیلے گا  یہ حسینؑ ابن علی ؑ کا خون ہے کہ جو۱۴۰۰ سال سے جوش  ماررہا ہے۔ (رہبر معظم سید علی خامنائی حفظ اللہ)   

6۔اربعین امام حسینؑ   ایک ایسی جنگ ہے جو  دشمن  کو بغیر ایک گولی چلائے اندر سے توڑ رہی ہے۔(رہبر معظم سید علی خامنائی حفظ اللہ)

7۔اربعین کے دن امام حسین ؑ کی زیارت اللہ تعالیٰ کی طرف سے فضل ہے جو ہر شخص کی قسمت میں نہیں ہے۔ (حجتہ الاسلام شیخ صالح المنیان (سعودی عرب))

8۔اربعین کے روز امام حسینؑ کی زیارت کے لئے پیدل چلنا پوری دنیا کو امام حسین ؑ کی طرف متوجہ کرنے کے لئے بہترین عمل ہے۔ (حجت الاسلام علی رضا پناہیان) 

9۔در حقیقت اربعین کا مطلب فقط امام حسین ؑ کی زیارت کے لئے جانا نہیں ہے بلکہ اربعین پر جانا امام زمان عج کی زیارت پر جانا بھی شمار ہوتا ہے  اور اس سے بڑھ کر اس غائب امام عج کی خدمت میں حاضر ہونا ہے۔ (حجت الاسلام علی رضا پناہیان) 

  10۔آیت اللہ  العظمیٰ مکارم شیرازی ان مراجع میں سے ایک ہیں جو زیارت کے لئے کئی بار نجف سے کربلا نہ صرف پیدل بلکہ پابرہنہ چل کر جاتے تھے۔

  11۔آیت اللہ سید شہاب الدین مرعشی نجفیؒ  بیس مرتبہ پیدل کربلا کی زیارت  سے مشرف ہوئے۔ (بحوالہ کتاب فرہنگ زیارت، ص۵۶)      

   12۔ حسینیت ؑ کی مقناطیسی کشش کی شروعات اربعین سے ہوتی ہے جو جابر بن عبداللہ انصاری کو مدینہ سے کربلا کھینچتی ہے۔ یہ وہ مقناطیسی کشش ہے جو صدیاں گزرنے کے بعد آج بھی میرے اور آپ کے دلوں میں باقی ہے۔۔(رہبر معظم سید علی خامنائی حفظ اللہ)

13۔اربعین کی معنوی فضا سے بخوبی استفادہ حاصل کرنے کے ساتھ  مقدس مقامات کی زیارت  کوخود سازی اور تزکیہ نفس کاسبب بننا چاہیئے۔ مومنین مقدس مقامات کی زیارت کو اپنے معنوی درجات  کی بلندی، کردار کی اصلاح اور تقرب پروردگار کا سبب قرار دیں۔ (آیت اللہ حافظ شیخ بشیر نجفی )

14۔اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا ایسی جگہ جمع ہونا ایک بہت بڑی نعمت ہے چونکہ یہ وہ موقع ہوتا ہے کہ جب لوگوں کے دل امام حسین ؑ کے عشق میں ڈوب کرہر اچھی اور نیک بات ماننے کوتیار دکھائی دیتے ہیں بہت سے لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو پورے سال کے سال  کسی بھی احکام و شریعت کے حکم بتانے والے کے پاس چاہے نہ بیٹھتے ہوں  لیکن وہ اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا  چاہتے ہمیں بھی ایسے لوگوں کے لئے اسی موقع پر کچھ ایسا پروگرام تیار کرنا چاہیئے جس سے وہ امام حسین ؑ کی زیارت کے ساتھ کچھ دین کے احکام کو بھی سیکھ سکیں۔ (آیت اللہ  العظمیٰ مکارم شیرازی)

15۔آپ اربعین حسینیؑ  میں اپنے اس دلیرانہ اور بےباکانہ حضور سےحق،ایمان اور وجدان انسانی کی حمایت کرتے ہیں اور امام حسینؑ کے عالمی پیغام کو دنیا تک پہنچاتے ہیں۔ آپ تو پیدل جاتے ہیں مگرفرشتے راستے میں آپ کے قدموں کے نیچےبال و پر بچھاتے ہیں کاش میں بھی یہ افتخار پاتا کہ لبیك یاحسینؑ  کے نعرے بلند کرتا ہوا آپ کے ہمراہ پیدل چلتا اور آپ کے قدموں کی خاک کو اپنی آنکھوں کا سرمہ بناتا۔( آیت اللہ  العظمیٰ  لطف اللہ صافی گلپائیگانیؒ)

16۔آیت  اللہ میرزا جواد ملکی تبریزیؒ جو عرفانیات میں امام خمینی ؒ کے اساتذہ میں سے تھے، فرماتے تھے کہ مومنین کو چاہیئے کہ ۲۰ صفر  (اربعین) کے دن کو حزن و ماتم کا دن قرار دے کر امام  حسین ؑ کی زیارت کو جائیں خواہ پوری عمر میں ایک ہی بار کیوں نہ ہو کیونکہ حدیث میں جو مومن کی پانچ علامات بتائی گئی ہیں ان میں سے ایک زیارت اربعین ہے۔ (بحوالہ :المراقبات ، آیت  اللہ میرزا جواد ملکی تبریزیؒ،ص۸۵)

17۔ آیت اللہ محمد علی  قا ضی طبا طبائی  لکھتے ہیں کہ اربعین کے لئے کربلا کا سفر اختیار کرنا آئمہ اطہارؑ کے زمانے میں بھی شیعیان اہل بیت کے درمیان رائج  تھا اور حد یہ کہ بنو امیہ اور بنو عباس کے زمانے میں بھی  شیعہ اس سفر کے پابند تھے۔ وہ اس عمل کو شیعیان آل رسولؐ کی سیرت  مستمرہ  یعنی  ہمیشہ   سے جاری  اور مسلسل  سیرت سمجھتے  ہیں۔(قاضی طبا طبائی،تحقیق دربارہ  اول اربعین حضرت سید الشہداؑ ،ص۲)

18۔ اربعین وہ دن ہے کہ جس دن واقعہ کربلا کے پیغام  کا پرچم لہرانا شروع ہوا اور اس دن سہدا کی یاد جاوداں ہوگئی۔ بنیادی طور سے اربعین کی اہمیت اس لئے ہے کہاس دن، اہل بیت پیغمبرؐ کی خداداد حکمت عملی سے امام حسینؑ کے قیام کی یاد ہمیشہ کے لئے زندہ ہوگئی اور اس کی بنیاد رکھی گئی۔ اغر شہداء کے ورثا ء  اور اقرباء نے مختلف واقعات میں، جیسے کہ واقعہ کربلا کی یاد باقی رکھنے کے لئے  کمریں نہیں کسیں و آئندہ نسلیں شہادت سے زیادہ فیضیاب نہیں ہو سکیں گی۔(رہبر معظم سید علی خامنائی حفظ اللہ)

19۔الحمداللہ تمام دنیا  سے آئے ہوئے دسیوں لاکھ زائرین اس راہ میں مشغول  سفر ہیں،اگرچہ اربعین کے موقع پر ہمیشہ ہی   سے زائرین کربلا پاپیادہ جاتے رہے ہیں لیکن ان حالیہ برسوں میں  یہ        عظیم مارچ شیعیان و پیر وان اہل بیتؑ کی عظمت، شکوہ و جلال  کا نشان و مظہر بن چکا ہے چنانچہ خداوند عالم نے اس عظیم مناسبت کو ہمارے نصیب میں لکھا ہے لہٰذا ہمیں اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیئے۔(رہبر معظم سید علی خامنائی حفظ اللہ)

20۔ اربعین حسینیؑ ایک قیامت ہے کہ دنیا  میں اس کی شبیہ و مثل  موجود نہیں۔ دو کروڑ یا اس سے کچھ کم   یا اس سے  زیادہ ان شہداء کے لئے جنہوں نے چودہ سو سال پہلے ظلم و ستم سے مبارزہ اور اپنی عزت و شرف کا تحفظ کیا، کے لئے دور دراز علاقوں سے پاپیادہ  ان کی مرقد کی جانب سفر کرتے ہیں حتٰی کہ اپاہج و ناتواں افراد بھی ان کے ساتھ ہوتے ہیں۔یہ طریقہ راہ فداکاری  و عزت  و آزادی کاسب سے بہترین اظہارہے۔ہم تمام زائرین کے لئے دعا گو ہیں کہ صحیح وسالم جائیں اور صحیح و سالم واپس اپنے گھروں کو لوٹیں ان کی زیارت بارگاہ خدا میں قبول ہو اور ان کی دعائیں  مسلمانوں کو ظالمین کے چنگل سے نجات دلانے کا وسیلہ بنیں۔ (آیت اللہ  العظمیٰ مکارم شیرازی)

خلاصہ کلام

اربعین  حسینی   حکومت امام زمانہ عجل لولیک الفرج   یعنی مہدوم معاشرے کی فقط ایک جھلک ہے ۔مہدوی معاشرے میں اربعین کا کردار ہمارے لئے عمل تنفس کی حیثیت رکھتا ہے کیونکہ اربعین کا عظیم الشان اجتماع یہ ثابت کربلا ہے کہ معاشرے پر اربعین مثبت اثرات مرتب کرنے کا بہت بڑا ذریعہ بنتا جا رہا ہے اسی لئے تو دشمن و طاغوت کی نیندیں حرام ہوگئی ہیں اور و شور سے اس اجتماع کو روکنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں مگر وہ ناکام ہیں کیونکہ اربعین دور حاضر کا معجزہ ہے جو عمل ہم روز مرہ زندگی میں کبھی بھی نہیں کرتے اربعین ہم سے وہ سب کرواتا ہے اور معاشرے کو مہدوی معاشرے کے کردار کا عادی بناتا ہے مثلاً اربعین یکجہتی امت کا سبب ہے اتحاد و یکجہتی مہدوی معاشرے کی بنیاد ہیں۔

مہدوی معاشرے میں کوئی منافقانہ سیاست نہیں ہوگی اربعین پر ہر زائر ان عوامل سے پاک ہو جاتا ہے۔

مہدوی معاشرے میں کوئی طبقاتی، سماجی، سیاسی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی و مسلکی برتری نہیں ہوگی اور آپ غور فرمائیں تو اجتماع اربعین میں بھی یہ ہی یکتائی آپکو ملے گی۔ اربعین پر سب کا جوش و جذبہ اور منزل ایک ہوتی ہے جیسے مہدوی معاشرے کا مرکز فقط امام زمانہ عجل لولیک الفرج ہیں۔

مہدوی معاشرے میں سب ایک ہی دسترخوان پر بیٹھنے کی تیاری اربعین میں کرتے ہیں۔ اربعین آپ کو نفس پر قابض ہونا سکھاتا ہے۔

اربعین کا عظیم ترین کردار یہ ہے کہ حسن اخلاق، خدمت گزاری اور عشق و محبت کا وہ لازوال درس دیتا ہے کہ آپ کو کہیں سے نا ملے۔

فرصتِ اربعین سے مہدوی معاشرہ اور مہدوی معاشرے سے امت واحدہ کی تشکیل کے سفر میں ہماری ذمہ داریاں بہت اہم ہیں کیونکہ پوری دنیا کی نگاہیں ہم پر مرکوز ہوتی ہیں۔ ہمارا سب سے اہم فرض ہے کہ اپنے بہترین اخلاق کا مظاہرہ کریں تاکہ ںاسلام دشمنی کی پٹی کھلے۔

اسلام کا روشن و مثبت چہرہ دنیا بھر کو دیکھائیں اپنے کردار وعمل سے اور مسلمانوں کو انتہا پسند اور دہشت گرد کہنے والوں کے منہ کالے کر دیں۔

اسے ایک تفریحی دورہ یا معاشرے میں اپنے نام ومقام کی بلندی کا مقصد نا سمجھیں بی معرفت امامِ زمانہ عجل لولیک الفرج حاصل کرنے کی کوشش کیجئے۔

امام زمانہ عجل لولیک الفرج کی سپاہ میں شامل ہونے کی تیاری سمجھیں اس عبادت کو۔ ہر منزل و مقام پر صبر و شکر کا مظاہرہ کریں۔

. سوشل میڈیا کے ذریعے اسلام اور سبب و مقصد اربعین کا تعارف دنیا بھر کو پیش کریں

کی فرصت بہت عظیم الشان اجتماعی عبادت ہے یہ کچھ نکات کو مدِنظر رکھتے ہوئے امت واحدہ کی تشکیل میں مؤثر کردار ادا کر سکتی ہے مثلاً اربعین

 .چہلم میں مختلف سوچ و افکار، مختلف علم کی ظرفیت جو سیاسی ،معاشی،ثقافتی، سب سے بڑھ کر مختلف مذاہب اور حقوقی مسائل کے آپسی پیچیدہ روابط کے ساتھ ظاہر ہوتی ہیں۔یہ پوری کرہ ارض کا سب سے بڑا انسانی اجتماع ہے جس میں مسلک و مذہب رنگ و نسل، ذات پات سے بالاتر ہو کر، مفلس و   بادشاہ ایک ہی صف میں اکھٹے ہوتے ہیں اس شعر کے مصداق

“ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز”٫ “نا کوئی بندہ رہا نا بندہ نواز

. عبادتِ اربعین وہ عمل ہے جس میں ہم ایک دوسرے کی دینی، سماجی، معاشی، معاشرتی، جغرافیائی تہذیب، ثقافت کو ایک دوسرے میں منتقل کرتے ہیں جس سے ہماری قربت بڑھتی ہے اور بیگانگی مٹتی ہے۔ اخلاقی، معرفتی عقلاقیت کو تقویت ملتی ہے۔

. چونکہ چہلم کے اس اجتماع میں تمام طبقات و مذاہب اور افکار کے افراد موجود ہوتے ہیں تو سماجی لین دین میں ایک دوسرے کی یہ سب باتیں پسِ پشت ڈال کر  لین دین، نذر و نیاز میں شرکت کی جاتی ہے۔

جاگتی فطرت والے افراد اس پیغام کو دل و جان سے قبول کرتے ہیں خود امام حسین علیہ السلام کا قول ہے ” میری شہادت ہر غیرت مند خون کو تا قیامت رلائے گی۔”

حوالہ جات

1۔ القرآن  : ۳۹/۷۳

2۔علامہ محمد مجلسی،بحار الانور،بیروت،دارالاحیاء  التراث العربی،ج۱۰۱،ص۵

 3 ۔طوسی، تہذیب الاحكام، ج ۶، ص۵۲                                                                                                                                                      

4۔  کامل الزیارات، ص ۱۳۴

5۔ قاضی طباطبائی، تحقیق دربارہ اول اربعین حضرت سیدالشہداع،ص۲۔

http://urdu.khamenei,ir/

https://www.leader.ir/ur7۔
50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں