امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ثمرات و اثرات


امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ثمرات و اثرات
تحریر: سید نثار علی ترمذی
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کا قیام تقریباً نصف صدی کا قصہ ہے ،دوچار برس کی بات نہیں ۔ زندہ قومیں اپنے اس طرح کے اداروں کا ذکر فخر سے کرتی ہیں۔ ایسی قوموں کے محقق ایسے ادارے کے معاشرہ پر پڑنے والے اثرات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ لوگ تو مقالے اور تھیسس لکھے ہیں لیکن ہمارے ہاں جہاں تحقیق و جستجو کی طرف توجہ نہیں وہیں دیمک زدہ لوگ اپنے اداروں کے بھی درپے ہوتے ہیں ۔ وہ خود تو کوئی کارنامہ انجام نہیں دے پاتے مگر جاری کاموں کو تباہ کرنے میں اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتے۔ ضرورت ہے کہ کوئی آگے آئے، تحقیق کے مشکل اور کٹھن میدان میں قدم رکھے اور آئی ایس او پر تحقیق کرے۔ اس کے کئی پہلو ہیں،
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے پہلے تشیع پاکستان کی صورتحال!
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کن حالات میں قائم ہوئی ؟
اس کا اور دیگر تنظیموں کا کیا فرق تھا؟
 پاکستان میں اکثر تنظیموں کی عمریں کم ہوتی ہیں ،امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے طویل سفر کس طرح کرلیا؟
 امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے کیا نئی روایات قائم کیں؟
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے معاشرے پر کیا اثرات ڈالے؟
اور  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی تشکیل سے پہلے  تشیع پاکستان اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کی تشکیل کے بعد تشیع پاکستان کی ملی حالت کا جائزہ لیا جائے ۔
 اس میں کیا خوبیاں اور کیا کوتاہیاں اور خامیاں ہیں؟
 امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے اپنے طے کردہ اہداف کو کس حد تک حاصل کیا ؟
 اب موجود ہ حالات میں آئی ایس او میں کیا جوہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے؟
  آئی ایس او نے کتنی شخصیات، ماہر افراد معاشرے کو دیئے؟
 ایک طویل فہرست مرتب ہوسکتی ہے جس پر کوئی محقق ہی نظر ڈال سکتا ہے۔ کوئی ہمت کرے تو ایم فل کا مقالہ لکھ سکتا ہے ۔ مگر یہ سب کچھ اس مضمون کے احاطے سے باہر ہے۔ یہاں چند نکات پر روشنی ڈالی جائے گی وہ بھی اس امید پر کہ اہم اہل قلم اس میں مزید اضافہ کریں گے۔
Iامامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے قیام سے قبل تشیع پاکستان کی صورتحال:۔
تشیع اپنے روایتی انداز سے سفر کو جاری رکھے ہوئے تھی۔ قومی/مرکزی قیادت کا فقدان تھا،مقامی ،پیشہ ور لیڈر تھے جو اپنی چودھراہٹ کو قائم رکھنے کے لیے سب کچھ کرنے کو تیار رہتے تھے۔ ان کا ایک مشغلہ ایک دوسرے کے خلاف پروپیگنڈا کرنا اور کیچڑ اچھالنا بھی تھا ۔ اس دور میں ملی وسائل و اخبارات اسی طرح کی بحث و مباحثہ سے بھرے پڑے ہیں وہ حکومت سے روابط کو ہی اپنی کامیابی سمجھتے تھے ، ان سب کے چند مطالبے تھے، ایک تو عزاداری کے لیے لائسنس کا اجراء یا اسے مستثنیٰ قرار دینا ، اسی پر قوم جذباتی ہوجاتی تھی ،یہی مسئلہ ان کی سیاست کو متحرک رکھتا تھا۔
دوسرا اہم مسئلہ شیعہ وقف کو علیحدہ کرنا تھا، اس کا پس منظر یہ تھا ۔قزلباش وقف کی زمین ایوب دور میں حکومتی کنٹرول میں چلی گئی تھی۔ نواب مظفر علی قزلباش بھی انہی لیڈروں میں شمار ہوتے تھے۔ اس لیے یہ مسئلہ بھی مطالبہ کی فہرست میں شامل رہا مگر بعد میں یہ پس منظر میں چلا گیا۔ ابھی MWMنے علامہ طاہر القادری کے ساتھ جن نکات پر اتفاق کیا اس میں شعبہ وقف کو علیحدہ کرنے کا مطالبہ شامل ہے۔

 ایک مطالبہ علیحدہ شعبہ دینیات کا تھا۔ یہ مطالبہ ایک احتجاجی دھرنے کے بعد منظور کرلیا گیا تھا ۔ میٹرک کی علیحدہ شیعہ دینیات شائع بھی ہوئی۔ بندہ ناچیز نے اسی دینیات سے میٹرک کا امتحان دیا تھا مگر اب یہ مسئلہ قابل توجہ نہیں رہا ۔

اس دور کے حالات کا اندازہ لگانے کے لیے یہ ہی کافی ہے کہ سندھ میں ٹھیری کے مقام پر ایک دن میں آٹھ سو سے زائد شیعہ افراد کو ذبح کردیا گیا مگر ملک کے دیگر حصوں میں اطلاع کئی دنوں کے بعد موصول ہوئی اور کوئی خاص احتجاج بھی نہ ہوسکا۔

اسی طرح کئی کئی دنوں پر مشتمل مجالس کے سلسلے تھے ، لوگ اس میں شریک ہوکر اپنی مذہبی وابستگی کا اظہار کرتے تھے ۔ مجالس کا مرکزی موضوع عموماً مناظرہ پر مشتمل ہوتی تھیں۔ علماء کرام بھی اسی روش کے اسیر تھے۔ جو چند علماء اخلاقیات یا عبادات پر گفتگو کرتے تھے تو انہیں سامعین کی کمی کا سامنا کرنا پڑتا، جب کہ ذاکرین مجمع کو متوجہ کرنے میں کامیاب رہتے۔
ایک اور پہلو جو اس دور کی حقیقی تصویر ہمارے سامنے لاتاہے وہ عالمی سطح پر دنیا کا دو نظریاتی بلاکس میں تقسیم  ہوناہے ۔ایک گروہ جو کیمونسٹ اور شوشلسٹ نظریات کا حامل تھا۔ جسے اس دور میں روشن فکر اور ترقی پسند طبقہ کہا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ جو بھی تھے وہ سرمایہ داری نظام کے پیروکار، قدامت پسند اور بوژدار گردانے جاتے تھے۔

 شیعہ اپنی مزاحمتی اور ملوکیت مخالف سوچ کے سبب یاپھر ناسمجھی کی بنا پر کیمونسٹ نظریات کی طرف راغب ہوجاتے تھے ۔ یہ کم نظیر تھا کہ کوئی پڑھا لکھا شیعہ لفٹیسٹ  نہ ہو۔ اس کے برعکس دیگر تمام طبقات کو رائیٹسٹ کہا جاتا تھا۔ اسلامی جمعیت طلبہ/جماعت اسلامی سے وابستہ لوگ ان دو نظریاتی گروہوں کے درمیان اسلام کے نام لیوا تھے۔ مگر لیفٹسٹ انہیں بھی سرمایہ دارانہ نظام کا حامی سمجھتے تھے ۔ یہ لوگ دین کے ظواہر پر عمل کرتے ہوئے نظر آتے، چہرے پر ریش مبارک اور دین کی باتیں ان کی پہچان ہوتی تھیں۔ حجة الاسلام علامہ مرتضیٰ حسین صدرفاضل ،جو کہ تمام مسالک سے رابطہ رکھتے تھے ، وہ جماعت کے اسی رویے کو پسند کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ وہ دلی خواہش رکھتے تھے کہ کاش، ان کی ملت کی بھی یہی پہچان بن جائے۔
شیعہ طلباء میں چند تنظیمیں تھیں ،جو اکثر بیرون لاہور شہر کےاسٹوڈنٹس نے قائم کی ہوئیں تھیں اور ان کی فعالیت ان طلاب کی تعلیم مکمل ہونے کے ساتھ ختم یا کم ہوگئیں۔

(اس دور کے حالات پر گفتگو کی جاسکتی ہے جو کہ اس مضمون متحمل نہیں ہے)
ان حالات میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن جیسی تنظیم کا معرض وجود میں آنا ایک معجزہ تھا ۔دیگر تنظیموں سے اس تنظیم کا کیا امتیاز ہے؟یہ ایک علیحدہ مضمون کا موضوع ہے۔ اس کے لیے نصب العین ،اغراض و مقاصد، تنظیمی ڈھانچہ اور طریقہ کار کا جائزہ لینا ہوگا۔
اب ذرا اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس تنظیم کے کیا اثرات و ثمرات ہیں جس سے یہ معاشرہ مستفید ہوا۔
تنظیمی شعور:۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے  مملکتِ خداداد پاکستان میں مکتبِ اہلِ بیتؑ  کومعاشرے کو ایک تنظیمی شعور دیا کہ معاملات کو منظم کرکے، منصوبہ بندی کے ساتھ، ہدف کے تعین کے ساتھ مکمل کیے جاسکتے ہیں۔ اس سے قبل انفرادی سوچ کے تحت معاملات چلتے تھے۔ اب معاشرہ اس طرف چل پڑا کہ انہیں تنظیم کے تحت ہی جدوجہد کرنی چاہیے۔
استقامت:۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ اس نے تمام تر حالات کے باوجود ایک طویل عرصہ سے اپنے اہداف کے حصول کے لیے مصروف عمل ہے۔ اس سے بیشتر یہ اعزاز انجمن وظیفہ سادات و مومنین کو حاصل ہے کہ وہ پاکستان بننے سے قبل معرض وجود میں آئی اور ابھی تک اپنے مشن کو جاری رکھے ہوئے ہے۔اس کا واحد مقصد تعلیمی وضائف کا اجراء ہے اور واقعی لائق تحسین کام ہے۔
آزاد و فکری وابستگی:۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے ہمیشہ یہ روش اپنائی کہ اپنی فکر کو آزاد رکھا، جس کو حق سمجھا اس کی بھرپور تائید کی اور جس کو باطل سمجھا تو کسی نتائج کی پرواہ کیے بغیر باطل کو للکارا ۔ ان کے اس رویے سے معاشرے کو بھی حوصلہ ملا اور وہ بھی پیروی حق کو احسن گرداننے لگے ورنہ قوم کے فیصلے چند لوگ کرتے تھے۔ عوام کو یا تو خبر نہیں ہوتی تھی یا عوام کو جان بوجھ کر لاعلم رکھا جاتا تھا۔امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے جہاں خود آزادانہ فیصلے کیے وہیں اس کے اثرات معاشرے پر بھی پڑے۔ آج کوئی شخص اپنی من مانی کرتے ہوئے اپنے نظریات ٹھونس نہیں سکتا۔
علماء کی سرپرستی:۔
یہ اس تنظیم کی خوش قسمتی رہی کہ آغاز ہی سے اسے روشن فکر، متحرک اور باکردار علماء کرام کی سرپرستی حاصل رہی جن کی وجہ سے ان کے تصورات میں بالغ نظری اور روشن فکری کو فروغ ملا ۔ میری مراد حجة الاسلام علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم ،علامہ سید حسین مرتضیٰ صدرالفاضل مرحوم اور علامہ سید آغا علی الموسوی مرحوم ہیں۔ ان کے علاوہ بھی ایک کثیر تعداد علماء کی ہے جن کے زیر سایہ یہ تنظیم پروان چڑھی ،یہی وجہ ہے کہ تبادل زمانہ کے باوجود کوئی شخص اس تنظیم کے اخلاق ، اخلاص اوردین داری پر حرف زنی نہیں کرسکا۔
مسلک کی نمائندگی:۔
اس وقت ہر مسلک کے طلبہ کی تنظیمیں ہیں ۔ مکتب تشیع کی نمائندگی کا خلاء اور حق اس تنظیم نے ادا کیا۔ ان کے کردار سے لوگوں پر مکتب تشیع کے خواص سامنے آئے۔ نیز دیگر مکاتب فکر کے مقابل، مکتب امامیہ کے طلباء کو اپنی ہم فکر تنظیم میں کام کرنے پر فخر محسوس ہوا۔ بہت سے مقامات ایسے ہیں جہاں یہ تنظیم دیگر مکاتب سے اپنے اخلاق، تنظیم اور پروگرام میں منفرد نظر آئی۔
غیر اسلامی نظریات سے تحفظ:۔
جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جاچکا ہے کہ وہ دور سوشلزم اور کیمونزم کے عروج کا دور تھا۔ مکتب امامیہ کے طلبہ اپنی روشن فکری اور دیگر مکاتب کی تنگ نظری کی وجہ سے لیفٹسٹ گروپ کے بہت قریب تھے بلکہ بلا مبالغہ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ مکتب تشیع کے افراد زیادہ اسی طرف رجحان رکھتے تھے ۔ اگر کسی کو یہ پتا چلتا تھا کہ یہ مکتب امامیہ سے تعلق رکھنے کے باوجود اسلامی ذہن رکھتا ہے تو لوگ حیران ہوتے تھے ،اس ماحول میں مکتب امام جعفر صادقؑ کی طرف دعوت دینا اور حتیٰ الوسع اپنے نوجوان طلبہ کو دین دار بلکہ تقویٰ اور خلوص کی منزل پر لے جانا اس تنظیم کا خاصا ہے جس کی تعریف نہ کرنا بخل میں شمار ہوگا۔
دروس کا سلسلہ:۔
مجالس عزا اپنی ھئیت اور روایت کے باعث فضائل ومصائب و مناظرہ تک محدود ہوکر رہ گئیں تھیں۔ دین کے بنیادی معارف سے آگاہی کے لیے کوئی متبادل نظام بھی موجود نہ تھا ۔ نے آغاز سے ہی اس طرف توجہ کی، یوں ملک امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان  کے قیام کے بعد ملک بھر نا ختم ہونے والا دروس کا سلسلہ ہوگیا۔ موضوع کا انتخاب، علماء سے رجوع ، افراد کی جمع آوری ، جگہ کا تعین ، علماء کو لانا، لے جانا ، غرض کہ ہر مرحلے کو انتہائی ذمہ داری کے ساتھ طے کرنے کے ساتھ اس تسلسل کو برقرار رکھا۔ یہ روایت آج تک جاری ہے ۔ اس نے معاشرے پر دورس نتائج پڑے۔ آج دین داری کی جو شکل نظر آتی ہے انہی دروس کا اثر ہے۔
دعائیہ محافل و مجالس کا انعقاد:۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ مذہب اہلبیت  کو اگر دعا کا مذہب کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ مگر دعا کی طرف عوامی توجہ نہ تھی۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے اس جانب خصوصی توجہ دی، اپنی میٹنگ اور نشست کا اختتام دعائے فرج سے کیا جاتا ، بعدازاں دعائے امام زمانہ  سے اختتام ہونے لگا۔ اس کے علاوہ خصوصی محافل دعا کا انعقاد بھی کیا جانے لگا ۔ خصوصاً نیمہ شعبان اور شب ہائے قدر میں دعاکی تلاوت کی جاتی۔ انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں سے ایک دعا کی طرف خصوصی توجہ دلائی۔ یوں یہاں دعائے کمیل کی محافل کا آغاز ہوا جس کے پیش رو امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے نوجوان تھے۔ کربلا گامے شاہ میں ہونے والی دعائے کمیل اپنی مثال آپ ہے۔اس کے علاوہ اپنے تنظیمی پروگراموں میں دعا کو خصوصی جگہ دی گئی۔ کئی دعائوں کا تعارف کروایا گیا اور ان کی ترویج کی گئی۔ دعائے ندبہ، دعائے توسل ، دعائے ابو حزمہ ثمالی، دعائے جوشن کبیر و صغیر نیز صحیفہ کاملہ کی دعائوں کی تلاوت کے رقت آمیز اجتماعات کا جگہ جگہ انعقاد کرکے اپنی دین سے وابستگی ، اللہ کی طرف رجوع کا اظہار کیا گیا۔
ان دعائوں کو مختلف انداز میں چھپوا کر تقسیم کیا گیا ، ایک دعائیہ اسلوب کا اجراء کیا گیا جو آج بھی جاری و ساری ہے۔
با مقصد اعزاداری:۔
شہید عارف حسین الحسینی  نے بجا فرمایا کہ ” عزاداری ہماری شہ رگ حیات ہے” ، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے اعزاداری کے عظیم انسٹیٹیوٹ کو با مقصد بنانے میں اپنا کردار اس انداز سے ادا کیا کہ جس کا اقرار ہر شخص کرتا ہے۔ عزاداری کے جلوسوں میں پورے لباس کے ساتھ شرکت، احترام اور تقدس کو ملحوظ خاطر رکھا۔ جلوس ہائے اعزاء میں نماز با جماعت کا اہتمام کیا، بعض مقامات پر انتہائی کوشش کرنی پڑی بلکہ تشدد کو برداشت بھی کیا مگر اپنے مشن کو جاری رکھا۔ آج ملک بھر میں جلوس ہائے عزاء کے دورا ن نماز باجماعت کی روایت کی بانی اور محافظ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہے۔

اس کے علاوہ جہاں ممکن ہوسکا وہاں خواتین کا باحجاب شرکت کا اہتمام کیا۔ امامیہ دستہ کا جلوس ہائے اعزاء میں اہتمام ایک اچھا اضافہ ہوا۔ نوحہ خوانی میں با مقصد نوحوں کو رواج دیا ۔ ان اصلاحی نوحوں نے ایک نیا کلچر کا اضافہ کیا۔
اس کے علاوہ مجالس میں ایسے علماء کرام کی حوصلہ افزائی کی جو مقصدیت سے بھر پور  خطابات کریں، تاریخی اور صحیح مصائب اور فضائل کو بیان کریں ۔ جو لوگ غلط اور من گھڑت مصائب و فضائل پڑھتے ہیں ان سے اجتناب کیا جائے۔ اعزاداری کے اجتماعات میں با مقصد بینرز، لٹریثر اور دیگر ذرائع سے اعزاداری کا مفہوم ،مقصد اور حسینی ہدف کو لوگوں تک پہنچایا ۔ اس کے علاوہ عزاداری کے انعقاد میں مراجعین کے فتاوے کو پیش نظر رکھا۔
علماء سے استفادہ:۔
علماء کا اصلاحی معاشرے میں کلیدی کردار ہے مگر اس ملک میں جہاں علماء کی کمی تھی وہیں علماء کی عزت و احترام اور رجوع کی بھی کمی تھی۔ علماء بھی معاشرے سے کٹ کے ،فقط چند تسبیح و عبادت میں مشغول رہتے۔ مساجد کی کمی اور مدارس کی کمی ،اس کے علاوہ تھی۔ منبر حسینی ؑ پر یا تو ذاکرین رونق افروز تھے یا مبلغین و مناظرین ، علماء کرام فقط چند مجالس میں شامل ہوتے۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے علماء کی معاشرے میں اہمیت، توقیر اور احترام کو فروغ دیا۔ علماء سے مجالس و محافل میں بھرپور استفادہ کیا، یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے ۔ تمام مسائل میں علماء سے رہنمائی حاصل کرنے کا احیاء کیا۔ جب علماء کی اہمیت بڑھی تو اس کے ساتھ مدارس و مساجد کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ آج علماء کی معاشرے میں جو عزت ہے اس کے اسباب میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی شعوری کوشش و کاوش ہے۔
مسلسل و متواتر لگن:۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے اثرات میں سے ایک اس کا اپنے پروگراموں میں تسلسل اور متواتر ہے۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کا سالانہ کنونشن تمام تر حالات کے باوجود باقاعدگی سے ہوتا ہے۔ اس کے بیشتر پروگرامز برسوں سے انعقاد پذیر ہورہے ہیں ۔ یہ ثبوت ہے کہ یہ تنظیم جہاں استحکام کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے بلکہ اپنی روایت کو بھی آگے بڑھا رہی ہے۔ اس تسلسل کے عمل نے معاشرے پر اثرات ڈالے ، اس تسلسل نے ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا کہ جو مکمل طور پر ہم فکر اور ہم آہنگ ہوگیا۔ اس عمل سے معاشرے میں بھی احساس پیدا کیا کہ یہ وقتی تحریک نہیں ہے بلکہ جادوانی عمل ہے۔ لوگ اسی بناء پر اس سے مربوط رہنے میں احساس تفاخر محسوس کرتے ہیں۔ لوگوں کا اس تنظیم پر اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔
کتب بینی کا فروغ:۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان اپنے قیام ہی سے علم و تعلیم سے وابستہ رہی ہے ۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی پہلی کیبنٹ میں ایک عہدہ سیکرٹری لائبریری کا بھی تھا جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تنظیم کی اُٹھان کیسی تھی۔ اس نے جہاں اپنا یونٹ بنایا، وہیں چھوٹی سی لائبریری بنا ڈالی۔ بعض جگہوں پر واقعی شاندار لائبریریاں معرض وجود میں آئیں۔ اس دور میں ان لائبریریوں سے لوگوں نے خوب استفادہ کیا۔ ان کے اس عمل نے عوام میں جگہ بنانے میں بھی کردار ادا کیا۔ اس کے علاوہ اچھی کتب کا فروغ بھی اس نے اپنے ذمہ لیا۔ یہ بڑی مجلس و اجتماعات میں کتب کے سٹال اور سستی کتب کی نچلی سطح کی فراہمی کو ممکن بنایا۔ نیز اچھا لٹریچر ، مضامین اور رسائل کو بھی عوام میں پھیلانے کا سبب بنے۔ عہدیداران تڑپ رکھتے تھے نئی کتب مطالعہ کرنے کی، اس پر مباحثہ کرنے اور اسٹڈی سرکلز کو بھی فروغ دیا۔ اس کتب بینی کے شوق نے فکری ونظری سطح کو بلند کرنے، معلومات ،علم کے فروغ میں اپنا کردار اداکیا۔ اس شوق نے لوگوں کو اپنے گھروں میں ذاتی لائبریریاں بنانے کی ترغیب دی ۔ اس کے علاوہ انقلاب اسلامی کے اجراء سے جو کتب کا سیلاب آیا ہے اس سے زیادہ تر استفادہ کرنے والے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے نوجوان تھے۔ امام خمینی، شہید استاد مرتضیٰ مطہری اور باقر الصدر جیسی نابغہ روزگار شخصیات کی کتب کو انہی نوجوانوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا، مطالعہ کیا اور دیگر تک فروغ کا وسیلہ بنے۔
اشتہارات و دیوار نویسی کی روایت:۔
اشتہارات اور دیوار نویسی(وال چاکنگ) کی روایت پرانی ہے مگر تشیع میں اس ذریعہ کا استعمال محدود تھا۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے جہاں اس روایت کو فروغ دیا وہاں اسے اپنے مقصد ،ہدف اور پیغام رسانی کے لیے بھرپور استفادہ کیا۔ یہاں تک بعض اوقات دیواریں فقط امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے نعروں اور اشتہارات سے پُر ہوتی تھیں۔ یہ بتانا آسان ہے مگر ہے انتہائی مشکل۔ ساری ساری رات گلیوں، سڑکوں پر دیواروں، پلوں اور دیگر مقامات پر اشتہارات لگانا پھر اس پر پولیس اور دشمن کا دھڑکا، مگر اس کے باوجود پیغام رسانی کے اس آسان اور سستے ذریعے سے خوب فائدہ اُٹھایا۔ اب انہی کے تجربات سے دیگر تنظیمیں استفادہ کررہی ہیں۔
نشست و برخاست کے آداب:۔
ہر تنظیم کی کچھ روایات ہوتی ہیں، جس کے پروان چڑھنے سے تنظیم کی ساکھ پر اثرات پڑتے ہیں۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے قبل کوئی خاص تنظیمی روایات نہ تھیں مثلاً میٹنگز کا طلب کرنا، دعوت نامہ، ایجنڈا اور دیگر معلومات کے ساتھ شرکاء کو قبل از وقت بھجوانا ۔ فون اور دیگر ذرائع سے تاکید مزید کرنا، جگہ کا تعین، مراتب کی ترتیب اور انداز تخاطب ،اجلاس کا آغاز تلاوت قرآن پاک سے کرنا، شرکاء کا تعارف اور ایجنڈے پر گفتگو کرنا، نتیجہ خیز نکات/فیصلوں کو ضابطہ تحریر کرنا، اجلاس کے شرکاء کی تواضع اور اختتام دعائے امام زمانہ  سے کرنا، یہ سب نشست و برخاست میں آتاہے۔ یہ ایسی پختہ روایت ہے کہ اب بھی قائم ہے اور کئی تنظیموں نے اس کو اپنایا ہے۔ اس سے ایک مہذب اور پروقار معاشرے کے فرد کا احساس ہوتا ہے۔
کنونشن/سیمینارز:۔
اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانا یا دوسروں کی بات کو سمجھنا اس کے مختلف انداز ہوسکتے ہیں ۔ سیمینارز اور کنونشن ،انہی باتوں کو آگے بڑھانے کا انداز ہے۔امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے ملت تشیع میں یہ نئی روایت قائم کی کہ اپنے سالانہ کنونشنز منعقد کیئے، اس کے بعد بہت سی تنظیموں نے انہی کے انداز کو اپناتے ہوئے تنظیمی کنونشن کیے۔ یعنی جو روایت قائم کی اس پر لوگوں نے بھی عمل کیا۔ مختلف موضوعات پر سیمینارز کا سلسلہ بھی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے پروان چڑھایا۔ آج بھی مختلف تنظیموں کی طرف سے ہونے والے کنونشن اور سیمینار زامامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے دیئے ہوئے معیار کی نقل کرتے ہوئے نظر آئیں گے۔ کسی نے نا ان میں تبدیلی کی نا جدت پیدا کرنے کی کوشش کی۔
مدارس دینیہ کے قیام میں تعاون:۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے معرض وجود میں آنے سے قبل مدارس دینیہ کی تعداد انتہائی کم تھی۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے سرپرست علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم نے مدارس کی ترویج کا بیڑا اُٹھایا تو جیسی تنظیم معاون و مددگار کے طور پر ملی۔ شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی کے جنازہ پر علامہ ریاض حسین نجفی نے خطاب کرتے ہوئے  بیان کیا کہ  علامہ صفدر حسین نجفی کی رحلت کے بعد جہاں بھی گئے وہاں مدارس کے ابتدائی کام میں ڈاکٹر محمد علی نقوی کا حصہ نظر آیا۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے ہمیشہ سے مدارس کی حوصلہ افزائی کرتی آئی ہے۔ اس نے کسی مدرسے کی مخالفت نہیں کی ۔
علماء کے لیے نرسری:۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے کم از کم ایک سو سے زائد اراکین جو پہلے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان میں فعال کردار ادا کرتے رہے پھر انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنے شعوری فیصلے کے تحت علم دین حاصل کیا اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ چار سابقہ مرکزی صدر جو اپنی پیشہ وارانہ تعلیم مکمل کرچکے تھے نے علم دین حاصل کیا ،ان میں ثاقب نقوی، شبیر بخاری، امتیاز رضوی اور حسنین گردیزی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ مرکزی عہدیداران سے لے کر نچلی سطح تک یہ امتیاز حاصل رہا۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ایک لحاظ سے علماء کے لیے نرسری کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ اس کی کارکردگی کسی بڑے مدرسہ سے کم نہیں، اس علماء کی نرسری کو جاری و ساری رہنا ملت کے مفاد میں ہے۔
تربیتی ورکشاپس و کیمپس:۔
یہ انداز تربیت  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے ہی متعارف کروایا۔ ان سے نوجوان نسل کو بہت فائدہ پہنچا۔ ایک مختصر وقت میں اپنے اراکین کو بہت کچھ بتا دینا، پھر ایک ماحول میں رکھ کر تربیت کرنا، اجتماعی رہن سے جو قربت اور دوستی پروان چڑھتی ہے وہ آئندہ زندگی میں بھی قائم رہتی ہے۔ نوجوانوں کو بنیادی دینی معلومات کا مہم پہنچانا ،پھر ان کا تکرار اور تسلسل ، یہ سب تربیتی مراحل میں آگے بڑھنے میں کارآمد ثابت تھے۔انہی کی پیروی کرتے ہوئے آج بہت سے ادارے اس انداز کو اپنا چکے ہیں۔ بہت سے لوگ  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے ہی سیکھ کر گئے اور پھر دیگر تنظیموں اور اداروں سے جاکر اس روایت کو پروان چڑھایا۔
احتجاج اور تظاہرات:۔
کسی مسئلہ پر اپنے غم و غصہ کا اظہار کرنے کی مضبو ط روایت بصورت احتجاجی جلوس، احتجاجی دھرنا، مظاہرہ کرنا، یہ سب   نے متعارف کروایا ، عمل کرکے دکھایا اور متواتر اس عمل کو اپناتے ہوئے ہے۔ اب بھی اکثر مظاہروں میں اسی تنظیم کا دخل ہوتا ہے ورنہ اس سے قبل اس طرح کی کوئی مضبوط روایت نا تھی، زیادہ سے زیادہ پریس کانفرنس کرلی جاتی یا کوئی قراداد مذمت منظورکرکے اخبارات کو ارسال کردی جاتی۔ اب واقعات پر فوری عدعمل دینا، مظلوموں کی آواز اُٹھانا، ظلم کے خلاف احتجاج کر بلکہ ایران، عراق جنگ کے دوران کوئی ہفتہ گزرتا ہو کہ مال روڈ پر مظاہرہ نا ہوتا ہو، آج بھی یہ روایت قائم ہے۔
انقلاب اسلامی کی حمایت و ترویج:۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے سرپرست علامہ صفدر حسین نجفی اعلی اللہ مقامہ اپنی بالغ نظری سے اس نتیجہ پر بہت عرصہ پہلے پہنچ چکے تھے۔ انہوں نے آیت اللہ محسن الحکیم کی رحلت کے بعد امام خمینی کی تقلید کا اعلان کردیا تھا۔ اسی لیے انہوں نے امام خمینی کی کتاب حکومت اسلامی کا ترجمہ بھی انقلاب اسلامی سے قبل کرکے شائع کروایا تھا۔ اسی ماحول میں  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان پروان چڑھی، انقلاب اسلامی سے پہلے جب شہنشاہ ایران پاکستان کے دورے پر آیا تھا تو لاہور کی دیواریں ” ہم قاتل شاہ کا استقبال نہیں کرتے”سے بھر گئیں۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کو یہ فخر حاصل ہے کہ انقلاب اسلامی ایران کے حق میں اور ظالم شاہ کے خلاف احتجاجی جلوس نکالنے میں اولیت اختیار کی ۔ انہوں نے امام خمینی کے وفد کی جو جماعت اسلامی کے بانی مولانا مودودی سے ملنے آیا (جنوری 1979) تو اس کا شاندار استقبال کیا۔ امام خمینی کا رسالہ عملیہ توضیح المسائل  اور تصویر کو گھر گھر پہنچایا ۔ امام خمینی کو اپنی حمایت کا یقین دلانے کے لیے مولانا صفدر حسین مرحوم اور سیٹھ نوازش کے توسط اپنا خط پیرس میں امام خمینی کو ارسال کیا۔ اس دن سے لے کر آج تک انقلاب اسلامی حمایت، دفاع اور تعاون کا سلسلہ جاری ہے۔ ایران عراق جنگ کے دوران جنگ کے ہر لمحے پر ردعمل دیا۔
آج ملک پر اس انقلاب کے جو ثمرات ہیں ان کے لیے  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کا ابتدائی و بنیادی حصہ ہے۔ آج نظریہ ولایت فقیہ کا شہرہ ہے ،اس کے فروغ، ترویج اور ابلاغ میں  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے تاسیسی اور اساسی کام کیا۔ آج جو بھی ولایت فقیہ کا حاصل ہے وہ  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی کوششوں کا مرہون منت ہے۔  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے ایک قدم اُٹھایا کہ اپنی تنظیم کو ولی فقیہ کی نظارت میں دے دیا۔ جس سے اس کا خط مشخص اور معین ہوگیا۔  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے رہبر معظم سید علی خامنہ ای کی اطاعت، وفاداری اور ا ن کے حکم پر چلنے کا عہد کیا ہوا ہے۔
شہداء و شہادت:۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے اپنی نوجواں میں جذبہ شہاد کے ابھارنے میں ایک تاریخی کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے مذہب دین وطن کے لیے جان دینے کو اپنے لیے باعث سعادت سمجھا۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے بانی نے اپنی جان اس راہ شہادت میں دے کر ان کے لیے سرخ راستے کو روشن تر کردیا۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے ناصرف جذبہ شہادت کو ابھارا بلکہ شہداء کی تکریم اور یاد رکھنے میں بھی اپنی روایات قائم کیں۔ جہاں ملت کے تمام شہداء کو خراج تحسین پیش کرتی ہے وہیں ہفتہ شہداء

   سے تعلق رکھنے والے شہداء کو نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہے۔ اپنے پروگراموں میں شب شہداء کو متعارف کروایا۔
بانی  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان شہیدڈاکٹر محمد علی نقوی کی خدمات پوری ملت کے لیے تھیں مگر ان کو یاد رکھنے کی سعادت بھی  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی عظیم ذمہ داری بن چُکی ہے۔ ان کی شہادت سے لے کر آج تک  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ہی ان کا یوم شہادت مناتی ہے جس میں دن بدن بہتری آرہی ہے۔ اس کے علامہ عارف حسین الحسینی شہید کی یاد کو بھی ملک بھر میں منایا جاتا ہے۔ کوشش کی جاتی ہے کہ اگر حالات سازگار ہوں تو شہید کے مزار پر سکائوٹ سلامی اور تقریب کا اہتمام کیا جاتا ہے۔

انفرادی زندگی پر اثرات:۔
امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان میں شامل رہنے والے نوجوانوں پر جہاں خود پر اثرات مرتب ہوتے ہیں وہیں وہ اجتماعی کردار خاندان اور معاشرے کو بھی متاثر کرتے ہیں۔  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے وابستہ افراد کے خاندان، والدین، بہن ،بھائی، بیوی بچے اور دیگر افراد بھی کرادر سے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی طرح  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے اثرات پورے معاشرے کو اپنے جلومیں لیے ہوئے ہیں۔ اس کا ایک اثر انچان کی اپنی انفرادی زندگی پر بھی پڑتا ہے۔ تنظیم اسے نظم ،تربیت اور سلیقہ سکھاتی ہے ،وہ جس جگہ جاتا ہے وہ اپنی ان صفات کی وجہ سے معزز مقام حاصل کرلیتا ہے۔ وہ قلیل وقت میں بہت سے کام کرنے کا فن سے آگا ہ ہوتا ہے ۔ اسے ریکارڈ مرتب کرنے، میٹنگز کا ایجنڈا بنانے، میٹنگ کو چلانے ، منٹس بنانے وغیرہ جیسے تمام مراحل فنگر ٹپس پر ہوتے ہیں۔ اسے گفتگو کرنے، اپنی بات پر دلائل دینے، دوسروں کو قائل کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ انہی صفات کی وجہ سے  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان  کے بیشتر اراکین اپنے اپنے مقامات پر کامیاب فرد گردانے جاتے ہیں۔
ظواہر دینی کی پابندی:۔
ایک دور تھا کہ جب باریش نوجوان کو جماعت اسلامی کا سمجھا جاتا تھا۔ مگر امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے اپنے وجود میں آتے ہی ظواہر دینی کو رواج دیا۔ جس میں چہرے پر داڑھی کا نظر آنا ہے، ایک پہچان بن گیا۔ یوں دین کے اس فراموش شدہ عمل کو جاری و ساری کیا۔ یہ کریڈٹ بھی  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کو جاتا ہے۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان میں ہو اور اس نے ریش مبارک نہ رکھی ہو۔ اس کے علاوہ دیگر معاملات دینی میں بھی  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے جوان پیشرفت کرتے نظر آتے ہیں ۔جن میں نماز باجماعت کا اہتمام، برائی کی محفلوں سے دوری، نیکی کے کاموں میں سبقت ، موسیقی سے اجتناب، بڑوں کا احترام اور بچوں سے شفقت شامل ہیں۔ جب یہ چیزیں ایک نوجوان میں دیکھی جاتی ہیں جو میں کام کررہا ہو ۔
ایک معاشرے کے عام فرد کی توقع امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے نوجوان سے اس سے زیادہ ہوتی ہے اور بیشتر مقامات پر  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے نوجوان ان توقعات پر پورے اترتے نظر آتے ہیں۔
 ملی قیادتوں کا ساتھ:
ایک کارنامہ جو اسے دیگر تنظیموں سے ممتاز کرتا ہے وہ اس کا ملت کے قائدین کا ساتھ دینا ہے۔ جب اس کے وجود مسعود ظہور پذیر ہوا تو اس وقت لاہور میں مختلف عنوانات سے تنظیمات ، شخصیات موجود تھیں مگر یہ کوئی ایجنڈا نہیں رکھتی تھیں ۔ اس لیے امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے ان سے اعراض کا راستہ اختیار کیا ۔ مگر جب مفتی جعفر حسین مرحوم قائد بنے تو آئی ایس او نے ان کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس میں ان کے ساتھ ہم آہنگی اور وابستگی کے علاوہ ملک گیر دورہ جات میں اپنا حصہ ڈالا۔ 1980ء اسلام آباد کی تحریک اور دھرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ملت جسد مردہ میں روح پھونکنے کے لیے انہوں جو کردار ادا کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ مرحوم قائد کی رحلت تک ان سے ہم آہنگی کو برقرار رکھا۔
 مگر جب شہید علامہ عارف حسین الحسینی رح نے منصب قیادت سنبھالا تو سوائے  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے کسی نے کھل کر ساتھ نہیں دیا ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت بھی ہے اور شہید نے کئی جگہ اس کا اظہار بھی کیا ہے۔ تنظیم کی باگ ڈور شہید کے ہاتھ میں تھما کر گویا اپنے اعتماد کا حق ادا کردیا۔ انہی کی کوششوں سے شہید ایک ملت کے ایک کامیاب، نامور اور مثالی قائد کے طور پر ابھرئے۔
شہید کے بعد والی قیادت کو ملک کے کونے کونے میں پہنچانے کافریضہ ادا کرنے میں  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان  نے اپنا حصہ ڈالا۔ مگر جب انہوں نے محسوس کیا کہ قیادت اپنے اہداف سے انحراف کررہی ہے تو اسی وقت اپنی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے، ان سے اظہار برأت کرلیا۔ گو اس پر متضاد گفتگو ہوسکتی ہے مگر جو حقیقت ہے وہ بیان کردی ہے۔
بعد میں بھی ملت کے جو بھی اجتماعی کوشش ہوئی، امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان نے بھرپور ساتھ دیا۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مؤثر کردار سے خلا پرُ ہوا۔ ملت کی ایک آواز ابھر کر سامنے آئی ۔ قیادت کے کردار ادا کرنے میں اس تنظیم کا ساتھ کامیابی کی دلیل سمجھا گیا ہے۔
تنظیم ساز کردار:
اس نے اپنی تنظیم سازی کے علاوہ بہت سی تنظیموں کو بھی کندھا مہیا کیا ،بہت سی تنظیمیں ان کے سبب و تعاون سے معرضِ وجود میں آئیں۔
اس میں پہلی تنظیم امامیہ آرگنائزیشن ہے جو 1974ء میں قائم ہوئی۔ اس کی بنیاد ہی  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان تھی کہ جو لوگ اس سے فارغ التحصیل ہوں وہ معاشرہ میں گم ہوجانے کے بجائے ایک فعال کردار ادا کرنے اور اپنی مدر آرگنائزیشن کو سپورٹ کرنے کے لیے ایک پلیٹ فارم سے مربوط رہیں، مگر بعد میں اس کے نتائج کچھ اور سامنے آئے۔ اس پر مزید بات اس موضوع کا حصہ نہیں۔
پھر تحریک نفاذ فقہ جعفریہ بنی تو  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے دستور کو سامنے رکھ کر اس کا ڈھانچہ ترتیب دیا گیا۔ اس کے بعد وفاق علماء شیعہ پاکستان بنی، اصغریہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور اصغریہ آرگنائزیشن ،جمعیت طلباء جعفریہ پاکستان غرض کہ جتنی تنظیمیں بنیں انہوں نے آئی ایس او کے دستور اور تجربے سے فائدہ اُٹھایا ۔
بہت سی تنظیموں میں اسی سے فارغ التحصیل و تجربہ کار لوگ متحرک رہے۔ بعض تو نظریہ، آئیڈیا ، نعرے تک اسی کے لے کر گئے اور اس تنظیم میں اپنا کردار ادا کیا۔
اب بھی مجلس وحدت مسلمین کا دستور بھی اسی کے دستور کا  تسلسل ہے ۔  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے افراد نے بنایا اور ایک تنظیم کھڑی کردی۔


تنظیم نہیں تحریک:
تنظیم اور تحریک کی بحث میں پڑے بغیر اعتماد سے کہا جاسکتا ہے کہ  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان ایک تنظیم نہیں بلکہ تحریک کا نام ہے ۔ جو اس قافلے میں شامل ہوجاتا ہے ان کے اندر سے اس کا اثر نہیں جاتا ۔ اس میں استثنا ہ موجود ہے مگر بیشتر لوگ اس سے فارغ ہوکر بھی اس سے وابستہ رہے یا انہوں نے جہاں بھی گئے اس کا پیغام، اس کی تربیت اور اجتماعی شعور کو ساتھ لے کر گئے۔ انہوں نے اپنے  اپنے میدانِ عمل میں، اس سے حاصل ہوئی روشنی کو پھیلایا، یہ جو دین داری کی مہم ہے، جو مساجد و امدارس کا نظام ہے، یہ عزاداری جس اصلاح کا پہلو ہے ،یہ علماء حق سے وابستگی کا اظہار ہے، یہ جو علم اور کتب بینی سے شغف ہے اس کے پس پردہ اس تنظیم کا اثر ہے۔
اس لیے اسے بجا طور پر ایک تحریک کہا جاسکتا ہے ،اس سے وابستہ افراد دنیا میں جہاں بھی گئے اس سے حاصل کیے ہوئے شعور، آگہی اور پروگرام کو آگے بڑھایا۔
نمائش سے پرہیز:
ایک بات جو اس کی گھٹی میں بیٹھی ہوئی ہے وہ نمودونمائش سے پرہیز ہے ۔ اس نے عہدیدار کے انتخاب کے لیے کسی قسم کا پراپیگنڈا کرنے یا لابی بنانے کی سختی سے ممانعت کی۔ عہدیداران پہلے اپنا نام یا تصویر کی اشاعت کو پسند نہیں کرتے تھے تاکہ ان کے خلوص میں نمودونمائش کا شائبہ تک نہ ہو۔ نا ہی اپنے عہدے کی بنا پر کسی خصوصی استحقاق کا دعویٰ کیا، یہ روایت کسی حد تک اب بھی جاری ہے۔
سینئرز کا احترام:
اس تنظیم کی یہ خوبی ہے کہ عہدیداران ایک مدت کے بعد اس سے جدا ہوجاتے ہیں لیکن تنظیم میں ان کا احترام اسی طرح قائم رہتا ہے ۔ اپنے پروگراموں میں ان کو دعوت دینا، ان کے مشوروں سے استفادہ کرنا، ان کی تربیتی و تنظیمی محافل میں خطاب کروانا، ان سے رابطہ رکھنا، یہ ایک مسلسل عمل ہے جو اپنی کمی بیشی کے ساتھ جاری ہے۔
سینئرز کا احترام اور ان سے استفادہ ہی وہ رویہ ہے جس سے اس تنظیم میں تسلسل برقرار ہے۔ اس ضمن میں ایک اور قدم اُٹھایا گیا ہے کہ سابقین نام سے ایک شعبہ قائم کیا ہے جو متواتر سابقین سے رابطے میں رہتا ہے۔
القاب:
یہ زندہ روایت ہے کہ  امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے اراکین ایک دوسرے کو بھائی کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ جس سے ان میں ایک لاشعوری طور پر محبت، احترام کا رشتہ قائم ہوجاتا ہے جو اپنی زندگی تک قائم رہتا ہے ۔ گویہ روایت ایک اور تنظیم سے لی گئی ہے لیکن اس ملت میں اس پروان اسی تنظیم نے چڑھایا۔
انقلاب اسلامی ایران کے آنے سے ایک تبدیلی آئی کہ اب بعض لوگ ایک دوسرے کو ” آغا” کے لفظ سے پکارنے لگے مگر یہ زیادہ متعمل نہیں ہے۔
نوجوانوں کے لیے پہلی کاوش:
یہ پہلی کاوش ہے کہ جو نوجوانوں کو منظم کرنے، ان کی تربیت کرکے معاشرے کا فعال، اہم اور کارآمد فرد بنانے کے کےلیے کی گئی۔ اس سے قبل اس طرح کی کسی تنظیم کا تصور مکمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے قبل بننے والی اسٹوڈنٹس تنظیموں کے بارے میں پہلے ذکر کیا جاچکا ہے۔
اس کی ایک انفرادیت اور ہے کہ عموماً پہلے بڑی تنظیمیں بنتی ہیں پھر وہ اپنے افکار کو پھیلانے کے لیے مختلف ذیلی تنظیمیں بناتی ہیں جیسے مسلم لیگ نے مسلم اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن، جماعت اسلامی نے اسلامی جمعیت طلباء وغیرہ مگر یہاں پہلے طلبہ میں تنظیم بنی اور پھر اس سے فکر لیتے ہوئے اس کے سابقین نے مختلف ملک گیر مرکزی ملی، و نظریاتی تنظیمیں بنائیں۔ اس طرح امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ کسی تنظیم کا بغل بچہ نہیں رہی بلکہ اس نے اپنی شعوری ذہانت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق بڑی تنظیموں کی حمایت، مخالفت یا لاتعلقی کا اظہار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تنظیمیں بنتی اور ٹوٹتی رہیں مگر یہ کسی اثر کے بغیر اپنے سفر کو جاری رکھے ہوئے ہے۔
فرقہ واریت سے مبرائ:
یہ بات مسلم ہے ،یہ تنظیم ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے طلبہ پر مشتمل ہے مگر اس نے کبھی بھی فرقہ واریت کو پھیلانے، فروغ دینے، یا ایسی سرگرمیوں کا حصہ بننے کی جسارت نہیں کی۔ اس کا لٹریچر گواہ ہے کہ اس میں فقط اپنے مکتب کے افکار کو ترویج دینے کے علاوہ دیگر مکاتب پر تنقید یا تنقیص کرنے کو ذریعہ نہیں بنایا ۔ ایسا بھی ہوا کہ اس تنظیم کے اراکین یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ اگر اس کا نام ہی بدل دیا جائے مگر جہاں اور بہت سی وجوہات ہیں وہیں کہ جس کی بنا پر اس کا نام نہیں بدلا گیا وہ اس کا غیر فرقہ وارانہ کردار ہے۔
آج بھی اس کا دیگر مکاتب فکر کی طلبہ تنظیموں سے روابط اس امر پر شاہد ہیں ۔ نیز یہ تنظیم جن افراد کو اپنا مرکز اطاعت قرار دیتی ہے ان کا منشور اور فکر ہی  اتحاد  بین المسلمین کا پیغام لیے ہوئے تھی ۔اس سے مراد مولانا صفدر حسین مرحوم، آغا علی الموسوی مرحوم ،علامہ مرتضیٰ حسین صدر الافاضل، علامہ عارف حسین الحسینی ،حضرت امام خمینی ،ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید اور رہبر معظم سید علی خامنہ ای ہیں۔ ان تمام بزرگوں نے وحدت کے پیغام کو عام کیا اور خود کو فرقہ واریت سے بچا کر رکھا۔ یہ تنظیم انہی بزرگوں کے افکار کی امین ہے۔
شعار کی ترویج:
اس تنظیم نے اب تک جو نعرے دیئے ہیں ان کا جائزہ لینا دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔ ان نعروں کا عوام میں مقبول ہوجانا اس تنظیم کی اثر پذیری کی ایک علامت سمجھا جاسکتا ہے۔ مثلاً
بڑھتے رہیں یونہی قدم حیٰ علیٰ خیر العمل
قرآن وہ کتاب ہے  جو درسِ انقلاب ہے
ہمارا جو اُصول ہے وہ اسوہ رسول ہے
علی کا طرز زندگی  منافقت کی موت ہے
ہے ہماری درسگاہ کربلا کربلا
اس کے علاوہ بہت زیادہ شعار اور نعرے ہیں جو زبان زدِ عام ہیں۔ ان کو پھیلانے، ان کے ذریعہ پیغام رسانی کرنے اور جاری رکھنے میں اس تنظیم کا حصہ ہے۔ یہ سلسلہ رکا نہیں ہے ،آج بھی دن بدن نئے شعار بلند ہوتے رہتے ہیں اور ان کو معاشرے میں پذیرائی ملتی رہتی ہے ،یہ الگ بات ہے کہ کچھ شعار وقتی ہوتے ہیں اور ان کی زندگی بھی ضرورت کے تحت ہوتی ہے۔
ملی کردار:
 امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ملی کردار پر علیحدہ سے ایک مضمون درکار ہے۔ مگر یہاں چند الفاظ موضوع کی مناسبت سے درج ہیں۔
اس نے اپنے قیام سے لے کر آج تک اپنے ملی کردار کو فراموش نہیں کیا بلکہ اپنے وجود سے بڑھ کر اسے ادا کیا ہے۔ اسی لیے ہر مرحلہ پر اس کا پایا جانا ثبوت ہے۔ بہت سے ایسے مقامات بھی آئے ہیں کہ جہاں ملی تنظیمیں یا تو اپنا کردار ادا نہیں کرسکیں یا وہ اپنی فعالیت کھو چکی تھیں۔ وہاں پر بھی اس نے اس خلا کو پر کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کیا ۔اس کے مستحکم ملی کردار کی بنا پر اب بھی اس سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ بیش رفت کرے جبکہ اس کردار کو ادا کرنے کے لیے تین چار گروہ میدان عمل میں موجود ہیں۔ لوگ اب بھی اس کی فعالیت کو اس کے ملی کردار سے جانچتے ہیں۔ جبکہ وہ آگاہ ہیں کہ یہ ایک طلبہ تنظیم ہوتے ہوئے محدود کردار ہی ادا کرسکتی ہے مگر اس کا شاندار ماضی ایسے کارناموں سے بھرا پڑا ہے جس کی توقع آج کی جارہی ہے۔
٭٭٭٭٭

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں