تعارف کتاب “استقصاء الافحام و استیفاء الانتقام”
تالیف منیف: میر سید حامد حسین موسوی لکھنوی رحمہ الل
تعارف و تحریر: علامہ سید سبطین علی نقوی امروہوی
سن 1247 ہجری میں شیعہ عالم دین سبحان علی خان نے ایک رسالہ تالیف کیا۔ رسالے کا مضمون “حدیث حوض” کو خلفائے ثلاثہ اور ان کے پیروکاروں پر منطبق کرنے سے متعلق تھا۔ سبحان علی چونکہ ایک علمی اور اجتماعی شخصیت تھے، اس لیے مذکورہ رسالے نیز ان کی دیگر تالیفات نے ہند میں مقیم اہل سنت کے لیے مشکلات کھڑی کر دیں۔ بعض افراد حیدر علی فیض آبادی کے پاس پہنچے اور اس رسالے کا جواب لکھنے کی گزارش کی۔
فیض آبادی نے اس رسالے کا “منتہی الکلام” کے نام سے جواب لکھا جو سن 1250 ہجری میں شائع ہوا۔ اس کتاب کی نشر و اشاعت میں سر توڑ کوششیں کی گئیں اور بعد اشاعت رجز خوانی اور شور شرابے میں ذرا کسر نہ اٹھا رکھی گئی۔
جب یہ کتاب شائع ہوئی میر حامد حسین کی عمر فقط 4 سال تھی۔ 16 سال کی عمر سے اپنے والد کی “تشید المطاعن” جیسی کتب کی تصحیح کرنا والا جوان کہاں کسی کی لاف زنی برداشت کرنے والا تھا۔ بیس سال سے “ہل من مبارز” کے لگنے والے نعرے کا جواب دینے کا وقت آن پہنچا تھا۔ قبل اس کے کہ “تشید المطاعن” کی تصحیح و تخریج مکمل ہوتی اور اسے شائع کروایا جاتا، میر حامد نے “منتہی الکلام” کا جواب لکھنا شروع کر دیا اور فقط ایک سال کے مختصر سے وقت میں 3 جلدوں پر مشتمل جواب بنام “استقصاء الافحام و استیفاء الانتقام فی نقض منتہی الکلام” تالیف کر ڈالا۔ اس وقت میر حامد کی عمر فقط 25 برس تھی۔ کتاب چھپوانے میں سن 1273 ہجری کی شورشیں حائل رہیں۔ اس وجہ سے سن 1276 ہجری میں استقصاء الافحام کی پہلی جلد شائع ہوئی۔
فیض آبادی اس کتاب کے شائع ہونے کے بعد 23 سال زندہ رہا، لیکن اس کتاب کا جواب نہ لکھ سکا۔ وہ تو وہ کوئی اور بھی یہ ہمت نہ جٹا سکا۔
خود میر حامد حسین نے اپنے ایک خط میں اس کتاب کی داستان کچھ ایسے رقم کی ہے:
“راندہ درگاہ ناصبی نے کتاب منتہی الکلام لکھ کر اہل حق کی روایات و احادیث پر اعتراضات و اشکالات وارد کیے ہیں، بیس سال ہو چلے تھے کہ اس کی کتاب بے جواب پڑی تھی اور اس کا فخر و مباہات بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔ میں کسی کتاب میں اس ناصبی کی کسی بات کا جواب نہیں پاتا تھا جس وجہ سے دل تھا کہ تپش و حسرت سے کٹا جاتا تھا۔ مدتوں اس حوالے سے صاحب الزمان ع کی بارگاہ میں عریضہ لکھتا رہا۔ آگرہ میں شہید ثالث قاضی نور الله شوستری کی قبر پر بھی اس باب میں دعا کی، کہ خدا علمائے کبار اہل حق کو اس ناصبی کا جواب لکھنے میں کامیاب فرمائے۔ اس وقت میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ یہ مور ضعیف (کمزور سی چیونٹی) اس اہم کام کو سرانجام دے پائے گا۔۔۔۔ یہ ناصبی توہین و ہتک ناموس میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتا تھا، مجالس و محافل میں با آواز بلند نعرہ زن تھا کہ لکھنو کے تمام معروف علماء اس کتاب کا جواب لکھنے سے عاجز ہیں۔۔۔ اسی صورت بیس سال گزر گئے۔۔۔
پھر تائید الہی اس حقیر و ناتوان کے شامل حال ہوئی اور اپنے بھائی علامہ مولانا سید اعجاز حسین کی مدد سے اس کتاب کا جواب لکھا جو تین جلدوں میں شائع ہو چکا ہے۔
جواب لکھے ہوئے بیس سال گزر گئے لیکن وہ ناصبی اس کا جواب دینے سے عاجز ہے اور اپنی زبان پر کوئی حرف لانے کی سکت نہیں رکھتا۔ مخالفین منافقین بھی کتاب استقصاء کی مدح و ستائش کرتے ہیں اور اس کے کمال حد بلوغ پر فائز ہونے کے معترف بھی ہیں، نیز اپنی زبانوں سے اعتراف کرتے ہیں کہ ابتداء سے تا حال اس کتاب کی کوئی نظیر و مثال نہیں ملتی۔”
ایک دوسرے خط میں راقم ہیں:
“میر غلام علی صاحب چرکھاری میں تھے، آج ان کا آنا ہوا۔ انہوں نے بتایا: ہمارے علاقے کے سنی کہتے ہیں: استقصاء کو پورے لکھنو نے مل کر لکھا ہے، امراء کی اعانت کے بغیر استقصاء کو لکھ پانا ایک عجیب بات ہے اور ایک ناممکن کام ہے۔
الغرض کہ بحمد الله تالیف کا مقصد مذہب حقہ سے طعن و تشنیع کو دور کرنا اور ارباب باطن کو رسوا کرنا تگا، جو بطریق احسن حاصل ہوا۔”
کتاب کے مندرجات پر ایک نظر
باب اول: عقائد
1. کیا صحیحین قرآن کے بعد صحیح ترین کتب ہیں؟
2. علمائے رجال و عرفان اور ولادت صاحب الزمان ع۔
3. التجسیم و المجسمہ۔
4. البداء۔
5. المیثاق و الصور۔
6. ہمارے نبی ص کے معجزات۔
7. آبائے نبی ص کا اسلام۔
8.غیر نبی پر درود بھیجنا۔
9. الجبر و الاختیار۔
10. کیا ولد الزنا جنت میں داخل ہو سکتا ہے؟
کتاب سلیم بن قیس ہلالی کے بارے میں
ملحق، حسن بصری کے حال کی تحقیق ۔
باب دوم: تفسیر و مفسرین
باب سوم: صحاح ستہ اور ان کے مؤلفین۔
ائمہ مذاہب اربعہ۔
ملحقات:
فقہی مسائل۔
قیاس
استحسان،
حدیث حوض،
صحابہ کے بارے میں اہل بیت ع کی مرویات۔
کتاب متعدد بار شائع ہو چکی ہے۔ سب سے پہلے خود مؤلف کی زندگی میں شائع ہوئی تھی۔ کچھ سال قبل آیت الله سید علی حسینی میلانی نے اس کی”استخراج المرام” کے نام سے تلخیص کی جو موسسہ امامت قم کی جانب سے تین جلدوں میں شائع ہو چکی ہے۔
البتہ تا حال یہ کتاب اردو کے قالب میں نہ ڈھل سکی۔
یقیناََ صاحب الزمان ع کی تائید و سرپرستی کے بغیر ایسی کتب لکھ پانا ممکن نہیں۔
خدا علمائے حقہ بالخصوص میر حامد حسین کی قبور پر لاکھوں رحمتیں نازل کرے اور ہمیں ان کی میراث کو محفوظ رکھ کر نئی نسل تک منتقل کرنے کی توفیق سے نوازے۔
سید سبطین علی نقوی امروہوی۔
23 اپریل، 2023.
نوٹ: اگر مناسب سمجھیں تو دیگر احباب تک تحریر پہنچانے کا ذریعہ بنیں۔ تاکہ کم از کم تعارف کی حد تک ہی ہم اپنے آباء کی کتب سے روشناس ہو جائیں