رئیس مکتبِ آلِ محمدؑ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام

ابو عبداللہ ، جعفر بن محمد بن علی بن الحسن بن علی بن ابی طالب علیہ السلام معروف بہ صادق آل محمد شیعوں کے چھٹے امام ہیں ۔ جو کہ اپنے والد امام محمد باقر علیہ السلام کی شہادت کے بعد 7 ذی الحجہ سن 114 ھ ق کو آنحضرت کی وصیت کے مطابق امامت کے منصب پر فائز ہوۓ ۔
امام جعفر صادق (ع) جمعہ طلوع فحر کے وقت اور دوسرے قول کے مطابق منگل 17 ربیع الاول سن 80 ھ ق کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوۓ ۔
آنحضرت کی والدہ کا نام فاطمہ بنت قاسم بن محمد بن ابی بکر جن کی کنیت ” ام فروہ ” تھی ۔
یہ خاتون امیرالمؤمنین علی علیہ السلا کے یار و وفادار شھید راہ ولایت و امامت حضرت محمد بن ابی بکر کی بیٹی تھی ۔ اپنے زمانے کے خواتین میں باتقوی ، کرامت نفس اور بزرگواری سے معروف و مشہور تھی ۔ اور امام صادق (ع) نے ان کی شخصیت کے بارے میں فرمایا ہے : میری والدہ ان خواتین میں ‌سے ہے جنہوں نے ایمان لایا اور تقوی اختیار کیا اور نیک کام کرنے والی اور اللہ نیک کام کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔
امام جعفر صادق(ع) کا نسب والدہ کی طرف سے مسلمانوں کے پہلے خلیفے [ابوبکر] اور والد کی طرف سے شیعوں کے پہلے امام اور چوتھے خلیفہ [ حضرت علی (ع) ] تک پہنچتا ہے ۔
آنحضرت بنی امیہ کی حکومت کے اواخر اور بنی عباسی حکومت کے اوائل میں زندگی کر رہے تھے اور بنی امیہ کے خلاف عوامی بغاوت اور بنی عباس کا لوگوں کے ساتھ مذھبی احساسات کے ساتھ استحصال کرکے اور لوگوں سے ” الرضا من ال محمد (ص)” کے عنوان سے لے بیعت لے کر حکومت پر قابض ہونے کا نزدیک سے مشاھدہ گر تھے اور ان حالات میں شیعوں اور محبان اھل بیت (ع) کی امامت کے سنگین کام کو انجام دیتے رہے ۔ امام صادق (ع) عبدالملک بن مروان [ پانچواں اموی خلیفہ ] کے زمانے میں پیدا ہوۓ اور اسکے بعد باقی 8 بنی امیہ خلیفوں اور دو عباسی خلیفوں کہ جن کا نام ذیل میں دیۓ گئے ہیں کے ہمعصر تھے اور ان میں سے اکثر کی طرف سے مصائب اور مظالم ہوتے رہے :
1 ۔ ولید بن عبدالملک
2 ۔ سلیمان بن عبدالملک
3 ۔ عمر بن عبدالملک
4 ۔ یزید بن عبدالملک
5 ۔ ھشام بن عبدالملک
6 ۔ ولید بن یزید
7 ۔ یزید بن ولید
8 ۔ مروان بن محمد
9 ۔ ابوالعباس سفاح
10 ۔ منصور دوانقی (3)
آخر کار 65 سال کی عمر میں منصور دوانقی کی طرف سے مسموم ہوئے جس سے آنحضرت کی شہادت واقع ہوئی ۔
آنحضرت کی شھادت کی تاریخ کے بارے میں دو قول نقل ہوۓ ہیں ۔ بعض نے 15 رجب سن 148 ھ ق اور بعض نے 25 شوال سن 148 بیان کیا ہے اور مشہور شیعہ مورخوں اور سیرہ نویسوں کے نزدیک دوسرا قول یعنی 25 شوال ہی معتبر ہے ۔
آنحضرت کی شھادت کے بعد حضرت امام موسی کاظم (ع) نے بھائیوں اور افراد خاندان کے ہمراہ آنحضرت کے غسل و کفن کے بعد بقیع میں دفن کیا ۔
یہاں پر شیخ مفید (رہ) کا آنحضرت کے بارے میں ان کا قول نقل کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں : و كان الصادق جعفر بن محمد بن علي بن الحسين عليہم السلام من بين اخوتہ خليفہ ابيہ محمد بن علي عليہما السلام و وصيہ، القائم بالامامہ من بعدہ، و برز علي جماعتہم بالفضل، و كان انبہہم ذاكرا، و اعظہم قدرا، و اجّلہم في العامہ و الخاصہ، و نقل الناس عنہ من العلوم ما سارت بہ الركبان، و انتشر ذكرہ في البلدان و لم ينقل عن احد من اھل بيتہ العلماء ما نقل عنہ، و لا لقي احد منہم من اھل الاثار و نقلہ الاخبار و لا نقلوا عنہم كما نقلوا عن ابي عبداللہ، فان اصحاب الحديث قد جمعوا اسماء الرواۃ عنہ من الثقاۃعلي اختلافہم في الاراء و المقالات فكانوا اربعہ آلاف رجل.


حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی شخصیت

السلام علیکُم یا اَھل بیتِ النُبوَۃِ و مو ضَع الرّساَلَۃ ۔۔۔۔۔۔ کلا مَکُم نُورُ وَاَمَرکُم رُشد، وَ صیّتکُم الّتقویٰ وَفعلُکُم خَیرَ عَادَتُکُم الا حَسانِ ۔۔۔۔۔۔ ان ذکِر الخَیر کُنتُم اَوّلَہ وَاَصلَہ’ وَفَرَعَہُ وَ مَعدَ نہ وما وَایہُ و منتَھا ۃُ ( مفاتیح الجنان)

ترجمہ: سلام ہو آپ پر اے نبوت کے گھر والو اور پیغام ربانی کے مرکز۔ آپ کی گفتگو سر تاپائے نور، آپ کا فرمان ہدایت کا سرچشمہ ، آپ کی نصیحت تقویٰ کے بارے میں آپ کا عمل خیر ہی خیر، آپ کی عادت احسان کرنے کی ہے جب کبھی نیکیوں کاتذکرہ ہو تو آپ حضرت سے ہی ان کی ابتداء ہوتی ہے اور انتہا بھی ۔ اس کی اصل بھی آپ ہیں اور مخزن اور مرکز اور انتہا بھی آپ ہیں۔ ( ترجمہ رضی جعفر)

زیارت جامعہ محمد و آلِ محمد (ص) کا قصیدہ ہے، حضرت امام علی النقی علیہ السلام کا اہم پر احسان ہے کہ انہوں اپنے انتہائی فصیح و بلیغ کلام میں زیارت جامعہ کی تدوین کی جو حقائق اور معرفت کا بے پایاں سمندر ہے۔ حضرت امام جعفر (ع) صادق کی شخصیت زیارت جامعہ میں بیان کردہ ان خصائص کی مجسم تصویر ہے۔

امام صادق(ع) کی ہمہ گیر شخصیت کااحاطہ نا ممکن ہے ، اس مختصر مقالہ اور تیز رفتار زندگی کے تقاضوں کے پیش نظر اختصاراً امام صادق(ع) کی شخصیت کے چند اہم گوشوں کا تعارف ، نشر علوم، تدوین ۔ فقہ اور دانشگاہ جعفری کے فیوض اور امام کے چند شاگردوں کی علمی خدمات کا ایک تعارفی جائزہ مقصود ہے۔

٢۔ مختصر حالات:

جعفر کے معنی نہر کے ہیں۔ گو یا قدرت کی طرف سے اشارہ ہے کہ آپ کے علم و کمالات سے دنیا سیراب ہو جائیگی۔ امام جعفر (ع) صادق کی تاریخ ولادت ١٧ ربیع الاوّل پر سب کو اتفاق ہے مگر سال ولادت میں اختلاف ہے روایت رجال کے بموجب سنہ ولادت ٨٠ ھ ہے جبکہ محمد ابن ِ یعقوب کلینی اور شیخ صدق کا اتفاق ٨٣ ھ پر ہے۔ آپ نے بہ فضل ِ خدا ٦٥ سال عمر پائی اور مدتِ امامت ٣٤ سال رہی ( ١١٤ ھ تا ١٤٨ھ) چہاردہ معصومین میں طویل عمر اور عہد امامت کے حوالہ سے آپ کی امتیازی خصوصیت ہے۔ آپ کی مادر گرامی جناب اُمِ فروہ بنت ِ قاسم بن محمد بن ابو بکر تھیں۔ اپنی والدہ کی عظمت کا ذکر کرتے ہوئے خود امام صادق(ع) نے فرمایا” میری والدہ ایک با ایمان با تقویٰ اور نیک خاتون تھی۔” ( احمد علی ۔١) صاحب مروج الذھب کے حوالہ سے ان معظمہ کی عظمت اور مرتبہ کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ خود امام باقر نے آپ کے والد قاسم سے اپنے لئے خواستگار ی کی تھی۔ آپ کی مشہور کنیت عبداﷲ ہے اور بے شمار القاب میں ( الصادق) زیادہ مشہور ہے۔ آپ کے ٧ بیٹے یعنی اسماعیل ، عبداﷲ ، موسیٰ ( بن کاظم (ع)) اسحاق، محمد(الدیباج) ، عباس اور علی ، اور تین بیٹیاں ام فروہ، اسماء و فاطمہ تھیں۔ آپ کے دو ازواج مطہرات میں ایک فاطمہ بنت الحسین امام زین العابدین کی پوتی تھیں۔

امام صادق(ع) کے دورِ امامت میں بنی امیہ کے سلاطین میں ہشام بن عبدالملک ، ولید بن یزید بن عبد الملک ، یزید بن ولید ، مروان حمار اور خاندان بنی عباس کے ٢، افراد ابو العباس السفاح اور منصور دوانیقی تھے۔ ان میں عبدالملک کے بیس سال کا عہد اور منصور دوانیقی کے دس سال شامل ہیں۔ ( رئیس احمد ۔٢)

منصوردوانیقی ایک خود سر اور ظالم حکمران تھا۔ آئمہ اہلبیت اور ان کے دوستوں پر حاکمان وقت کے مظالم کے سلسلے میںصرف اتنا کہنا کافی ہے کہ ” ایک سیل خوں رواں ہے حمزہ سے عسکری تک” منصور نے امام کو قتل کرنے کی کئی مرتبہ کوشش کی۔ بالآخر اس کے حکم پر حاکم بن سلیمان نے آپ کو زہر دے دیا جس سے ١٥ رجب ١٤٨ ھ کو آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ بعض مورخین کے بموجب تاریخ شہادت ١٥ شوال ہے۔ ( عنایت حسین جلالوی۔٣)

٣۔ شخصیت کی عظمت:

شیعہ عقیدہ کی رو سے امامت کسبی نہیں بلکہ وہبی وصف ہے یعنی اس کا تعین خود اﷲ تعالیٰ کرتا ہے اور ایک امام دوسرے آنے والے کی نشان دہی کرتا ہے اس عمل کو (نص) کہتے ہیں یعنی منشائے الہیٰ کا اظہار، امام صادق(ع) کے بارے میں امام باقر (ع) کی بے شمار نصوص معتبر کتابوں میں ملتی ہیں( شیخ مفید ۔ الار شاد، بحار الانوار وغیرہ) ۔ امام جعفر ِ صادق کی عظیم شخصیت پر مسلسل اور انتھک کام کرنے کی ضرورت ہے۔ آئمہ علیہ السلام کی زندگی کا ہر قدم ہمارے لئے مشعل راہ ہے ان کی زندگی کا ہر پہلو صحیفہ رشد و ہدایت ہے۔ ان حضرات نے اپنی زندگیاں اطاعت خدا اور رسول میں وقف کردی تھی اور وحی الہٰی اور تعلیمات نبوی کو ہمیشہ پیش نظر رکھا ۔ امام کی حیاتِ طیبہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ اسلام ہی نہیں بلکہ تاریخ بشریت کی یہ قد آور شخصیت اپنے علم و عمل سے انسانیت کو کس قدر فیص بخشا ہے۔ اس کا اندازہ امام سے متعلق ان آراء سے ہوسکتا ہے ۔ جس کا اظہار مختلف مفکرین نے وقتاً فوقتاً کیا ہے اس کی چند مثالیں حسب ذیل ہیں۔ ( محسن نقوی ۔٤)

٤۔ تصانیف:

نور المشرقین منِ حیاۃ الصادقین میں آغا سلطان مرزا نے ( اعیان الشیعہ) کے حوالہ سے امام کی تصانیف کی طویل فہرست دی ہیں ان میں سے چند مشہور حسب ذیل ہیں ۔ ( ١٥٠ تصانیف۔ ٨٠ بلاواسطہ اور ٧٠ بالواسطہ)

١۔رسالہ عبداﷲ ابن ِ النجاشی ۔ ٢۔رسالہ مروی عن الاعمش ٣۔ رسالہ توحید مفضل ٤۔کتاب الاہلیلجہ

ان کے علاوہ امام کے مختلف دینی اور لا دینی طبقات اور دہریوں سے مناظروں کی ایک طویل فہرست بھی ہے جس میں اعترافات طبیب ہندی، امام ابو حنیفہ سے مناظرہ ، صوفیوں کے گروہ سے مناظرہ اور مشہور دہریہ ابو شاکر دیصانی سے مناظرہ قابل ِ ذکر ہیں۔

٥۔ واقعہ حضرت زید اور سیاسی بصیرت :

امام کی شخصیت کے مطالعہ میں ان کی سیاسی بصیرت بھی زیر بحث آتی ہے۔ اس ضمن میں قاتلانِ امام حسینؑ کے خلاف حضرت زید ابن ِ علی ابن الحسین کا معرکہ ایک اہم واقعہ ہے۔ واقعہ کربلا کے بعد بنو حسن اور بنو حسین مدینے میں نہایت قلیل آمدنی پر گوشہ تنہائی میں گزارہ کرتے تھے سیاست میں مطلقاً حصہ نہیں لیتے تھے۔ ان کے علم و فضل اور زہد و عبادت کی وجہ سے لوگ ان کی بہت عزت کر تے تھے جس کی وجہ سے بنو امیہ اور بنو عباس ان کے مخالف تھے۔ انہیں طرح طرح سے اذیت دیتے تھے۔ بالآخر زید اور ان کے لڑکے یحییٰ کو بنو امیہ کے مسلسل ظلم نے تلوار سے اپنی حفاظت کرنے پر مجبور کردیا۔ ( جسٹس امیر علی، ہسٹری آف سارا سن) جناب زید خاندانِ اہلبیت کے ایک اہم فرد تھے اور علم حدیث اور فقہ میں آپ کا رتبہ بہت بڑا تھا۔ ٤٢ سال کی بھر پور جوانی میں بنو امیہ کے خلاف جہاد کیا اور ١٢٢ھ میں شہادت پر فائزہ ہوئے زید کے بعد ان کے بیٹے یحییٰ نے ان کی تحریک کو جاری رکھنے کی کوشش کی لیکن ١٢٥ھ میں وہ بھی شہید ہو گئے۔

زید کے مجاہدہ کے اس حساس معاملہ میں امام کی پالیسی سمجھنے کے لئے یہ نکتہ پیش نظر رکھنا چاہئے کہ امام نے اپنی آنکھوں سے خوارج کا فتنہ دیکھا تھا، اس فتنہ نے اہلِ مدینہ کو جس کرب میں مبتلا اور شدت و مصیبت سے دو چار کیا تھا وہ بھی دیکھا۔ علم امامت سے وہ محمد نفس ذکیہ اور ابراہیم اور یحییٰ بن زید کے مستقبل سے واقف تھے جس میں باطل کی سرنگونی کی کوئی علامت نہیں تھی۔ ان حالات میں گو امام زید کی تحریک میں عملاً شریک نہیں تھے وہ ان کی کامیابی کے آرزو مند تھے۔ اس ضمن میں امام کا یہ بیان قابل غور ہے۔ ” اﷲ تعالیٰ زید پر رحم فرمائے، وہ مومن تھے،عارف تھے۔ عالم تھے، صادق تھے۔ اگر وہ کامیاب ہو جاتے تو وفائے عہد کرتے، اگر حکومت ان کے ہاتھ آجاتی تو اس ذمہ داری کو خیر خوبی کے ساتھ وہ انجام دیکر دکھا دیتے۔” اس بیان میں وفائے عہد کلیدی الفاظ ہیں جو حضرت زید کی نیک نیتی پر سند ہیں۔ زید کے ساتھ امام کی عدم شرکت کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو علم کی اشاعت اور فقہ کی تدوین جیسے اعلیٰ اہداف کی تکمیل کے لئے وقف کرنا چاہتے تھے جس کے نتائج دوامی نوعیت کے تھے۔ ( رئیس احمد۔٢)

٦۔ تدوین فقہ ایک جائزہ :

امام جعفر صادق(ع) کے تذکرہ میں ذہن فوری فقہ جعفری کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے کیونکہ تدوین فقہ کی کوشش امام صادق کے حوالہ کے بغیر نا ممکن سمجھی جاتی ہے۔ مکتب تشیع کی فقہ یعنی فقہ جعفری تو اپنی وجہ تسمیہ ہی سے امام صادق(ع) کی مرہون منت اور احسانمندی ظاہر کرتی ہے۔

عربی میں فقہ کے لغوی معنی علم و فہم ہے اور فقیہ کے معنی عالم ہیں لیکن مرور زمانہ کے ساتھ اصطلاحاً اس سے دینی مسائل اور استدلالی علم مراد لیا جاتا ہے۔ جس میں احکام شریعہ کو اجاگر کیا جاتا ہے۔ یہ احکام واجب ، مستحب ، حرام ، مکروہ ، اور مباح کے محور کے اطراف اپنے میں سبب، شرط ، مانع ، صحت بطلان، رخصت اور عزیمت کے پہلو لئے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ تمام فقہی اصطلاحات ہیں جن کی تفصیل متعلقہ کتابوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ فقہ کی اس مختصر تشریح کے بعد اب تدوین کا مطلب جمع کرنا یا مرتب کرنا ہے۔ اس لحاظ سے جب ہم تددوین کی نسبت سے امام جعفرِ صادق(ع) کا نام لیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اپ نے فقہ محمدیہ کے احکام کو جمع اور مرتب کیا کہ وہ ایک مستقل علم بن گیا۔ (مظفرحسن۔٣)

اسلامی تاریخ میں فقہ کی تدوین کے چند واضح ادوار نظر آتے ہیں ، امام صادق(ع) کی علمی فیوض کو سمجھنے کےلئے فقہ اسلامی کے تدریجی ارتقاء کا مطالعہ ضروری ہے۔ اس کا سبب سے پہلا عہد حضرت ختمی مرتبت کی ظاہری رسالت سے ١١ھ تک محیط ہے جس میں سوائے چند استثنائی واقعات ( صلح حدیبیہ ، حدیث قرطاس) کے بظاہر مسلمانوں میں کوئی اختلاف نظر نہیں آتا۔ رحلت سر کار کائنات کے فوری بعد سب سے بڑا فقہی اختلاف آنحضرت کی جانشینی کے سلسلہ میں نمودار ہوا اس دور میں جو پہلے تین خلفائے راشدین کے زمانہ یعنی تقریباً ٢٤ سال(٣٥ھ) تک پھیلا ہوا ہے قرآن اور سنت کے علاوہ فقہ کے ماخذ میں قیاس اور اجماع کا اضافہ ہوا اور ساتھ ساتھ روایت حدیث پر کڑی پابندی لگادی گئی جس کی وجہ سے قیاس پر زیادہ انحصار ہوا۔ تیسر ادور ٣٥ھ تا ٤٠ ھ میں خلافت امیر المومنین کے دوران قرآن و سنت ہی ماخذ فقہ رہے اور اس پر سختی سے عمل کیا گیا۔ ( شبیہہ الحسن۔٣) تدوین فقہ کا ایک اہم اصول فکر کی یکسانیت ہے فقہ کی تدوین میں احکامات الہیہ اور منشائے قدرت یعنی نص کے تعین کے لئے وصل قول بھی ایک اہم اصول رہا ہے۔ احکام فقہ میں نص کے تعین اور تلاش کے طریقوں پر تفصیلی بحث علامہ رشید ترابی نے ( اسلام میں اجتہاد) کے عنوان پر اپنے ایک مقالہ میں کی ہے جو ١٩٥٧ء میں ایک بین الاقوامی سیمنار میں پیش کیا گیا۔

اثنائے عشری شیعہ عقیدہ کی رو سے اسلام کی اصل تشریح وہی ہے جو وفاتِ پیغمبر کے بعد حضرت امیر المومنین سے لے کر بار ہویں امامت تک بلا فصل جاتی ہے۔ بالآخر ہر حکم کا منبع قول معصوم ہوتا ہے اور جو کچھ راوی کی زبان پر آئے گا وہ عصمت ِ فکر اور معیار صداقت پر پورا اتریگا۔ ( اسد اریب ۔٥) حضرت علی سے امام حسین تک یہ وصل قول انتہائی بھر پور انداز میں عیاں ہے۔

چوتھا دور ٦٠ ھ تا ١٣٣ ھ کا ہے جو بنی امیہ کی خلافت کا زمانہ ہے اس دور میں شہادت امیر المومنین ، امام حسن کی ظاہری خلافت سے دستبرداری اور شہادت، سانحہ کربلا و مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کی تاراجی کے واقعات دیکھ کر انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ سلاطین بنو امیہ کس فقہ کے پابند تھے۔ جس میں ان باتوں کی انہیں اجازت تھی۔ عمر بن عبدالعزیز کے دور میں البتہ فدک واپس کیا گیا لیکن یہ ثابت نہیں ہوسکا کہ کس فقہ کے تحت چھینا گیا تھا۔

پانچواں طویل دور ١٣٥ھ سے ٢٦٠ھ یعنی ١٢٥ سال پر محیط ہے دور امام صادق کی امامت کے ابتدائی زمانے سے شہادت امام حسن عسکری کے بعد تک پھیلا ہوا ہے، سیاسی اور فکری اعتبار سے تاریخ اسلام کا یہ نہایت اہم دور تھا اس زمانے میں بے شمار تاریخ ساز واقعات اور تحریکات رونما ہوئے جس کے نتیجے میں امت مسلمہ بشمول شیعہ فقہی اعتبار سے مختلف مسلکوں میں بٹ گئی ۔ اس دور میں روایت حدیث پر کوئی پابندی نہیں تھی اور وقتی مصلحتوں اور حاکمانِ وقت کی سرپرستی کے نتیجے میں وضع حدیث ایک مشغلہ اور پیشہ بن گیا تھا۔ اس دور میں امام جنبل ،امام بخاری ،امام مسلم ، ابو داؤد، ابن ماجہ اور نسائی کی مسانید کی تدوین ہوئی اب وہ صحابہ اور تابعین بھی نہیں رہے جنہوں نے یہ احادیث سنے تھے اور اصل اور نقل میں تمیز کر سکتے تھے۔ مزید برآں فتوحات اور اسلامی سلطنت کی توسیع اور بڑھتے ہوئے بیرونی روابط کے نتائج میں ایک نیا خفلشار اسلامی فلسفہ میں ایران، روم اور یونان کے فلسفوں کی آمیزش کی صورت میں نمودار ہوگیا تھا۔ ( شبیہ الحسن ۔٣)

٧۔ تدوین فقہ اور امام صادق(ع)

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس افرا تفری کے عالم میں فقہ اسلامی کو اس اصل روح میں محفوظ رکھنا کس کی ذمہ داری تھی؟ واقعہ کربلا اور اس کے تسلسل میں دربارِ شام میں جناب زینب کے خطبہ نے ثابت کردیا کہ حق اور نا حق اورر استی اور گمراہی میں حد فاصل قائم رکھنے کا فریضہ آئمہ حق نے اپنے ذمہ لے لیا تھا۔ یہ ذمہ داری ان آئمہ نے نہایت منصوبہ بندی سے انجام دی۔ اس کی خاموش ابتداء امام زین العبدین (ع) نے اپنی دعاؤں سے کی جن کے ذریعے امت کے افراد کے ذہنوں کی تربیت کا انتظام کیا گیا۔ بعد ازاں امام محمد باقر (ع) نے مدینے میں اپنی درس گاہ میں با قاعدہ درس کا آغا زکیاجس کی بنیادوں کو امام جعفر ِ صادق(ع) نے استوار کیا۔ امام جعفر صادق(ع) کی یہ امتیازی خصوصیت ہے کہ آپ کو اپنی ٦٥ سال عمر میں سے تقریباً ١٢ سال اپنے دادا حضرت علی ابن الحسین کی معیت میں اور پھر ١٩ سال اپنے والد ماجد کے زیر سایہ گزار نے کا موقع ملا اور پھر خود اپنی امامت کے ٣٤ سال میسر ہوئے۔ اس دوران بنو امیہ اور بنو عباس کو اپنی لڑائیوں میں مشغولیت نے آل محمد (ص) کے ساتھ تعرض کا موقع نہیں دیا۔ امام صادق(ع) نے اس موقعہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اس درس گاہ کو ایک عظیم دانش گاہ کے رتبہ تک پہنچا دیا۔ میرے راقم کے اندر کا استادیہ کہہ رہا ہے کہ اس دانشگاہ کے نصاب کا دستاویز بہت پہلے ہی امام زین العابدین نے صحیفہ کاملہ کی شکل میں تیار کردیا تھا۔ بظاہر یہ دعاؤں کا مجموعہ اپنے اندر حکمت اور دانائی ، احکام خداوندی ، عبد اورمعبود کے تعلقات ، حقوق الناس اور تخلیق کائنات جیسے کثیر الجہت عنوانات پر مشتمل تھا جو پڑھنے والوں کو دعوت فکر دیتا ہے۔ محمد ابن ِ یعقوب کلینی نے ١٦١٩٩ احادیث پر مشتمل اصول کا فی بطور تدریسی مواد مہیا کیا جس کو من لا یحضر الفقیہ ، تہذیب اور استبصار نے مزید و سعت دی اور اس طرح تقریباً ٦٠ ہزار احادیث پر مشتمل یہ مایہ ناز سر مایہ بنا جس کی موجودگی میں ہمارے علماء کو قیاس اور رائے پر عمل کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ امام صادق(ع) کی تدوین فقہ کی انہی کوشش کی بنا ء پر فقہ محمدی کو فقہ جعفری سے موسوم کیا گیا کیونکہ اس کو فقہ حنفی، مالکی، شافعی اور حنبلی سے ممتاز کیا جاسکے۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جب باقی فقہوں کو ریاست کی سرپستی حاصل تھی فقہ جعفری پُر زور مخالفتوں کا مقابلہ کرتی ہوئی پھیلی اور یوں اپنی ترقی کی راہیں طے کرتی رہی( محمد حسین ۔٦) اس کی ارتقاء میں قابل ِ ذکر سنگِ میل علامہ حلی( ساتویں صدی) علامہ بہبہانی ( گیارہویں صدی) شیخ مرتضیٰ (تیرھویں صدی) اور پھر موجودہ دور میں ایران ، عراق، بیروت اور دمشق کے حوزہ علمیہ نے اس کی آبیاری کا فریضہ سنبھالا ہواہے۔

موجود دور میں فقہ جعفری کی اعلیٰ علمی حلقوں میں پذیر آئی کی ایک قابل ذکر مثال مصر کی عظیم دانشگاہ جامعہ ازہر کے چانسلر مفتی علامہ شیخ محمود شلتوت کا ایک منصفانہ اور جرات مندانہ قدم ہے۔ تقریباً بیس سال پہلے انہوں نے یہ نظریہ پیش کیا کہ اجتہاد کا دروازہ کھلاہے اور قوی دلیل کی موجودگی میں ایک مذہب یافقہ کے ماننے والوں کے لئے دوسرے مذہب کی طرف رجوع کرنے میں کوئی امر مانع نہیں ہے اور اس بناء پر انہوں نے قانونی طور پر فتویٰ دیا کہ دوسرے مذہب کی طرح شیعہ فقہ پر بھی عمل صحیح ہے۔ ان کا یہ اقدام قدر و منزلت کا متقاضی ہے۔ (عقیقی۔٧)

فقہ جعفری کی برتری کے لئے یہ کہنا کافی ہے کہ دیگر تمام فقہوں کے بانی بالواسطہ یابلا واسطہ امام صادق کے شاگرد تھے اور اس پر ان کو نازل بھی تھا۔ فقہ جعفری میں دور جدید کی ضروریات کے مطابق اجہتاد کے ذریعے انسانی مسائل کے حل کی تمام صلاحتیں موجود ہیں۔ یہ ایک عادلانہ نظام ہے جو نیکی اور بدی میں تمیز کی راہ بتاتا ہے جہاں سرور کے موقعوں پر خوشی کے اظہار کا ڈھنگ اور آلام و مصائب میں تعزیت کے اسلوب بتائے جاتے ہیں۔ جہاں اکابرین کے کارناموں کو اجاگر کیا جاتا ہے اور عبرت کے نشانات سے دوری سکھائی جاتی ہے یہ ایک صالح معاشرے کے قیام میں مدد دیتا ہے۔ ( عبدالکریم مشتاق ۔٣)

٨۔امام جعفر صادق(ع) کے علمی فیوض:

مخلوقات کی ہدایت کی غرض سے انبیاء اور پیغمبروں کا ایک سلسلہ تخلیق کیا گیا جو ہم تک آنحضرت اور آئمہ اہلبیت کی صورت میں پہنچا۔ باوجود یکہ ختمی مرتبت کے بعد کسی بھی امام کو کام کرنے کا موقع نہ ماحول میسر ہو سکا ہر امام نے اپنے عہد میں فیوض امامت امت تک پہچانے کا مناسب انتظام کیا۔ کربلا کے مصائب کے بعد امام زین العبدین (ع) نے ایک انوکھے انداز میں تبلیغ دین کی جو صحیفہ کاملہ کی صورت میں آثارِ علمیہ کا ایک شاہکار ہے۔ امام محمد باقر (ع) وہ کوہِ علم ہیں جس بلندیوں تک انسان کی نگاہیں پہنچنے سے قاصر ہیں۔ آپ کا شریعت کدہ علم و حکمت کا سرچشمہ تھا۔ امام جعفر صادق(ع) کی شخصیت کا اہم رخ یہ ہے کہ آپ نے اپنے علمی انقلاب سے معارف اسلام کے افق کو اتنی زیادہ وسعت دی کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک نسل بعد جب حضرت امام رضا نیشا پور میں قدم رکھتے ہیں تو ہزار ہا افراد امام ؑ کی اواز سننے اور ارشاد کوکاغذ پر محفوظ کرنے سراپا مشتاق تھے ( احمد علی۔١) یوں تو سلسلہ امامت کے ہر فرد نے جس قدر ممکن ہوسکا ظلم و ستم اور قیدو بند کی فضاؤں میں بھی فرائض امامت کو انجام دیا، لیکن امام صادق(ع) کو اپنے عہد میں موقع مل گیا تھاکہ آنحضرت کے مقصد یعنی ( کتاب و حکمت کی تعلیم) کو فروغ دیں۔ اس دور میں علم کا پھیلا ؤ اس حد تک ہوا کہ انسانی فکر کا جمود ختم ہو گیا اور فلسفی مسائل کھلی مجلسوں میں زیر بحث آنے لگے ۔ اس ضمن میں جسٹس امیر علی لکھتے ہیں۔ ” یہ تحریک امام صادق(ع) کی سر کردگی میں آگے بڑھی جن کی فکر و سیع ، نظر عمیق اور جنہیں ہر علم کی دستگاہ حاصل تھی حقیقت تو یہ ہے کہ آپ اسلام کے تمام مکاتب فکرکے موسس اور بانی کی حیثیت رکھتے ہیں آپ کی مجلس بحث ودرس میں صرف وہی افراد نہیں آتے تھے جو بعد میں امام مذہب بن گئے بلکہ تمام اطراف سے بڑے بڑے فلاسفر استفادہ کرنے حاضر ہوتے تھے۔ ”

دوسری صدی کی ابتداء یعنی ١٣٣ھ میں اموی خلافتوں کے خاتمہ پر عباسی دور شروع ہوا۔ یہ عبوری دور انتقال و تحویل اقتدار کی کشمکش کا وقفہ تھا، جس کو استعمال کرتے ہوئے امام صادق(ع) نے علوم و معارف اسلام کی ترویج و اشاعت کا اہم کام انجام دیا۔ یہ وہ دور تھاجب فتوحات اور بیرونی دنیا سے بڑھتے ہوئے روابط کے نتیجے میں رومی اور یونانی فکری اثرات عربستان میں مختلف فنون، علوم اور نظریاتی رجحانات کو متاثر کر رہے تھے جو اسلام کے خلاف ایک بیرونی یلغار ثابت ہو رہے۔ ( موجودہ عالمگیر یت یا گلوبلائزیشن کی ایک صورت میں) یہ ایک ایسی سرد جنگ تھی جس کے زہر یلے اثرات اور ہلاکت سے مسلمانوں کو محفوظ رکھنا صرف تلوار کی دھار اور اسلحہ کی طاقت سے ممکن نہ تھا کیونکہ علم و فکر کا مقابلہ علم و دانش ہی سے کیا جاسکتا ہے۔ نسلی تعصب اور جہالت سے فکری اور علمی طوفان پر بندھ نہیں باندھ سکتے ( علامہ رضی۔٣) امام صادق ؑ واقف تھے کہ ایسی صورت میں سب سے بہتر حکمت عملی امت مسلمہ کو حصول علم و دانش کی طرف راغب کرنا ہے۔ ان فیوض کے اجراء کے لئے مدینے میں آپ کا گھر اور مسجد نبوی ایک بڑے علمی تحقیقی مرکز کی شکل اختیار کر گئے اراس حلقہئ تعلیم ، تدریس و تحقیق میں کم از کم چار ہزارطلباء مختلف شہروں اور ملکوں سے آکر زیر تعلیم تھے۔ شیخ طوسی کے بموجب یہ تعداد ٣١٩٧ مرد اور ١٢ خواتین پر مشتمل تھی۔ حسن بن علی بن زیاد جو شاگرد امام رضا (ع) تھے اور خود بھی اساتذہ حدیث میں شمار ہوتے تھے فرماتے تھے کہ ” میں نے مسجد کوفہ میں نوسو استاد حدیث کو دیکھا ہے جو امام صادق(ع) سے حدیث نقل کرتے تھے” صاحبان ِ اصول یعنی وہ لوگ جو اصل کتاب جس میں راوی اور معصوم کے درمیان صرف ایک واسطہ ہوتا ہے امام کی خدمت میں حاضر ہو کر ارشادات قلم بند کرتے جاتے۔ اس طرح ایسی چار سوں کتابیں تیار ہوئیں جن کو” اصول اربعماۃ”(چار سو اصول) کہا جاتا ہے۔ محمد ابن یعقوب کلینی نے چار سو کتابوں کی مدد سے ” اصول کافی” مرتب کی جو فقہ جعفریہ کی بنیادی کتاب ہے۔( محمد محمدی۔٨) یہ امام صادق(ع) کا فیض تھا آج ہمارا حدیثوں کا سرمایہ اتنا مستند اور مستحکم ہے۔

امام صادق(ع) کے علمی فیوض کے ضمن میں یہ عرض ہے کہ علم تو آئمہ کی میراث ہے جس شعبہ سے بھی متعلق ہو سوال کرنے والے کو مطمئن کردیا۔ ان کے ذاتی تقدس اور دینی نظام میں ان کے مقام کے حوالے سے امام سے حصولِ فیوض کو زیادہ تر دینی معاملات تک محدود رکھا گیا۔ یہ ہماری بصیرت کی کوتاہی ہے۔ ورنہ علوم طبعیہ اور کونیہ (کائناتی معلومات) علوم میں بھی ہم اپنے آئمہ کو انتہائی مقام پر فائز دیکھتے ہیں۔ نہج البلاغہ اور صحیفہ سجادیہ میں اس ضمن میں بے شمار اشارے موجود ہیں۔ خوش قسمتی سے امام جعفر صادق کو درس و تدریس ، بالمشافہ افہام و تفہیم ، مناظرون اور مواعظہ حسنہ کی صورت میں ایسا ما حول اور موقع میسر ہو اکہ علوم جدیدہ کے شعبہ میں بھی اپنے فیوض سے مستفید کر سکے بلکہ یہ کہنا بر محل ہوگا کہ اس سلسلہ میں بھی انہیں ایک امتیازی مقام حاصل ہے۔ (محسن نقوی ۔٤)

٩۔مغز متفکر اسلام :

مختلف علوم میں امام کی دسترس کا بنیادی راز یہ ہے کہ آئمہ اور معصومین کا علم لدنی ہوتا ہے اور کائنات کی ہر چیز ان کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہے۔ یہ الہامی علم ہے جس کی بنیاد روحانیت ، تزکیہ نفس اور معارف الہیہ ہیں اس موقع پر ایک اہم کتاب کا حوالہ مقصود ہے جس کا ہمارے علمی حلقوں میں بے حدچرچا ہے، فرانس کے شہر اسٹراسبرگ کی یونیورسٹی کے مطالعاتی مرکز سے شائع ہونے والی کتاب کا فرانسیسی زبان سے ذبیح اﷲ المنصوری نے ”مغز متفکر جہانِ شیعہ ” کے نام سے فارسی ترجمہ کیا تھا۔ ہمارے دانشور محمد موسیٰ رضوی نے اس کتاب کی اردو زبان میں تلیخض ” حضرت امام جعفری صادق کے بارے میں ٢٣ یورپی دانشوروں کی تحقیق” کے عنوان سے دو حصوں میں ادارہئ تبلیغات ِ اسلامی کے ذریعہ شائع کروائی۔ اردو داں طبقہ کے لئے ان کی یہ خدمت لائق تحسین ہے۔ بعد ازاں قیام پبلی کیشنز لاہور نے ١٩٩٤ء میں اصل فارسی کتاب کا مکمل اردو ترجمہ شائع کیاجس کے مترجم سید کفایت حسین ہیں۔ اصل کتاب کی مناسبت سے اس کا نام ” مغز متفکر اسلام ” ہے لیکن اس کا عوامی نام ” سپر مین اِن اسلام ” زیادہ زبان زد عام ہے ۔

اس کتاب میں ایسے مطالب درج ہیں جو پہلی مرتبہ عام قاری تک پہنچے ہیں، یہ کتاب ایک علمی کاوش ہے جو ٢٥ دانشوروں کی تحقیق کا نتیجہ ہے جس میں صرف دو مسلمان ہیں ( حسین نصر، موسیٰ صدر) باقی یورپ اور امریکہ کی مختلف جامعات سے منسلک پروفیسر اور مستشرقین ہیں۔ اس کا وش کا پس منظر یہ ہے کہ ستر ہویں صدی عیسوی سے اسلامی مسائل یورپ کے دانشوروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے ۔ اسٹر اسبرگ یونیورسٹی کا تحقیقاتی مرکز جوادیاں عالم پر ریسرچ کرتا ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد اہل تشیع اور ان کے مذہب کی عظیم شخصیات کی علمی سطح ، خدمات اورفیوضات کا جائزہ لیا اور اس جائزہ کے دوران مختلف کتب خانوں میں موجود شیعہ دانشوروں کی علمی تحقیقات اور دستاویزات کے مطالعہ کے نتیجہ میں ان دانشوروں کو امام جعفر ِ صادق کی آفاقی شخصیت کا پہلی مرتبہ انداز ہوا۔ (موسیٰ رضوی ۔٩)

یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ ممتاز دانشور محمد ابوزہرا مصری کے مطابق” اختلاف فکر و نظر اور اختلاف حزب و طائفہ کے باوجود علماء اسلام کسی امر پر اس درجہ متفق نہیں ہوئے جتنے امام جعفر صادق کے علم و فضل پر یعنی حق زیادہ دیر تک پوشیدہ نہیں رہ سکتا ۔ یہان یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ اس کتاب کے مندرجات کے انتخاب کی اساس امام صادق ؑ کی روحانیت نہیں ہے اور نہ یہ توقع رکھنی چاہئے کی متذکرہ غیر مسلم دانشور امام کی ذاتی ، مذہبی یارو حانی شخصیت کی طرف کوئی جھکا ؤ رکھتے تھے۔ اس وجہ سے امر باعث طمانیت ہے جو نتائج اخذ کئے گئے اور جو انکشافات پیش کئے گئے بالکلیہ علم و فضل اور سائنسی علوم کی جانچ کے عالمی معیار پر پورے اترے، یہی اس کتاب کی پذیرائی کا منفرد پہلو ہے۔ اس کتاب میں علوم جدیدہ سے متعلق انکشافات اور مندرجات پڑھ کر ایک فخر محسوس ہوتا ہے جب امام ایک استاد کی طرح نہایت دقیق مسائل مثلاً ماحول کا تحفظ ، دنیا کے حالات میں بد نظمی کے اسباب ، کائنات کا متحرک ہونا، تخلیق کائنات ، وائرس ، جراثیم اور اینٹی باڈیز( ضد اجسام) اور مادہ کی دوامیت جیسے نظریات کے اسباب و علل اور توضیحات نہایت آسان پیرا یہ میں سمجھا تے ہیں ۔ تیرہ سو سال پہلے جب انسانی ذہن میں سائنس اور ٹیکنالوجی کا کوئی واضح تصور موجود نہ تھا اور نہ صحت کے ساتھ جانچنے والے آلات موجود تھے اس وقت امام جعفر صادق(ع) نے حیات و کائنات کے حوالہ سے ایسے افکار و نظریات پیش کئے جو صدیوں بعد علمی اور سائنسی تجربات کی پیش رفت کے نتیجے میں حاصل ہونے والی معلومات سے حد درجہ مطابقت رکھتے ہیں۔ ( کفایت حسین ۔١٠)

١٠۔ چند مثالیں

اس مقالہ میں ان امور پر تفصیلی بحث کی گنجائش نہیں لیکن صرف سر سری طور پر چند نظریات کی طرف اشارہ مقصود ہے تاکہ تجس کو مہمیز ملے۔

١۔ عناصر اربع: امام نے واضح کیاکہ عناصر اربع میں ہوا ایک مجرو عنصر نہیں اور نہ ہی پانی ، بلکہ یہ مرکبات ہیں آج ہمارے پاس ١٠٩ عناصر کی ایک طویل فہرست ہے ۔

ب۔ زمین کی حرکت: امام نے آیاتِ قرآنی کی روشنی میں ثابت کیا کہ سورج اپنی جگہ قائم ہے اور زمین سورج کے اطراف اپنے محور کے گرد گھومتی ہے جس سے دن رات اور موسم تبدیل ہوتے ہیں ، یہ ایک انقلابی دریافت ہے۔

ج۔ ماحول کے تحفظ کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ آدمی کو زندگی اس طرح گزارنی چاہئے کہ اس کا ماحول آلودہ نہ ہو ورنہ بالآخر زندگی گزارنا مشکل بلکہ نا ممکن ہو جائیگا۔ آج ماحولیات سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

د۔ امام کی نظر میں طوفان، سیلاب ، زلزلہ کائنات کی بدنظمی نہیں ہے بلکہ ایک مستقل ناقابل ِ تسخیر اور تغیر قواعد کی اطاعت کا نتیجہ ہے جس کے خلاف انسان کو ئی تدارک نہیں کرسکتا۔ ( ثقلین ۔١١)

خلاصۃ ً عرض ہے کہ امام صادق(ع) نے کلیات کی طرف اشارہ کردیا ہے اگر ان کی جزئیات پر موجود سائنس علوم اور وسائل کے ساتھ تحقیق کی جائے تو انسانیت کی بھلائی کے اسباب مہیا ہو سکتے ہیں۔

١١۔ امام صادق(ع) کے شاگر د اور اصحاب:

ایک درخت اپنے پھل سے، ایک آدمی اپنے ساتھیوں سے اور ایک استاد اپنے شاگردوں کی صلاحیتوں سے پہچانا جاتا ہے۔ امام صادق(ع) کے شاگرد اور اصحاب کی ایک طویل فہرست ہے ان میں چند معروف نام آبان بن تغلب ، ہشام ابن الحکم، مفضل بن عمر، حماد بن عیسیٰ ، زرارۃً بن اعین، محمد بن علی المعروف مومن طاق اور آخر میں لیکن بہت قابل احترام جابر بن حیان ہیں۔

امام جعفر صادق سے پہلے تحصیل علم کے لئے لوگوں میں خاص رغبت نہیں پائی جاتی تھی اس عدم تو جہی کا ایک سبب درس و تدریس کا طریقہ تھا، مسلمانوں میں حصول ِ علم کا جذبہ اور شوق پیدا کرنے کے لئے امام صادق(ع) نے باہمی ربط کا موثر طریقہ رائج کیا جس کو موجودہ زمانہ میں Intractive طریقہ کہتے ہیں اس میں شاگرد کو سوالات کرنے کی آزادی تھی امام سے مختلف افراد کے مناظروں میں اس طریقہ کی جھلک نظرآتی ہے، امام کی دانشگاہ میں مختلف علوم یعنی فقہ، حدیث ،اصول، علم کلام اور تفسیر کے علاوہ علوم طبیعی اور علمِ ابدان سے متعلق امور پر درس و تدریس اور بحث و مباحثے ہوتے تھے۔ امامؑ اپنے شاگردوں کو تاکید فرماتے تھے کہ جو کچھ سمجھو اور سنو لکھ لو کیونکہ جب تک لکھو گے نہیں اس وقت تک حفاظت نہ کرسکو گے۔ علم و حکومت کو زمانے کی دست برد سے محفوظ رکھنے کے لئے ضبط تحریر میں لانا ضروری ہے، انسان کا حافظہ کتنا ہی قوی کیوں نہ ہو تحریر کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ امام صادق کا منشایہ تھاکہ ذہن کی دی ہوئی دولت اور بصیرت کی نعمت کو الفاظ کے مکتوبی حصار میں محفوظ کرلینا چاہئے۔ ( مظفر حسن ۔٣)

امام کے چند شاگردوں کا مختصر تذکرہ حسب ذیل ہے۔

الف۔ آبان بن تغلب ابو سعد الکوفی: انہوںنے ٣ آئمہ کا زمانہ دیکھا۔ یعنی امام زین العابدین، سے امام صادق(ع) ، وہ قاری بھی تھے اور فقیہ بھی۔قرآن ، حدیث، نعت اورتجوید میں دوسروں پر سبقت رکھتے تھے ان کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہے کہ امام محمدباقر (ع) نے ان سے فرمایا تھا کہ مسجد مدینہ میں بیٹھو اور لوگوں کو فتوے دو اس کے علاوہ سوائے صحیح بخاری کے دیگر تمام صحابہ میں ان کے حوالہ سے روایتیں موجود ہیں یعنی یہ بین الفریقین قابل ِ اعتماد ہیں۔ ان کی اہم کتاب (غریب القرآن) ہے جو اس موضوع پر پہلی کتاب ہے جس میں الفاظ قرآنی کے مفہوم پر اشعار عرب سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ”کتاب الفضائل” اور” کتاب القرات” آپ کی اہم تالیفات ہیں۔ (محسن نقوی۔٤)

ب: ہشام بن الحکم البغدادی لکندی: ان بزرگ ہستی کا تاریخ اور رجال کی کتب میں خاص تذکرہ کیا گیا ہے ان کی علمیت کے اندازہ کے لئے یہ کافی ہے کہ انہوں نے ”الردعلیٰ ارسطا طالیس” نامی کتاب میں ارسطو کے فلسفہ پر تنقید کی ہے ۔ ان کی پوری زندگی مناظروں میں گزری جس میں جاثلیق نصرانی عالم سے مناظرہ، امامت حق کی اطاعت کا وجوب اور ابو حنفیہ سے مناظرے شامل ہیں۔ امام صادق(ع) سے رسائی کے بعد انہوں نے اپنے آبائی مذہب کو تبدیل کردیا اور مکمل طور پر اپنے آپ کو خدمت امام کے لئے وقف کردیا اور آخری وقت تک پاسداران ولایت ہی رہے۔ ان کی تصانیف بصورت مناظر ے کے حوالے موجود ہیں۔ ہشام کے متعلق امام صادق(ع) کا قول ہے ”ہشام ہمارے حق کا سراغ رساں ہے ہماری صداقت کا موئد ہمارے اعدا کی باطل قوتوں کا دفع کرنے والا ہے۔” امام محمد تقی (ع) نے ہشام کے متعلق کہا۔ ” اﷲ ان پر رحمت کرے وہ کسی طرف سے ہم پر حرف نہیں آنے دیتے تھے۔”(محسن نقوی ۔٤)

ج۔ جابر بن حیان: امام جعفر صادق(ع) کی شخصیت اور علمی فیوض کے سلسلے میں جابر بن حیان طوسی کے ذکر کو خصوصیت حاصل ہے، جابر ١٠٤ ھ میں پیدا ہوئے اور ٢٠٢ھ میں ان کا انتقال ہوا۔ حجاج بن یوسف کے ہاتھوں اپنے والد کی شہادت کے بعد مدینہ آگئے اور امام کی خدمت میں پہنچے۔ جابر نے امام سے کسب فیض کے بعد علم کیمیا میں اہم انکشافات اور نظریات پیش کئے جس کی بناپر ان کو ”بابائے کیمیا” کے لقب سے یاد کرتے ہیں جابر نہ صرف علم کیمیا کے ماہر تھے بلکہ حیاتیات اور نباتات ، علم حجر( جیالوجی) اورنفسیات پربھی ان کے متعدد کتابیں اور رسالے موجود ہیں۔

جابر کی سائنس کی بنیاد کلام الہی پر ہے۔ جابر نے امام صادق(ع) سے روایت کی کہ ( پارہ چاندی) ہے جو آگے چل کر تمام عناصر میں یگانگت اور صرف ایٹمی نمبر کے فرق کے نظرئے کی توثیق کرتا ہے۔ جابر کلام معصوم کے حوالہ سے ایک سائنسدان کی صفت کا پروفائل یوں بناتے ہیں ” کہ علوم عقلیہ پر تحقیق کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ صالح ہو اور کلام مجید اور کلام معصومین سے آگاہی رکھتا ہو۔ ایسے شخص کو فاضل ہونا چاہئے، اور بصیرت والی آنکھیں ہونی چاہئے اسے آلات کے استعمال کا علم ہونا چاہئے۔ ( علی سرور ۔٣)

آخر میں عرض یہ ہے کہ مغرب کے علمی سفر کا آغاز سولہویں صدی سے ہو تا ہے جبکہ لوگ نو جوانوں کو مشورہ دیتے تھے کہ تہذیب یا علم کے لئے عربی سیکھو جس کی بنیاد وہ معلومات یا نکات ہیں جن کو امام صادق کے فیض اور سرپرستی میں حاصل کر کے جابر جیسے شاگرد وں نے سائنس کو مالا مال کردیا، جابر کے ٥٠٠ رسائل اور کتابوں کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا گیا کچھ کتابیں فرانسیسی تراجم کے ساتھ ایران ، مصر، ترکی ، جرمنی اور فرانس کے کتب خانوں کی زینتیں ہیں۔ اب انٹر نیٹ اور ویب کی سہولتوں کے ذریعے امام کے فیوض دنیا کے ہر کونے میں علم کے پیاسوں کی دسترس میں ہیں۔

١٢۔ فقہ جعفری میں گروہی تقسیم:

مقالہ کے اختتامی مرحلہ پر فقہ جعفری میں گروہی تقسیم کے اسباب و عمل کا جائزہ ضروری ہے، بڑے فرقوں میں مرور زمانہ کے ساتھ تفریق و تقسیم تعجب کی بات نہیں شیعیت میں گروہی تقسیم کے واقعات عہد امام جعفر ِ صادق(ع) سے پہلے بھی رونما ہوئے تھے لیکن امام صادق کی شہادت کے بعد یہ مسئلہ شدت اختیار کر گیا جس کے نتیجے میں شیعہ بالآخر اسماعیلی ، بوہری اور اثنا عشری مسلکوں میں تقسیم ہو گئے۔ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ منصب امامت ” بذریعہ نص” کے بارے میں جو وحدت فکر تھی اس میں بتدریج تبدیلی ظہور پذیر ہوئی اور منصب امامت بطورایک کسبی رتبہ کے نظریہ کا فروغ ہوا۔ اس رجحان سے متوازی قیادت کا تصور ابھرا جو امامت ازروئے نص کے اصول سے متادم تھا۔

شیعیت میں تفریق کا ایک اور ممکنہ سبب بھی قابل غور ہے، امام صادق(ع) نے شیعیت کو ایسے نقطہ عروج پر پہنچادیا تھا کہ ہر کوئی طالع آزما اس کو اپنے مفاد میں اپنا نا چاہتا تھا لیکن مجبوری یہ تھی کہ ان میںکوئی بھی اس پایہ کا عالم یا محدث نہیں تھاکہ فقہ جعفری سے بہتر تصور پیش کرسکے۔ بالآخر انسانی ذہن کی تخریبی صلاحیتوں کے ذریعے ایک عظیم الشان مسلک میں شکست و ریخت کے سامان پیدا کئے گئے۔ اس منصوبہ کو انجام دینے کے لئے امام صادق کے سب سے بڑے بیٹے اسماعیل کی وفات کو نزاعی مسئلہ بنادیا جب کے اسماعیل امام کی زندگی میں ٢٦ سال کی عمر میں ١٣٣ھ میں وفات پا چکے تھے۔ اس ضمن میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اسماعیل کو منصور دوانیقی کے ظلم سے بچانے کے لئے ان کی وفات کا شہرہ کیا گیا لیکن اس ضمن میں تاریخ خاموش ہے۔ کسی کمزور یا بے بنیاد نص کو بناء پر امام صادق کی شہادت کے بعد ایک گروہ نے امامت کو اسماعیل کے ذریعہ ان کے بیٹے محمد تک پہنچادیا اور انہیں اپنا ساتواں امام مان لیا اور سبعیہ کہلائے۔ یہ ١٣٣ھ میں محمد ابن اسماعیل کی وفات کے بعد امامت ختم سمجھتے ہیں اور ہدایت کے لئے ایک حاضر امام کا وجود ضروری سمجھتے ہیں۔ اپنے اس عقیدے کی ترویج کے لئے انہوں نے افریقہ کو مناسب سمجھا کیونکہ یہ عباسیوں کی دسترس سے دور تھا۔ مزید یہ کہ افریقہ میں امام جعفر صادق نے ١٤٥ ھ میں عقائد اہلبیت کی تعلیم کے لئے دو داعی بھیجے ۔ مصری فاطمئین کے دور میں اسماعیلی عقیدے کو رواج ملا۔ ان کے ایک نامور امام نزار( عزیز باﷲ) کے انتقال پر ٣٤٤ھ ١١٩٥ء میں نیابت کے مسئلہ پر ان میں دو شاخیں ہوگئیں۔ ایک گروہ آغا خانی اور اسماعیلی اور دوسرا نزار کے بھائی مستعلی کی تقلید کی نسبت سے مستعلیہ کہلایا۔ موخر الذکر نے فقہ جعفری کی تقلید میں اپنے ہاں ایک مہدی غائب کا تصور پیش کیا اور ہدایت کے امور ایک داعی کے سپرد کردیئے جو ابھی تک جاری ہے۔ ( زاہد علی ۔١٢) عام زبان میں شش امامی داؤدی بو ہرہ کہلاتے ہیں۔ دیگر فقہی امور میں یہ فقہ جعفری سے قریب ہیں اس کے برعکس اسماعیلی عقائد میں فقہ جعفریہ سے انحراف ہے، دونوں گروہ دنیوی آسائش اور نجات اُخروی کے وعدوں پر پیرؤں کو اپنی طرف کھنچتے ہیں۔

شیعوں کا وہ گروہ جو امام صادق(ع) کی نص کی بنیاد پر حضرت امام موسیٰ کاظم (ع) کے ذریعہ سلسلہ امامت کو بارہویں ہادی تک مسلسل رکھا وہ شیعہ اثنا عشری کہلائے اور یہی اپنے آپ کو اعلانیہ فقہ جعفری سے متمسک قرار دیتا ہے۔

شیعوں میں گروہی تقسیم کی اس بحث کے منطقی انجام میں یہ عرض ہے کہ تاریخ امامت حقہ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک امام کے بیٹوں کے درمیان امامت پر فائز ہونے کے مسئلہ پر اختلاف ہو جائے یا جس بیٹے کو امام نے جانشین قرار دے دیا وہ باپ کی زندگی میں ہی وفات پا جائے اور نص کی تنسیخ ہو جائے۔ اس لحاظ سے بحمد اﷲ فقہ جعفری پر عامل مومنین کو اپنی فقہ کی حقانیت پر صد فیصد یقین اور اطمینان قلب ہے، خدا ہم کو اس مسلک پر ثابت قدم رکھے ۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں