سفیرِ سید الشہداء جنابِ مسلم بن عقیل(ع) کے احوال

تحریر : ڈاکٹر آغا وقار ھاشمی

شریک بن اعوار محبانِ علی بن ابی طالب (ع) میں سے تھے،جنگِ صفین میں بھی امیر المومنین علی بن ابی طالب (ع) کے ہمراہ تھے،

شریک بن اعوار بصرہ میں مقیم تھے، جب عبید اللہ ابنِ زیاد کو بصرہ میں یزید کا حکم نامہ ملا کہ فوری کوفہ پہنچو، وہاں کے حاکم نعمان بن بشیر کو معطل کر کے کوفہ کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لو، اور مسلم بن عقیل کی موجودگی میں وہاں اُٹھنے والی بغاوت کو کچل دو،

ابنِ زیاد نے فوری کوفہ کی راہ لی تو شریک بن اعوار بھی ہمراہ تھے، جب یہ لوگ بصرہ سے نکلے تو شریک اپنی سواری سے گر گئے، بلکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے خود اپنے آپکو سواری سے گرا لیا، اس اُمید پر کہ عبید اللہ ابنِ زیاد انکی صحت یابی کا انتظار کرے گا اور اس دوران امام حسین (ع) اُس سے پہلے کوفہ پہنچ جائیں،

لیکن عبید اللہ ابنِ زیاد نے شریک کی طرف بالکل توجہ نہ دی اور اپنا سفر جاری رکھا اور کوفہ پہنچ گیا،

عبید اللہ ابنِ زیاد کے کوفہ آنے کے بعد جنابِ مسلم بن عقیل (ع) مختارِ ثقفی کے گھر سے نکل کر ہانی ابنِ عروہ کے ہاں پناہ لی،

شریک بن اعوار جب کوفہ پہنچے تو وہ بھی ہانی ابنِ عروہ کے گھ ٹھہرے،

وہاں جنابِ مسلم بن عقیل (ع) سے بھی ملاقات ہوئی، شریک بن اعوار اس دوران ہانی کو جنابِ مسلم کو تقویت دینے کی ترغیب دیتے رہے،

ابنِ زیاد اور دیگر امراء شریک بن اعوار کا احترام کرتے تھے،

ابنِ زیاد نے شریک کو پیغام بھجوایا کہ وہ عیادت کی غرض سے آج رات ہانی کے مکان پر ملاقات کرے گا،

شریک نے یہ سن کر جنابِ مسلم کو مشورہ دیا کہ جب ابنِ زیاد عیادت کے لئے آئے تو میں پانی مانگو گا، آپ اشارہ سمجھ جائیے گا اور باہر نکل کر اس فاسق و فاجر کو قتل کر دیجیے گا،

ابنِ زیاد اپنے غلام مہران کے ہمراہ آیا ،شریک نے کنیز کو پانی لانے کو بولا، کنیز شریک کو پانی دینے ہی والی تھی کہ اسکی نظر جنابِ مسلم پر پڑی تو وہ صورتِ حال بھانپ کر پیچھے ہٹ گئی، اس دوران شریک نے چلا کر پھر پانی کا تقاضا کیا،

ابنِ زیاد کے غلام کو محسوس ہوا کچھ گڑبڑ ہے، اس نے ابنِ زیاد کو اشارہ کیا اور وہ جلدی سے وہاں سے اجازت لے کر چلتے بنے،

انکے جانے کے بعد جب مسلم بن عقیل (ع) باہر آئے تو شریک نے پوچھا کہ کون سی چیز نے آپکو آج ابنِ زیاد کو قتل کرنے سے روکے رکھا،

تو جنابِ مسلم نے کہا دو باتوں نے،

1) اس کام میں صاحبِ مکان کی رضا مندی ضروری تھی،

2) اور رسول اللہ (ص) کی وہ حدیث کہ : ” یعنی اسلام نے بے خبری میں قتل کرنے سے منع کیا ہے، اور مومن ایسا کام نہیں کرتا”

حوالہ :

کتاب : نفس المہموم از شیخ عباس قمی

صفحہ 135- 138

………………………………………

نوٹ :

یہ تھا امام حسین (ع) اور انکے ساتھیوں کا جہاد،

اسلام اور قرآن کے زریں اصولوں سے مزین جہاد،

رسول اللہ (ص) کے احکامات کا ترجمان جہاد،

اسلام کے امن پسند اور روشن چہرے کا عکاس،

کہ اپنے سخت ترین دشمن کو بھی نہتا اور بے خبری کے عالم میں قتل نہ کیا،

اور دوسری طرف دیکھ لیجیے طالبان، سپاہ صحابہ، لشکرِ جھنگوی، القاعدہ، داعش، بوکو حرام جیسی دنیا بھر میں بے شمار دہشت گرد تنظیموں کا جہاد جو کہ دنیا بھر میں نہتے مظلوم، بے گناہ و بے خبر لاکھوں لوگوں کے قتلِ عام کا باعث بنا،

باخدا یہ برائے نام جہادی دہشت گرد، انکے سہولت کار، انکے حامی اور انکے ہمدرد، یہاں تک کہ انکو دل میں بھی صحیح سمجھنے والے سب اسلام کی بدنامی کے جرم میں شریک ہیں،

یہ لوگ ہرگز دینِ محمدی کے ترجمان نہیں، اور ایسا جہاد کسی صورت وہ جہاد نہیں جسکا حکم اسلام میں ہے۔

 

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں