شہید قائد کا روزِ شہادت ۔۔۔میری ایک درد بھری یاداشت

شہید قائد کا روزِ شہادت ۔۔۔میری ایک درد بھری یاداشت

تحریر: عاصم خوارزمی

۵ اگست ۱۹۸۸ بروز جمعہ ہم نے ناشتہ سے فارغ ہو کر ٹی وی آن کیا کیونکہ خبروں کے فوراً بعد دس منٹ کے لئے کارٹون لگتے تھے جو چھوٹے بڑوں سب کے پسندیدہ ہوتے تھے ان دنوں جمعہ کو تعطیل ہوا کرتی تھی میرا اور میرے چاچو کا ہر جمعہ صبح  سائیکلوں پر ایوب نیشنل پارک کا تفریحی ٹور ہوتا تھا یہ بیس سے تقریباً دس میل دور ہو گا۔

 جونہی ٹی وی آن کیا پی ٹی وی پر پہلی خبر ہی یہ تھی “آج صبح نامعلوم افراد کی فائرنگ سے پشاور میں قائد تحریک نفاذ فقہ جعفریہ علامہ عارف الحسینی جانبحق” یہ صبح قیامت سے کیا کم ہو گی آج وہ نا رہا جس کے پیچھے سائیکل پر گھوما کرتا تھا راولپنڈی کا شائد ہی کوئی پروگرام ہو کہ مجھے پتا لگے اور میں نا ہوں۔ گھر میں لگی تصویروں اور پوسٹرز دیکھ دیکھ کر ابو اور اہل خانہ کو بھی شھید سے انسیت و محبت ہو گئی تھی ابو کافی پریشان تھے میں پہلے تو سائیکل پر کیمپ میں سب جاننے والوں کے گیا کہ شائد کسی نے خبر نا سنی ہو۔

میرا گمان صحیح نکلا چونکہ چھٹی کا روز تھا اس لئے سب دیر سے بیدار تھے تو مجھ سے پہلے کسی کو نہیں پتا تھا۔

واپس کواٹر آ کر اور بتا کر چونکہ قریب تھا اس لئے امامبارگاہ گریسی لائن چلا گیا کہ صورتحال واضع ہو مگر وہاں تو کوئی چہل پہل ہی نہیں تھی نوٹس بورڈ پر صرف یہ لکھا تھا قائد عارف الحسینی کی شھادت ہو گی۔

وہاں سے سیدھا مدرسۃ آیت اللہ الحکیم ٹرنک بازار پہنچا جو دفتر تحریک تھا اور جہاں پنڈی میں قائد کی اقامت گاہ ہوتی تھی یہاں سب طلاب پشاور جا چکے تھے البتہ آغا صابر مرحوم اور چند لوگ ابھی موجود تھے یہاں سے پتا لگا نماز جنازہ کل ہو گا۔

بس واپس آ کر ایک ہی کام کیا والدین سے قائد کے جنازے میں شرکت کی التماس۔ ابو قطعاً نہیں مان رہے ایک حالات کی سنگینی کا خطرہ تھا جنرل ضیا کے مظالم سے واقف تھے دوسرے اس وقت عمر کم تھی۔ ابھی میٹرک کا رزلٹ بھی نہیں آیا تھا تیسرے ان دنوں شدید گرمی تھی اور سے بڑی بات اتنا لمبا سفر تنہا کرنے کی گھر سے بالکل اجازت نہیں تھی

اگر اس وقت آج کی ہستی ہوتی تو ابو ان مصلحتوں کو خاطر میں نہ لاتے

دوپہر، شام، رات، میں نے ابو کو منانے کی اپنی کوشش جاری رکھی دوسری صبح ہوئی ابو دفتر چلے گئے میں روہنسا بیٹھا تھا کہ ابو واپس آ گئے اور کہا تیاری پکڑو سکواڈرن کا جونئیر jt خاور بنگش جنازے میں جا رہا ہے دس بجے تیاری کر کے آفس آ جانا اس کے ساتھ چلے جانا۔

میں نے تیاری کی پانی کی تھرماس رکھی امی چھتری کا کہتی رہیں مگر میں نے نہ رکھی کہ سامان ہی بڑھے گا۔

دس بجے میں ابو کے آفس تھا ابو نے jt خاور سے ملایا میری زمیداری اسے دی اور ہمارے سفر کا آغاز ہوا اور ہماری منزل تھی آپکا اپنا مدرسہ دار المعارف الاسلامیہ (قائد کی شھادت کے بعد اسکا نام بدل کر جامعہ شہید عارف الحسینی رکھ دیا گیا) جو آپ کا مقتل گاہ بنی۔

پہلا پڑاؤ

ہمارا پہلا پڑاؤ فیض آباد تھا یہیں سے ہمیں گرمی کا احساس ہونے لگا تھا ہم نے بس پر سوار ہو کر پشاور جانا تھا یہاں سے قائد کے جنازے میں شرکت کرنے والے کچھ اور مومنین بھی شریک سفر تھے۔ فیض آباد سے اسوقت یہ سفر تقریباً سوا تین گھنٹے کا تھا تقریباً ۱۸۵ میل۔

دوسرا پڑاؤ

ہمارا اگلا پڑاؤ شائد نوشہرہ تھا یہاں چاے پانی کو بس رکی تھی چلتی بس میں تو گرمی کا اتنا احساس نہیں ہوا جب باہر نکلے تو شدید گرمی تھی یہاں ٹھنڈا پانی پیا تازہ دم ہو کر اگلی منزل کو روانہ ہو گئے۔ بس والے نے ٹیپ پلئیر پر گانے لگا دئیے جو ہم نے بند کرا دئیے

آخری منزل

اب ہماری آخری منزل پشاور تھی۔ لوگوں کے دوش پر سیاہ پرنوں (اس وقت مومنین کی نشانی کندھوں پر کالا پڑنا ہوا کرتی تھی) اور رش سے اندازہ ہو رہا تھا ہم منزل کے قریب ہیں۔ بس اسٹیشن پر پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں ہم نے رکوا دی جی ٹی روڈ کے ساتھ شھید قائد کا مدرسہ دار المعارف الاسلامیہ تھا یہی ہماری منزل تھی یہی مقتل گاہ تھا ہر طرف سوگ کا عالم تھا لاؤڈ سپیکر پر نوحے پڑھے جا رہے تھے سیاہ علم آویزاں تھے مدرسہ میں داخل ہوئے تو حشر کا سما تھا

مقتل گاہ شہید قائد

ساتھ ہی زینہ تھا جو بالائی منزل سے نیچے آتا تھا یہاں بہت رش اور آہ و بکا جاری تھی ہمیں بتایا گیا کہ یہی مقتل گاہ ہے انہی سیڑھیوں پر قائد کو شہید کیا گیا ہم نے رش توڑ کر دیکھا تو مقدس خون اپنی مظلومیت کی گواہی دے رہا تھا یہاں کافی ماتم ہوا پھر قائد کے دیدار کو آگے بڑھ گئے وہ شائد کلاس روم تھا جہاں قائد شہید محو استراحت تھے۔ جیسے ہی نگاہ پڑی ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا آنسو رواں تھے دل تھا کہ پھٹا جا رہا تھا سب ایک قطار سے گزرتے ہوئے شیشے کی کھڑکی سے شہید کی زیارت کر رہے تھے۔

شھید پاکستان عارف حسین الحسینی نے اپنی حیات میں کیا کیا ظلم نہیں سہے۔

پاکستان کے چھوٹے بڑے شہر اس پر نالاں ہیں کہ اپنوں نے پروپیگینڈہ کر کے اس عظیم رہنما کو ایسا تنہا کیا اور اس پر مسجد و مدارس کے دروازے تک بند کر دیئے۔

شہید کو داعی اتحاد بین المسلمین کی وجہ سے شیعہ ہی نہیں سمجھا جاتا تھا۔

میں نے کہیں سنا تھا کہ ایک انٹرویو میں ان سے پوچھا گیا آپ کی قیادت کی سربراہی کیسی ہے؟

آپ نے فرمایا مجھے پانچ سال اپنی قوم کو یہ سمجھاتے ہوئے لگ گئے کہ میں بھی شیعہ ہوں۔

بالآخر آپ کی مظلومانہ شہادت بھی ہو گئی۔

  جس قائد کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے سائیکل پر مارا ماری پھرتا تھا وہ مرد جری کسقدر پر سکون لیٹنے والا آج منوں مٹی تلے چلا جائے گا ہمارے پیچھے مختلف شہروں کے ماتمی دستے اپنا اپنا حلقہ بنا کر سینہ زنی کر رہے تھے مگر چکوال کے ماتمی دستے نے تو کہرام برپا کر دیا کچھ ہی دیر بعد شدید آہ و زاری شروع ہو گئی پتا لگا آیت اللہ جنّتی کی قیادت میں ایران سے امام خمینی کا وفد آیا ہے ہم نے بہت کوشش کی زیارت کی مگر رش کی وجہ سے ممکن نا ہو سکا۔ شدید ترین حبس ہو چکا تھا۔

قائد کا تشیع جنازہ

تقریباً دو بج چکے جب تشیع جنازہ اٹھا اور ہم سب کے ساتھ مدرسے سے باہر نکلے ہماری منزل تھی جناح پارک یا جناح اسٹیڈیم یہ یہاں سے ایک میل دور ہو گا مگر یہ ایک میل سو میل کے برابر لگ رہا تھا شدید گرمی، حبس، سورج کی جھلسا دینے والی تپش اور رش نے بیحال کر دیا تھا  سیدھی سڑک پر کوئی درخت تک نہیں کوئی سایہ تک نہیں تھا رہ رہ کر امی کی چھتری لے جانے کی نصیحت یاد آ رہی تھی۔ ایک ایک قدم من من کا لگ رہا تھا۔

آخرکار جنازہ گاہ پہنچ گئے یہاں بھی کوئی سائبان نہیں تھا پانی پیا سر پر ڈالا کہ اعلان ہوا جنازہ  نمائندہ امام خمینی کی اقتدا میں ادا کی جائے گی۔ ہمارے لئے یہ پر سوز دن ایک فخر بن گیا۔

ہم جناح پارک کی باؤنڈری وال کے ساتھ ہی کھڑے تھے کہ فوجیوں کا کارواں آیا خبر ملی کہ جنرل ضیا صاحب نماز جنازہ میں شرکت کو آئے ہیں iso کے غم و غصہ سے بپھرے ہوئے جوانوں نے جنرل کو گاڑی سے

نکلنے نہیں دیا زبردست احتجاج ہوا کہ یہ جنازے میں شریک نہیں ہو گا۔ مجھے یاد ہے کسی نے ایک پلے کارڈ اٹھا رکھا تھا جس پر لکھا تھا “واپس GHQ جاؤ” “تم قاتل ہو” میں iso کی جرت و بہادری سے بہت متاثر ہوا۔

پھر وہ لمحہ آ گیا جب آیت اللہ جنّتی کی اقتدا میں قائد شہید کی نماز جنازہ ادا ہوئی اس سے پہلے امام خمینؒی کا ملت تشیع پاکستان کے نام پیغام پڑھ کر سنایا گیا جس امام خمینؒی کو بھی کہنا پڑا کہ:

“اگر پاکستان کے علمائے مدارس حوزہ ہائے علمیہ و خطیب اپنی قوم کو یہ بات سمجھاتے کہ ایک ہی دین میں دو متضاد راستے نہیں ہوتے تو آج شہید حسینی ہمارے درمیان زندہ ہوتے” اور تسلیت ادا کی گئی۔

جنازے کے بعد شہید کو ہیلی پر آبائی وطن پیواڑ (پاڑاچنار) لے جایا گیا یوں آہوں اور سسکیوں میں ہم قائد کو وداع کر کے واپس ہوئے کواٹر پہنچ کر jt خاور بنگش نے اپنی زمیداری ادا کی اور ابو کے ہاتھ میں مجھے تھما دیا ساتھ ان نے مجھے شاباش دی کہ اتنی سخت گرمی میں بھی تنگ نہیں کیا۔

ایک سال بعد

 ۱۹۸۹ امام خمینی بھی رحلت کر چکے ہیں، جنرل ضیا بھی مردود ہو چکا پے۔ قائد کی برسی اور امام خمینی کا چہلم کا مشترکہ ملک گیر مرکزی پروگرام لیاقت باغ راولپنڈی میں ہونا ہے میں اب کالج کی iso آرگنائزنگ کمیٹی میں ہوں (اس وقت یونٹ نہیں بنی تھی) مجھے ڈویژن نے برسی/چہلم پروگرام کے چند پوسٹر لگانے کو دئیے اس وقت میرا بھائی آٹھ نو سال کا ہو گا ہم دونوں سخت گرمی میں سائیکل پر سوار ہو کر کینٹ بھر میں پوسٹر لگاتے رہے مشکل ترین جگہ پر بھی یعنی ریلوے کے روڈ کراسنگ اوور ہیڈ بریج پر بھی جو بچ گئے وہ کھوہار لے گیا کھوہار کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی نے شیعہ پوسٹر پیسٹنگ کی تھی۔

پروگرام سے ایک دن پہلے انکل مدینہ سے شرکت کے لئے آ گئے اور ہم اکھٹے ہی سوۓ منزل ہوۓ۔

شہید کی دلوں پر ان کی فتح کی اس سے بڑی نظیر کیا ہوگی کہ ان کے ذاتی محافظ نے اپنے جسم پر خود گولی چلا دی اور ان کا قاتل تک کہہ چکا کہ”مجھ سے کوئی وقت کا پیغمبر قتل کرا دیا گیا ہے” تفتیشی افسر کے ساتھ تنہائی کے لمحات میں جہاں قاتل نے تمام حقائق سے پردہ اٹھایا وہاں روتے ہوئے یہ انکشاف بھی کر گیا کہ اگر وہ ان کے نورانی چہرے کو گولی چلانے سے پہلے دیکھ لیتا تو ان پر قطعاً گولی نہ چلاتا. جس شخص کو اس کا قاتل روئے، نہ جانے ان کی قربت میں بیٹھنے اور ان کی خدمت کی سعادت نصیب کرنے والوں پر کیا بیت گئی ہو گی…؟

جب شہید حسینی (رح) کے بارے میں استفسار کیا گیا تو شہید کا نام سنتے ہی ہر ملازم اشکبار ہو کر سسکیاں لیتا رہا اور جو بستر مرگ پر موت کے منتظر تھے انکی نبضیں بے ربط ہو گئیں. غرض یہ کہ ہر ملازم نے رقت انگیز احساسات میں ڈوب کر شہید کے روّیے کی قابل تقلید داستانیں سنائیں.

خداوند متعال شہید کے درجات بلند فرمائے۔

(الہی آمین)

آج ملت کی یتیمی کے ۳ عشرے سال سے زیادہ ہوگئے۔

•ہنوزمنتظرم•

چھری کی دھار سے کٹتی نہیں چراغ کی لو

بدن کی موت سے کردار مر نہیں سکت

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں