علامہ محمد حسین نجفی المعروف محمد حسین ڈھکو
تحریر: نثار علی ترمذی
ان دنوں کی بات ہے جب میں فیڈرل گورنمنٹ کالج ایچ نائن اسلام اباد میں زیر تعلیم تھا۔ جب میں چھٹیوں میں اپنے آبائی گاؤں شیخن ضلع جھنگ آیا تو معلوم ہوا کہ علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب ہمارے گاؤں میں مجالس سے خطاب کر چکے ہیں۔میں نے اپنے تایا سید ناصر حسین ترمذی مرحوم سے پوچھا کہ ان کی مجالس کی کیا تفصیلات ہیں؟ انہوں نے بتایا کہ مجالس کے علاوہ انہوں نے اپنی کتب فروخت کے لیے پیش کی تھیں جن میں سے یہ دو تین کتب میں نے خرید لی ہیں۔ کتاب دوستی شروع سے تھی میں نے فورا ہی ان کتب کو لیا تو جو پہلی کتاب میرے سامنے تھی اصول شریعہ، دوسری کتاب احسن الفوائد فی شرح العقائد تھی۔ فرصت کے اوقات تھے تو میں نے ان کتابوں کا مطالعہ کیا۔ ان کتب کے مطالعہ سے میرے نظریات بہت حد تک ان کتب کے مطابق ہو چکے تھے۔ پھر کچھ عرصے بعد ماہ رمضان میں ہمارے گاؤں میں مولانا غلام رضا اسٹر مرحوم جو علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب کے رشتے میں داماد تھے، ماہ رمضان کے لیے تشریف لائے تو میرا زیادہ تر وقت انہی مولانا کے ساتھ گزرتا تھا۔ یہ علامہ صاحب سے خوب آشنا تھے ان کی ایک مہینے کی صحبت نے مجھے علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب سے بہت قریب کر دیا۔ میں دوستوں کے ساتھ، اپنے رشتہ داروں کے ساتھ اور ڈیرے پر آئے ہوئے لوگوں سے بھی انہی نظریات پر گفتگو کرتا تھا پھر مجھے علامہ صاحب کی کتب اثبات امامت اور سعادت دارین پڑھنے کا موقع میسر آیا جو واقعی مفید کتب ہیں۔ مولانا غلام رضا اسٹر مرحوم کئی سال ماہ رمضان میں تشریف لاتے رہے۔ ہمارے چچا سید یاورحسین ترمذی مرحوم نے اسٹر مرحوم کو حج بدل بھی کروایا تھا۔ آپ جلدی اس دنیا فانی کو چھوڑ گئے۔
ہمارے چچا نے ڈیرہ پر ایک ٹرانسسٹر ریڈیو رکھا ہوا تھا جو ٹارچ سیل سے چلتا تھا۔ اس سے صرف ساڑھے آٹھ بجے رات کو بی بی سی اردو سروس کی خبریں اور سیر بین سنا جاتا تھا۔ پندرہ بیس لوگ ارد گرد بیٹھ جاتے وہ حقہ بھی گڑگڑاتے اور خبریں سنتے تھے پھر اس کے بعد جو تبصرے ہوتے ہیں وہ رات گئے تک جاری رہتے۔ ہمارے گاؤں کے اور میرے استاد محترم نذر محمد تاثیر مرحوم ( آپ کا لکھا ہوا نوحہ ” اج گھوڑا خاک روا آیا، ارمان نہ چن زہرا آیا، اب بھی عاشور کے دن اکثر جگہ پڑھا جاتا ہے) اور بندہ ناچیز ہم دونوں امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کی جدوجہد کی حمایت کرتے تھے باقی سب لوگ شہنشاہ ایران کے طرف دار تھے لیکن جب امام خمینی رح ایران تشریف لےآئے یہ منظر نامہ بدل گیا اور آپ آنکھوں میں نہیں بلکہ دلوں میں سماتے چلے گئے۔
1980 میں مجھے لاہور آنا پڑا اور یہاں پر پنجاب سول سیکرٹریٹ میں ملازمت اختیار کی۔ یہاں بھی میرے نظریات علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب کی کتب کےمطابق استوار تھے گو کہ میرے ارد گرد جو لوگ تھے ان میں سے اکثر مخالفین میں سے تھے مگر میں ان کے سب مخالفین کو منہ توڑ جواب دیتا۔ بعض نے تو مجھے “مقصر” کہنا شروع کر دیا تھا۔ اس دوران مجھے امام خمینی رح اور استاد مرتضیٰ مطہری شہید رح کے افکار پڑھنے کا موقع میسر آیا خصوصاً شہید مطہری کی کتاب ” جاذبہ دافعہ حضرت علی علیہ السلام” نے آپ کا گرویدہ بنا دیا۔ آپ کی باتیں دل میں اترتی گیئں۔ میرے پاس شہید مطہری شہید رح کی کتب کا اچھا خاصہ ذخیرہ ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ شہید مطہری رح بعد اور کوئی دل کو نہیں بھایا۔
1983 -84 میں ہم نے گاؤں سے باقر آباد اڈا شیخن پر گھر بنا لیے اور یہاں پر مسجد کے لیے ایک مستقل پیش نماز کی ضرورت کو علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب کے بڑے بھائی مولانا نذر حسین ڈھکو مرحوم نے پورا کیا۔ آپ طویل عرصہ یہاں خدمت دین انجام دیتے رہے۔ میں جب عید بکرید یا چھٹیوں پر گاؤں جاتا آپ سے ضرور ملتا۔ آپ کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ آپ علامہ کے بڑے بھائی تھے۔ علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب نے متواتر سے ہمارے علاقے میں مجالس عزا سے خطاب کیا۔ ان کے بہت سے معتقدمین پیدا ہو گئے بلکہ بعض نے تو ان کی تقلید بھی شروع کر دی اور ان کی تصویر اپنے گھروں میں آویزاں کر دی۔ آپ نے ایک سے زیادہ بار محرم کی مجالس سے بھی خطاب کیا۔ ہمارے علاقے میں دین کے پابند جو افراد ہیں ان میں سے بیشتر علامہ محمد حسین کی تبلیغ کا نتیجہ ہیں۔
ایک مرتبہ محرم الحرام میں اپنے آبائی گاؤں گیا ہوا تھا جہاں عشرہ محرم الحرام سے علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب نے خطاب کر رھے تھے۔ آپ کے خطاب سے قبل آپ کے بڑے بھائی خطاب کرتے تھے۔ وہ اس وقت تک خطاب کرتے رہتے تھے جب تک ان کے بھائی تشریف نہ لے آتے۔ ایک دن کیا ہوا کہ علامہ صاحب دو ڈھائی گھنٹے لیٹ ہو گئے اور ان کے بھائی متواتر مجلس سے خطاب کرتے رہے۔ میرا خیال ہے کہ انہوں نے ساری توضیح المسائل اس دن مجمع کو سنا دی ہوگی۔
علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب ایک صائب رائے اور دبنگ شخصیت تھے۔ آپ جیسے حق سمجھتے تھے تو اس کا برملا اظہار کرتے تھے۔ جب آپ نجف اشرف سے تشریف لائے تو اردو بولنے والے لکھنوی علماء کا عروج تھا یا ذاکرین چھائے ہوئے تھے ایسے میں اپنا مقام بنانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا مگر آپ کو اپنے ہم خیال علماء میسر آ گئے جن میں علامہ محمد یار شاہ مرحوم، علامہ گلاب علی شاہ مرحوم ، حافظ سیف اللہ مرحوم ، علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم اور علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم و دیگر علماء شامل ہیں۔ آپ کی پہلی کتاب اصلاح مجالس و محافل نے آپ کی پہچان کروا دی۔ اس پر جو رد عمل پیدا ہوا وہ آج تک جاری ہے۔ مجالس میں شور شراباکے علاؤہ جوابی کتب بھی لکھی گئیں ۔ آپ سے علمی اختلافات پر بات کرنا میرے دائرہ کار سے باہر ہے، اسے علماء پر ہی چھوڑتے ہیں۔
1972 ء میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کی تاسیس ہوئی تو اس سے قبل اور بعد ازاں بھی علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب مجالس و محافل میں بلوائے جاتے اور آپ کی کتب ہی زیر مطالعہ و زیر بحث رہتی تھیں۔ بقول ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید رح کہ تھیلے میں کتابیں ڈالے عقیدہ ٹھیک کروا لو کے آواز لگاتے پھرتے تھے۔ آئی ایس او کا مجلہ ” راہ عمل ” 1980ء میں ایک تصویر ہے کہ جس میں علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں سیرت النبی کے جلسہ سے خطاب کر رہے ہیں۔ سرگودھا میں ہونے والے مجلس عاملہ و عمومی کے اجلاسوں میں آپ کی شرکت و خطاب کے شواہد موجود ہیں۔
آپ کی علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم سے دوستی تھی۔ آپ مفتی صاحب کی نواسی کی شادی میں شریک ہوئے اور نکاح بھی پڑھا۔ جب مفتی صاحب قائد بننے تو آپ ان کی سپریم کونسل میں شامل تھے۔ مفتی صاحب نے بیماری کے دوران جو ایک پندرہ رکنی کمیٹی بنائی تھی اس میں بھی آپ کا نام شامل ہے۔ آپ کے نواسے جعفر حسین نے بتایا کہ ان کے نانا کی علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب سے بہت دوستی تھی اور وہ زیادہ معلومات دے سکتے ہیں مگر تاخیر ہو چکی تھی۔ ان دونوں شخصیات کی تصاویر بھی ہیں ایک تصویر روزنامہ آفتاب ، ملتان میں شائع ہوئی تھی جس میں سپریم کونسل کے اجلاس میں دیگر علماء کے علاؤہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی رح اور علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب بھی نمایاں ہیں۔
29, اگست 1983ء کو علامہ مفتی جعفر حسین مرحوم رحلت فرما گئے اور علامہ سید صفدر حسین نجفی مرحوم سینئر نائب صدر ہونے کی وجہ سے قائم مقام قائد ہو گئے۔ ایک نجی محفل میں علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم نے بتایا کہ کہ ڈھکو صاحب کی جو خدمات ہیں ان کا نا آپ اظہار کرتے ہیں اور نا ہم۔ جب مفتی صاحب کی رحلت ہوئی تو میں نے طے کر لیا تھا کہ ملت خود ہی اپنا قائد چن لے گی۔ میں اپنے کاموں میں مصروف ہو گیا۔ آپ نے ڈھکو صاحب کی ڈائری دیکھی ہو اس میں کوئی دن خالی نہیں ہوتا مگر وہ اس کے باوجود تین دن میرے پاس رہے اور مجھے قائل کیا اور مجھ سے تحریر حاصل کی پھر پورے ملک میں دورہ جات کر کے بھکر کے اجلاس کو ممکن بنایا۔ اس اجلاس میں شہید علامہ عارف حسین الحسینی رح منتخب ہوئے۔ شہید نے بطور قائد جو پہلی پریس کانفرنس کی تو اس میں بائیں جانب علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب تشریف فرما ہیں۔ آپ شہید کی نامزد کردہ سپریم کونسل میں شامل رہے۔ جب شہید قائد بنے تو اس سے پہلے علامہ حامد علی موسوی مرحوم کی قیادت کا اعلان ہو چکا تھا، جن کا مرکزی نقطہ ہی ڈھکو صاحب کی مخالفت تھی اس کا اثر پورے ملک پر پڑا۔ آئی ایس او میں بھی اس حوالے سے مختلف آراء پائی جاتی تھیں۔ برادر امتیاز علی رضوی جو 1984ء میں آئی ایس او کے مرکزی صدر تھے راوی ہیں کہ مجلس عاملہ کا اجلاس کربلا گامے شاہ میں منعقد کیا جس پہلی مرتبہ قائد ملت علامہ عارف حسین الحسینی رح پہلی مرتبہ شریک ہوئے۔ عاملہ کے اراکین نے سوالات کیے جن کے جوابات سے عاملہ نے متفقہ طور پر شہید کی حمایت کا اعلان کیا۔ شہید ملک بھر میں جہاں بھی گئے وہاں علامہ محمد حسین ڈھکو رح کے حوالے سے سوالات ہوئے۔ شہید نے ہر جگہ ان کے تسلی بخش جواب دئے۔ آپ نے فرمایا کہ میں تحریک سے لوگوں کو نکالنے کے لیے نہیں آیا بلکہ میں تو جوڑنے کے لیے آیا ہوں ۔دوسرے علامہ صاحب مفتی جعفر حسین مرحوم کی سپریم کونسل میں شامل تھے میں نے انہیں شریک نہیں کیا اس کے علاؤہ میں امام خمینی رح کا مقلد ہوں اور ان کے احکامات پر عمل کرتا ہوں۔ یوں آپ شہید حسینی رح کی سپریم کونسل کا حصہ رہے۔ گو کہ بہت مشکلات درپیش آئیں مگر شہید نے نہ آپ کو جدا کیا اور نہ ہی بے احترامی کی بلکہ جب چھ جولائی 1987 ء کو مینار پاکستان پر قران و سنت کانفرنس کا انعقاد ہوا تو اسٹیج کمیٹی کو اختیار تھا کہ وہ مقررین کا انتخاب مشاورت کرتے تھے۔ شہید حسینی رح متواتر تین مرتبہ چٹ لکھ کر کہا کہ علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب کا خطاب کرایا جائے۔ بلآخر برادر ثاقب اکبر مرحوم نے اعلان کیا کہ ” اب علامہ محمد حسین نجفی صاحب خطاب کریں گے” شہید حسینی رح نے تمام تر خدشات کو نظر انداز کر کے علامہ محمد حسین ڈھکو مرحوم کا خطاب کروایا۔
شہید حسینی رح کی شہادت کے بعد آپ دوبارا مولانا صفدر حسین نجفی مرحوم کو لے کر پشاور گئے اور نئے قائد کا انتخاب ممکن بنایا۔ آپ نے علامہ ساجد علی نقوی صاحب کی ہر حال میں حمایت کی ۔ 1993-92 تحریک کی مرکزی کونسل کا اجلاس جامعہ شہید حسینی رح پشاور میں منعقد ہوا تھا جس میں دستور میں متعدد ترمیمات پاس کی گئں۔ جن چند ایک یہ ہیں۔
تحریک نفاذ فقہ جعفریہ پاکستان کے نام میں تخفیف کر کے تحریک جعفریہ کردیا گیا۔ قائد تحریک کے ماتحت ایک مرکزی صدر کا عہدہ تجویز کیا جو دو سال کے لیے منتخب ہو اور قائد کے علاؤہ مرکزی کونسل کو بھی جواب دہ ہو، جبکہ دستور و اداروں کے فیصلوں کے مطابق قائد کسی کو جواب دہ نہیں تھے یا احتراماً جواب دہی نہیں کی جاتی تھی۔
مرکزی کونسل میں پنجاب کی اکثریت تھی جس کا دیگر صوبوں کو شکوہ رہتا تھا، اس کمی کو پورا کرنے کے لیے سپریم کونسل میں تمام صوبوں کی برابر نمائندگی کی ترمیم منظور کر لی گئی۔ اس کے علاؤہ بھی کئی اور ترامیم سپریم کونسل کا اجلاس ہوا جس میں علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب نے اسے قیادت کو کمزور کرنے کی سازش قرار دیا ، یوں سپریم کونسل نے یہ دونوں بڑی ترامیم مسترد کر دیں۔ دستور کے ماہر علی رضا نقوی نے ایک وفد کے ہمراہ علامہ ساجد علی نقوی صاحب ملاقات میں یہ نکتہ اٹھایا کہ دستور میں ترمیم کا حق صرف مرکزی کونسل کو ہے اور سپریم کونسل کو یہ اختیار حاصل نہیں ۔ جس پر علامہ صاحب نے اسے وکیلوں والی بحث کہ کر مسترد کردیا ۔
آپ نے ایک کتاب اصلاح رسوم لکھی جس پر بہت زیادہ اعتراض ہوئے، دباؤ اس قدر بڑھا کہ تحریک نے اس کتاب باضابطہ لاتعلقی کا اعلان کرنا پڑا۔ یہ کتاب میرے ماموں سسر سید حسن امام ترمذی آف کبیر والا نے اپنے پریس سے چھاپ کر دی تھی ۔
اسی طرح جب قیادت کا بحران سامنے آیا تو علامہ ڈھکو صاحب کا موقف سپریم کونسل کے اکثریت علماء کے موقف کے خلاف تھا کہ جنہوں نے استعفیٰ کا مطالبہ کیا تھا۔ بہرحال وقت گزر گیا اور گزر رہا ہے ۔
جب تفسیر فیض الرحمن چند جلدیں پہلی مرتبہ شائع ہوئیں تو پورے ملک میں ہجان و طوفان کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ قرآن مجید میں پروف کی غلطیاں اور بعض سورتوں کے ابتداء میں بسم اللہ نہ لکھی جانا اور بہت سے الزامات عائد کیے گئے جسے بروقت مداخلت کر کے تصفیہ کیا گیا کہ تمام جلدیں واپس لے لی جائیں گیں اور اصلاح شدہ تفسیر شائع کی جائے گی۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
میں ایک مرتبہ اوقاف ڈیپارٹمنٹ گیا تو میرے دوست محمد ایوب سیکشن آفیسر جو بعد میں اپنے بچوں سمیت گلشن اقبال پارک، لاہور میں بم دھماکہ میں شہید ہو گئے تھے نے مجھے فیضان الرحمان کی تین جلدیں جن پر اغلاط کی نشاندہی کی ہوئی تھی تحفہ میں دیں جو اب بھی میری لائبریری میں محفوظ ہیں۔
آپ پر دیگر کے علاؤہ دو اعتراض کیے جاتے ہیں جن میں ایک بطور مرجع و مجتہد کے متعارف کروانا بھی ہے۔ علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم نے فرمایا تھا کہ ” ڈھکو میرا یار ہے۔ میں اس نوں کہیا کہ پاکستان ویچ کوئی مجتہد نہیں” آپ نے اس کا عملی ثبوت دیا کہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد آپ نے امام خمینی رح سے ملاقات میں پاکستان میں ایک مجتہد کی خدمات دینے کی سفارش کی۔ جس کے جواب میں یکے بعد دیگرے دو مجتہد جامعہ المنتظر لاہور میں تشریف لائے۔ شہید علامہ عارف حسین الحسینی رح نے بھی ایک سوال کے جواب واضح کیا کہ علامہ محمد حسین ڈھکو صاحب مجتہد نہیں ہیں کہ ان کے نظریات کو تسلیم کیا جائے۔ یہ وڈیو نیٹ پر موجود ہے ۔
دوسرے آپ نے فلسفہ و عرفان پر جو موقف دیا اس کا منطقی نتیجہ امام خمینی رح ، استاد مرتضیٰ مطہری شہید اور انقلاب اسلامی ایران سے عدم موافقت کی فضا ہموار کرتا ہے۔
آپ تاریخ تشیع پاکستان کی ایک چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ 1960 سے لے 2023ء تک کے چشمِ دید گواہ تھے۔ کئی مرتبہ ارادہ باندھا اور آپ کی طرف سے آمادگی بھی میسر تھی مگر جانا ممکن نہ ہوا۔ اللہ کرے کسی نے اس حوالے آپ کی ریکارڈنگ کی ہو۔
بہرحال آپ اپنا دور گزار کے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کی مغفرت فرمائے آمین ۔