قائد ملت علامہ سید محمد دہلوی

قائد ملت علامہ سید محمد دہلوی(1391-1317 ھ)   کا شمار  پاکستان کے صفِ اول کے علمائے دین میں ہوتا ہے، برصغیر پا ک وہند میں آپ  خطیبِ اعظم سے جانے جاتے ہیں، قیام پاکستان کے بعد آپ  سن پچاس میں پاکستان تشریف لے آئے، یہاں آتے ہیں آپ نے فلاحی أمور بھی سرانجام دیئے جن میں طلبہ ہاسٹل کا قیام،یتیم خانوں کا قیام، لائیبریریوں کا قیام جیسے سماجی  کاموں میں سرگرمِ عمل بھی رہے آپ نے جنوری ۱۹۶۴ میں پاکستان میں مکتبِ اہل بیتؑ تشیع کے پہلے اجتماعی قومی و ملی پلیٹ فارم ” مجلس علمائے شیعہ پاکستان” کی بنیاد رکھی ،جس نے اس زمانے کی ضروت کے مطابق  شیعہ مطالبات حل کرانے میں قائدانہ و کلیدی کردار ادا کیا، نسل ِ نو کو ایسی عظیم شخصیات سے متعارف کرانے کے لئے ہفت روزہ رضاکار (ویب) نے یاد رفتگان کا سلسلہ شروع کیا ہوا ہے ،ہمارے قارئین بھی اگر ایسی ہی فراموش کردہ ملی شخصیات سے آگاہ ہیں تو ہفت روزہ رضاکار (ویب)  کو ضرور ارسال کریں( سید انجم رضا)

قائد ملت علامہ سید محمد دہلوی

سید نثار علی ترمذی

ادارہ تحفظ حقوق شیعہ(،مارچ 1948ء) میں اس ادارہ کی ضرورت اس وقت محسوس کی گئی جب  چند روایتی رہنماؤں نے ”آل پاکستان شیعہ کانفرنس ”کے پلیٹ فارم سے ایک قرارداد منظورکروائی جس کا مفہوم کچھ اس طرح سے تھاکہ ”ہم شیعان حیدر کرار کے پاکستان میں وہ ہی حقوق ہیں جو دوسرے اہلسنت برادران کے ہیں اور دیگر مسلمانوں سے الگ ہمارے کوئی حقوق نہیں ہیں”

۔ لہذاجب اس کی خبرحضرت علامہ مفتی جعفرحسین قبلہ اور علامہ حافظ کفایت حسین قبلہ کو ہوئی توانہوں نے دور اندیشی کے ساتھ انتہائی سخت رد عمل کا اظہارکیا اور کہا کہ ”یہ غلط ہے کہ ہمارے دوسرے مسلمانوں سے الگ کوئی اورحقوق نہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ دوسرے مسلمانوں سے ہماری کچھ الگ خصوصیات اورحقوق ہیں کہ جن کے تحفظ سے ہم دست بردارنہیں ہوسکتے ہیں”

مذکورہ قرارداد کے چند روز بعد ”ادارہ تحفظ حقوق شیعہ پاکستان” کا لاہور میں قیام عمل میں آیا اورمفتی جعفر حسین مرحوم پہلے صدر،حافظ کفایت حسین مرحوم نائب صدر، خطیب آل محمد  سیداظہرحسین زیدی مرحوم جونیئرنائب صدر پروفیسر صادق حسین قریشی مرحوم جرنل سیکرٹری منتخب ہوئے۔(ادارہ تحفظ حقوق شیعہ متقاضی ہے کہ علیحدہ سے مفصل لکھا جائے۔ اس کے بارے میں معلومات جمع کی جا رہی ہیں)

1949ء میں مفتی جعفر حسین مرحوم تعلیمات اسلامیہ بورڈ کے رکن نامزد ہو گئے۔ اکتیس علماء کے بائیس نکات اور تحریک ختم نبوت  میں اسی پلیٹ فارم سے حصہ لیا گیا۔ پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ اور دیگر تنظیمیں بھی روائیتی ہوتے چلے گئے جب کے مسائل بڑھتے گئے۔ پہلے تو اقتدار کی چومکھی دوڑ جاری رہی پھر ایوب خان کا مارشل لاء آ گیا، عائلی قوانین آ گئے، سارے اوقاف پر حکومت نے قبضہ کر لیا۔ 1963ء میں سانحہ ٹھیڑی، سندھ میں پیش آیا اس پر کوئی خاص احتجاج و دادرسی نہ ہو سکی۔ درسی کتب میں دل آزار مواد شامل ہو گیا۔ دینیات کے نام پر ایک خاص نکتہ نظر کو پڑھایا جانے لگا۔ عزاداری کی راہ میں روکاوٹیں کھڑی ہونی شروع ہو گیں۔ شیعہ افسران سے تعصب برتا جانے لگا، انہیں اہم ذمہ داریوں سے علیحدہ کیا جانے لگا۔ غرض یہ کہ مسائل بڑھتے چلے گئے۔ ان حالات میں علامہ سید محمد دہلوی مرحوم نے 5، 6، 7 جنوری 1964ء کو کراچی میں پاکستان کی تاریخ کا پہلا منظم اجتماع امام بارگاہ شاہ کربلا، رضیہ کالونی، کراچی میں منعقد ہوا جس میں دو سو سے زیادہ علماء کرام،اور ممتاز شیعہ رہنماؤں نے شرکت کی۔ تمام مسائل پر تفصیلی گفتگو کے بعد مجلس عمل علمائے شیعہ تشکیل دی گئی اور اتفاق رائے سے خطیب اعظم مولانا سید محمد دہلوی مرحوم کو اتفاق رائے سے اس کا سربراہ منتخب کیا گیا۔ طے پایا کہ درج ذیل مطالبات حکومت کو پیش کئے جائیں۔

1- شیعہ طلباء کے لیے مدارس میں علیحدہ دینیات کا انتظام

2- شیعہ اوقاف کے لیے حکومت کی زیر نگرانی شیعہ بورڈ کا قیام

3- تحفظ عزاداری

4- درسی کتب سے قابل اعتراض اور دل آزار مواد کا اخراج

 زیر نظر آپ کے دور قیادت کو ترتیب دیا گیا ہے تاکہ اس کی ایک جھلک قارئین کے سامنے آ جائے گی۔

5،6،7،جنوری 1964ء۔ کراچی میں علماء کا اجلاس اور مطالبات کا تعین، مجلس عمل علمائے شیعہ اور انتخاب

23،فروری1964ء مطالبات کے سلسلے میں وفد گورنر امیر محمد خان سے ملا۔ انہوں نے غور  کرنے کا کہ کر ٹال دیا۔

3،مارچ،1964ء صدر پاکستان سے ملاقات کی۔ وعدہ کیا جو پورا نہ ہوا۔

14، مئی،1964ء صدر پاکستان سے کراچی میں ملاقات کی اور وعدہ یاد دلایا۔ اس نے سیکرٹری تعلیم سے ملنے کو کہا۔

13،اگست1964ء کو سیکرٹری تعلیم سے راوالپنڈی میں ملاقات کی جو سودمند ثابت نہ ہوئی تو راولپنڈی  کنونشن طلب کیا گیا۔

28،29،30, اگست1964ء کو راوالپنڈی میں عظیم الشان کنونشن منعقد ہوا۔ تیس ہزار سے زائد مومنین نے شرکت کی۔ پاس کردہ ریزولیوشن حکومت کو بھیجا مگر کوئی جواب نہیں آیا۔

25، اکتوبر،1964ء آل پاکستان یوم احتجاج منایا گیا۔ حکومت کو ہر جگہ سے خطوط اور ٹیلی گرامز دئے گئے مگر حکومت کی طرف سے خاموشی رہی۔

30، نومبر،1964ء پچاس افراد مشتمل علماء و زعماء نے لاہور میں صدر سے ملاقات کی  اور صدر نے ایک کمیٹی بنانے کا اعلان کیا۔

جنوری،1965ء قائد ملت سید محمد دہلوی نے ایک چار رکنی کمیٹی کا اعلان کیا مگر گورنر نے اپنے دوست کا نام کمیٹی میں شامل نہ ہوئے کی وجہ سے ایک سال تک کمیٹی کا کوئی اجلاس نہیں ہونے دیا۔

27،28،اگست،1966ء کو ملتان میں کنونشن منعقد ہوا۔ ملک بھر سے نمائندگان شریک ہوئے۔ حکومت سے پر زور مطالبہ کیا گیا کہ وہ شیعہ مطالبات کو منظور کرے مگر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی۔

1965,ء،1966ء میں پورے ملک میں شیعہ مطالبات کمیٹیاں قائم کر دیں گیں۔

6،نومبر,1966ء کو جھنگ میں میں کونسل کا اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ملک بھر سے نمائندگان نے شرکت کی۔

11،12فروری,1967 کو کراچی میں ورکرز، ممبران کونسل اور مجلس عاملہ کا اجلاس منعقد ہوا۔ جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا مگر بے سود۔

3,4جون، 1967ء  عظیم شان جلسے کا اعلان کیا۔ جلسہ سے قبل گورنر جنرل موسیٰ سے ایک وفد نے ملاقات کی۔ اس نے کہا کہ اگر جلسہ ملتوی کردیا جائے تو مطالبات کی منظوری کے لیے کوشش کرے گا۔ مگر جلسہ ملتوی کرنے کے باوجود کچھ نہ ہوا۔

14,15, جنوری،1968 پورے ملک سے ہزاروں کی تعداد میں ٹیلی گرام و خطوط لکھ کر حکومت سے مطالبات کی منظوری کےلیے کہا گیا۔

10,11,12فروری,1968 حیدرآباد میں کنونشن طلب کیا گیا گورنر موسٰی نے اس کی شدید مخالفت کی۔ علماء کرام و مندوبین کی حیدرآباد میں داخلہ پر پابندی لگا دی لیکن وزیر داخلہ کے وعدہ پر کنونشن ملتوی کر دیا گیا مگر وعدہ وفا نہ ہؤا۔

25,مارچ1968ء کو لاہور میں ایک میٹنگ بلائی گئی۔ اس موقع پر وزیر داخلہ سے ایک وفد ملا تو اس نے بتایا کہ مطالبات حکومت کے زیر غور ہیں۔

6،7،جولائی،1968ء کو حیدر آباد میں مجلس مشاورت کا اجلاس ہوا جس میں مطالبات کے حصول کے لیے مختلف طریقوں پر غور ہوا۔

2,3, نومبر،1968ء راولپنڈی میں جلسہ عام بلایا گیا۔ دس ہزار سے زائد مومنین جمع ہو گئے۔ جب کہ سینکڑوں علاقہ جات سے کفن بر دوش دستوں کی اطلاعات آنی شروع ہو گیں۔ پہلا 72 افراد پر مشتمل دستہ 2, نومبر کو پہنچنا تھا کہ حکومت نے مطالبات کی منظوری کا اعلان کر دیا۔

حکومت نے مطالبات تو منظورِ کر لیے مگر عمل درآمد میں تساہل سے کام لیتی رہی۔ علیحدہ شیعہ دینیات  بھٹو کے دور میں احتجاجی دھرنے کے بعد جاری ہوئی۔1976ء میں میٹرک کا امتحان اسی دینیات پر ہوا۔ مگر اسے بھی برقرار نہ رکھ سکے۔ یہ ایک جھلک ہے کس طرح پوری قوم کو منظم کر کے دن رات ایک کر کے پھر پور جد وجہد کی۔ آپ کا یہ پہلو آپ کی پہچان تو ہے مگر اس سے کم لوگوں کو آگاہی تھی۔

پیدائش۔ آپ پیتن ہیڑی ضلع بجنور، ہندوستان میں پیدا ہوئے۔

والد بزرگوار۔ مولوی آفتاب حسین مرحوم کو کہ بچپن میں ہی رحلت فرما گئے۔

تعلیم و تربیت۔ آپ شمس العلماء سید عباس حسین جارچوی، دہلی میں مولوی مرزا محمد حسن مرحوم، مولوی سید محمد ہارون زنگی پوری مرحوم، لکھنؤ مدرسہ ناظمیہ میں سید نجم العلماء، مولوی سید مقبول احمد مرحوم سے فیض علم حاصل کیا۔

قومی خدمات۔ آپ نے خطابت میں وہ مقام حاصل کیا کہ خطیب اعظم کا لقب پایا۔ سادات بارہ کے لیے انہی سے ایک شان دار بورڈنگ بنوایا۔ بمبئی میں قیصر باغ جیسی تعمیر آپ کی پرخلوص جدوجہد کا نتیجہ ہے۔ دہلی ہال اور جھنگ کا یتم خانے آپ کے جذبوں کا ترجمان ہے۔ 1931ء سے انجمن وظیفہ سادات و مومنین کے رکن تھے اور اس ادارے کی بہتری کے لیے کام کیا۔ لکھنؤ کے تاریخی ایجی ٹیشن میں بے مثال خدمات انجام دیں۔ ستر برس کی عمر اپنی جواں ہمتی اور بہادرانہ پامردی کے ساتھ ایک انتھک سپاہی، ایک بے پروا مجاہد اور ایک نڈر قائد کی طرح پوری قوم کی قیادت فرمائی۔

علمی خدمات۔ علامہ سید محمد دہلوی کی کتاب” نور العصر ” کے مقدمے میں علامہ مرتضٰی حسین صدر الافاضل لکھتے ہیں کہ ” اس کتاب میں قرآن مجید،تفسیر، حدیث، عقائد،کلام اور آسان فلسفہ دیانت، مسلمانوں کے مسلمات اور اکابر علماء اسلام کے ارشادات ہیں۔ سادی اور عام فہم اور نتیجہ خیز دلیلیں ہیں۔ عقل کی روشنی میں مذہب شیعہ کا بیان ہے۔ آیات کے فیضان سے امامت پر استدلال ہے اور قرآنی شواہد کی امداد سے حضرت امام آخر الزماں علیہ الصلاۃ والسلام کی معرفتِ کے لیے دعوت دی ہے۔ معقول حقائق کے لیے مواد  مہیا کیا ہے اور بات سمجھنے کے لیے قندیل نور روشن کی ہے۔”

آپ نے کراچی میں ایک نادر کتب پر لائیبریری بنائی جب کہ ہندوستان میں آپ کا کتب خانہ ہندو بلوائیوں نے جلا دیا تھا۔

رحلت۔

آپ 20اگست 1971ء اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہو گئے۔ احباب سے سورہ فاتحہ مع صلواۃ ھدیہ کرنے کی درخواست ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں