محمد حسین شاد، شہید فقہ جعفریہ

تحریر: سید نثار علی ترمذی

معرکہ حق و باطل میں اپنی جان کو راہِ خدا میں فدا کردیناایک ایسا جذبہ وفا ہے، جس کی نظیر ملنا مشکل ہے شہید محمد حسین شاد  بھی ایک ایسے ہی شہید تھے، شورکوٹ شہر(ضلع جھنگ) پنجاب سے تعلق رکھنے والے قوم کے عظیم سپوت محمد حسین شاد قومی حقوق ، دو قومی نظریے کی بقا اور ایمانی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے 6 جولائی 1980ء کو درجہء شہادت پر فائز ہوئے۔آج اُن کی برسی کے موقع پر محترم نثار علی ترمذی کی تحریر( سید انجم رضا) 

محمد حسین شاد شہید فقہ جعفریہ   کی عظیم قربانی نے ملت جعفریہ کو ایک نئی قوت بخشی ہے۔ شہید کے خون نے تمام قوم کو ایک ولولہ تازہ دیا ہے۔ یہ بات ہر شخص نے اپنے دل کی دھڑکنوں سے سنی ہے جو روز شہادت اسلام آباد میں موجود تھا۔   

  5-جولائی  1980ء کی شام کے چھ  بجنے کو تھے۔ قائد نے سیکرٹریٹ کی طرف بڑھنے کا حکم دیا۔ تو مجاہدین کا جوش و خروش دیدنی تھا۔ نعرہ حیدری کی صداؤں نے ایک مرتبہ تو شہر کو لرزا دیا تھا۔

قائد ملت جعفریہ کی کار آئی ایس او کے استقبالیہ کیمپ سے آگے بڑھی ادھر سے ایک آنسو گیس شیل نے استقبال کیا۔  دوسرا شیل کیمپ کی طرف تیسرا فقہ جعفریہ کے پر جوش جیالوں کے درمیان گرا۔  لیکن کار  نہایت پھرتی سے آگے بڑھی ۔عوام اس کے پیچھے پیچھے درختوں کے دونوں اطراف سڑکوں پر علی علی کے نعرے لگاتے ہوے  تیزی رفتاری بھپرے ہوے مجاھد آگے بڑھنے لگے۔ شیلنگ اور فائرنگ کی پرواہ نہ کرتے ہوئے زخمی بھی  منزل کی طرف بڑھ رہے تھے۔ اسی اثناء میں ایک نوجوان سڑک پر گرا۔

سر کا ایک حصہ جدا ہو گیا تھا چند مومنین اور آئی ایس او کے کارکن زخمی مجاہد کی طرف لپکے۔ باقی مجاہدین منزل کی طرف ثابت قدمی سے بڑھ رہے تھے ان میں اس ذخمی مجاہد کا بھائی بھی تھا۔ یہ  گرنے والازخمی مجاھد بعد میں ہسپتال پہنچ کر چل بسا محمد حسین شاد تھا۔جسے قوم نے شہید فقہ جعفریہ کا خطاب دیا اس کے ہمراہ بلند ہمت بھائی تھا اس کا نام منظور حسین تھا۔

 شہید کے جسم سے گھنٹوں بعد تک خون جاری تھا سید امجد کاظمی نے اس بہنے والے خون کا پیغام پڑھا پھر یہ پیغام کپڑے پر لکھ دیا۔

  شہید کا جو خون ہے

   وہ قوم کی حیات ہے

    لوگ تعزیت کے لیے شہید کے بھائی کے پاس جاتے تو جواب ملتا ”  مجھے افسوس ہے کہ شہادت کا درجہ میں حاصل نہ کر سکا۔ میرا بھائی مجھ سے سبقت لے گیا مجھ سے چھوٹا تھا اور بڑا کام کر گیا۔ تم تعزیت کیوں پیش کرتے ہو ہم تو آے ہی اسی مقصد کے لیے تھے “

    محمد حسین شہید—-ایک عظیم شہید —- لازوال قربانی، فقہ امام صادق کا پروانہ—- جو گھر سے چلا تو–

    دوستوں سے الوداعی ملاقات کی۔ ماں سے کہا ( امی جان ) ” میں شہید ہونے جا رہا ہوں، جو نئے پودے لگائے ہیں انہیں پانی دیتے رہیے گا۔” علم حضرت عباس کو پکڑا اور شہادت کے لیے رو رو کر دعا کی۔

    محمد حسین شاہ شہید جو آئی ایس او کے کفن پوش نوجوانوں کے جذبات سے اتنا متاثر ہوا کہ اپنے بھائی سے کہا بھائی جان ان نوجوانوں سے پہلے شہید ہوں گا۔ بھائی جان وضو کر لیتے ہیں تاکہ شہادت پاکر بی بی فاطمہ کے حضور سرخ رو ہو سکیں۔ بھائی جان! شہادت کے بعد آپ میرے وارث ہوں گے۔  واقعی اس نے سب کہی باتیں پوری کر دکھائیں۔ قول کا سچا ہو تو ایسا ہو۔

    محمد حسین شہید—  جو صرف دس منٹ پہلے جب آئی ایس او کے کفن پوش نوجوانوں کا دستہ روانہ ہونے کو  تھا تو  آئی ایس او کے استقبالیہ کیمپ میں آیا اور آئی ایس او کے نوجوانوں کو خراج عقیدت  پیش کرکے اپنے آخری سفر پر روانہ ہو گیا تھا۔

     محمد حسین شاد شہید— جو تھہیم  خاندان کا چشم وچراغ تھا۔ شورکوٹ کے باسیوں کی آنکھ کا تارا تھا۔ ہر دلعزیز، نماز گزار اور ماتم دار سید الشہداء تھا۔ بائیس سال کی جوانی تھی بیوہ ماں اور تین بھائیوں سے بچھڑ گیا لیکن کسی نے اس کی ماں یا بھائیوں کو روتے ہوے نہیں دیکھا۔

     محمد حسین شاد شہید—- اس کی ماں نے جب یہ خبر سنی کہ اسلام آباد میں ایک آدمی شہید ہو گیا ہے تو فوراً بولیں  ” وہ یقینا میرا بیٹا ہے کیوں کہ وہ گھر سے یہی آرزو لے کر گیا تھا۔”

     محمد حسین شاد کی لاش بصد اصرار انتظامیہ سے حاصل کی گئی اور شب کے ڈھائی بجے شہید کا جنازہ سیکریٹریٹ پہنچا  جہاں مومنین نے درود و سلام کے نعروں سے والہانہ استقبال کیا۔ قبلہ مفتی جعفر حسین نے نماز جنازہ پڑھائی اور لاکھوں مجاھدین نے اپنے قائد کی اقتداء میں شہید فقہ جعفریہ کی نماز جنازہ ادا کی۔ امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان، امامیہ آرگنائزیشن پاکستان اور حیدری سکاؤٹس نے اپنے  جیالے نوجوان کو باضابطہ سلامی کے ساتھ رخصت کیا اور  ادھر سکریٹریٹ کی فضائیں  مسلسل اس نعرے سے گونجتی رہیں “شہید فقہ جعفریہ خون تیرا رنگ لائے گا۔”  حکومت کے ساتھ معاہدہ طے پانے کے بعد مجاہدین  گھروں کو روانہ ہوئے تو  ہر زبان پر تھا ” شہید فقہ جعفریہ خون تیرا رنگ لایا ہے۔ “

      جب خصوصی ہیلی کاپٹر کے ذریعے شہید کا جنازہ شورکوٹ پہنچا تو ہزاروں مومنین اور انتظامیہ کے اہم  اراکین  استقبال کے لئے موجود تھے دور سے آئے ہوئے مؤمنین نے شہید کو نذرانہ عقیدت پیش کیا شورکوٹ کربلا میں شہید کو دفن کیا گیا جہاں شہر کی ہر زیارت آ کر ٹھہر جاتی ہے۔ محمد حسین شہید زندہ ہے اور  یقیناً زندہ ہے کہ اس  نے جوانی میں حضرت علی اکبر کا راستہ اختیار کیا اور ان لوگوں جوار رحمت میں جا بسا جو اس آیت قرآنی کے مصداق ہیں۔

      وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ

    جو اللہ کی راہ میں قتل ہو جائیں انہیں مردہ نہ کہو وہ تو ذندہ ہیں لیکن تم ان کی زندگی کا شعور نہیں رکھتے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں