ہفت روزہ رضا کار لاہور۔ ملت تشیع پاکستان کا قدیم ترین ترجمان

ہفت روزہ رضاکارکا شُمار ملت تشیع پاکستان کی صحافتی تاریخ کےسب سے قدیم جریدوں میں کیا جاسکتا ہے، ۱۹۳۸  لاہور سے شیخ محمد صدیق اعلی اللہ مقامہُ کی ادارت میں شائع ہونے والے اس جریدے نے ایک طویل مدت تک ملت تشیع برصغیر پاک و ہند کو ملی و قومی موضوعات پہ آگہی عطا کی، معروف تاریخی محقق برادر نثار علی ترمذی کی تحریر ہفت روزہ رضاکار ویب کے قارئین کے ذوقِ مُطالعہ کی نذر( سید انجم رضا)

تحریر: سید نثار علی ترمذی

لاہور اپنے محل وقوع کے لحاظ سے جہاں منفرد حیثیت رکھتا ہے وہیں اس کی تاریخی، علمی، ادبی، مجلسی اور صحافتی اہمیت ہے وہیں یہ شہر اپنی مذہبی، دینی، اور تحریکی سرگرمیوں کے حوالے سے شہرت رکھتا ہے۔ بڑی تاریخی شخصیات کا مسکن و مدفن ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ اس ایک وجہ شہرت یہ ہے کہ یہ شہر صحافت کا مرکز رہا ہے۔ ایک آدھ اخبار کو چھوڑ کر باقی تمام بڑے اخبارات لاہور سے جاری ہوئے۔ لاہور کی صحافت نے جس نظریہ کو فروغ دیا وہی گلشن کی پہچان بنا ہے۔

ایک دور تھا کہ یہ شہر شیعہ صحافت کا گڑھ رہا ہے۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے کہ لاہور کی شیعہ صحافت کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے۔ ان شاءاللہ اس پر پھر گفتگو ہو گی۔ کبھی اس شہر سے ہفت روزہ اخبار ” رضا کار ” کے علاوہ اسد، شیعہ، معارف اسلام، شہید، نوائے شیعہ، نداے شیعہ، خیر العمل، پیام عمل، المجلس، المنتظر، راہ عمل، العارف، افکار العارف، مصباح القرآن، وغیرہ۔ شائع ہوتے رہے ہیں۔ ان میں بعض اب بھی جاری وساری ہیں۔ تشیع کی آواز و افکار کو پہنچانے میں ان سب کا اپنا اپنا مقام و کردار ہے۔

ان سب جریدوں میں ہفت روزہ ” رضا کار ” لاہور کا اپنا منفرد مقام و کردار و حثیت و خدمات ہیں۔ اس جریدے کو ایک تاریخی اہمیت حاصل ہے۔ یہ سب سے پرانا جریدہ ہے۔ اس ہفت روزہ کا آغاز 1938ء میں ہوا۔ ان دنوں لکھنؤ میں ” حسینی محاذ ” کے نام سے ایک تحریک چل رہی تھی جسے عرف عام میں تبرہ ایجی ٹیشن یا مدح صحابہ و قدح صحابہ کہا جاتا ہے۔ رضا کار نے اس میں واقعی رضاکارانہ کردار ادا کیا۔ اس نے تازہ ترین خبریں، محاذ کے ماحول کو سرگرم رکھنے، عوام کو بیدار کرنے، اعتراضات کے جواب دینے اور محاذ کے محرکین کی پشت پناہی کرنے کا فریضہ بحسن ادا کیا۔ رضا کار کے اس کردار نے عوام میں بہت جلد اپنی جگہ بنا لی۔

اس کے بانی شیخ محمد صدیق بی اے شیعہ صحافت کے درخشندہ ستارے اور صبر و استقامت کی اپنی مثال آپ تھے۔ اس دور میں اس طرح کے اخبارات کے تمام معاملات ایک فرد ہی انجام دیتا تھا۔ یعنی خبروں کو جمع کرنا، ان کو صحافتی تحریر میں لکھنا، کاتب تک پہنچانا، پروف چیک کرنا، اداریہ لکھنا، مضامین میں سے انتخاب کرنا، خطوط کا جواب دینا، پریس سے چھپوانا، چھپوانا خود ایک علیحدہ جنجال ہے جن کو اس کا تجربہ ہو وہ بخوبی آگاہ ہے۔ چھپ جانے کے بعد خریداروں کو پوسٹ کرنا، اب منتظر رہنا کہ پڑہنے والوں کے کیا تاثرات ہیں، اس کے ساتھ اگلے شمارے کی تیاری کرنا اس کے علاوہ اپنے خاندانی و معاشرتی معاملات کو دیکھنا بھی شامل ہوتا تھا۔ یہ سب ایک فرد نے ہی نبھانا ہوتا تھا۔

ان دنوں اخبار کے دفتر میں شام کو شہر کے پڑھے لکھے احباب جمع ہو جاتے، دن بھر کی خبریں زیر بحث لاتے، گزشتہ شمارے پر بے لاگ تبصرہ کرتے، دیگر جرائد سے موازنہ کرتے، تعریف و تنقید کرتے، مذہبی گروہوں پر بات کرتے، سیاست کے پرخچے اڑاتے، معاشرتی مسائل پر بات ہوتی، ایک دوسرے کی خیریت معلوم ہونے کے علاوہ ایک دوسرے کی مدد بھی کرتے تھے۔ اخبار کا مالک اپنے تمام معاملات کو ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اس محفل کا میزبان اور جان بھی ہوتا تھا۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ شیخ محمد صدیق مرحوم نے یہ کردار کتنی استقامت سے اور طویل مدت تک نبھایا۔

اس میں دیگر مسائل کے علاوہ معاشی مسئلہ ہمیشہ کی طرح سد راہ رہا۔ مگر شیخ مرحوم نے اسے ایک مشن کے طور پر جاری رکھا۔ ہمیشہ حق کو حق کہا اور باطل کے سامنے سر نگوں نہیں کیا۔ ہم عصر اخبارات کی رقابت کو برداشت کیا۔ طویل صحافتی کردار کی وجہ سے آپ چلتی پھرتی تاریخ تھے۔ بہت کچھ لکھا اور بہت کچھ دل میں لے کر چلے گئے۔ اندرون بھاٹی گیٹ میں امام بارگاہ مبارک بیگم میں رہائش دے دی گئی تھی وہیں دفتر تھا اور وہیں زندگی کی آخری سانس لی۔ بوڑھے ہو گئے تھے۔ اب اخبار کا بوجھ اٹھانے کے طاقت نہ رکھتے تھے۔ ایک دن برادر ثاقب اکبر صاحب جو کہ اکثر رضا کار کے دفتر جاتے رہتے تھے سے کہنے لگے کہ وہ اب رضا کار کو مزید شائع جاری نہیں رکھ سکیں گے اور وہ راضی ہیں کہ اب کوئی اور اسے سنبھال لے۔ ثاقب بھائی نے علامہ صفدر حسین نجفی مرحوم سے بات کی جو ہمیشہ کی طرح ایسی تجاویز کو خوش آمدید کہنے کے لئے آمادہ رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے مرحوم کو کشادہ دلی اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی توفیق وافر عطا کی ہوئی تھی، انہوں نے فوراً آمادگی کا اظہار کر دیا۔ کوہ نور ڈائری کے بانی شیخ صفدر مرحوم کو شیخ صدیق سے معاملات طے کرنے کہہ دیا۔ شیخ صفدر مرحوم بھی لاہور کی ان شخصیات میں سے ایک ہیں جو کارخیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے نے پچاس ہزار روپے نقد شیخ صدیق کو دیے اور رضا کار کے جاری اخراجات ادا کرنے حامی بھی بھر لی۔ شیخ صدیق مرحوم نے ایک خواہش کا اظہار کیا تھا اخبار کی پیشانی پر اس کا نام بطور بانی کے ہمیشہ کےلئے شائع ہوتا رہے گا۔ مزید انہوں نے یہ کہ رضا کار اخبار کی تمام فائلیں پنجاب یونیورسٹی کی مرکزی لائبریری کو عطیہ کر دیں۔ جو ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو گیں۔

یہ 1984-85 کی بات ہے کہ رضا کار نئی انتظامیہ کے تحت آگیا۔ ڈاکٹر محمد نقوی شہید جو کہ مشاورت میں شامل تھے نے برادر ثاقب اکبر اور برادر مقصود گل کو رضا کار چلانے کی زمہ داری دی۔ یہ دونوں کئ ماہ تک شیخ صدیق کے پاس اندرون بھائی گیٹ جاتے رہے تاکہ اخبار کے سارے مراحل کو سمجھ سکیں جسے یہ ٹرینگ کہتے ہیں۔ یہاں سے رضا کار کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔

نئی تبدیلی سے جو تبدیلیاں آئیں ان میں سے ایک دفتر اندرون بھاٹی سے نور چیمبر، گنپت روڈ، متصل اردو بازار لاہور شفٹ ہو گیا۔ پیشانی پر شیخ محمد صدیق کے ساتھ شیخ صفدر کا نام بھی شائع ہونے لگا۔ برادران مذکورہ اب مستقل رضا کار کے دفتر میں بیٹھنے لگے تھے۔ یہ وہ دور تھا کہ شہید علامہ عارف حسین الحسینی نے قیادت کا منصب سنبھالا تھا، انقلاب اسلامی ایران اپنے پورے جوبن پہ تھا۔ ایران عراق جنگ زوروں ہے تھی۔ اس کے علاوہ تراجم کی صورت میں لٹریچر کا سلسلہ شروع ہو چکا تھا۔ رضا کار اخبار نے ان موارد کے بارے میں عوام کو آگاہی دینے کا فریضہ اپنے زمہ لے لیا۔ ملک بھر میں اس خریدار بنانے کی مہم جاری کی گئی۔ جلد ہی یہ اخبار سرکولیشن کے حوالے سے بلندی کی سطح پر آ گیا۔ اس کے ایڈیٹوریل بورڈ میں تبدیلیاں کی گئیں۔ مولانا ملازم حسین اصغر مرحوم جو مفتی جعفر حسین، قائد ملت جعفریہ کی کابینہ سیکرٹری نشر واشاعت رہے تھے چیف ایڈیٹر کے طور خدمت انجام دینے لگے۔ مزید برآں معروف صحافی و کالم نگار حیدر جاوید سید بطور ایڈیٹر اس جریدے کو مقبول عام بنانے میں اپنا کردار ادا کرنے لگے۔ رضا کار کا محرم نمبر ڈائجسٹ سائز میں آنے لگا۔ تحریک و آئی ایس او کے تنظیمی وسعت کے ساتھ ساتھ رضا کار کی سرکولیشن مٰیں اضافہ ہوتا گیا۔ یہ تحریک کا ترجمان قرار دے دیا گیا۔ تنظیمی اجلاسوں میں رپورٹس کے دوران رضا کار کی خریداری کا سوال پوچھا جانے لگا۔ اس ماحول و تحرک کے ساتھ رضا کار اپنی شہرت کی بلندیوں پر تھا۔ رضا کار نے ایک دور کی مکمل تنظیمی و انقلابی جدوجہد کو اپنے دامن میں محفوظ کر کے عوام تک پہنچایا یہ اپنی مثال آپ ہے۔ ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کے ساتھ کئی جگہوں پر جانے کا موقع ملا۔ لوگ سوال کرتے کہ اس موضوع پر قائد کی کیا پالیسی ہے یا تحریک کیا کر رہی ہے تو شہید جواب میں فرمایا کرتے کہ یہ لوگ رضا کار کیوں نہیں پڑھتے۔ آپ کے تمام سوالات کا جواب رضا کار میں ہے۔ اس دور کے تین اہم اراکین کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ ایک نبیرہ محمد حسین آزاد ڈاکٹر سلمان باقر، دوسرے عبد الحمید مرحوم جو اکاؤنٹس کو سنبھالنے کا کام انجام دیتے تھے۔ منتظر مہدی، جو ہر فن مولا تھے رضا کار کی ٹیم کا حصہ رہے۔ بعض لوگ بنیادی ہوتے ہیں مگر ان کا نام کہیں ذکر نہیں ہوتا۔

اس میں ایک مرتبہ پھر جوہری تبدیلی آئی کہ یہ اخبار علامہ جواد ہادی، سابقہ سینیٹر کی سرپرستی میں چلا گیا۔ ان کی نیابت میں علامہ اسد رضا بخاری صاحب بطور چیف ایڈیٹر زمہ داری سنبھال لی۔ یوں مولانا محمد رضا عابدی صاحب بطور ایڈیٹر شامل ہو گئے۔ رضا کار نئی انتظامیہ کے ساتھ اپنے سفر کو طے کرنے لگا۔ علامہ اسد رضا بخاری صاحب زبان و بیان پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ ان کی شہرت کی وجہ رضا کار بنی۔ انقلاب اسلامی، ملی پیش رفت اور علمی افکار کی ترویج کےلئے رضا کار کے صفحات کا بھر پور استفادہ کیا۔ اسی دوران شہید علامہ عارف حسین الحسینی اور پھر حضرت امام روح اللہ خمینی اپنا ولولہ انگیز دور گزار اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ رضا کار غم و اندوہ کے ان لمحات میں ملت کے جذبات کی خوب ترجمانی کی۔ یہ ایک دور تھا جو گزر گیا۔ نیا دور تھا اور اس کے تقاضے تھے مگر شہید ڈاکٹر محمد علی نقوی نے اپنی سرپرستی جاری رکھی۔ وہ رضا کار کے ہر مسئلہ کو حل کرنے کو اولین ترجیح دیتے تھے۔ یہ سرپرست بھی 7 مارچ 1995ء میں خون کی سرخ چادر اوڑھ کر ابدی زندگی کی سعادت کر لی۔ رضا کار نے یوم شہادت کے دن رضا کار خصوصی ایڈیشن شائع کر کے جہاں شہید کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا وہیں غمزدہ چاہنے والوں کی دل جوئی کی۔

جب ملت کو قیادت کا المیہ پیش آیا تو رضا کار نے اپنے مالی مفاد کو نظر انداز کرتے ہوئے اصولوں کا ساتھ دیا۔ اس کی اسے سزا بھی بھگتنی پڑی جن میں سے ایک حکومت کی طرف سے بیلنس پالیسی کے تحت رضا کار پر پابندی لگا دی کہ رضا کار فرقہ وارانہ منافرت پھیلا رہے جبکہ رضا کار کے قارئین جانتے ہیں کہ یہ اخبار ہمیشہ وحدت امت کے نظریہ کو فروغ دینے میں پیش پیش رہا۔مگر اس سانحے پر ناں کسی کی آنکھ سے آنسو ٹپکے نہ اس وراثت کو بچانے کا درد جاگا۔ یوں یہ اخبار نصف صدی سے زیادہ خدمات انجام دینے کے بعد گمنامی کے اندھیروں میں ڈوب گیا۔

دہقان و کِشت و جُو و خیاباں فروختند

قومے فروختند وچہ ارزاں فروختند

سید نثار علی ترمذی

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں