وکیل آل محمد شہیدعلامہ غلام حسین نجفی رح

یکم اپریل یوم شہادت وکیل مکتب اہل بیت ع علامہ غلام حسین نجفی اعلی اللہ مقامہ کا یوم شہادت تھا،

یکم اپریل (2005) کو لاہور میں  تقریبا بارہ بجےدن علامہ غلام حسین نجفی ایک پک اپ گاڑی میں ماڈل کالونی کے مدرسے سے نکلے تھے کہ ان کی گاڑی پردو موٹرسائیکلوں پر سوار مسلح افراد نے فائرنگ کردی اور موقع سے بھاگ گئے۔ مولانا نجفی سر میں گولیاں لگنے سے شدید زخمی ہوگئے او ر انہیں پہلے اتفاق ہسپتال اور وہاں سے جنرل ہسپتال لے جایاگیا جہاں پہنچتے ہی وہ دم توڑ گئے۔ ان کی بیٹی اور ایک طالبہ بھی اس واقعہ میں شدید زخمی ہو گئیں تھیں۔ علامہ  غلام حسین نجفی نے اپنی پوری زندگی مذہب حقہ مکتبِ اہل بیتؑ کی حقانیت کا دفاع کرنے میں بسر کی۔ ان کی اٹھارویں برسی کے موقع پر ہفت روزہ رضا کار(ویب) علامہ غلام حسین نجفی شہید رحمة اللہ علیہ کے  حالات  شہید  کے اپنے قلم سے تحریر شدہ شائع کررہا ہے

وکیل آل محمد علامہ غلام حسین نجفی رح مُناظرِ شیعہ جنھوں نے اپنی تحریر کے ذریعے مذہب شیعہ کے دشمنوں کو چنے چبوا دیے۔ آپ نے اختلافی موضوعات پر کتب لکھ کر دشمن کو لاجواب کر دیا اور مذہب شیعہ کو مذہب حق ثابت کیا۔ ایسے میں دشمنوں نے آپ سے علم کے میدان میں شکست کھائی اور آپ پر قاتلانہ حملے شروع کروا دیئے وکیل آل محمد غلام حسین نجفی رح کو اس سفر میں جو مصائب پیش آۓ اُن ہی کے قلم سے ملاحظہ ہوں، “


بسم اللہ الرحمان الرحیم
نام: غلام حسین
ضلع سرگودھا، پنجاب، پاکستان
سے میرا تعلق ہےاور میرے والد محترم کا نام محمد حیات(رح) ہے اور ہم کھوکھر برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ ١٩٣٩ع میں ضلع سرگودھا کے مشھور قصبہ جلالپور ننگیانہ میں پیدا ہوا۔ ٧ برس کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا تھا۔ اس وقت فقہ جعفریہ کی مایہ ناز درسگاھ (مدرسہ محمدیہ) استاد العلماء السید محمد یارشاھ(رح) کی سرپرستی میں عروج پر تھا۔
یہ مدرسہ جلالپور ننگیانہ میں ہی تھا۔

ابتدائی/ اعلی دینی تعلیم :
میں نے اس درسگاہ میں اپنی تعلیم کا آغاز کیا تھا اور پانچ سال اپنے مایہ ناز استادالسید محمد یار شاھ(رح) سے علوم آل محمد ص کی تحصیل کی اور ١٢ نومبر ١٩٥٧ء میں شیعیان حیدر کرار کی مایہ ناز درسگاہ (جامعة المنتظر لاھور) میں داخلہ لیا اور حجة الاسلام والمسلمین مولانا اختر عباس(رح) اور مولانا سید صفدر حسین نجفی(رح) سے کسب فیض کیا۔
یہ دونوں عالم دین بلند پایہ عالم تھے اور نہایت ہی منکسر المزاج تھے۔ دوران تعلیم میں ان دونوں استادوں سے بہت متاثر ہوا اور مجھے بلندی تک پھچانے میں ان دونون کا بڑا حصہ ہے۔ مولانا اختر عباس(رح) مرحوم نے مجھے نجف اشرف سے متعارف کروایا اور وہاں کی اعلی تعلیم سے روشناس کروایا اور نجف اشرف تک پہچانے میں میرے استاد محترم قبلہ مولانا اختر عباس(رح) کابہت بڑا حصہ ہے۔


جامعة المنتظر/نجف اشرف :
جامعة المنتظر میں ٦ سال تک کسب فیض کرنے کے بعد ١٦ ستمبر ١٩٦٣ع میں اعلی تعلیم کی خاطر نجف اشرف گیا اور عرصہ سات سال باب مدینة العلم کی بارگاھ میں جبین نیاز جھکا کر اعلی تعلیم حاصل کی۔ آیت اللہ ابو القاسم الخوئی(رح) سے درس خارج پڑھنے کا شرف حاصل کیا اور آیت اللہ محمد علی افغانی(رح) المعروف آغا مدرس اور آیت اللہ سید مسلم حلی(رح) اور آیت اللہ شیخ عباس قوچانی سے فیض حاصل کیا۔
نجف اشرف کی تعلیم کو میں نے اپنے لئے بہت شرف سمجھا اور وہاں قیام کو اپنے لئے فخر سمجھا۔ وہان قیام کے دوران کئی مشکلات سے گزرنا پڑا مگر حوصلہ بلند رکھا۔ نجف اشرف میں قیام کے دوران اگرچہ آدمی کو مالی فائدہ بہت کم ہوتا ہے مگر علم اور روحانیت کا بہت بڑا خزانہ ملتا ہے۔ ہمارا تجربہ یہ ہے کہ نجف میں قیام کے دوران فقیری، باہر دنیا کی امیری سے ہزار گنا افضل ہے۔ جس طرح کسی بوڑھے انسان کو جوانی کے گزارے ہوئے دنون کی باربار یاد آتی ہے اس طرح ہمیں نجف اشرف کے قیام کے دنوں کی باربار یاد آتی ہے۔
عرصہ ٧ سال تک باب مدینة العلم کی بارگاھ میں جبین نیاز جھکا کر علوم آل محمد(ص) کی اعلی تعلیم حاصل کی۔

پاکستان واپسی :
پھر ١٩٧٠ء میں اپنے وطن پاکستان لوٹ آیا اور ایک سال تک صوبہ سندھ کے ضلع نواب شاھ میں ایک تبلیغی دورہ کیا اور پھر میں نے جلد ہی محسوس کیا کہ دن رات کی سفری زندگی میں انسان اپنی علمی صلاحیتوں کو استعمال نہیں کر سکتا بلکہ علمی صلاحیت کافی متاثر ہوتی ہے۔ پھر استاد المکرم قبلہ مولانا سید صفدر حسین نجفی(ح) کی دعوت اور برادر محترم علام سید ریاض حسین نجفی کی تحریک پر جامعة المنتظر لاھور میں آکر تدریس کی خدمات سر انجام دینا شروع کردیں۔
پاکستان کی سر زمین میں مذھب شیعه ، مذھب اہلبیت ع خوب پھلا پھولا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگون نے اس فرمان کی روشنی میں کہ
( علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے ساتھ ہے ) “

مذھب شیعه کو حق سمجھ کر بہت زیادہ تعداد میں قبول کیا اور شیعوں کی اکثریت دوسرے مذاھب سے کنورٹ (Convert) ہو کر وجود میں آئی ہے نیز واقعہ کربلا، خاندان نبوت صہ کی مظلومیت اور حضرت امام حسین ع کی دردناک شہادت اور خاندان نبوت کی خواتین کی اسیری نیزان درد بھرے واقعات کا سننا اور عزاداری شھداء کربلا کا شیعہ مذھب کی ترقی میں بہت زیادہ عمل دخل ہے۔
مذھب حقہ کی اس ترقی سے مخالفین کو بہت رنج ہوا ہے اور انہون نے مذھب شیعہ سے خلق خدا کو نفرت دلانے کی خاطر شیعوں کے خلاف ہر قسم کی پروپیگنڈا اور ہر قسم کی الزام تراشی شروع کر رکھی تھی اور تقریر کے ساتھ وہ لوگوں میں نفرت پھلانے کے لئے تحریر سے زیادہ کام لے رہے تھے۔

مخالفین کی زہریلی تحریروں کا جواب :
بندہ نے تقریبا ١٩٧٨ء میں مخالفین کی زہریلی تحریروں کا دندان شکن جواب کا سلسلہ شروع کیا اور اختلافی مسائل میں ٢٠ بیس عدد کتابیں لکھ کر مذھب شیعہ کی سچائی
بیان کی.
پہلی گرفتاری آمر صدر ضیاء الحق کے حکم پر :
اور آگسٹ ١٩٨٠ء میں انہوں نے پاکستان کے آمر صدر ضیاء الحق کی مدد سے مجھ کو گرفتار Arrest کروایا اور لاھور کی کیمپ جیل میں میں کئی ماہ تک اسیر رہا۔ چونکہ امام زمانہ عج کے مشن سے بندہ کو والہانہ عشق ہے اس لئے میں نے جان ہتھيلی پر رکھ کر موت اور زندگی کو برابر جان کر کربلا والوں کے مشن اور مذھب حقہ کی تبلیغ کو جاری رکھا۔

مخالفین شیعہ بوکھلاہٹ کا شکار اور قاتلانہ حملہ:
مخالفین مذھب شیعہ جب بوکھلا گئے تو انہوں نے ٧ جولائی ١٩٩١ء دن گیارہ بجے ضلع نواب شاھ تحصیل نوشھروفیروز سندھ کے قصبہ دریا خان مری میں مجھ پر قاتلانہ حملہ کروایا۔ اور پسٹل کی گولی بائیں جانب دل سے تھوڑی نیچے لگی اور پیٹ کو زخمی کرتی ہوئی دائیں طرف آکر رک گئی۔ نواب شاھ ہسپتال میں میں نے داخلہ لیا۔ اگر مومنین نواب شاھ شھر بروقت میرے آپریشن میں بھرپور کوشش نہ فرماتے تو شاید میں موت کے منہ میں چلا جاتا٬ مگر مومنین نے بہت تگ و دو کے بعد میرا آپریشن کروایا۔ اللہ ان کو جزائے خیر دے اور میں تقریبا تین ماہ تک زیر علاج رہا۔ اس جان لیوا حادثے کے باوجود میرا حوصلہ پست نہ ہوا اور میں نے مذہب آل محمد (ص) کی نشر و اشاعت اور مذھب حقہ کے دفاع کا سلسلہ جاری رکھا۔

نواز شریف و شھباز شریف کے حکم پر شیعیان حیدر کرار کی عظیم درسگاھ جامعة المنتظر پر چڑہائی اور گرفتاری :
پھر مخالفت نے اپنے غضب کی آگ کو اس طرح بجھایا کہ انہوں نے اس وقت کے پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف اور اس وقت کے وزیر اعلی پنجاب شھباز شریف کے توسط سے شیعیان حیدر کرار کی عظیم درسگاھ جامعہ المنتظر پر پولیس کے ذریعے مجھے گرفتار کرنے کے لئے ریڈ کراس کروادیا اور ٢٢ جولائی ١٩٩٧ء بعد از نماز فجر پولیس جامعہ المنتظر میں داخل ہوئی اور خانہ خد٬ مسجد و امام بارگاھ اور درسگاھ کے تقدس کو پامال کیا اور مجھے اسیر کرنے کے علاوہ ١٨٠ طلباء اور چند دیگر علماء کو بھی اسیر کیا۔ علماء اور طلباء جامعہ کو ایک ہفتہ کے اندار اندر رہا اور مجھے کئی دنوں تک تھانہ ماڈل ٹائون اور تھانہ اچھرہ میں اذیت میں مبتلا رکھا گیا پھر کیمپ جیل لاھور میں مجھے بند کردیا۔

قید کے دوران:
قید کے دوران شھباز شریف سابق وزیر اعلی پنجاب نے جیل حکام کو حکم دیا کہ ( وکیل آل محمد(ص) غلام حسین نجفی) یعنی مجھے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں اور پائوں میں بیڑیاں ڈال کر رات کے وقت ساہیوال جیل میں پہنچادیا جائے٬ عین ممکن ہے اس طرح مجھے شھید کرنے کا پروگرام تھا٬ حکام نے مجھے رات کے وقت جیل سے نکالا٬ جس سے مجھے یقین ہوگیا کہ یہ زندگی کی آخری رات ہے اور مجھے راستے میں جعلی پولیس مقابلے میں شھید کردیا جائے گا٬ تقدیر ہر چیز پر غالب ہےکسی غیر مرئی قوت کی وجہ سے جان بچ گئی اور ایک مدت تک ساہیوال جیل میں رہنے کے بعد میرا چالان شیخوپورہ جیل بھیج دیا گیا اور کچھ عرصہ بعد کیمپ بھیج دیا گیا

کورٹ کچہریوں اہل و عیال کی عدالتوں میں دھکے :
٢٢ جولائی ١٩٩٧ء سے لے کر ٩جولائی ١٩٩٨ تک جیل میں مقید رہا٬ تین مرتبہ عدالت نے رہائی کا حکم دیا اور میاں شھباز شریف سابق وزیر اعلی جیل ہی میں گرفتار کروادیتے تھے۔ جب میں جیل میں تھا تو باربار جیل کے دروازوں پر میرے اہل و عیال کا ملاقات کے لئے آنا اور مقدمات کی پیروی کے لئے کچہریوں اور عدالتوں میں دھکے کھانا٬ یہ صدمات ہیں جن کو ہمارا دل کبھی فراموش نہیں کرسکتا۔

مدرسہ سکینہ بنت الحسین ع کا اجراء :
٩ جولائی ١٩٩٨ء میں رہائی کے بعد میں نے حسب دستور مشن حسینی ع کو جاری رکھا۔ تدریس و تصنیف میں چونکہ زندگی گزر رہی تھی اور میرے پاس اس سال میں ایک وسیع تجربہ تھا تو میں نے اس تجربہ کو بروئے کار لاتے ہوئے دختران شیعہ کیلئے ایک منظم ادارے کی سخت ضرورت محسوس کی جس میں کنیزان در زھراء ع کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ کیا جائے تاکہ فقہ جعفریہ کے مطابق شریعت اسلامیہ کے مسائل کو بہتر طور پر سمجھ سکیں اور طھارت و نجاست، حلال و حرام، نماز و روزہ وغیرہ کو مطابق تعلیمات آل محمد (ص) بجا لائیں۔
اور شیعہ مذھب کو جس چیز نے سب سے زیادہ تقویت بخشی ہے وہ ہے عزاداری اور مجلس امام حسین ع۔ اس عزاداری کے مشن میں مدرسہ سکینہ بنت الحسین ع کو جاری فرمایا اور یہ مدرسہ تا حال یعنی ٢٠٠٥ء میں اللہ کی رحمت اور مولا علی ع کی نظر کرم سے چشم بد دور چل رہا ہے اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہمیں دین اسلام کی خدمت کی بحق محمد و آل محمد (ص) زیادہ سے زیادہ توفیق عنایت فرمائے۔

اپنی بیٹی کی تربیت :
اس مدرسہ کو تاقیامت چلتا دیکھنا میری بڑی خواہش ہے جس کی خاطر میں نے اپنی پیاری بیٹی مریم کو بچپن ہی سے اصول و قواعد کی سخت تربیت دی ہے پہلے اسے پانچ سال تک اپنے عظیم استاد علامہ اختر عباس مدظلہ کی زیر نگرانی تعلیم دلائی اس کے بعد اپنے گھر پر اسے باقاعدگی سے زیر تعلیم رکھا میں نے اپنے ٤٠ سالا تجربے کو مریم بیٹی کے ذہن میں منتقل کیا، اسے ساتھ ساتھ انتظامی امور اور تعلیم و تدریس کی مشق بھی کرواتا ہوں۔ تاکہ میرے بعد میرا مشن میری اپنی اولاد احسن طریقے سے سر انجام دے سکے۔

قوم کی خاطر اپ اپنا تن من دھن وار دیا :
یہ آپ بیتی میں خود لکھ رہا ہوں تا کہ ملت جعفریہ یہ جان سکے کہ میں نے کن کن آزمائشوں مصیبتوں اور پریشانیوں سے گذر کر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ اس قوم و ملت کی خاطر اپنا تن من دھن وار دیا ہے۔
میں یہ چاہوں گا جس طرح مومنین حضرات علمائے عظام طلباء و طالبات میرے سہارہ ہیں میرے بعد بھی میرے مشن کو جاری و ساری رکھنے میں میری لخت جگر نور نظر اور میری تہجد کی دعائوں کا ثمر مریم نجفیہ کی بھی اسی طرح رہنمائی اور امداد فرمائیں گے۔
۔۔۔۔۔[والسلام]

وکیل آل محمد حجة الاسلام والمسلمین علامہ غلام حسین نجفی (رح) شہید کی شہرہ آفاق کتب:
١. جاگیر فدک حق زھراء (س)۔۔
٢.بغاوت معاویہ در جواب خلافت معاویہ
٣.معاویہ کی گالیاں نبی (ص) اور آل نبی(ص) کو
٤.حقیقت فقہ حنفیہ در جواب حقیقت فقہ جعفریہ
٥.قول سدید در جواب وکلاء یزید
٦.شیعیان علی اور ان کی شان
٧.اسلامی نماز و دیگر عبادات بمطابق فقہ جعفریہ
٨.سہم مسموم فی جواب نکاح ام کلثوم
٩.خصائل معاویہ در جواب خلافت معاویہ و یزید
١٠.کردار یزید در جواب خلافت معاویہ و یزید
١١.کیا ناصبی مسلمان ہیں؟ در جواب کیا شیعہ مسلمان ہیں
١٢.تحفہ حنفیہ در جواب تحفہ جعفریہ
١٣.ماتم اور صحابہ ثبوت عزاداری
١٤.علی ولی اللہ کلمہ و اذان میں
١٥.نماز میں ہاتھ کھلے رکھنے کا ثبوت
١٦.وضو میں پائوں کا مسح کرنے کا ثبوت
١٧.نص خلافت برائے امام علی مرتضی ع
١٨.عظمت قرآن اور عقیدہ اولاد معاویہ و مروان
١٩.متعہ اور صحابہ کرام
٢٠.نماز تہجد کی فضیلت
٢١.کلمہ طیبہ
۲۲.قول مقبول فی اثبات وحدت بنت رسول(ص)

قبلہ کی بلندی درجات کیلۓ سورة الفاتحہ کی اپیل 


50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں